آہ محسن ملت

محمد اسحاق جلال

نامور عالم دین‘ مفسر قرآن‘ سماجی شخصیت علامہ شیخ محسن علی نجفی پیر کے روز اسلام آباد میں انتقال کرگئے مرحوم کا کئی سال قبل دل کا کامیاب آپریشن ہوا تھا جس کے بعد وہ صحت مند ہوکر دینی امور کی انجام دہی میں مصروف تھے کہ منگل کی صبح ناشتے کے بعد اچانک ان کی طبیعت خراب ہوئی طبیعت خراب ہونے پر انہیں اسلام آباد کے معروف نجی ہسپتال میں لے جایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہوسکے اور اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ مرحوم کی عمر تقریبا بیاسی برس تھی پسماندگان میں پانچ بیٹے تین بیٹیاں اور بیوہ چھوڑی ہیں محسن ملت، مفسر قرآن کئی کتابوں کے مولف و مترجم تھے انہوں نے اپنی جدوجہد کے ذریعے ملک بھر سمیت گلگت بلتستان بھر میں دینی مدارس، پرائیوٹ اسکولز و کالجز اور صحت کے مراکز کا کا قیام عمل لائے اسوہ سکول اینڈ کالجز سسٹم کی بنیاد رکھی مرحوم کی زیر نگرانی ملک بھر سمیت گلگت بلتستان میں 45 سے زائد سکولز اور کالجز کام کررہے تھے جن میں لگ بھگ بیس ہزار سات سو اکیاسی طلبہ زیر تعلیم ہیں ان اداروں میں موجود اساتذہ کی تعداد 1310 ہے غیر تدریسی عملے کی تعداد سات سو پچاسی بتائی جارہی ہے انہی سکولوں اور کالجوں سے فارغ التحصیل سینکڑوں لوگ اس وقت اعلی سرکاری نیم سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں بہترین خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اسوہ ایجوکیشن سسٹم کے تحت حاصل کرنے والے متعدد لوگ سی ایس ایس کرچکے ہیں کئی ڈاکٹرز‘ انجینئرز‘ وکیل اور صحافی بن کر ملک کی تعمیر وترقی اور فلاح انسانیت کیلئے اپنا کردار ادا کررہے ہیں شیخ محسن کے زیر نگرانی چلنے والے سکولوں اور کالجوں میں مستحقین کیلئے مفت تعلیمی سہولیات دی جارہی ہیں کئی طلبہ کو اسکالرشپس بھی دی گئیں ۔محسن نجفی کی ناگہانی وفات سے علاقے میں تعلیمی صحت شعبوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دکھی انسانیت کی خدمت کے جذبے سے سر شار علامہ شیخ محسن نجفی مرحوم ایک درویش صفت انسان تھے جنہوں نے ہمیشہ فلاح انسانیت کا سوچا کبھی ذاتی نمود و نمائش کیلئے کام نہیں کیا جو بھی کیا خدا تعالی کی خوشنودی اور مخلوق خدا وند متعال کی بھلائی کیلئے کیا۔ اس کا ایک واضح ثبوت یہ ہے کہ مرحوم نے سکردو کے قلب میں مدینہ اہلبیت کالونی کی بنیاد رکھی اس کالونی کی بنیاد شیخ محسن علی نجفی مرحوم نے الحاج میثم کاظم کے تعاون سے 2005 میں رکھی اس کالونی کے قیام کا مقصد 1999 کی پاک بھارت جنگ سے متاثر ہونے والے افراد کو شےلٹر فراہم کرنا تھا متاثرین کو شیخ محسن کی جانب سے قائم کی گئی کالونی میں رہائش فراہم کی گئی اور ان کو کسی قسم کی پریشانی ہونے نہ دی ابتدائی طورپر مدینہ کالونی میں سو مکانات تعمیر کئے گئے اور ان میں متاثرین اور دیگر مستحق افراد کو رہائش فراہم کی گئی اور انہیں دو وقت کی روٹی بھی فراہم کی گئی جلانے کیلئے گیس سلنڈر کی فراہمی بھی ممکن بنادی گئی 100مکانات پر قائم ہونے والی کالونی میں اس وقت 378 مکانات تعمیر کئے گئے اور تمام نادار مستحق افراد کیلئے نہ صرف رہائش فراہم کی گئی بلکہ نہیں کھانے پینے کی اشیا بھی مفت تقسیم کی گئیں ضرورت مندوں کیلئے مفت تعلیم بھی دی گئی ۔بیوہ‘ یتیم‘ معذور اور نادار افراد کو ترجیحی بنیادوں پر کالونی میں رہائش کے ساتھ ساتھ دیگر بنیادی سہولیات بھی فراہم کی جارہی ہیں کالونی میں مقیم ضرورت مندوں کیلئے مفت تعلیم کی فراہمی کی ذمہ داری بھی شیخ محسن نجفی نے اٹھا رکھی تھی اس کے علاہ خواتین کو ہنر مند بنانے کیلئے کالونی کے اندر ووکیشنل ٹریننگ سینٹر اور مریضوں کو صحت کی سہولیات کی فراہمی کیلئے ڈسپنسری بھی قائم کی گئی تھی۔ شیخ محسن علی نجفی کے انتقال کی خبر جہاں دیگر لوگوں کیلئے ایک پریشان کن تھی وہیں یہ خبر مدینہ کالونی میں مقیم نادار مستحق افراد پر بجلی بن کر گری اور یہاں مقیم یتیم بیوہ معذور اور نادار لوگ شیخ محسن علی نجفی کی موت پر زار و قطار روتے رہے کئی یتیم بچوں پر غشی طاری ہوگئی۔ ہر ایک کی زبان ایک ہی صدا تھی کہ شیخ محسن کی وفات کے بعد ہم یتیم ہوگئے ہمارا المیہ یہ رہا ہے کہ ہم نے انسانیت کی خدمت میں پیش پیش رہنے والی ہستیوں کی کبھی کوئی قدر نہیں کی بلکہ ایسی ہستیوں کی کردار کشی اور ان کی ذات کو متنازعہ بنانے کی کوششوں میں مصروف رہے۔ ہم نے ہر اس بندے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں جو فلاح انسانیت کے جذبے سے ہمیشہ سر شار رہے ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ایسی عظیم ہستیوں کی حکومتی سطح پر حوصلہ افزائی کی جاتی لیکن ہم ایسا کرنے میں ناکام رہے کیونکہ ہمارے نصیب میں شاےد کچھ کرنا لکھا ہی نہ ہو فلاح انسانیت کے جذبے سے بھرپور علامہ شیخ محسن نجفی جیسی عظیم شخصیت کو بجائے سرکاری اعزازات سے نوازا جاتا اور ان کی اعلی سماجی خدمات کو سرکاری سطح پر سراہا جاتا۔ 2016 میں اس وقت کی مسلم لیگ نون کی صوبائی حکومت نے انہیں فورتھ شیڈول میں ڈالا اور ان کے تمام اکاﺅنٹس منجمند کردئیے جس پر ملک بھر سمیت گلگت بلتستان میں ان کے زیر نگرانی چلنے والے اداروں میں زیر تعلیم طلبہ اور استفادہ کرنے والے نادار مستحق افراد سڑکوں پر نکل آئے عوامی سماجی سیاسی اور مذہبی سطح پر بھی حکومتی فیصلے کو ناپسندیدہ قرار دیا گیا ۔لوگوں نے احتجاجی مظاہروں دھرنوں کے ذریعے پورے گلگت بلتستان کو جام کردیا اور شیخ محسن علی نجفی کو فورتھ شیڈول میں شامل کئے جانے کے خلاف جگہ جگہ پر شدید احتجاج کیا شدید عوامی ردعمل کے بعد حکومت انہیں فورتھ شیڈول سے نکالنے پر مجبور ہوگئی ۔شیخ محسن علی نجفی اپنی ذات میں ایک بہترین انجمن تھے جنہوں نے علاقے میں تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کا بیڑہ سب سے پہلے اٹھایا ان کی کوششوں سے گلگت بلتستان خاص طورپر بلتستان میں انگریزی تعلیم کے حوالے سے ایک مختصر عرصے میں بہت بڑا انقلاب برپا ہوا ان کی کوششوں سے قبل مذہبی حلقوں میں انگریزی تعلیم کو معیوب سمجھا جاتا تھا مگر انہوں نے انگریزی تعلیم کے حصول کیلئے سیٹ اپ بناکر اس تاثر کو غلط ثابت کردیا کہ اسلام میں انگریزی کی تعلیم حاصل کرنے میں کسی قسم کی کوئی ممانعت ہے ۔علامہ شیخ محسن نجفی نے جہاں دیگر شعبوں میں نمایاں کردار ادا کیا وہیں گلگت بلتستان بھر میں مساجد و امام بارگاہوں کی تعمیر میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا مساجد اور امام بارگاہوں کی تعمیر پر کروڑوں روپے خرچ کئے ضرورت مندوں کے گھروں میں راشن اور گرم ملبوسات پہنچانے کا بیڑہ بھی شیخ محسن مرحوم کے ادارے نے اٹھا رکھا تھا۔شیخ محسن علی نجفی 1943 میں گلگت بلتستان کے ضلع سکردو سے 60 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع منٹوکھا نامی گاﺅں میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد حسین جان کا شمار اپنے علاقے کے علما میں ہوتا تھا مرحوم نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی 14 سال کی عمر میں والد وفات پاگئے۔ والد کی وفات کے بعد اپنے علاقے کے عالم دین سید احمد موسوی اور آخوند حسین سے لمعہ تک درس پڑھا۔1963 میں محسن نجفی نے سندھ کے مدرسہ مشارع العلوم میں داخلہ لیا اور ایک سال کے عرصے میں درس کے ساتھ ساتھ اردو زبان بھی سیکھ لی سندھ سے آپ نے پنجاب کی طرف رخ کیا اور دارالعلوم جعفریہ خوشاب میں مولانا محمد حسین (آف سدھو پورہ)کی شاگردی اختیار کی اور ایک سال کے بعد جامع المنتظر لاہور میں داخلہ لیا جہاں حسین بخش جاڑا، صفدر حسین نجفی اور بعض دیگر اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ 1966 میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے نجف اشرف چلے گئے جہاں آیت اللہ خوئی اور شہید باقر الصدر اور بعض دیگر اساتذہ سے علم حاصل کیا عراق میں بعثی حکومت کی طرف سے دینی مراکز کو لاحق خطرات کے باعث شیخ محسن نجفی واپس پاکستان آئے اور اسلام آباد میں جامعہ اہل البیت کی بنیاد ڈالی۔ شیخ محسن علی نجفی فقہ، اصول اور تفسیر قرآن میں تیس سالہ تدریس کا تجربہ رکھتے تھے حوزہ علمیہ نجف اشرف سے پاکستان واپسی کے بعد 1974 سے اب تک مسلسل تدریس میں مشغول رہے آپ کے تدریسی عناوین میں فقہ، اصول، تفسیر، فلسفہ، کلام و عقائد اور اخلاقیات شامل ہیں اور اس وقت جامعہ کوثر اسلام آباد کے سربراہ کے طورپر اپنی خدمات انجام دے رہے تھے مرحوم کی خدمات کی نماز جنازہ میں لوگوں کی کثیر تعداد کو دیکھ کر ہی ان کی خدمات کا اندازہ ہوگیا مرحوم نے دنیا میں مقیم لوگوں کو اپنا گرویدہ بنایا تھا یہی وجہ ہے کہ آج ان کی وفات پر چھوٹی سطح سے لیکر بڑی سطح تک سب لوگ افسردہ ہیں اور ان کی وفات کو ایک قومی سانحہ قرار دیا جارہا ہے یہاں تک بڑے مجتہدین نے بھی شیخ محسن علی نجفی مرحوم کی وفات کو ایک بڑا قومی ملی نقصان قرار دیدیا۔ اس سے یہ ثابت ہے کہ علامہ شیخ محسن علی نجفی مرحوم ایک معمولی ہستی نہیں تھے وہ باعمل باتقوی پرہیز گار عالم دین تھے مرحوم سے پہلی تفصیلی ملاقات 2012 میں جامعہ اہلبیت اسلام آباد میں ہوئی اس سے قبل مختلف تقریبات میں ان کی زیارت ہوتی رہی تھی 2012 میں مجھے کسی نے کہاکہ شیخ صاحب کے دل کا آپریشن ہوا ہے میں نے ان کی خیریت دریافت کرنا غنیمت جانا اور جامعہ اہلبیت میں گیا جہاں ان سے ملاقات ہوئی پاس بیٹھے میرے دوست نے میرا ان سے تعارف کرایا جوں ہی میرا نام لیا شیخ صاحب مسکرا کر بولے اچھا بڑی بڑی سرخیوں پر نام آنے والے اسحاق جلال آپ ہو میں نے سر ہلایا اور کہاکہ جی قبلہ وہی گنہگار میں ہوں کچھ دیر شیخ صاحب سے صحافتی معاملات پر گفت شنید ہوتی رہی پھر شیخ صاحب نے فرمایا کہ اچھا ہوا آپ یہاں آئے ہیں تو آپ سے ایک فائدہ اٹھالوں گا ۔میں نے کہاکہ قبلہ حکم فرمائیں شیخ صاحب فرمانے لگے کہ کل کے اخبار میں میری جانب سے ایک خبر چھاپ دیں جس میں میری جانب سے ان تمام شخصیات کا شکریہ ادا کیا جائے جنہوں نے میری بیماری کے دوران میری عیادت کی ٹیلی فون ای میلز اور دیگر ذرائع سے میری خبر پوچھی اور میری صحت یابی کیلئے دعائیں کرائیں میں نے کہاکہ قبلہ حکم سر آنکھوں پر ہوگا واپس شام کو دفتر پہنچ کر نیوز ڈیسک پر ہمارے استاد باس سید مہدی شاہ مرحوم سے شیخ صاحب سے ہونے والی ملاقات کی تفصیلات بیان کیں اور میں نے کہاکہ شیخ صاحب نے ایک خبر شائع کرنے کی درخواست کی ہے جس میں ان کی طرف سے دروان بیماری ان کی خیریت پوچھنے والوں کا شکریہ ادا کیا جائے بس اتنا کہنا تھا مہدی صاحب نے کہاکہ بیٹا کیوں نہ ہم شیخ صاحب کا کوئی اشتہار نہ چھاپیں میں نے کہاکہ ایسا ہو تو آپ کی بڑی مہربانی ہوگی القصہ فرنٹ پیج پر اظہار تشکر کا اشتہار چھاپا دوسرے روز دن گیارہ بارہ بجے شیخ صاحب کا فون آیا فون اٹینڈ کرتے ہی آگے سے شیخ صاحب فرمانے لگے کہ اسحاق صاحب میں نے چارجز نہ لگنے والے مواد کی اشاعت کی درخواست کی تھی آپ نے اشتہار چھاپ دیا ہے لہذا میں اس کی ادائیگی کرنا چاہتا ہوں میں نے گزارش کی کہ آپ سے کس نے کہاکہ ہم نے پیسوں کیلئے اشتہار چھاپا ہے آپکی خدمات کے صلے میں یہ کیا چیز ہے ہم نے اپنی طرف سے شائع کیا ہے میری بات سننے کے بعد شیخ صاحب دوبارہ فرمانے لگے میں آپ کیلئے دعا گو رہوں گا ۔میں نے گزارش کی کہ آپ کی دعا سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے آپ پوری قوم و ملت کے محسن ہیں وقت گزرتا گیا۔2016 میں جب شیخ صاحب کو اس وقت کی حکومت نے فورتھ شیڈول میں ڈالا تو پورا گلگت بلتستان سراپا احتجاج بن گیا ہم نے سوچا کہ محسن ملت کا ساتھ دینے کا اس سے نادر موقع اور کیا ہوسکتا ہے ہم نے ان کے ساتھ حکومت کی جانب سے کی جانے والی زیادتیوں اور ناانصافیوں کے خلاف قلمی جنگ شروع کی بیس سے پچیس دن ہم نے مسلسل حکومتی زیادتی کے خلاف کمپیئن چلائی اسی کمپین کے دوران شیخ صاحب سے بھی گاہے بگاہے ٹیلی فونک گفتگو ہوتی تھی ایک دفعہ شیخ صاحب نے فرمایا اسحاق صاحب حکومت نے میری سروسز کو پذیرائی نہیں دی بلکہ الٹا مجھے فورتھ شیڈول میں ڈال دیا البتہ آپکا ایوارڈ میرے اوپر لازم ہوگیا میں نے پھر گزارش کی کہ قبلہ آپ کی خدمات کے عوض میرا یہ چھوٹا عمل آٹے میں نمک کے برابر نہیں ہے یہ سب کچھ اس لئے کیا کیونکہ میں شیخ صاحب کی شخصیت سے بہت ہی متاثر تھا اور ان کی خدمات کا معترف تھا میرے بچے بھی ان کے زیر سایہ چلنے والے سکولوں میں زیر تعلیم ہیں ۔ایک بھتیجا اسوہ سے فارغ ہوکر وکالت کررہا ہے دوسرا بھی حال ہی میں یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری لے چکا ہے اپنی مختصر تحریر کے ذریعے شیخ صاحب کی خدمات کا تو احاطہ نہیں کرسکتا البتہ اتنا عرض ضرور کروں گا ہم اپنے محسنوں کی قدر ان کی حیات میں نہیں کرتے ہیں ہم ایک لحاظ سے مردہ پرست ہوگئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم کسی انسان کی تعریف اس کی زندگی میں کیوں نہیں کرتے ہیں ؟ شیخ محسن علی نجفی مرحوم کی خدمات تاحیات یاد رکھے جانے کی قابل ہیں ہمیں ان کے فرمودات پر عمل کرتے ہوئے ان کے ادھورے مشن کی تکمیل کیلئے کردار ادا کرنا ہوگا اور علاقے میں تعلیم صحت کے شعبے کی ترقی اور فلاح انسانیت کے امور کو انجام دینا ہوگا یہی مرحوم کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔ اللہ تعالی سے ہماری دعا ہے کہ محسن ملت کا سفر آخرت آسان فرمائے ان کے نیک اعمال کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور پسماندگان کو عظیم سانحہ کو برداشت کرنے کا حوصلہ عنایت فرمائے آمین یارب العالمین