ہما صدف
پاکستان میں 2024 کے عام انتخابات کتنے بھی متنازعہ ہوں اس کے نتیجے میں ملک کی پینسٹھ فیصد آبادی والے سب سے بڑے صوبہ کی وزیر اعلی ایک خاتون مریم نواز بن گئیں۔ بلوچستان جیسے سرداری نظام کے حامل صوبہ میں ڈپٹی سپیکر غزالہ گولہ بن گئیں۔ خیبر پختون خوا جیسے روایت پسند صوبہ میں بھی ڈپٹی سپیکر ثریا بی بی بن گئیں اور کثیر الثقافتی صوبہ سندھ میں ایک جماعت کی جانب سے گورنر کے لئے ایک خاتون خوش بخت شجاعت کو نامزد کیا گیا ہے۔ قومی و صوبائی کابینہ میں اہم وزارتوں کی ذمہ داریوں کے لئے منتخب کی جانے والی خواتین ان کے علاوہ ہیں۔پارلیمانی سیاست میں ڈرائیونگ سیٹس پر بیٹھنے والی ان خواتین کی سیاسی وابستگی اس لئے بیان نہیں کی جا رہی کیونکہ وہ اہم نہیں۔ اہم یہ ہے کہ خواتین سیاسی طور پر ترقی کر رہی ہیں ان پر بھروسا کیا جا رہا ہے انہیں موقع مل رہا ہے اور یہ بھروسا انہوں نے محنت سے جیتا ہے۔مریم اورنگزیب ہوں یا حنا ربانی کھر، شیری رحمن یا زرتاج گل پنجاب سے عظمی بخاری، حنا پرویز بٹ، کے پی کے سے ثوبیہ شاہد، بلوچستان سے فرح عظیم شاہ ہوں یا سندھ سے شازیہ مری، شہلا رضا اور فریال تالپور، شرمیلا فاروقی سمیت بہت سی دیگر خواتین جو ہر قسم کی تنقید برداشت کر کے بھی استقامت کے ساتھ کھڑی ہیں۔گو کہ ہم بات 2024 کی کر رہے ہیں لیکن پاکستانی سیاست میں خواتین کے کردار کی بات ہو اور محترمہ فاطمہ جناح اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو خراج تحسین پیش نہ کیا جائے تو نا انصافی ہو گی۔ان تمام خواتین نے اپنے اپنے دور کے حساب سے سیاسی کے ساتھ ساتھ ذاتی تنقید برداشت کی اور آج کی سیاستدان خواتین بھی کر رہی ہیں آج کے سوشل میڈیائی دور میں ان تمام خواتین بالخصوص مریم نواز کو جس قسم کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ برداشت کرنا بطور خاتون آسان کام نہیں۔ صحافت کے شعبہ سے وابستہ خواتین بھی مخالف رائے رکھنے والوں کی جانب سے بالخصوص سوشل میڈیا پر سخت اور غیرمناسب تنقید کا سامنا کرتی ہیں۔خواتین کسی بھی شعبے میں ہوں ان پر پرفارمنس کا دباﺅ دوہرا ہوتا ہے ذاتی حیثیت میں بھی خود کو منوانا ہوتا ہے اور صنفی حیثیت میں بھی۔ اکثر سننے میں آتا ہے کہ خواتین باسز اصولوں کی سخت ہوتی ہیں۔ کیوں ہوتی ہیں؟ کیونکہ ان کو اپنی رٹ قائم کرنے کے لئے زیادہ محنت درکار ہوتی ہے۔ ورنہ وہی لوگ جو آج سخت رویے کی شکایت کر رہے کل کہیں گے خاتون تھی اس لئے ڈیلیور نہیں کر سکی۔ پوری صنف کی کارکردگی پر سوال آئے گا اور پوری صنف کا راستہ روکا جائے گا۔ان تمام سیاسی خواتین کو موقع مل ہی گیا ہے تو کچھ دیر ان کے لباس، کردار اور اطوار سے نگاہیں ہٹا لیں۔ پرفارم کرنے دیں نہ کر سکیں تو ان کی گورننس پر تنقید کریں، ضرور کریں کیونکہ حکمرانوں کی کارکردگی پر تنقید عوام کا حق ہے لیکن نجی زندگی بہرطور ڈسکس نہیں ہونی چاہیے۔2024 کی ایک اور اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان سکھ گوردوارہ پر بندھک کمیٹی نے رمیش سنگھ اروڑہ کو صدر اور بی بی ستونت کور کو جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیا ہے ۔ ستونت کور پاکستان میں سکھ کمیونٹی کی پہلی خاتون جنرل سیکرٹری ہیں۔ اس طرح ایک اور پلیٹ فارم پر خاتون نے قیادت کا چیلنج قبول کیا ہے۔خواتین کی بات ہو رہی ہے تو آج کل ایک پاکستانی خاتون جو لائم لائٹ میں ہیں وہ پولیس افسر اے ایس پی شہر بانو نقوی ہیں اکثریت ان کی بہادری کو سراہ رہی ہے کہ کم علم، انتہا پسندوں کے ایک مجمعے سے انہوں نے ایک خاتون کو بحفاظت نکالا جسے مجمع اس لئے نقصان پہنچانا چاہتا تھا کہ خاتون نے خطاطی کے پرنٹ والا لباس پہنا ہوا تھا۔ ابھی بھی ایک طبقہ ایسا ہے جو خاتون پولیس افسر کے حسب نسب اور کردار کی چھان بین کر رہا ہے۔گو کہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے پولیس افسر شہربانو کے سر پر دست شفقت رکھ کر پیغام دیا ہے کہ ریاست انتہاپسندی کے خلاف کھڑی ہے اور سعودی حکومت نے شہر بانو کی پذیرائی سے ثابت کیا ہے کہ متنازعہ لباس قابل گرفت نہیں تھا پھر بھی ایک خدشہ کا اظہار ضروری ہے کہ عالمی یوم خواتین قریب ہے ممکن ہے کہ عورتوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے والی خواتین اچھرہ واقعہ کی متاثرہ خاتون سے اظہار یکجہتی کے لئے عورت مارچ میں خطاطی پر مشتمل لباس پہن کر آئیں اس صورت میں ایک سے زیادہ شہر بانو نقوی کی ضرورت پڑ سکتی ہے جو ان خواتین کو تحفظ فراہم کریں۔ ویسے بھی جب سے خاتون وزیر اعلی مریم نواز نے پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلی منتخب ہونے کے بعد پہلے خطاب میں کہا ہے کہ خواتین سے ہراسانی ان کی ریڈ لائن ہو گی۔ خواتین کا مورال بلند ہے۔