واقعہ معراج اور جدید سائنسی تحقیقات

ریاض احمد قادری عطاری 

اللہ تبارک و تعالی فرماتا ہے۔ ترجمہ:پاکی ہے اسے جو راتوں رات اپنے بندے کو لے گیا مسجد حرام سے مسجد اقصی تک جس کے گردا گرد ہم نے برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہ سنتا دیکھتا ہے۔ واقعہ معراج سے ہر مسلمان کیا بلکہ ہر ذی علم و شعور واقف ہے۔ سفر معراج عالم دنیا کا وہ سفر ہے جس نے اس وقت کے اہل زمانہ کو مبہوت اور آج کے اہل زمانہ کو اللہ تعالی کی قدرت اور اسکے محبوبﷺ کی شان و عظمت کو سمجھنے کا بہترین نمونہ عطا کردیا ہے۔ اس سفر کی عظمت جہاں اہل ایمان کو حضور سرور کونین ﷺ کا دیدار خداوندی عزوجل اور اپنی امت کیلئے ڈھیر ساری نعمتوں، نوازشوں اور احکامات کے حصول کو بیان کرتا ہے وہاں علم و حکمت کے ان گنت موتی بھی اپنے دامن رحمت میں سمیٹے ہوئے ہے۔ اگرچہ آج کے اس سائنسی ترقی کے دور نے واقعہ معراج کو تقریبا تسلیم کرلیا ہے یا پھر اس پہ اقراری تحقیق جاری ہے مگر عقل انسانی نے جن معجزات اور واقعات کو اس وقت ماننے سے انکار کیا تھا، دور حاضر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو ایک ایک واقعہ معجزہ حق و صداقت کی صدا دیتے ہوئے نظر آتا ہے۔ سفر معراج کی ابتدا سے پہلے جبریل امین نے حضورﷺ کے سینہ اقدس کو چاک کرکے قلب اطہر کوآب زمزم سے دھویا تھا پھر اس میں ایمان اور حکمت کے مزید خزانے بھر دئے تھے۔ قلب اطہر کے چاک کرنے کے اس عمل کو اس وقت کے اہل علم اور دانش نے ماننے سے انکار کردیا اور کہا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ سینہ چاک کرکے دل کو باہر نکالا جائے اور پھر اسے واپس اپنی جگہ میں رکھ دیا جائے اور بندے کی جان بھی سلامت رہے مگر بعد میں سائنس کی ترقی نے اس عمل پہ مہر ثبت کردی۔ دل کے علاج کا عمل نہ جانے کتنے مراحل سے گزرتے ہوئے اب ٹرانسپلانٹ تک جا پہنچا ہے۔ اب دل کو سینہ چاک کرکے باہر نکال کر اس کی شریانوں کی مرمت ہو یا تبدیلی کوئی مشکل کام نہیں رہا۔ بلکہ یہ کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ اس ایجاد کی بنیاد جبریل امین نے حضور ﷺ کے سینہ اقدس کو چاک کرکے ہی رکھی تھی۔ حضورﷺ اپنے پہلے پڑاﺅ کے طور پر بیت المقدس پہنچے جس کا فاصلہ تقریبا تےرہ سوکلو میٹر بنتا ہے۔ راستے میں کئی معجزات و واقعات پیش آئے۔ حضورﷺ نے بیت المقدس میں تمام انبیا علیھم السلام کی امامت فرمائی۔آپ نے تمام انبیا علیھم السلام سے ملاقات فرمائی۔ اس طویل فاصلے کو اتنے قلیل وقت میں طے کرنا تمام انبیا کی امامت فرمانا آج کے اہل علم کیلئے اب بھی ایک سوال ہے جو کہ طلب جواب ہے۔ سفر معراج کیلئے پوشاک (لباس) عرش سے آیا تھا۔ حضورﷺ نے اسے زیب تن کیا۔ اس لباس کا احادیث میں کافی ذکر موجود ہے۔ پھر سواری کیلئے براق لایا گیا جس پہ آپ ﷺ نے سواری فرمائی۔ آسمانوں سے لایا گیا وہ لباس بھی آج کے دور کی طرح علےحدہ خصوصیات کا حامل ہوگا جو خلانورد زیب تن کرتے ہیں جس کے بغیر خلائی سفر ناممکن ہے۔ حضور ﷺ کی سواری جس کا نام براق تھا، جوکہ برق سے مشتق ہے جس کا مطلب ہے روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ تیز چلنے والی شے۔ روشنی جسکی رفتار186000کلومیٹر فی سےکنڈ ہے اور براق کی رفتار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ براق کا ایک قدم تاحد نگاہ ہے یعنی جہاں نگاہ کا اختتام ہو وہاں تک براق کا ایک قدم ہے۔ جدید سائنس نے اتنی ترقی کی کہ اب چاند اور دیگر سیارے بھی تسخیر ہورہے ہیں۔ اس وقت کی پریشانی اپنی جگہ مگر آج کا ترقی یافتہ طبقہ بھی اس معیار کو اب تک نہیں چھو سکا جو مقام اور معیار اللہ تبارک و تعالی نے سفر معراج میں اپنے حبیبﷺ کو عطا فرمایا تھا۔ آپ ﷺ نے رات کے ایک قلیل پہر میں زمین سے آسمان، آسمان سے عرش اور پھر وہاں سے تحت الثری تک کا سفر کیا۔ تحت الثری کے بعد لامکاں کا جو سفر رہا اور اپنے رب عزوجل سے راز و نیاز کا سلسلہ رہا بخششوں اور عطاﺅں کی جو بارش رہی اسے تو دینے والا یا پھر لینے والا ہی جانتا ہے۔ دوران سفر آسمان، ہر آسمان پہ ایک یا کئی نبیوں اور رسولوں علیھم السلام سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ یہ بات بھی باعث حیرت ہے کہ جن انبیا سے حضورﷺ کی ملاقات بیت المقدس میں امامت کرتے ہوئی تھی، وہ حضورﷺ سے پہلے آسمانوں پہ حضورﷺ کو خوش آمدید کہنے کیلئے پہنچے ہوئے تھے۔ معراج شریف کے اس سفر میں ایک خاص بات براق کی تیز رفتاری بھی ہے۔ جدید تحقیقات نے یہ ثابت کردیا کہ خلا کی جانب جتنی بلندی طے کی جاتی ہے اتنا ہی آکسیجن کی کمی اور دیگر گیسوں کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر جہاز میں آکسیجن کی دستیابی نہ ہوتو موت کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں اور کرہ ہوائی سے باہر نکلنے کیلئے حد رفتار کم از کم چالیس ہزار میل فی گھنٹہ درکار ہوتی ہے۔ براق کی رفتار کا ذکر اس حقیقت کو بھی آشکار کرتا ہے کہ آج کے سائنس کا طالب علم بھی عش عش کر اٹھے گا اور حضور ﷺ کی نبوت کی دل کی گہرائیوں سے گواہی دیگا۔ اسی سفر کے دوران اللہ تعالی کے حبیب ﷺ نے جنت و جہنم کا بھی مشاہدہ کیا۔ وہاں دی جانے والی آسائشوں اور عذابوں کا بھی مشاہدہ کیا۔ یوم حساب سے قبل ہی اپنی اور پہلی والی امتوں کی کےفیت کا مشاہدہ بھی حضور سرور کونینﷺ کے خواص میں سے ایک خصوصیت ہے۔واقعہ معراج بیان فرماتے ہوئے اللہ تبارک و تعالی نے الفاظ کا جو چناﺅ کیا ہے اس کے بھی کیا کہنے۔ اللہ تعالی اپنی پاکی و کبریائی بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ ۔۔۔۔ سیر کرائی اپنے بندے کو جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سفر نہ تو روحانی تھا نہ ہی کوئی خواب تھا۔ اور جدید سائنس بھی یہ نہیں کہہ سکتی کہ یہ کوئی آن لائن رابطہ تھا کہ دونوں فریق اپنی اپنی جگہوں میں تشریف فرما ہوں اور ایک دوسرے سے ملاقات بھی ہو۔ عبد فرما کر اس امکان کو ختم کردیا کہ یہ ملاقات بالمشافہ کے علاوہ کوئی اور ذریعے سے تھی۔ نوری سال کی جو اصطلاح روشنی کے سفر کو جانچنے اور ناپنے کیلئے استعمال ہوتی ہے، اسے بھی سفر معراج نے ایک روح اور جان بخش دی ہے۔