مثالی ریاست


افلاطون نے اپنے عہد شباب میں اطالوی شہر سراکیوزکا تین مرتبہ (پہلی مرتبہ 387 ق م،دوسری مرتبہ367 ق م اور تیسری مرتبہ 362 ق م) سفر کیا اور علوم فلاسفہ سے اس شہر کے ظالم سماج کو سدھارنے کی کوشش کی مگر تینوں مرتبہ ناکام رہے۔پہلی مرتبہ افلاطون کو متبعین فیثاغورث کے سیاسی، علمی اور مذہبی نظریات سراکیوز کھینچ لایا جہاں ایک مطلق العنان حکمراں دیونی سی اوس تقسیم کرو اور حکومت کرو کے فلسفے کے تحت ملک میں مختلف فرقوں کے باہمی نفاق سے استفادہ کرتے ہوئے اقتدار پہ براجماں تھے۔چونکہ دیونی سی اوس کے بہنوئی کاجماعت فیثاغورث سے سابقہ تھا لہذا افلاطوں کی دربار میں رسائی اس کے وسیلے سے ممکن ہوئی۔ افلاطون نے اپنی علم و دانش سے بادشاہ کو کافی متاثر بھی کیا مگر درباری سازشوں کی وجہ سے یہ سلسلہ تادیر قائم نہ رہ سکا۔درباری اشرافیہ جو کہ سسلی مافیا کی شکل اختیار کر چکا تھا کوجب اس بات کا احساس ہوا کہ بادشاہ پر افلاطون کے نظریات اثر دکھا رہے ہےں اوران کے مفادات پرافلاطونی فلسفے کی تلوار لٹک رہی ہے تو اسے دربار کی اشراف پارٹی کی سازشوں میں شرکت کے الزام میں قید کیا گیا اور پھر غلام کی حیثیت سے بیچ دیا گیا۔ جسے بعد میں ایک علم دوست انسان نے خریدکر آزاد کردیا۔افلاطون دھن کا پکا مصلح تھا لہذا دوسری اور تیسری مرتبہ بھی اس نے سسلی ظالمانہ نظام کو سدھارنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ فلسفہ کے علما نے اسے افلاطون کی عملی سیاست میں ناکامی سے تشبیہ دی ہے۔ مگرعظیم الشان افلاطون نے اپنا کام جاری رکھا۔ انہوں نے ایتھنز میں دنیا کی پہلی اکادمی قائم کے اور تادم آخر پڑھانے اور لکھنے کے کام میں مشغول رہے۔افلاطون نے جمہور یا ریاست جیسی شہرہ آفاق کتاب انسانی معاشرے کی بہتری کے لئے ہدیہ کیں جس سے آج کے اس دور میں بھی آسمان سیاست و ریاست کے چمکتے ستارے اپنے لئے روشنی کا ساماں کرتے ہیں۔افلاطون کی کتاب و مبحث کا محور یہ ہے کہ آدمی اچھا آدمی کیسے بنے؟؟ چونکہ آدمی،انسان یا فرد ہی معاشرے کی اکائی ہے۔اگر فرد اچھا ہوگا مطلب معاشرے کی اکائی اخلاقی، تربیتی اور علمی طور پہ جتنا بلند قامت ہوگی اتنا ہی وہ معاشرہ مہذب اور اعلی اقدار کا حامل ہوگا۔ دوسری طرف ایک اچھا سماج یا معاشرہ ہی ایک اچھا فرد پیدا کرسکتا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ ایک اچھے معاشرے کی قیام کے لئے افلاطون تین اجزا کو بنیاد قرار دیتے ہیں۔جن میں پہلے نمبر پر عدل، دوسرے نمبر پہ نظام تعلیم اور تیسرا نظام معیشت ہے۔۔افلاطون نے لگ بھگ تین سوسال قبل مسیح میں جس مثالی ریاست کے خدوخال بیان کیے تھے اور جن تین اجزا کو ایک مثالی ریاست

 کی بنیاد قرار دیا تھا کیا ہم اکیسویں صدی میں کہ جب دنیا آرٹیفیشل انٹیلیجینس کی طرف بڑھ رہی ہے اس خدو خال کی الف ب کو بھی اپنے معاشرے میں نافذ کر پائے ہیں؟ آئیے زیادہ دور نہیں حالیہ انتخابات کی بات کرتے ہیں۔ انتخابات وہ بھی ایک ایسی مملکت میں جسے ہمارے بزرگوں نے ہزاروں جانوں کی لازوال قربانیاں دے کر اسلام کے نام پہ حاصل کیا تھا۔ مملکت عزیز پاکستان دنیا کے نقشے پر وہ واحد ملک ہے جسے اسلام کے نام پہ حاصل کیا گیا۔۔۔ وہ اسلام جس میں معاشرے کے ہر فرد کے لئے سلامتی ہے۔ جس کی بنیاد ہی عدل و انصاف، راست گوئی، امانتداری، ایمانداری، سچائی،قول و فعل کی پابندی، کسب حلال اور وفاداری ہے۔وہ اسلام جو ذلت و پستی میں گم انسان کو اشرف المخلوقات بناتا ہے۔اور ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھتا ہے جو عدل الہی کا مظہر ہے۔جہاں عدم مساوت کی گنجائش نہیں ہے۔جہاں عربی کو عجمی پر، عجمی کو عربی پر، گورے کو کالے پر یا کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔جہاں جھوٹ، خیانت، بدعہدی، بد زبانی، بدگوئی، بدگمانی اور بدکلامی گناہ ہے۔ اسلام کے ان تمام روشن اصولوں کے باوجود بحیثیت قوم ہم ایک مثالی معاشرہ قائم کرنے میں یکسر ناکام نظر آتے ہیں۔ہم نے آزادی کے بعد لگ بھگ 75 سال اقتدار کی رسہ کشی، معاشی ارتکاز اور معاشرتی تفریق میں ضائع کئے جو وقتا فوقتا حکمراں اور اشرافیہ طبقے کے حق میں تھا۔مادر ملت فاطمہ جناح اور مشرقی پاکستان اقتدار کی رسہ کشی کی نذر ہوگئے مگر ہم نے سبق حاصل کرنے کی بجائے اس ملک خداداد کو تختہ مشق بنائے رکھا اور بدقسمتی سے یہ عمل ہنوز جاری ہے۔ہر آنے والے حکمران اپنی ناکامیوں کو سابقین کے کھاتے میں ڈال کر خود اس ملک کو کھاتے رہے۔میں یہاں ان واقعات کی تفصیل میں جانا نہیں چاہتا۔ میں نہیں چاہتا کہ میں سانحہ مشرقی پاکستان سے لے کر سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور، پی این اے سے آئی جے آئی اور پی پی آئی سے آئی پی پی کے قیام تک کا سفر، آر اوز کی الیکشن سے ای ایم ایس کی سیلیکشن تک کا سفر، سانحہ کارگل اور اس کے نتیجے میں اس وقت کے آرمی چیف کی مبینہ ہائی جیکنگ سے لے کر سانحہ نو مئی تک۔۔۔۔۔ سانحات کی ایک لمبی فہرست ہے۔۔۔ سیاستدانوں کی آپسی لڑائیاں،ایک دوسرے پر انتہائی ذاتی نوعیت کے حملے، فحش تصاویر، فحش آڈیو ، ویڈیو لیکس ،قتل و غارت گری، غنڈہ گردی،دھوکہ دہی، لوٹ مار، رشوت ستانی، معزز ججز اور فوجی جنرلز پہ سیاست، الزامات، صفائیاں، معافیاں، تلافیاں اور ٹافیاں ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ اور ہمارے معاشرے کی عکاسی کے لیے کافی ہے۔ ان بحثوں میں الجھنا صرف اس صورت میں مفید ہے کہ جب کوئی راہ حل اور آگے بڑھنے کی کوئی صورت نکل آئے وگرنہ ساری بحث بے سود بلکہ نئے تنازعات کا باعث ہے۔سیاست داں، سیاسی جماعتیں، صحافی، وکلا سمیت معاشرے کے بہت سی شخصیات اور میڈیا نادیدہ قوتوں، غیر جمہوری طاقتوں، نان اسٹیٹ ایکٹرز، خلائی مخلوق وغیرہ کا بھی ذکر کرتے رہتے ہیں جس کا مقصد بعض اوقات اپنی ناکامیوں یا نااہلیوں کا بار دوسروں پہ ڈالنا یا پردہ ڈالنے کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ ورنہ اگر یہ سیاست دان، انسان نما لیڈرز اور رہبر نما رہزن اگر اتنے ہی معصوم ہےں تو قدرت نے انہیں بہترین موقع عنایت کیا ہے کہ وہ سب مل کر ان تمام نادیدہ قوتوں کو ان کے اصل محور کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔ قومی انتخابات 2024 کے حوالے سے کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں کا شکوہ ہے کہ بڑے پیمانے پر رگنگ ہوئی ہے۔ ملکی و غیر ملکی میڈیا بھی مینڈیٹ چوری ہونے کا رونا رو رہا ہے اور کچھ لوگ بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے اشاروں کنایوں میں ایک ادارے کی طرف انگشت نمائی بھی کررہے ہیں۔ اس الیکشن کے بعد حیران کن بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ کئی جماعتوں کے سربراہوں نے استعفے دیئے ہیں۔ کئی جیتے ہوئے امیدواروں نے اپنی سیٹیں واپس کی ہیں۔ بعض ہارے ہوئے امیدواروں نے دعوی کیا ہے کہ ہمیں جتایا جارہا ہے مگر ہمیں یہ قبول نہیں ہے۔ ان تمام صورتحال نے اس انتخابات کو کافی حد تک مشکوک بنادیا ہے۔ایسے میں اگر سیاسی جماعتیں اور سیاسی قائدین چاہے تو اس مشکل صورت حال کو ملک کے لئے بہترین صورتحال اور ایک بہتر مستقبل کے لئے تمہید کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔۔۔تمام سیاسی قائدین ملک عزیز کی خاطر اپنی جماعتی یا سیاسی فائدے اور انا کو پس پشت ڈال کر نیک نیتی کے ساتھ یک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہوجائیں اور فیصلہ کریں کہ 

جن حلقوں پر مخالفین کے اعتراضات ہیں ان حلقوں میں فارم 45 یا ری کاﺅنٹنگ کے ذریعے شبہات کا ازالہ کریں۔۔۔۔قائدین اعلی اسلامی، جمہوری اور معاشرتی اقدار کی بنیاد رکھتے ہوئے دھاندلی زدہ سیٹوں کو واپس کریں۔ مخالف لیڈرز، پارٹیز یا نشان کے نام سے جیتنے والے امیدواروں کو اخلاقی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے نہ صرف اپنی جماعت میں شمولیت سے انکار کریں بلکہ اسے اخلاقی اور سماجی اقدار کے منافی قرار دے کراس پورے پراسس کوگالی بنادیں تاکہ مستقبل میں یہ سلسلہ تھم جائے اور وطن دشمنوں کو اس آڑ میں الیکشن کو متنازعہ بنانے اور ہمارے اداروں کی بے توقیری کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔۔اس طرح اداروں کی عزت و تکریم میں بھی اضافہ ہوگا۔ کسی بھی معاشرے میں یہ کام کوئی قانون اور طاقت کے بل بوتے پر نہیں کیا جاسکتا۔۔۔۔اور نہ ہی پاکستان جیسے ملکوں میں نادیدہ قوتوں کوکسی ضابطے کے تحت روکا جاسکتا ہے۔۔۔ میری نظرمیں انتخابی معاملات یا حکومتی تشکیل میں مبینہ مداخلت کو صرف اور صرف سیاسی جماعتوں یا سیاسی قائدین کا انکار ہی ختم کرسکتے ہیں۔۔۔انکار ناجائز مینڈیٹ لینے سے ۔۔۔بے جا حکومت گرانے کے لیے سہولت کاری سے انکار۔۔۔۔وفاداری تبدیل کرنے سے انکار۔۔۔مخالف پارٹی سے بندے توڑ کر ناجائز طریقے سے حکومت بنانے سے انکار۔۔۔آپ یہ دو جنرلز الیکشن میں پریکٹس کرکے دیکھیں ۔۔۔ حالات یکسر بدل جائیں گے۔۔۔۔۔ لفظ لا میں بڑی طاقت ہے۔۔۔۔البتہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔۔۔ اپنے وقتی مفاد، چند روزہ اقتدار کے لئے لا کہنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے مگر ملک عزیز میں جمہوری روایات کی مضبوط بنیاد کے لئے زہر کا یہ پیالہ آج نہیں تو کل انہی سیاستداروں کو ہی پینا پڑے گا۔۔۔اور جتنا جلدی یہ معرکہ سر کرے گا اسی میں جمہور اور جمہوریت دونوں کی بھلائی ہے۔۔۔اور ہاں افلاطوں کے مثالی ریاست سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اگر جسم کو ایک معاشرہ تسلیم کیا جائے اور ہر عضو کو ایک ادارہ توجسم کے ہر عضو کوصرف اس کا اصلی اور بنیادی وظیفہ ہی انجام دینا ہوگا۔۔۔ مثلا آنکھ کا کام صرف دیکھنا ہے۔۔۔کان کے فرائض میں سننا، زبان کے فرائض میں بولنا۔۔۔ان اعضا سے اگر اس کے برخلاف کام لیاجائے تو یہ نہ صرف جسم کے لئے مہلک ہے بلکہ عدل کے بھی خلاف ہے۔۔۔۔اور عدل کے بغیر ایک مثالی ریاست کا قیام ناممکن ہے۔۔۔ کیاہمارے سیاسی قائدین حکومت سازی سے آگے کا بھی سوچیں گے یعنی ان گزارشات پہ بھی غور کریں گے؟؟یا حسب سابق تمام اخلاقی قدروں کو پامال کرتے ہوئے صرف اور صرف لوٹ کھسوٹ کی روش برقرار رکھیں گے۔