سید مجاہد علی
پاکستان اور ایران کے وزرائے خارجہ کے درمیان ٹیلی فون رابطہ کے بعد امید کی جا رہی ہے کہ اس ہفتے کے دوران میں ایک دوسرے کے سرحدی علاقوں پر حملے کرنے کے بعد کشیدگی اور بے یقینی کی جو کیفیت پیدا ہوئی تھی، اس میں تیزی سے کمی آئے گی۔ البتہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ ایران کو منگل کے روز پاکستانی بلوچستان پنجگور میں میزائل پھینکنے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور وہ اس سے کیا مقصد حاصل کرنا چاہتا تھا۔پاکستان نے جمعرات کی صبح ایرانی بلوچستان سیستان کے علاقے میں میزائل اور ڈرون حملے کر کے اپنا حساب بے باق کر دیا تھا۔ اس کے بعد البتہ ایران کی طرف سے پاکستانی ناظم الامور کو بلا کر احتجاج ریکارڈ کروانے کے علاوہ کوئی رد عمل دیکھنے میں نہیں آیا۔ بلکہ ایرانی وزارت خارجہ نے ایک بیان کہا تھا کہ ہم پاکستان کے ساتھ اچھے ہمسایہ جیسے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں ۔ اگرچہ اس بیان میں بھی ایرانی دیہات پر پاکستان کے جوابی حملے کو غیر متوازن اور ناقابل قبول قرار دیا گیا تھا۔ دن کے دوران میں دونوں طرف سے امور خارجہ کے حکام نے سوشل میڈیا پر دوستانہ پیغامات کا تبادلہ کیا اور بعد میں پاکستانی وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے اپنے ایرانی ہم منصب حسین امیر عبداللہ کے ساتھ فون پر بات چیت کی۔ اس بات چیت کی تفصیلات تو منظر عام پر نہیں آئیں لیکن ایک دوسرے پر میزائل پھینکنے کے فوری بعد کسی تیسرے ملک کی براہ راست ثالثی کے بغیر اگر پاکستان اور ایران کے وزرائے خارجہ آپس میں بات چیت کرلیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اسلام آباد اور تہران یکساں طور سے باہمی کشیدگی کو بڑھانا نہیں چاہتے۔خاص طور سے ایران میں حکام نے ضرور یہ دیکھ لیا ہو گا کہ پاکستان اپنے علاقوں پر کسی بھی عذر کی بنا پر ہونے والے حملوں کو برداشت نہیں کرے گا اور اس کا فوری جواب دے گا۔ تاہم اسے ایرانی لیڈروں کی ہوشمندی اور سیاسی جرات کہنا چاہیے کہ منگل کے حملوں کی غلطی کا تدارک کرنے کے لیے انہوں نے مفاہمانہ طرز عمل کو ترجیح دی ہے اور مسلسل جوش و خروش کا مظاہرہ نہیں کیا جو پاکستان کے ساتھ ہی نہیں بلکہ پورے خطے میں حالات خراب کرنے کا سبب بن سکتا تھا۔ البتہ یہاں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ اگر پاکستان فوری طور سے اپنے علاقے میں ایرانی حملوں کا جواب نہ دیتا اور ایرانی سرحد میں بعض ایسے ٹھکانوں کو نشانہ نہ بنایا جاتا جہاں سے مبینہ طور پر پاکستان کے خلاف کارروائیاں ہوتی ہیں، تو شاید تہران کو بھی فوری سفارتی ہوش مندی سے کام لینے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔ پاکستان کی طرف سے خاموشی کو ایران، اسلام آباد کی کمزوری یا مجبوری سمجھ سکتا تھا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر تہران میں یہ قیاس آرائی بھی کی جا سکتی تھی کہ پاکستان چونکہ امریکہ کے قریب ہے، اس لیے ان حملوں سے پاکستان ہی نہیں بلکہ امریکہ کو بھی پیغام پہنچا دیا گیا ہے۔ البتہ غالب امکان ہے کہ جمعرات کو پاکستانی جوابی حملوں نے اس سوچ کو تبدیل کیا۔یہ خوش آئند ہے کہ پاکستان اور ایران نے معاملات خراب ہونے سے پہلے انہیں سنبھالنے کی کوشش کی ہے تاہم منگل اور جمعرات کو میزائل و ڈرون حملوں کے تبادلہ کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کے لیے ازسر نو سخت محنت کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اس وقت ایران ہر طرف سے گھیرے میں ہے۔ امریکہ کی طرف سے عائد معاشی پابندیوں کے علاوہ اکثر عالمی فورمز پر اسے انسانی اور جمہوری حقوق کی خلاف ورزی کے سنگین الزامات کا سامنا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ پورے مشرق وسطی میں عسکری پراکسی قوتوں کی سرپرستی کرنے کی وجہ سے بھی اسے مورد الزام، ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس صورت حال میں پاکستان کے علاوہ چند ہی ممالک ایران کی سفارتی مدد کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کو ناراض کرنا ایران کے لیے شدید سفارتی دھچکہ ہو سکتا تھا۔ ایران کو حزب اللہ اور حوثی کی سرپرستی کر کے سعودی عرب سمیت متعدد عرب ممالک کی مخالفت کا بھی سامنا ہے۔ اس وقت حوثی اسرائیل مخالفت میں عالمی تجارتی بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کی پاداش میں براہ راست امریکہ کے نشانے پر ہیں۔ ایران اگرچہ امریکہ و اسرائیل کو للکارنے کے بلند بانگ دعوے کرتا ہے لیکن وہ درحقیقت براہ راست امریکہ یا حتی کہ اسرائیل سے جنگ کا متحمل بھی نہیں ہو سکتا۔ ایران میں تمام معتدل لیڈروں کی خواہش ہوگی کہ صورت حال اس حد تک خراب نہ ہو کہ امریکہ یا اسرائیل براہ راست ایرانی ٹھکانوں پر بمباری کریں۔ ایران آبنائے ہرمز بند کرنے کی دھمکی دیتا رہا ہے۔ کسی بڑے تصادم کی صورت میں شاید وہ اس انتہائی اقدام کی کوشش بھی کرے گا لیکن ایسی کوئی بھی جنگ ایران کی مکمل معاشی تباہی پر منتج ہوگی اور امریکہ تہران میں حکومت تبدیل کرنے کی خواہش پوری کر سکتا ہے۔پاکستان پر میزائل حملوں سے تہران کی طاقت یا دہشت گرد گروہوں کو پیغام دینے سے زیادہ اس کی بدحواسی عیاں ہوئی ہے۔ تہران کی طرف سے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو سنبھالنے کی فوری کوششوں سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ ایرانی انتظامی ڈھانچے میں معتدل مزاج اور انتہاپسند ٹولوں کے درمیان شدید کشمکش موجود ہے۔ پاکستان پر کسی غلطی کی وجہ سے میزائل نہیں پھینکے گئے بلکہ پاسداران انقلاب کے کسی انتہاپسند ٹولے نے خود مختاری سے کام لیتے ہوئے سیاسی اشارے کے بغیر یہ عاقبت نا اندیشانہ قدم اٹھایا۔ اس کی قیمت ایرانی حکومت کو سفارتی بدحواسی کی صورت میں ادا کرنا پڑی ہے۔دریں اثنا اسلام آباد میں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں مسلح افواج کے تمام سربراہان کے علاوہ نگران حکومت کے اہم وزیر بھی شریک ہوئے۔ اجلاس میں پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی جارحیت کا بھرپور جواب دینے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے نگران وزیر اعظم نے ایران کے ساتھ سرحدی جھڑپوں کے بعد تعلقات کو معمول پر لانے کی ضرورت پر زور بھی دیا تھا۔ گو یہ دونوں اہداف موجودہ صورت حال میں ایک دوسرے سے متصادم دکھائی دیتے ہیں لیکن اصولی طور سے ان میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ ایک خود مختار ملک کے طور پر پاکستان اپنی بین الاقوامی سرحدوں اور فضائی و سمندری حدود کی خلاف ورزی برداشت نہیں کر سکتا۔ یہ بات واضح کرنے کے بعد ماضی کی چپقلش کو بھلا کر ہمسایہ ملکوں سے تعلقات بحال کرنا ایک خوشگوار سفارتی رویہ ہے۔البتہ ایران کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں میں یہ نوٹ کیا جاسکتا ہے کہ ایران یا پاکستان نے ایک دوسرے کی عسکری تنصیبات یا ٹھکانوں کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ منگل کو ایران نے اپنے خلاف متحرک گروہ جیش العدل کے ٹھکانوں پر میزائل حملے کیے تھے۔ اسی طرح جمعرات کو ایران کے سرحدی علاقے میں میزائل داغنے کے بعد پاکستان نے بھی یہی دعوی کیا تھا کہ وہاں پاکستان مخالف عسکری گروہوں کو نشانہ بنایا گیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے بتایا تھا کہ ایران میں بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ۔ پاکستانی فوج ان دونوں گروہوں سے نبرد آزما رہتی ہے اور اسے صوبے میں شورش اور دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دیتی ہے۔تاہم بلوچستان سے جو معلومات سامنے آتی ہیں ان میں وہاں عام طور سے ریاستی جبر اور شہریوں کو غیر قانونی طور سے لاپتہ کرنے کے واقعات کے خلاف شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ اس وقت بھی اسلام آباد میں بلوچ خواتین و بچوں نے احتجاجی کیمپ لگایا ہوا ہے۔ نگران حکومت اپنے محدود دائرہ اختیار کا حوالہ دے کر اس بارے میں کوئی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کرتی ہے۔ اس لیے ایران کی ایک غلطی کا جواب دینے کے لیے جب پاکستان نے سیستان کے سرحدی علاقے میں بلوچ گروہوں کو نشانہ بنایا تو یہ کوئی اتفاقیہ امر نہیں تھا بلکہ یہ اقدام کرتے ہوئے صوبے کے عوام پر پاکستانی ریاست کی عسکری قوت کی دہشت قائم کرنا بھی مقصود ہو گا۔پاک فوج ملک میں پائی جانے والی شدید سیاسی تقسیم اور ماضی میں سیاسی انجینئرنگ کی وجہ سے اس وقت شدید نکتہ چینی کا سامنا کر رہی ہے۔ اسے عوام میں اپنی شہرت بحال کرنے کے چیلنج کا بھی سامنا ہے۔ پاکستان نے ایرانی حملوں کا جواب دے کر ایک تیر سے دو نہیں بلکہ تین شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک: کسی بیرونی حملے کا فوری اور موثر جواب دے کر پاکستانی عوام میں اپنا ہیرو کا اسٹیٹس واپس حاصل کیا گیا ہے۔ اب کم از کم میڈیا کی حد تک پاک فوج کی شجاعت، مہارت اور ملکی دفاع کے لیے مستعد رہنے کی پرزور توصیف ہو رہی ہے۔ حتی کہ فوج کے شدید مخالف سیاسی گروہ بھی اس موقع پر فوج کی تعریف کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ دوئم: بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کو نقصان پہنچا کر پاکستان کی اسٹریٹیجک پوزیشن مستحکم کی گئی ہے۔ سوئم: ایران کے علاوہ تمام ہمسایہ ممالک پر واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان کے خلاف کسی جارحیت کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ یہ پیغام تہران کے علاوہ کابل اور نئی دہلی تک پہنچایا گیا ہے۔البتہ اس موقع پر پاک فوج اور نگران حکومت کو انتہاپسند گروہوں اور بلوچستان سے سیاسی ناراضی کی آوازوں میں تفریق کرنی چاہیے۔ بعض حکومتی عہدیداروں نے سیستان میں علیحدگی پسند گروہوں پر حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے اسلام آباد میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے مظاہرہ کرنے والی خواتین اور بچوں کو معتوب کیا ہے۔ یہ طرز عمل ناجائز اور ناقابل قبول ہے۔ اگر کسی علاقے میں کچھ لوگ عسکری جد وجہد کر رہے ہیں تو ان کا نام لے کر بے گناہ شہریوں کے حقوق دینے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔پاکستان اور ایران کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے بعد دونوں ملکوں کو البتہ اپنے اپنے طور پر ضرور یہ جائزہ لینا چاہیے کہ وہ جس علاقے کی حدود کو مقدس کہتے ہیں، انہی علاقوں میں ہمسایہ ملک میں دہشت گردی کرنے والے عناصر کیوں اپنے ٹھکانے بنائے ہوئے ہیں۔ ہمسایہ ملک کو الزام دینے سے پہلے اگر ہر ملک اپنی سرحدوں کے اندر موجود شدت پسندوں کا خاتمہ کر لے تو بین الملکی تعلقات بھی بہتر ہوجائیں اور ملک میں بھی امن و امان کی صورت حال تبدیل ہو سکتی ہے۔