حماد علی
زندگی بھر محنت مزدوری کر کے وہ کروڑ پتی بن گیا اور اس کے برے دن گزر گئے۔ اسے مزدوری سے نجات مل گئی اور اب وہ عیش کی زندگی جی سکتا ہے۔ مگر عبداللہ اپنی محنت مزدوری میں ہی خوش ہے۔ وہ کروڑ پتی بن کر عیش کرنا نہیں چاہتا۔ اسے اپنے بڑھاپے کی کوئی فکر نہیں ہے، کیونکہ اس نے اپنی زندگی کو اللہ کے سپرد کردیا ہے اور تکلیف وآرام کو وہ اللہ کی مرضی کے تابع مانتا ہے۔ اس نے کروڑوں کی زمین اللہ کی راہ میں خیرات کردی اور آج بھی اسپتال کے تعمیراتی کام میں مزدوری کر رہا ہے۔ اس نے ایک پلاٹ مسجد تو دوسرا ہسپتال کے لئے دے دیا ہے۔ اسی کے ساتھ تیسرا قطعہ ارضی انہوں نے شہر انتظامیہ کو اسکول کے لئے سپرد کردیا ہے اور بلدیہ کی مدد سے یہاں اسکول بن گیا ہے۔ انھوں نے دو پلاٹس اپنی بیٹیوں کو دیئے ہیں مگر ایک جو، ان کے پاس باقی ہے اسے وہ ڈائیگنوسٹک سنٹر کے لیب کے لئے دیناچاہتے ہیں اور اس سلسلے میں ان کی شہر انتظامیہ سے بات چل رہی ہے۔ جس پلاٹ پر اب اسپتال ہے اسے انھوں نے اپنی ماں کی یاد میں اسپتال قائم کرنے کے لئے دیا تھا جس پر شہر کے میئر نے ایک چھوٹا سا اسپتال بنوادیا ہے۔ عبداللہ کا کہنا ہے کہ اسپتال کے لئے زمین دینے سے انھیں قلبی سکون ملا ہے جس کا بیان وہ لفظوں میں نہیں کرسکتے۔ انھوں نے جو پلاٹس مسجد اور اسکول کے لئے دیئے ہیں، ان میں سے ایک پر اسکول تعمیر کیا جارہا ہے اور اس تعمیر میں وہ خود بھی مزدوری کرکے مدد اور نگرانی کررہا ہے، جب کہ مسجد کی تعمیر کے لئے چندہ جٹانے والوں میں بھی وہ شامل ہیں۔ اب جو زمین کا ایک ٹکڑا باقی ہے اسے بھی جلد ہی وہ سرکار کے حوالے کریں گے تاکہ عام لوگوں کے لئے یہاں ڈائیگنوسٹک سنٹر قائم ہوسکے۔عبداللہ کا یہ کارنامہ اس لائق ہے کہ اس پر فخر کیا جائے اور اسے آبِ زر سے لکھا جائے۔ انھوں نے ان سرمایہ داروں کے منہ پر طمانچہ مارا ہے، جن کی دولت انھیں قارون بنادیتی ہے اور عوامی وفلاحی کاموں کے لئے خرچ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ عبداللہ کے بارے میں بعض مقامی اخباروں میں خبر شائع ہوئی مگر کسی بڑے ٹی وی چینل نے اس پر رپورٹ نہیں دکھائی۔عبدالہ ایک مسلمان ہیں اور انھوں نے اپنی زمین فلاحی کام کے لئے خیرات کرکے یہ پیغام دیا ہے کہ مسلمان پردہشت گردی کا الزام دھرنے والے ہوش میں آئیں مسلمان کار خیر کرنے والا بھی ہوسکتا ہے۔ جب ساری دنیا میں مسلمان دہشت گردی اور تخریب کاری کے الزامات میں گھرے ہوئے ہیں ایسے میں عبداللہ نے انسانیت دوستی کی ایک مثال پیش کی مگر یہ خبر کسی ٹی وی چینل کی شہ سرخی تو کیا سرخی بننے کے لائق بھی نہیں تھی۔ یہی اگر کسی نام نہاد مسلمان نے دہشت گردی کا کوئی کام کیا ہوتا تو اس پر تمام چینل خصوصی پروگرام پیش کر رہے ہوتے اور قومی اخباروں میں بڑی بڑی سرخیاں ہوتیں اور صفحات کے صفحات سیاہ کئے جاتے اور مسلمان کے ساتھ ساتھ اسلام کو بھی نشانہ بنایاجاتا۔میڈیا ہمیشہ منفی خبروں کو جگہ دیتا ہے اور مثبت خبریں عموماً پوشیدہ رہ جاتی ہیں کیونکہ ان کے اندر سنسنی خیزی کا مادہ نہیں ہوتا جس کی میڈیا کو چاہت ہوتی ہے۔ وہ بار بار کہتا ہے اسلام نے جہاد کا حکم دیا ہے مگر ایک بار بھی یہ نہیں بتاتا کہ اسلام میں انسانی ہمدردی بھی فرض کی ہے اور انسان تو کیا جانوروں کو بھی بلاسبب تکلیف پہنچانے کی یہاں اجازت نہیں ہے۔ وہ یہ نہیں بتاتا کہ کمزور طبقات کو مضبوط بنانے کے لئے اسلام نے زکوٰة بھی فرض کی ہے۔مال جمع کرنے کے لئے نہیں ہوتا،اسلام، انسانی ہمدردی، خیر خواہی اور امداد باہمی کا مذہب ہے۔ اسلام نے زکواٰة کا حکم اس لئے دیا ہے کہ سماج کے دبے کچلے لوگوں کو آگے آنے کا موقع مل جائے۔ حالانکہ زکواٰة جمع مال پر ڈھائی فیصد ہے مگر اہل اللہ اور صوفیہ کا کہنا رہا ہے کہ انسان اپنے پاس مال جمع ہی کیوں رکھے کہ اس پر زکوٰاة فرض ہو۔ اگر دولت آئے تو چاہئے کہ اس سے اپنی ضرورت پوری کی جائے اور جو کچھ باقی بچے اسے اللہ کے راستے میں خرچ کردیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ اگر کبھی آپ کے پاس مال آیا تو اسی دن ضرورت مندوں میں تقسیم کردیا کرتے تھے اور اپنے پاس کچھ باقی نہیں رکھتے۔ حضرت محمد صلی و علیہ و آلہ وسلم کا یہ ہی کردار تھا۔ ایک بار آپ کے پاس کئی لاکھ درہم آگئے جنھیں شام تک آپ نے بانٹ دیئے۔ یہاں تک کہ روزہ افطار کے لئے بھی کچھ نہیں بچایا۔ خادم نے عرض کیا کہ کاش تھوڑا سا آپ افطار کے لئے بچالیتے تو آپ نے کہا ہاں مجھے یاد نہیں رہا، پہلے بتاتے۔یونہی حدیث شریف ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس اگر احد پہاڑ کے برابر سونا ہوتو مجھے یہی پسند ہے کہ تین راتیں گزرنے سے پہلے اسے خرچ کردوں۔ ہاں اگر قرض ہوتو کچھ بچالوں۔قرآن کریم میں بار بار لوگوں کوصدقہ وخیرات کی جانب متوجہ کیا گیا ہے۔ چوتھے پارے کی ابتدا ہی ان الفاظ کے ساتھ ہوتی ہے۔ ''تم اس وقت تک بھلائی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی محبوب ترین چیز کو اللہ کے راستے میں خرچ نہ کرو، اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اللہ اسے جانتا ہے۔''قرآن میں ایک دوسرے مقام پر اللہ نے فرمایا۔''نیکی اس کانام نہیں کہ تم اپنا رخ پورب یا پچھم کی جانب کرلو بلکہ نیکی تو اس کی ہے جو اللہ، پچھلے دن،(آخرت) ملائکہ،کتاب وانبیاء پر ایمان لایا اور مال کو اس کی محبت میں رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مانگنے والوں اور غلامی سے آزاد کرانے میں خرچ کیا اور نماز قائم کی اور زکواٰة دی اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب کوئی معاہدہ کریں تو اپنے عہد کو پورا کریں اور تکلیف ومصیبت اور لڑائی کے وقت صبر کرنے والے، وہ لوگ سچے ہیں اور وہی متقی ہیں۔''اصل میں اسلام کی شناخت یہی نیک اعمال ہیں مگر افسوس کے کچھ دشمنوں کی بدخواہی اور کچھ ہماری اپنی کمیوں نے ہمارے برے اعمال سے جوڑ کراسلام کی پہچان بنادی ہے۔ عام لوگ اسلام کا مطالعہ نہیں کرتے بلکہ وہ ہمارے اعمال سے اسلام کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں اور جب وہ ہماری جانب دیکھتے ہیں تو عبداللہ جیسے افراد کہیں حاشئے میں گم ہوجاتے ہیں جو سرخیوں میں نظر آتے ہیں وہ اسامہ دبن لادن اور ابوبکر بغدادی جیسے افراد ہیں۔تمہارا مال کونسا ہے؟حدیث شریف ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ سے پوچھا کہ تم میں سے کسے اپنے مال کے مقابلے اپنے وارث کا مال پیارا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہۖ ہم میں کوئی نہیں جسے اپنا مال زیادہ پیارا نہ ہو۔فرمایا کہ اپنا مال تو وہ ہے جو آگے روانہ کرچکا ہے اور جو کچھ چھوڑ گیا وہ تو اس کے وارث کا مال ہے۔انسان جو کچھ نیک کام میں خرچ کرتا ہے مثلاً مسجد ومدرسہ بنوایا، کسی غریب کی مدد کی، اسپتال اور تعلیمی ادارے قائم کئے یا عوامی وفلاحی کاموں میں خرچ کرتا ہے،وہ ضائع نہیں جاتا بلکہ اللہ کے ہاں جمع ہوتا ہے اور وہ تمام آخرت میں سود درسود جمع کرکے ملے گا۔ قرآن کریم میں اسے ایک مثال کے ذریعے سمجھایا گیا ہے کہ:''جو لوگ اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں،ان کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں نکلیں۔ ہر بالی میں سو دانے اور اللہ جسے چاہتا ہے زیادہ دیتا ہے۔اور اللہ وسعت والا اور بڑا علم والا ہے۔''مثال بہت واضح ہے کہ جس طرح سے ایک دانہ بویا جاتا ہے اور اس سے ایک پودا اگا، پھر اس پودے میں سات بالیں آئیں اور ہر بالی میں سو سو دانے ہوتے ہیں۔ اسی طرح قیامت کے دن بھی راہ خدا میں خرچ کرنے والوں کو ملے گا۔ یعنی ایک کے بدلے میں سات سو۔ حالانکہ یہ انتہا نہیں ہے۔ اللہ جسے چاہتا ہے اس سے بہت زیادہ دے سکتا ہے کیونکہ وہ وسعت والا ہے اور اس کی وسعت کی کوئی انتہا نہیں ہے۔اسلام کی نگاہ میں صدقہ اچھے اعمال میں بہترین عمل ہے۔ اس کی متعدد صورتیں ہوسکتی ہیں۔ اللہ کے جن نیک بندوں نے اپنے اعمال وافعال سے اسلام کی تبلیغ کی یہ بھی صدقہ ہے۔ مدد کی سب سے متعارف شکل لوگوں کو کھانا کھلاناہے۔ اس کی اہمیت شاید ہمیں آج سمجھ میں نہ آئے کیونکہ آج غریب سے غریب آدمی بھی پیٹ بھر کر کھانا کھاتا ہے۔ مگر جب پیداوار کم ہوا کرتی اور اکثر شدید قسم کی قحط سالی ہوتی تھی کہ لوگ اپنے بچوں کو بیچنے پر مجبور ہوجاتے تھے۔ ایسے میں کھانا کس قدر اہمیت کا حامل ہوگا سمجھا جاسکتا ہے۔ اسلام کے اسی روپ نے دنیا کو متاثر کیا تھا جس کی ایک چھوٹی جھلک پیش کرتے ہیں عبداللہ جیسے افراد۔ ظاہر ہے یہ دنیا اچھے لوگوں سے خالی نہیں ہے۔ اگر مالدار لوگ ایک دن بھوکے رہنا قبول کرلیں تو دنیا سے غربت اور بھکمری کا خاتمہ ہوجائے عبداللہ جیسے لوگ۔ ایسے لوگوں کے رہتے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ دنیا نیک اور دلدار افراد سے خالی ہوچکی ہے۔فیصلہ آپ کریں کے آپ نے عبداللہ بننا ہے یا سیٹھ صاحب دونوں کو اللہ نے خوب دیا ایک نے لگادیا دوسرے نے جمع کرلیا اور غریب رہا۔