چیف جسٹس کی تجویز اور جی بی میں ریفرنڈم

عاشق فراز

گو کہ اس وقت پورے ملک میں نئے الیکشن اور اس کے نتائج کو لیکر بڑا غلغلہ مچا ہوا ہے کیونکہ منقسم مینڈیٹ کی وجہ سے حکومت سازی کیلئے کسی بھی پارٹی کو سادہ اکثریت نہیں ملی ہے۔ دیکھا جائے تو روایتی سیاسی جماعتیں اب روبہ زوال ہیں اور وہ عوام میں اپنے اپنے بیانیے کو فروغ نہیں دے پائیں۔سیاسی معاملات کو ایک طرف رکھیں کیونکہ یہ تو اسی طرح چلتے رہتے ہیں۔اس سیاسی شور شرابہ کے درمیان ایک نئی بات منظر عام پر آئی ہے وہ بہت اہم ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں ریفرنڈم کروایا جائے ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق گلگت بلتستان کی اعلی عدلیہ میں ججوں کے تقرری کے حوالے سے ایک کیس کی سماعت کے دوران محترم فائز عیسی نے یہ بات کی تھی۔ ججوں کی تقرری سے متعلق کیس سابق وزیراعلی خالد خورشید نے درج کیا ہوا ہے جس کی سماعت تین رکنی بینچ کررہا ہے۔ اس کیس میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم اپیلٹ کورٹ گلگت بلتستان میں وفاقی حکومت نے جو تقرریاں کی ہےں وہ خلاف ضابطہ ہیں۔ یاد رہے کہ خالد خورشید خان کو سپریم اپیلٹ کورٹ نے تعلیمی ڈگری کیس میں نااہل کیا تھا ۔ صورتحال پھر ایسی بگڑی کہ تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی نے وفاداری تبدیل کی اور پارٹی کے بجائے کسی دوسرے کو وزیر اعلی بنا دیا۔سپریم اپیلٹ کورٹ گلگت بلتستان کی اعلی عدلیہ ہے اور اس کا قیام گلگت بلتستان گڈ گورننس امپاورمنٹ آرڈر 2009 کے تحت عمل میں لایا گیا ہے۔ اس کے تین ممبر ہوتے ہیں جن کی تقرری گلگت بلتستان کونسل کے چیئرمین جو کہ وزیراعظم پاکستان ہوتا ہے اس نے گورنر کے مشورے سے کرتا ہے۔سپریم اپیلٹ کورٹ میں ججز کی حالیہ تعیناتی میں ضابطہ کار سے اختلاف کرتے ہوئے سابقہ چیف منسٹر نے رٹ پٹیشن داخل کی ہوئی ہے جس کی سماعت ان دنوں جاری ہے۔چودہ فروری کو ہونے والی پیشی کے دن اٹارنی جنرل اور وکلا سے ہونے والی بحث میں چےف جسٹس نے کہا کہ کیوں نہ گلگت بلتستان میں پاکستان میں شمولیت کے حوالے سے ریفرنڈم کرائیں۔ اٹارنی جنرل نے وہی موقف دہرایا جو کہ ایک عرصے سے مروج ہے کہ پاکستان گلگت بلتستان کو آئینی تحفظ دینا چاہتا ہے مگر اس کی راہ میں اقوام متحدہ کی قراردادیں رکاوٹ ہیں ۔اس ضمن میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے 2019 کے ایک فیصلے کا حوالہ بھی دیا گیا جس کے مطابق گلگت بلتستان کو مسلئہ کشمیر کا حصہ سمجھا گیا ہے۔اس پیشی کے دوران چیف جسٹس کے دو ریمارکس قابل توجہ ہیں۔ایک یہ کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرلیا ہے اور دوسرا نکتہ یہ کہ گلگت بلتستان کے عوام کو معلوم نہیں کہ ان کی آئینی حیثیت کیا ہے۔

جہاں تک یہ کہنا کہ مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ لیا گیا ہے وہ درست ہے۔ بھارت نے 1947 سے مرحلہ وار طریقے سے جموں و کشمیر پر اپنی عملداری میں اضافہ کیا ہے۔ ابتدا میں مہاراجہ جموں و کشمیر کے ذریعے معاہدہ الحاق کیا پھر 370 دفعہ کے تحت اس کی مخصوص حےثیت قائم کی۔ اقوام متحدہ میں بھی اپنی مرضی کے خلاف ہر پروپوزل کو رد کیا اور بین الاقوامی سطح پر بہتر خارجہ پالیسی کے تحت مسلم ممالک اور سپر پاورز کو اپنا ہمنوا نہ سہی تو شدید مخالف بھی ہونے نہیں دیا۔مودی حکومت نے اپنے پچھلے دور حکومت سے یہ مدعا شد و مد سے اٹھایا تھا کہ آرٹیکل 370 کا نفاذ غیر ضروری ہے۔ اس کے خلاف 5 آگست 2022 میں لوک سبھا میں قرارداد پاس کی اور اس کو revoke کرکے جموں و کشمیر اور لداخ ریجن کو ملکی ٹےریٹری میں شامل کیا۔جموں و کشمیر کی علےحدہ شناخت کی حامی تنظیموں اور مختلف افراد نے اس حوالے سے بھارتی سپریم کورٹ سے رجوع کیا جس کا فیصلہ مودی حکومت کے اقدامات کے حق میں آیا۔ یوں دیکھا جائے تو قانونی اور آئینی اقدامات کے ذریعے مقبوضہ جموں و کشمیر کا حصہ بنایا گیا ہے گو کہ پاکستان اور کشمیر کی لیڈرشپ اس قدم کو جبر اور ظلم سے تعبیر کرتی ہے اور استصواب رائے کی قراردادوں کی خلاف ورزی گردانتے ہیں ۔چیف جسٹس آف پاکستان کا دوسرا نکتہ کہ گلگت بلتستان کے عوام کو اپنے آئینی حق کے بارے میں معلوم نہیں اس حوالے سے بصد احترام کچھ گزارشات پیش کی جاتی ہیں۔1947-48 کی جنگ آزادی گلگت بلتستان کے نہتے عوام نے خود لڑی اور بقول کسی کے ریڈ کلف باﺅنڈری کمیشن کے نقشوں میں تقسیم سے نہیں بلکہ عملی طور پر جانیں قربان کرکے آزادی حاصل کی۔ کرنل حسن خان، میجر بابر، کرنل احسان علی ، گروپ کےپٹن شاہ خان کے علاہ سینکڑوں دیگر سویلین اور فوجی افراد نے اس جدوجہد میں حصہ لیا اور ڈوگرہ حکومت کا جابرانہ قبضہ ختم کردیا۔ آزاد کردہ علاقوں کا الحاق پاکستان کے ساتھ غیر مشروط طور پر کیا گیا جبکہ ریاست ہنزہ اور ریاست نگر نے علےحدہ علےحدہ ریاست پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیا۔ اس الحاق کے کاغذات میں خود قائد اعظم محمد علی جناح اور دیگر اکابرین کے دستخط موجود ہیں۔تب سے آج تک گلگت بلتستان کے عوام کو وہ آئینی حق نہیں دیا گیا جو ملک کے دوسرے باشندوں کو حاصل ہے۔ ابتدا میں یہ سمجھا گیا کہ چند دنوں میں استصواب رائے ہوگا اور گلگت بلتستان کے ووٹ جموں و کشمیر کی پاکستان میں شمولیت کے لئے زیادہ کار آمد ثابت ہوں گے لہذا اس خطے کی صریح الحاق پاکستان کو ملتوی رکھا گیا۔ایسا نہیں ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام نے اپنے آئینی حق کےلئے بات نہ کی ہو۔ الحاق پاکستان کے بعد تو آئینی تحفظ کے لئے کوئی قدغن نہیں ہونا چاہئے تھا مگر پاکستان کی مختلف حکومتوں نے کشمیر ایشو کے نام پر اس خطے کو محروم رکھا۔گلگت بلتستان کے لوگ پرامن ہیں اور انہیں اپنی دی گئی قربانیوں کا احساس ہے لہذا پرامن طریقے سے گزشتہ ستر سالوں سے اپنے آئینی حق کے لئے مسلسل آواز اٹھا رہے ہیں۔گلگت بلتستان کے مستند صحافی اور مورخ قاسم نسےم کی گلگت بلتستان اور مسئلہ کشمیر کے نام سے کتاب 2009 سے پہلے چھپی تھی اور آج کل اس کا Revised ایڈیش چھپنے کے لئے تیار ہے۔ قاسم نسیم نے اس کتاب میں دستاویزی ثبوت کے ذریعے یہ ثابت کیا ہے کہ گلگت بلتستان مسئلہ کشمیر سے براہ راست منسلک نہیں لیکن حکومت پاکستان نے مسئلہ کشمیر کے موقف کی تائید و حمایت کے لئے اس خطے کو بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں سے جوڑ رکھا ہے۔گلگت بلتستان کے عوام، سیاسی و مذہبی جماعتوں ، طلبا تنظیموں ، سول سوسائٹی اور قلم کاروں نے عرصہ دراز سے مختلف صورتوں میں آواز اٹھائی ہے اور یہ اب بھی جاری ہے۔گلگت بلتستان کی کونسل اور اسمبلی نے متعدد بار متفقہ طور پر قراردادیں پاس کیں جن میں یک زبان ہو کر مطالبہ کیا گیا ہے گلگت بلتستان کو پاکستان کے آئین میں شامل کیا جائے۔ متذکرہ کونسل اور صوبائی اسمبلی اور اس کی قراردادیں دراصل یہاں کی عوام کی مجموعی آواز اور مطالبہ ہے۔ اب ان قراردادوں کو خاطر میں نہ لائے جانے کی وجہ سے یہاں کی عوام میں یہ احساس پیدا ہورہا ہے گلگت بلتستان کو اب تک دیا گیا انتظامی اور سیاسی نظم و نسق مصنوعی اور بے وقعت ہے۔سیاسی اور سماجی جدوجہد کے علاہ گلگت بلتستان کے عوام نے کئی بار پاکستان کی اعلی عدلیہ سے بھی اپنی آئینی شناخت کے لئے رجوع کیا۔ گو کہ 1999 کے فیصلے میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے گلگت بلتستان کو پاکستان کا شہری قرار دیا مگر طریقہ کار طے کرنے کی ذمہ داری پارلیمنٹ پر چھوڑ دیا تھا۔ اسی طرح 2019 میں اسی ضمن کے ایک کیس میں اعلی عدلیہ نے گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر کی قراردادوں کے حوالے سے دیکھنے پر اصرار کیا۔یوں دیکھا جائے تو گلگت بلتستان کی عوام نے سیاسی اور قانونی دونوں طرح سے جنگ لڑی ہے اور اب بھی اسی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ گزشتہ مہینے گلگت بلتستان میں گندم سبسڈی کے حوالے سے بہت بڑے پیمانے پر ہونے والے دھرنوں اور ہڑتالوں میں آئینی شناخت کا مطالبہ سرفہرست رہا۔ اب پاکستان کے آئینی اداروں اور پارلیمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملے میں گومگو کی کیفیت سے نکلے اور گلگت بلتستان کو فورا آئینی دھارے میں شامل کرے کیونکہ گلگت بلتستان کے عوام نے تو 1947-48 میں الحاق پاکستان کیا تھا اور یہی ریفرنڈم ہے۔