گذشتہ سے پیوستہ
لہذا شہ تونگ نالے کے پانی کو ڈیم میں لانے کے لئے جو پی سی ون واپڈا کی جانب سے متعلقہ اداروں کو منظوری کے لئے بھیجا ہوا ہے وہ مارچ 2020 سے ایکنک کے پلیٹ فارم پر منظوری کے منتظر ہے جسے فی الفور منظور کرایا جائے۔ جب تک یہ منصوبہ ایکنک سے منظور نہیں ہوگا وزیراعلیٰ کی جانب سے اس منصوبے کے لئے 17ارب روپے کی رقم مختص کرنے کا اعلان فقط ایک رسمی اعلان کے سوا کچھ نہیں۔ بلتستان ملک کو سیراب کرنے والے بڑے دریا، دریا سندھ سمیت دیگر دریائوں کی سر زمین ہے مگر یہاں کے باسیوں کے لئے ان دریائوں سے اب تک کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوسکا ہے۔اب بجلی و پانی کے شدید بحران کے پیش نظردریائے سندھ کے پانی سے پن بجلی پیدا کرنے اور آبپاشی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے لفٹ ایریگیشن کے منصوبے متعارف کرائے جائیں۔ دریا شیوک پر غواڑی بجلی گھر کے کئی سالوں سے زیر التوا منصوبے پر فوری کام کے لئے بھی وفاق سے رجوع کیا جائے۔سکردو میں اب وقت آگیا ہے کہ زیر زمین موجود پانی کے ذخائر کو بھی استعمال میں لانے کے لئے منصوبہ بندی کی جائے اس مقصد کے لئے ابتدائی مرحلے محلوںکی سطح پر اجتماعی اور گھروں میںانفرادی طور پر بورنگ کے منصوبوں پر کام کیا جائے تاکہ سد پارہ ڈیم پر پانی کے حصول کے لئے انحصار کو کم سے کم کیا جاسکے۔سکردو شہر اور اس کے مضافات میں پن بجلی گھروں کی بجلی شہر میں ضروریات کے مقابلے میں کم پڑنے کے باعث اس وقت تھرمل بجلی سے مدد لی جارہی ہے جس کے اخراجات ناقابل برداشت نہیں توگلگت بلتستان جیسے پسماندہ انتظامی صوبے کے لئے بھاری ضرور ہیںلہذا سکردو میںشمسی توانائی اور ہوا سے چلنے والے بجلی کے منصوبوں کی جانب بھی بڑھنے کی ضرورت ہے ان منصوبوں کے لئے کھر پو چو کی پہاڑی اور دریا پاربرق کھرو کی پہاڑی مناسب ترین مقامات ہو سکتے ہیں جیسا کہ بار بار کالموں کے ذریعے یہ نکتہ اُٹھائے جانے کے بعد اب محکمہ برقیات نے پہلی با ر آزمایشی بنیادوں پر سکردوسرفہ رنگا میں 15 میگاواٹ شمسی توانائی سے بجلی کے منصوبے کو اس کے قابل عمل ہونے کا جائزہ لینے کے لئے ترقیاتی پلان میں شامل کیا ہے اس عمل کو فوری مکمل کرتے ہوئے سکردو اور مضافات کے مزید علاقوں میں بھی شمسی توانائی کے منصوبے رکھے جائیں ۔سکردو شہر اور مضافات میںروز بروز بڑھتی ہوئی بجلی کی ضروریات اور ان دنوں جاری اعصاب شکن لوڈ شیڈنگ کے پیش نظر حکومت نے ہرگیسہ سکردو میں ساڑھے تین میگاواٹ بجلی گھر کی منظوری دی تھی جیسے بلا سمجھے سیاست کی نذر کرکے متاثر کردیا اب یہ بجلی گھر چونکہ کچورا میں منتقل کردیا گیا ہے اب سکردواورمضافات کے علاقوں کو اس منصوبے کی اہمیت کا اندازہ ہو چلا ہے لہذا اس بجلی گھر کے سائیڈ بالخصوص اس کے پائپ فکس کرنے کے مقام کو متعلقہ علاقوں کے عمائدین کو اعتماد میں لے کر تعین کیا جائے اور اس مقام پر نئے سرے سے دو سے تین میگاواٹ پن بجلی گھر کے منصوبے کی منظوری دی جائے۔شہر کے اندر بجلی کی تقسیم کے نظام میں موجود نقائص اور کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے سکردو کے تینوں سب اسٹیشنوںکو اپ گریڈکرنے اورشہر کے سرکٹ کوبھی کم سے کم علاقوں پر مشتمل بنانے کے لئے وسائل فراہم کئے جائیں ۔سکردو شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر اب ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سد پارہ ڈیم سکردو میں آبپاشی اور بجلی کی ضروریات ہی نہیں بلکہ پینے کے پانی کے لئے بھی ناکافی ہوچکا ہے لہذا دریا سے پانی لینے اور زیر زمین موجود پانی کے ذخائر کو استعمال میں لانے کے ساتھ ساتھ دیگر ذرائع کو بھی تلاش کرنا ہے اس ضمن میںسکردو اور اس کے اطراف میں موجود ندی نالوںمیں سیلاب کے سیزن میں وافر مقدار میں پانی موجود ہوتا ہے جو کہ اطراف کی آبادی کے لئے ہرسال تباہی کا تو باعث بن رہا ہے لیکن کبھی ان ندی نالوں کے پانی کو آبپاشی کے لئے استعمال میں لانے کے لئے کسی نے بھی سوچنے کی زحمت تک گوار نہیں کی ہے۔ لہذامستقبل کے سکردو کومکمل خشک ہونے اور پینے کے پانی کے حصول کے لئے مختلف مواضعات کو خانہ جنگی سے بچانا ہے تو اب ان ندی نالوں کے پانی کو سیلاب کی صورت میںضائع ہونے سے بچاتے ہوئے سال بھراستعمال میں لانے کی منصوبہ بندی کرنی ہے۔اس مقصد کے لئے بُرگے نالہ ، تَھیُور نالہ ، رَگیول نالہ ، چنداہ نالہ اور حسین آباد نالہ وغیرہ پر چھوٹے چک ڈیم بنانے کی ضرورت ہے تاکہ اِن علاقوں یہ پانی سال بھر کے لئے ذخیرہ کرکے متعلقہ علاقوں میں آبپاشی، پینے اور بجلی کی پیداوار کے لئے استعمال میں لایا جاسکے ۔سکردو میں اس وقت سب سے اہم اور میگا منصوبہ جس پر کام جاری ہے وہ 250 بستروں پرمشتمل ہسپتال کا منصوبہ ہے جو نہ صرف سکردو بلکہ پورے بلتستان ڈویژن کے چاروں اضلاع کی اہم ترین ضرورت ہے اس ہسپتال کا درجہ بڑھا کر 500 بستروں کا ہسپتال بنانے کی منظوری حکومت دے چکی ہے۔ یہ ہسپتال چونکہ میڈیکل کالج کے قیام کے لئے PMDC کے تمام لوازمات پر پورااُترتا ہے نیز ہسپتال کے ماسٹر پلان میں بھی میڈیکل کالج کے قیام کا منصوبہ شامل ہے ۔ لہٰذا سکردو میں 500 بستروں کے ہسپتال کے ساتھ میڈیکل کالج کے قیام کے منصوبے کی بھی منظوری دی جائے اور اس پر بھی کام شروع کیا جائے۔اگرچہ سکردو میں پانی و بجلی سمیت دیگر شعبوں میں عوام کو درپیش مشکلات اور آنے والے وقتوںمیں اِن شعبوں میںممکنہ طور پر درپیش آنے والے مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے ان کے لئے منصوبہ بندی کرنا متعلقہ اداروں میں بیٹھے انجینئروں اور حکام کا کام ہے لیکن کسی محکمے میں بھی مستقبل کے چیلنجزکو لے کر حکمت اور دانشمندی سے منصوبہ بندی کی کوئی روایت موجود نہیں جس کی ایک بنیادی وجہ متعلقہ محکموں اور وزارتوں کے نان ٹیکنیکل سیکرٹریز کا تعینات ہونا ہے ۔ہمارے ہاں تعمیرات کا سیکرٹری کا انجینئر ہونا، سیکرٹری تعلیم کا ماہر تعلیم ہونا، سیکرٹری صحت کا ڈاکٹر ہونااور سیکرٹری زراعت سمیت کسی دیگر محکمے کے سیکرٹریز کو متعلقہ شعبے کا ماہر ہونا ضروری نہیں سمجھاجاتا۔
بلکہ اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ آج کے سیکرٹری تعلیم نے کل سیکرٹری جیل خانہ جات بننا ہوتا ہے ،آج کے سیکرٹری صحت نے کل اُمور حیوانات کے سیکرٹری کی ذمہ ذمہ داریاں سنبھالنی ہیں اور آج کے سیکرٹری ترقیات نے کل کو سیکرٹری عُشر وزکواة بننا ہے تو اِن وزارتوں اور محکموں میں ترقی بلکہ مستقبل کے لئے منصوبہ بندی اور چیلنجز اور مشکلات کے آنے سے قبل پیش بندی اور'' پروایکٹیو ''اقدامات کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔ رہی سہی کسر محکموں میں بیٹھے وہ افسران پوری کرتے ہیں جن کی نظریں آج پر اس طرح مرکوز ہیں کہ اپنے ٹینیور میں ایسے منصوبے منظور کرالئے جائیں جس سے منظور نظر افراد زیادہ سے زیادہ مستفید ہوسکیں منصوبے کے میرٹ پر قابل عمل ہونا اتنا میٹر نہیں کرتا ایسے میںعلاقہ ناکام منصوبوں کا قبرستان تو بن سکتا ہے لیکن بنیادی سہولتوں سے آراستہ شہر بننے کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔