تحریک انصاف اور سیاسی مہم جوئی

 سید مجاہد علی 

ایک بار پھر تحریک انصاف ایک قانونی معاملہ کو سیاسی ہتھکنڈوں سے حل کرانے میں ناکام ہو گئی ہے۔ الیکشن کمیشن نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں میں سے سنی اتحاد کونسل کو حصہ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ البتہ تحریک انصاف اسے جمہوریت کی ناکامی اور انتخابی عمل کے لیے ہلاکت خیز قرار دے رہی ہے۔انتخابی نشان سے محروم ہونے کے بعد تحریک انصاف کوئی متبادل حکمت عملی بنانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ اسی لیے اسے موجودہ صورت حال کا سامنا ہے۔ البتہ وہ اپنی اس ناکامی کا الزام الیکشن کمیشن پر عائد کر رہی ہے۔ تحریک انصاف کو انتخابات سے پہلے انتخابی نشان لینے میں بھی اپنے اسی رویہ کی وجہ سے ناکامی ہوئی تھی کہ اس نے قانونی معاملات کو سیاسی نعروں سے حل کرنے کی کوشش کی۔ پہلے دو سال تک الیکشن کمیشن کی طرف سے انٹرا پارٹی انتخابات کروانے کے مطالبے کو نظر انداز کیا جاتا رہا لیکن جب انتخابات قریب آ گئے اور الیکشن کمیشن نے اصرار کیا تو ایک جعلی اقرار نامہ کے ذریعے دعوی کیا گیا کہ پارٹی نے انتخابات کروا لیے ہیں اور عمران خان کے نامزد کیے ہوئے سب عہدیدار بلامقابلہ منتخب ہو گئے ہیں۔تاہم پہلے الیکشن کمیشن میں اور پھر سپریم کورٹ میں تحریک انصاف یہ ثابت نہیں کر سکی کہ انٹرا پارٹی انتخابات منعقد ہوئے تھے اور پارٹی سیکرٹری کی طرف سے الیکشن کمیشن کو دیا گیا حلف نامہ جعلی نہیں تھا۔ اسی لیے سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا اور تحریک انصاف کے امیدواروں کو متعدد مختلف انتخابی نشانات کے تحت انتخاب میں حصہ لینا پڑا۔ تاہم تحریک انصاف نے اپنی غلطی ماننے سے مسلسل انکار کیا اور الیکشن کمیشن کے بعد ناموافق فیصلہ کرنے پر سپریم کورٹ کے خلاف بھی سوشل میڈیا پر مہم چلائی جاتی رہی۔حیرت انگیز طور پر تحریک انصاف کو ملک کے ممتاز اور قابل وکلا کی حمایت حاصل ہے۔ ان میں سے بہت سے وکلا نے پارٹی کے امیدوار کے طور پر انتخاب میں حصہ بھی لیا اور کامیابی حاصل کی لیکن ان میں سے کوئی بھی پارٹی کے بانی چیئرمین عمران خان کو یہ باور نہیں کروا سکا کہ قانونی معاملات میں سیاسی طرز عمل اختیار کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ عدالت عظمی بہر صورت کسی معاملہ پر غور کرتے ہوئے قانون کو پیش نظر رکھے گی اور حقائق و شواہد کی بنیاد پر فیصلے کیے جائیں گے۔ ماضی کے متعدد چیف جسٹس تحریک انصاف کی سیاسی خواہشات کی بنیاد پر فیصلے جاری کرتے رہے ہیں۔ اسی غلط فہمی میں عمران خان اور ان کے ساتھی شاید اس غلط فہمی کا شکار رہے ہیں کہ وہ نام نہاد عوامی مقبولیت، سیاسی دباﺅ اور سوشل میڈیا مہم جوئی کے ذریعے الیکشن کمیشن اور اعلی عدالتوں کو متاثر کرنے یا دباﺅ میں لانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ تاہم قاضی فائز عیسی کی سرکردگی میں سپریم کورٹ نے انتخابی نشان کے معاملہ پر سختی سے قانونی پہلو کو پیش نظر رکھا۔اس حقیقت کو تو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں نے مختلف انتخابی نشانات پر مقابلہ کرتے ہوئے بھی قابل ذکر کامیابی حاصل کی۔ پارٹی کو نہ صرف دیگر سب پارٹیوں سے زیادہ ووٹ ملے بلکہ قومی اسمبلی میں اس کے ارکان کی تعداد بھی باقی سب پارٹیوں سے زیادہ ہے۔ سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی ہونے کے ناتے تحریک انصاف پر بھاری قومی ذمہ داری بھی عائد ہوتی تھی۔ اس کا فرض تھا کہ وہ انتخابات کے نتیجہ میں بننے والی قومی اسمبلی میں سب پارٹیوں کے مینڈیٹ کا احترام کرتی اور دیگر منتخب پارٹیوں کے ساتھ معاملات طے کر کے حکومت سازی کی کوشش کی جاتی۔ بنیادی طور سے سب سے بڑی پارٹی کے طور پر حکومت سازی تحریک انصاف ہی کی اخلاقی و سیاسی ذمہ داری تھی۔ لیکن تحریک انصاف نے اس کے برعکس انتخابی دھاندلی اور مینڈیٹ چوری کے نعروں سے توجہ حاصل کرنے کی کوشش ضرور کی لیکن سیاسی پارٹی کے طور پر ذمہ داری قبول کرنے سے گریز کیا جو کسی بھی پارلیمانی نظام میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بار بار کہتے رہے ہیں کہ تحریک انصاف نے ان سے رابطہ ہی نہیں کیا۔ اس لیے انہوں نے شہباز شریف کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا کیوں کہ مسلم لیگ نون نے ان سے ووٹ مانگا تھا۔انتخابات کے بعد قومی اسمبلی میں نمائندگی کی جو صورت حال سامنے آئی تھی، اس میں اگر دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والی پارٹیاں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی بھی حکومت سازی کے حوالے سے اپنی ذمہ داری قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوتیں تو ملک میں واقعی حقیقی سیاسی بحران پیدا ہو سکتا تھا۔ اس کے برعکس تحریک انصاف مسلسل مینڈیٹ چوری کے نعرے پر سیاست کرتی رہی۔ پارٹی نے خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کا حصہ لینے میں بھی ویسی ہی ناقص حکمت عملی اختیار کی جو اس نے انتخابی نشان حاصل کرنے کی مہم جوئی کے دوران اپنائی تھی۔ حالانکہ اس معاملہ میں ناکامی کے بعد تحریک انصاف کے لیڈروں کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے تھا۔اولا اگر تحریک انصاف نے کسی غیر متوقع صورت حال کے لیے ہوم ورک کیا ہوتا تو انتخابی نشان سے محروم ہونے کے باوجود وہ انتخابات سے پہلے کسی ہم خیال پارٹی سے اتحاد کر کے اس کے نشان پر اپنے امیدوار میدان میں اتار سکتی تھی۔ اس طرح ہو سکتا ہے کہ اسے مزید کچھ نشستیں حاصل ہو جاتیں۔ لیکن پارٹی اس مقصد میں ناکام رہی۔ انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آنے کے بعد بھی تحریک انصاف کے لیڈر مخصوص نشستوں کے حوالے سے کوئی قابل عمل حکمت عملی اختیار کرنے میں ناکام رہے۔ اور ایک ایسی پارٹی کے ساتھ اتحاد کر لیا جس نے مقررہ تاریخ کے اندر الیکشن کمیشن کے پاس مخصوص نشستوں کے لیے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مقررہ تاریخ تک جمع ہی نہیں کروائے تھے۔ اب شور مچایا جا رہا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر آئین سے غداری کے مرتکب ہوئے ہیں اور یہ فیصلہ عوامی مینڈیٹ کے خلاف ہے۔ حالانکہ اس صورت حال کی واحد قابل فہم وجہ ایک ہی کہ تحریک انصاف قانونی معاملات کو دلیل، شواہد، اور قانونی نکات کی بجائے سیاسی دباﺅ کے ذریعے حل کروانا چاہتی ہے۔ البتہ خواہ کوئی پارٹی ملک کی سب سے بڑی اور مقبول پارٹی ہی کیوں نہ ہو، وہ ملکی قانون سے ماورا نہیں ہو سکتی۔پانچ رکنی الیکشن کمیشن نے چار ایک کی اکثریت سے جو فیصلہ جاری کیا ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ آئین کی شق 51 کے مطابق قومی اسمبلی میں پارلیمانی نمائندگی رکھنے والی پارٹی کو ہی مخصوص نشستوں کا کوٹہ مل سکتا ہے۔ اس کے علاوہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 104 میں بھی واضح کیا گیا ہے کہ تمام پارٹیوں کو مخصوص نشستوں میں حصہ لینے کے لیے الیکشن کمیشن کی مقررہ تاریخ کے اندر خواتین و اقلیتی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع کروانا ہوں گے۔ اس واضح قانونی رکاوٹ کی وجہ سے الیکشن کمیشن سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں دے سکتا کیوں کہ اس نے اپنے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مقررہ مدت میں جمع نہیں کروائے تھے۔ اب یہ سیٹیں خالی نہیں رہیں گی بلکہ اسمبلی میں نمائندگی کی بنیاد پر دیگر پارٹیوں میں تقسیم کردی جائیں گی ۔ اس اکثریتی فیصلہ پر اختلافی نوٹ لکھنے والے رکن الیکشن کمیشن بابر حسن بھروانہ نے سنی اتحاد کونسل کو سیٹیں نہ دینے کی حمایت کی ہے لیکن ان کا موقف ہے کہ یہ سیٹیں خالی رہنی چاہئیں کیوں کہ آئینی طور سے انہیں دوسری پارٹیوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔البتہ تحریک انصاف تمام تر قانونی ماہرین کی اعانت کے باوجود اس سادہ بنیادی قانونی اصول کو ماننے سے انکار کر رہی ہے۔ پارٹی کے لیڈر اور سینیٹر بیرسٹر علی ظفر نے اس فیصلہ پر سینیٹ میں تقریر کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو جمہوریت کے دل میں خنجر پیوست کرنے کے مترادف قرار دیا اور کہا کہ پارٹی اس کے خلاف اپیل کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہمارا حصہ دوسری پارٹیوں کو دیا جا رہا ہے تو یہ ایک آئینی غلطی ہوگی ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے سے ایک بار پھر ثابت ہو گیا ہے کہ الیکشن کمیشن شفاف انتخابات منعقد کروانے کی ذمہ داری پوری نہیں کر سکا۔ انہوں نے ایک بار پھر چیف الیکشن کمشنر سے استعفی دینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ سکندر سلطان راجہ کے خلاف آئین کی شق 6 کے تحت کارروائی کی جائے۔ انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ قومی اسمبلی مکمل نہیں ہے، اس لیے نئے صدر اور سینیٹ کے ارکان کا انتخاب بھی نہیں ہو سکتا۔ قومی اسمبلی کے علاوہ صوبائی اسمبلیوں کی تکمیل تک یہ انتخابات نہیں ہو سکتے۔ایکس پر ایک بیان میں تحریک انصاف نے بھی اصرار کیا ہے کہ الیکشن کمیشن عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کرنے میں ناکام ہوا ہے۔ اس اقدام سے پاکستان میں جمہوری اور انتخابی نظام تباہ ہو کر رہ جائے گا۔ پارٹی کا دعوی ہے کہ الیکشن کمیشن مسلسل اپنے ہی بنائے ہوئے قواعد کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ پارٹی اور اس کے لیڈروں کے بیانات میں سیاسی تندی تو محسوس کی جا سکتی ہے لیکن قانونی دلیل کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ یہ طرز عمل تحریک انصاف کے لیے آنے والے دنوں میں مزید مشکلات کا سبب بنے گا۔البتہ پارٹی کی حسب سابق کوشش ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں اور ناقص فیصلوں کا سارا بوجھ پاکستان کی طرف موڑ دے اور ملک میں عوامی بے چینی میں اضافہ کر نے کے لیے ہر ممکن ہتھکنڈا استعمال کیا جائے۔ البتہ کوئی ذمہ دار سیاسی پارٹی غیر معینہ مدت تک اس طریقے سے عوام کو گمراہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔