شیخ لئیق احمد
جواہر لال نہرو اور لیڈی ماونٹ بیٹن کا پوتر پریمشیوں تو پنڈت نہرو اور لیڈی ماﺅنٹ بیٹن کی پریم کہانی بظاہر گھسی پٹی داستان رہ گئی ہے جو ہر اس پاکستانی کو معلوم ہو گی جو تقسیم ہند کے وقت باﺅنڈری کمیشن کی نا انصافی میں لارڈ ماﺅنٹ بیٹن سمیت ان کے کردار کو پڑھ چکا۔ اسی طرح زیادہ تر پاک و ہند میں اسے دو دلوں کی پاک محبت ہی کا نام دیا جاتا ہے۔ مگر کیا واقعی یہ پریم پوتر ہی رہا۔ پچھلے ہفتوں سید حسین اور وجے لکشمی پنڈت کی کہانی کی کڑیاں جوڑتے دو ایسے ہوش ربا اور تہلکہ خیز کہانیاں سناتے آرٹیکل سامنے آ کھڑے ہوئے جو اس پریم کی پوترتا کی نفی کرتے نظر آتے ہیں۔پہلا آرٹیکل انگریزی اخبار دی سن یو کے ایڈیشن اٹھارہ نومبر دو ہزار گیارہ میں ایلیسن میلونی کا لکھا ہے جس کا عنوان ہی ناگفتنی الفاظ، جو نہیں لکھوں گا، پہ مبنی ہے۔ کھلا راز۔ لارڈ ماونٹ بیٹن اور ایڈوینا کی عمر بھر بستر پھلانگتی شادی کی اندرونی کہانی۔ وزیر اعظم سے افیئر۔ اور دوسرا آرٹیکل نہرو، اندرا گاندھی فیملی کے متعلق ہوش ربا انکشافات۔ جو ونشاج آنند نے اٹھارہ اگست دو ہزار گیارہ کو انٹرنیٹ پہ لوڈ کیا تھا۔چودہ نومبر اٹھارہ سو نواسی میں الہ آباد میں پیدا ہونے والے پنڈت جواہر لال نہرو چالیس کی دہائی تک کانگرےس اور تحریک آزادی ہند کے صف اول کے رہنما بن چکے تھے۔ کملا کول سے کملا نہرو بننے والی ان کی حقوق نسواں کے لئے بہت فعال بیوی انیس سو اکتیس میں موذی مرض میں مبتلا ہوتی پانچ سال بعد سوئٹزرلینڈ کے سینیٹوریم میں سورگباش ہو چکی تھیں اور نہرو رنڈوے ہو چکے تھے۔ مردانہ وجاہت اور متاثر کن شخصیت کے مالک پنڈت نہرو کی ایڈوینا لیڈی ماونٹ بیٹن سے پہلی ملاقات لارڈ ماونٹ بیٹن کے متحدہ ہندوستان کے گورنر جنرل بننے سے پہلے ہی سنگا پور میں ہو چکی تھی اور ایک بہت ہی فلمی انداز کے، ایک ہجوم میں کچلے جانے کے شدید خطرہ میں ہیرو کی طرح اسے بچا لے جانے کے واقعہ کا ذکر، ان کی بیٹی پامیلا کے مطابق، وہ ساری عمر چسکے لے بیان کرتی رہیں۔نہرو لارڈ ملاقات کا ذکر اور لارڈ کے ان سے متاثر ہونے کا ذکر سر ظفراللہ کی تحدیث نعمت کے صفحہ چار سو بارہ پہ بھی موجود ہے ۔ لارڈ ماونٹ بیٹن کے گورنر جنرل ہندوستان بن کے آتے ہی پنڈت جی کا گورنر جنرل ہاوس آنا جانا شروع ہو گیا اور ان کی گہری دوستی کے ساتھ ہی لیڈی ماونٹ بیٹن سے بھی روز کی ملاقاتوں کے نتیجہ میں جلد ہی تیرے میرے پیار کے چرچے ہر زبان پر شروع ہو گئے۔وزیر اعظم کے سےکرٹری رہے ایم۔ او۔ میتھائی نے اپنی کتاب نہرو دور کی یادیں میں اسے ایک بہت گہری اور آگے بڑھی محبت بتاتے نہرو کی بیٹی اندرا کی بہت زیادہ تشویش اور پریشان کن الجھن کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ اندرا نے بہت مرتبہ مولانا ابوالکلام آزاد سے درخواست کی کہ وہ اس کے باپ کو ان حرکات سے باز آنے اور محتاط ہونے کی ترغیب بلکہ زور دیں، جن سے پورے ملک میں نہرو خاندان کہ عزت پر دھبہ لگ رہا ہے۔ یہ محبت اور تعلقات پھر تقسیم ہندوستان میں بارڈر کی لکیر پر جس طرح اثر انداز ہوئے وہ باونڈری کمیشن میں پاکستان کے نمائندہ سر ظفراللہ کی سرگزشت تحدیث نعمت کے صفحات چار سو ستانوے تا پانچ سو سولہ تک موجود ہیں۔وزیر اعظم ہند بننے کے بعد پہلی مرتبہ برطانیہ جاتے ان کی پرواز نصف شب کو لندن کے ہوائی اڈہ پہنچی۔ سفارت خانہ کے پریس اتاشی خوشونت سنگھ کے مطابق وہ وہاں استقبال کے لئے پہنچے سفارتی عملہ پہ ناراض ہوئے۔ واپس بھیج دیا۔ مگر اگلی صبح ہی لندن کے ٹیبلائڈ یعنی سنسنی سے بھرپور خبروں والے اخبارات میں ایڈوینا ماونٹ بیٹن کی شب خوابی کے لباس میں اپنے کمرے کے باہر نہرو کا استقبال کرتے دکھاتے بڑے سائز کے فوٹو پہلے صفحہ پر رنگ برنگی داستانوں کے ساتھ بھارتی سفارت خانہ کے لئے مصیبت اور پریشانی کا سبب بن چکے تھے۔اس کے بعد بھی ایڈوینا لیڈی ماونٹ بیٹن کی انیس سو ساٹھ میں وفات تک وہ جب بھی جاتے ان سے ملاقات کے لئے جاتے اور خاصا وقت گزارتے۔ اوپر مذکور برطانوی اخبار کے مطابق مورخ اینڈریو لوری اور کیبنٹ ڈویژن میں چھ لاکھ پونڈ کا دعوی بوقت وفات ایڈوینا کے سرہانے پائے گئے پنڈت نہرو کے عشقیہ خطوط کا دتھا، اس کی ڈائری، اور لارڈ کی خط و کتابت کی دستاویزات حاصل کرنے کے متعلق ہے، جن سے وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پنڈت جی ایڈوینا کا عشق جسمانی تعلق والا تھا اور لارڈ ہم جنسی کے شوقین تھے۔ملکہ وکٹوریہ کے نواسے اور انتہائی حسین اور بہت رعب دار شخصیت والے شہزادے، لوئی، جو بعد میں لارڈ ماونٹ بیٹن کہلائے، کی پہلی ملاقات بہت مالدار تاجر کی برطانیہ بھر میں حسین ترین گردانی گئی چھ سب سے زیادہ خوش لباس خواتین میں سے ایک ایڈوینا سے انیس سو بیس میں ہوئی۔ دونوں بیس برس کے تھے۔ دو برس بعد شاندار طریق سے شادی کے بعد یہ جوڑا ہنی مون پہ یورپ وغیرہ کی سیر کو نکلا۔ جلد ہی ایڈوینا کو احساس ہو گیا اس کا خاوند بہت ہی کم پرجوش تھا جب کہ اس کی توقعات بہت ہی زیادہ تھیں۔پھر برطانوی بحریہ کے فرائض کے سلسلے میں زیادہ تر باہر رہنے نے اس کی جنسی نا آسودگی نے اسے بھوکی خونخوار جنسی بلی بنا دیا۔ یہ انکشاف کہ اس کا خاوند اس کی بجائے فوجی وردی یا سکول کی وردی میں ملبوس نوجوان لڑکوں کا زیادہ شوقین ہے اسے بھی کھل کھیلنے کا بہانہ دے گیا۔ شاہی خاندان کا رکن ہوتے طلاق ہو نہ سکتی تھی لہذا دونوں نے شادی قائم رکھتے اوپن میریج یعنی جنسی خود مختاری پہ غیر علانیہ اتفاق کر لیا۔یہ اخلاقی گراوٹ کی انتہائی ناگفتنی کہانیاں ہیں۔ پچاس کی دہائی میں برطانوی خفیہ ایجنسی نے تحقیق کرتے رپورٹ میں اس جوڑے کو انتہائی گھٹیا اخلاق بافتہ قرار دیا تھا۔ خود لارڈ ماونٹ بیٹن نے ایک دوست کے سامنے اعتراف کیا کہ ہم دونوں کی پوری شادی شدہ زندگی دوسروں کے بستر میں ہی گزری ۔ اٹھارہ مستقل عاشقوں کے، جن میں سے سب سے زیادہ زور آور ویسٹ انڈین مشہور کیبرے سنگر ہچ کو اس نے ہیرے جواہرات سے مزین ایک ماڈل کا تحفہ بھی دیا تھا، کے علاوہ بھی روز کوئی نہ کوئی اس کے کمرہ کا مہمان ہوتا۔ لارڈ کے گھر موجود ہوتے اور اس کو علم ہوتے بھی۔ان کی بیٹی پامیلا اپنی یاد داشتوں کی کتاب میں ماں کو مرد خور یا بندے کھانی کہتی ہے اور انکلوں کی قطار آنے جانے میں لگے رہنے کا ذکر کرتی ہے جنہیں ذرا بڑی ہو نے اور حقیقت کے انکشاف پہ ماموں کہنا چھوڑ دیا تھا۔ بس وہ جاتے تھے کہ ہم نکلے والی اس کہانی کے ہوتے، جس میں سے صرف ہلکی سی جھلک پیش کی ہے، اگر یہ یقین کیا جائے کہ پنڈت جی اس کے پنجے سے بچ کے رہے ہوں، کیسے قرین قیاس ہو سکتا ہے۔ اسی قسم کی یا اسی سے اخذ کردہ تفصیلات بہت سے مضامین میں موجود ہیں ۔تہلکہ خیز انکشافات ابتدا میں تو نہرو خاندان کے کشمیری پنڈت ہونے کے دعوے کو پرزور جھٹلاتے اور مغل شاہی خاندان کے بوقت غدر دہلی کے کوتوال غیاث الدین غازی کی نسل بتاتا ہے۔ مرزا انگریز کے ہاتھوں قتل سے بچنے کے لئے ہندو نام گردا دھر اور پچھواڑے نہر کی وجہ سے نہرو کا لاحقہ لگاتے الہ آباد آ بسا تھا۔ گو کچھ شواہد ہند سرکار کی تردید اور وضاحتوں کے باوجود واضح طور دال میں کچھ کالا ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں، تاہم اس وقت وہ ہمارا موضوع نہیں۔چالیس سال کی عمر پہ پہنچنے سے خاصا پہلے ہی اہلیہ کی علالت کے باعث نہرو عملا تجرد کی زندگی گزار رہے تھے اور صنف مخالف کی طرف رجحان لازم تھا۔ چھوٹی بہن وجے لکشمی پنڈت کی ہمراز، ہم عمر اور گہری دوست، سروجنی نائیڈو کی بیٹی پدمجا نائیڈو کی طرف ان کے میلان، جھکاو یا رومان بیٹی اندرا گاندھی سے بھی چھپا نہ تھا۔ وہ نہرو کے بیڈروم میں پدمجا نائیڈو کی فوٹو ہر وقت موجود برداشت نہ کرتی وہاں سے ہٹا دیتیں مگر دوسرے روز پھر موجود ہوتی۔ ساٹھ کی دہائی میں چند پاکستانی اخبارات میں اس رومان کا ذکر اور لارڈ ماونٹ بیٹن کی بھی ان پہ نظر کا پڑنا یاد ہے۔ پدمجا نائیڈو کو گورنر بنگال بھی لگا دیا گیا تھا۔ایک داستان محبت بنارس کی دل کش سنیاسن پیرنی آ دھمکی یہاں بھی ، سنسکرت اور پرانے ہندو صحیفوں، مسودات کی ماہر شردھا ماتا سے بھی جوڑی جاتی ہے۔ بلکہ انیس سو انچاس میں کچھ آگے ہی بڑھنے کی بھی بیان ہوتی مگر چونکہ اس مضمون کی دہرائی کے علاوہ کہیں اور انٹر نیٹ پہ دوسرا سورس نہیں ملا اس لئے تفصیل سے گریز۔مگر کہیں بھی پنڈت جی کی اس رومان بھری زندگی کو جھوٹ اور محض الزام قرار دیے گئے بیانیہ کا وجود نہ ہوتے لگتا یہی ہے کہ نہرو خاندان کے پنڈت جواہر لال نہرو کی بھی چالیس سال کے بعد کی زندگی سلام عشق قبول کرواتے اور ذرا سی بھول کرتے ہی گزری۔