قیادت کے بروقت فیصلے اور اسکے مثبت اثرات
تحریر: حفیظ الرحمنسابق وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان
2011ء میں بلوچستان کے حالات انتہائی مخدوش اور غیر یقینی صورتحال اور دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے قائد مسلم لیگ (ن) محمد نواز شریف نے سابق صدر پاکستان ممنون حسین کی سربراہی میں فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی جس میں مجھے بھی بحیثیت ممبر شامل کیا گیا۔ کمیٹی نے بلوچستان کے حالات کو جانچنے، سمجھنے اور پررکھنے کیلئے بلوچستان کا دورہ کیا اور وہاں پر ہم نے 7 دن گزارے۔ کمیٹی نے بلوچستان میں غیریقینی صورتحال اور انتشار کی بنیادی وجوہات (Root Cause) تلاش کرنے کیلئے کام کئے۔ بلوچستان کے مختلف مذہبی، سماجی، اور قبائلی، سرداروں مقامی لوگوں سے بھی ملاقاتیں کیں۔ جن میں سیاسی طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات اور عوام شامل ہے۔ اس وقت بلوچستان میں حالات اس قدر خراب تھے کہ کنٹونیمنٹ ایریا سے باہر جانے کی ہمیں اجازت نہیں دی گئی۔ جناح روڈ پر کشت کرنے والے سیکورٹی اداروں افراد کی حفاظت کیلئے بھی فوج تعینات تھی۔ ہم نے بنیادی وجوہات تلاش کرنے کیلئے لوگوں سے ملاقاتوں کے علاوہ کوئٹہ میونسپل لائبریری جاکر 40 سال پرانے اخبارات کا مطالعہ بھی کیا۔عوامی نبض (Pulse)اور پرانے اخباری تراشوں کے مطالعہ کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ بلوچستان میں بیڈ گورننس، وفاق کی عدم توجہی،، سرد مہری اور سرداروں کیساتھ وفاقی حکومت کی جانب سے ہر قسم کے معاملات طے کرنا ان حالات (جن میں بیڈ گوررننس،وفاق کی عدم توجہی، سر مہری وغیرہ)ڈیل کرنا ان حالات کے وجوہات میں شامل تھے۔
تمام سابقہ وفاقی حکومتیں اگربلوچستان کے لوگوں کے مسائل سنتی اور بروقت تمام توجہ طلب امور کو مرکز بنا کر حل طلب راستوں کا انتخاب کرتی تو حالات یہاں تک نہ پہنچتے۔ بلوچستان کے قوم پرست ابتداء میں خود بات کرناچاہتے تھے۔ اپنے مسائل کو لیکر وفاقی حکومتوں سے رابطہ کرنا چاہتے تھے لیکن وفاقی حکومتوں کا غیرسنجیدہ رویہ بلوچ عوام کو اس نوبت تک لے آیا کہ ہمارے اذلی دشمن بھارت نے اس موقعے کو غنیمت جان کر فائدہ اٹھایا اور اس حوالے سے افغانستان بلوچستان میں ہر قسم کی دہشت گردی بد امنی اور بے چینی پھیلانے کے حوالے سے بیس کیمپ بن چکا تھا۔ جہاں سے ایم آئی 6، را، این ڈی ایس اور دیگر دشمن قوتوں نے بلوچ عوام کی احساس محرومی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک د شمنی کیلئے انہیں سپورٹ کیا۔ جس وقت فیکٹ فائیڈنگ کمیٹی بلوچستان کا دورہ کررہی تھی اس وقت فوجی جوانوں کی شہادتیں جبکہ بے گناہ عوام کا خون بہنا معمول بن چکا تھا۔ فیکٹ فاینڈنگ کمیٹی نے دورہ بلوچستان سے واپسی پر اپنی تفصیلی رپورٹ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف کو پیش کردی جس میں اختیارات کی منتقلی کی سفارش کی تھی جسے بعد ازاں ہماری جماعت (مسلم لیگ ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے 18ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں تک منتقل کئے۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں آزاد انتخابات کی سفارش کی گئی تھی تاکہ صوبے کا اقتدار حقیقی نمائندوں کو ملے۔ جو وہاں کی محرومیاں، مسئلے سمجھ سکتے ہوں اور انہیں حل کرسکتے ہوں۔ ہماری کمیٹی نے دورہ بلوچستان کے بعد تین اہم نکات کی شفارش کی وہ بلوچستان کے عوام کیساتھ بات چیت، شفاف انتخابات اور صوبائی خود مختاری تھی۔ 18 ویں ترمیم کے ذریعے اختیارات منتقل کئے گئے جس وجہ سے آج بلوچستان کے لوگ تنقید وفاق پر نہیں بلکہ اپنی صوبائی حکومت پر کررہے ہیں۔
ہماری نظر میں مشرقی پاکستان میں جو غیر یقینی اور انتشار کی صورتحال تھی اس سے زیادہ غیر یقینی اور انتشار کی صورتحال بلوچستان میں تھی۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے وقت ہماری بدقسمتی تھی کہ ہمارا دفاع ناقابل تسخیر نہیں تھا۔ دشمن کے مقابلے میں ہم اس قدر مسلح نہیں تھے جس کی وجہ سے مشرقی بنگال میں مکتی باہنی کے کہنے پر بھارت نے اپنی فوجیں اتاری۔ ہمارے 90 ہزار فوج نے ہتھیار ڈال دئیے جس کے نتیجے میں حقیقی پاکستان (مشرقی پاکستان) ہم سے الگ ہوااورہم صرف دیکھتے ہی رہ گئے اور کچھ نہیں کرسکے جبکہ دوسری جانب بلوچستان میں مشرقی پاکستان سے زیادہ حالات خراب ہونے اور بالاچ مری سمیت ہربیار مری جیسی شخصیات کو بھارت سے مدد طلب کرنے کے بعد بھی ہمارا دشمن ملک(بھارت) بلوچستان میں اپنی فوجیں نہیں اتار سکا۔مشرقی پاکستان اور بلوچستان کے حالات کو اگر دیکھا جائے تو بلوچستان کے حالات زیادہ خراب تھے۔ انتشار بہت زیادہ تھی۔ لیکن ہمارے پاس ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے بھارت اپنی فوج بلوچستان کی سرزمین پر نہیں اتار سکا۔ ہماری لیڈر شپ کی مدبرانہ سوچ اور حکمت علمی کی وجہ سے بلوچستان میں بھارت کی سازشیں ناکام ہوئیں۔ لیڈر کہلانا آسان ہوتا ہے لیکن لیڈر شپ کے جو فیصلے ہوتے ہیں وہ قوموں اور ملکوں کے مستقبل کے فیصلے ثابت ہوتے ہیں۔ لیڈ رز ہمیشہ اپنی ذات، مفادات سے بالاتر ہوکر فیصلے کرتے ہیں۔ بلوچستان میں اس سے قبل جب انتخابات ہوئے تو اس وقت ہماری جماعت کو عام اکثریت حاصل تھی لیکن اس وقت کے وزیر اعظم محمد نواز شریف نے اپنی پارٹی سے وزیر اعلیٰ بنانے کے بجائے نیشنل پارٹی کے عبدالمالک بلوچ کو وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ کیا۔ ہماری جماعت میں لوگوں نے قائد مسلم لیگ (ن) محمد نواز شریف کو کہا کہ بلوچستان میں پہلی مرتبہ ہمیں سادہ اکثریت حاصل ہوئی ہے ہمیں اپنی جماعت کی حکومت بنانی چاہئے تاکہ یہاں پر ہماری جماعت مضبوط ہو۔ لیکن بحیثیت لیڈر ہمارے قائد محمد نواز شریف نے فیصلہ کیا کہ مجھے اپنی پارٹی کی فعالیت سے زیادہ بلوچستان عزیز ہے۔ وہاں کی حقیقی قیادت کو اقتدار ملے تو وہ مسئلے بہتر انداز میں حل کرسکتی ہے۔ بلوچستان کے عوام کی محرومیاں بھی کم ہوں گی اور یہ تاثر بھی ختم ہوگا کہ بلوچستان کو کنٹرول اسلام آباد کے ذریعے کیا جاتا ہے۔منفی قوتیں اور منفی سوچ کو شکست دینے کیلئے جو فیصلہ ہمارے قائد نے کیا تھا اس کے مثبت نتائج سامنے آئے۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ اور کمانڈر سدرن کمانڈ ناصر خان جنجوعہ نے مل کر بلوچستان کے حالات کو سدھارا۔ کمانڈر سدرن کمانڈ ناصر خان جنجوعہ کا کردار انتہائی قابل تحسین رہا۔ ہمارے قائد محمد نواز شریف نے اپنی ذات اور پارٹی سے بڑے فیصلے کئے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کوئی ملک پاکستان کیخلاف جارحیت نہیں کرسکتا۔ کیوں کہ پاکستان اپنے دشمن کے برابر طاقت رکھتا ہے۔ ایٹمی قوت بن چکا ہے اس لئے ہمارا دشمن بھی ہم سے خائف ہے۔ قرآن پاک کا حکم ہے کہ اپنے دشمن کی برابری کیلئے تیاری کرو۔ دفاعی طور پر ہمارا ملک ناقابل تسخیر بن چکا ہے۔ دشمن ہمیں معاشی طور پر نقصان پہنچا سکتا ہے اس کیلئے دشمن طاقتیں کوششیں بھی کر رہی ہیں۔ لسانی، قومی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر انتشار پھیلانے اور ملک میں عدم استحکام کی سازشیں بھی ہو سکتی ہیں۔دشمن ہمارے ملک میں فرقہ وارانہ انتشار پھیلانے کیلئے سرمایہ کاری کرسکتا ہے جسے ماضی میں بھی کیا گیا ہے۔ ہمارے گھر کے اندر دشمن پیدا کرکے ہمیں نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔ ملک میں استحکام کیلئے انصاف ہونا لازمی ہے۔ ظلم اور طاقت کے ذریعے نہیں بلکہ انصاف کے ذریعے ملک میں استحکام لایا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ سابق برطانوی وزیر اعظم چرچل نے کہا تھا ”دوران جنگ اگر عدالتیں کام کررہی ہیں تو ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔“ مطلب اگر عوام کوانصاف مل رہا ہو تو اس ریاست کواس کے دشمن نقصان نہیں پہنچا سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں عدل کا نظام، معاشی نظام اور سیاسی نظام کمزور ہے جس پر ہمیں توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو آئین میں رہتے ہوئے اظہار رائے کی مکمل آزادی ملنی چاہئے۔ اگر کوئی اختلافی بات کرے تو اسے فوراً ملک دشمنی کے سرٹیفکیٹ نہیں دیئے جانے چاہئے۔ معاشی استحکام کا بہت بڑا فقدان اس وقت پیدا ہوچکا ہے ہمیں اس پر ترجیحی بنیادوں پر توجہ دینی ہوگی۔ دشمن ہمیں معاشی عدم استحکام کے ذریعے نقصان پہنچا سکتا ہے اور ہم معاشی عدم استحکام کا بری طرح شکار ہورہے ہیں۔ ایک بات جو ہمیں سمجھنا چاہئے کہ اگر ہم معاشی طور پر مستحکم نہیں ہوئے تو ہمیں اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ روس جو ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود سیاسی اور معاشی طور پر عدم استحکام کا شکار ہوا جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ لہٰذا ہمیں توجہ ان چیزوں پر دینی چاہئے جس سے ہمارا ملک انتشار اور عدم استحکام سے بچے دشمن کی سازشیں ناکام ہوں اور ہم ہر شعبے میں ناقابل تسخیر بن جائیں۔۔۔