عمران خان کا مضمون

سید مجاہدعلی

نگران وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی نے برطانوی جریدے اکنامسٹ میں عمران خان کے نام سے چھپنے والے مضمون پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اس برطانوی جریدے کے ایڈیٹر سے رابطہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سماجی رابطہ سائٹ ایکس پر ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ یہ طریقہ کار حیران کن اور پریشانی کا سبب ہے۔عمران خان نے گزشتہ روز اکنامسٹ میں مہمان کالمسٹ کے طور پر لکھے گئے اپنے مضمون میں شبہ ظاہر کیا تھا کہ شاید ملک میں اعلان کے مطابق انتخاب نہیں ہوں گے۔ انہوں نے تحریک انصاف کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے اس اندیشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ موجودہ منظر نامے میں عام انتخابات کا انعقاد تباہ کن اور مذاق کے مترادف ہو گا ۔ مضمون میں عمران خان نے ان الزامات کا اعادہ کیا کہ امریکی حکومت کے دباﺅ پر ملکی اسٹےبلشمنٹ نے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا اہتمام کیا اور حکومت تبدیل ہوئی۔انہوں نے دعوی کیا ہے کہ انہیں خود مختار خارجہ پالیسی اختیار کرنے کی سزا دی گئی تھی کیوں کہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں 80 ہزار پاکستانیوں کی شہادت کے بعد یہ فیصلہ کرنا اہم تھا کہ کسی پراکسی وار کا حصہ نہ بنا جائے اور پاکستان سب کا دوست ہو۔ عمران خان نے ایک بار پھر دعوی کیا ہے کہ امریکہ کی طرف سے ان کی حکومت کی مخالفت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میں نے امریکہ کو فوجی اڈے دینے سے انکار کیا تھا ۔مضمون میں انہوں نے 9 مئی کے فسادات کو جھوٹا پروپیگنڈا قرار دیا اور دعوی کیا کہ اس کی منصوبہ بندی پہلے سے کی گئی تھی اور جعل سازی سے تحریک انصاف پر اس کا الزام تھوپا گیا ہے۔ انہوں نے اپنے موقف کے جواز میں یہ دلیل پیش کی ہے کہ اس واقعہ کے چوبیس گھنٹے کے اندر تحریک انصاف کے ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ سب منصوبہ بندی پہلے سے کر لی گئی تھی۔یہ مضمون شائع ہونے کے بعد تحریک انصاف نے سرکاری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے لیکن پارٹی کے حامی اس کی تشہیر کرتے ہوئے اسے عمران خان کے اصولی موقف کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ اس دوران میں یہ مباحث بھی دیکھنے میں آئے ہیں کہ کیا یہ مضمون واقعی عمران خان نے لکھا ہے۔ تاہم اکنامسٹ کی ساکھ اور مضمون کے متن کی روشنی میں یہ یقین کرنے میں دشواری نہیں ہونی چاہیے کہ اسے عمران

 خان ہی نے لکھا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ کسی دوسرے شخص نے ان کے خیالات کو قلم بند کیا ہو لیکن لیڈر اور سیاست دان عام طور سے مضامین یا کتابیں اسی طریقے سے لکھتے ہیں اور انہیں صرف اس بنیاد پر جعلی قرار نہیں دیا جاتا کہ متن کو الفاظ کے قالب میں کسی دوسرے شخص نے ڈھالا تھا۔مضمون کے مندرجات پرانے اور عمران خان کے دیرینہ موقف کے عین مطابق ہیں۔ تاہم انہیں برطانیہ کے ایک ممتاز جریدے میں از سر نو بیان کرنے سے عمران خان نے اپنی غیر مصالحانہ حکمت عملی واضح کی ہے۔ سائفر کے حوالے سے انہیں مقدمہ کا بھی سامنا ہے۔ مضمون میں ایک بار پھر سائفر کا حوالہ دے کر دعوی کیا گیا ہے کہ امریکہ کے کہنے پر اس وقت کے پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے تحریک انصاف کی حکومت ہٹانے کی سازش کی تھی۔اور پارلیمنٹ کے ارکان کو سےکیورٹی ایجنسیوں کے ذریعے بہکایا گیا تھا۔ یہ مضمون کسی حد تک سائفر کیس میں استغاثہ کے موقف کو مضبوط کرنے کا سبب بن سکتا ہے کیوں کہ عمران خان اس مضمون میں ایک بار پھر اقرار کر رہے ہیں کہ سائفر میں تحریک انصاف کی حکومت ختم کرنے کا امریکی پیغام بھجوایا گیا تھا۔ اس سے قطع نظر کہ یہ بیان کس حد تک درست ہے، اصل مقدمہ یہ ہے کہ عمران خان کو وزیر اعظم کے طور پر جو خفیہ معلومات حاصل ہوئی تھیں، کیا انہیں سیاسی مقاصد کے لئے عام جا سکتا تھا۔ عمران خان بظاہر اسے جائز اور درست طریقہ سمجھتے ہیں۔ استغاثہ اکنامسٹ کے مضمون کو ان کے اعتراف جرم کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔مضمون اور عمران خان کی قانونی و سیاسی پوزیشن سے قطع نظر اس مضمون پر نگران وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی کی پریشانی دلچسپ اور باعث استعجاب ہے۔ اگرچہ انہوں نے اکنامسٹ کی ادارتی حکمت عملی کے بارے میں کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ایکس پر اپنے بیان میں نگران وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ ہم دی اکانومسٹ کے ایڈیٹر کو اس مضمون کے بارے میں لکھ رہے ہیں جو مبینہ طور پر عمران خان نے لکھا ہے۔ یہ حیران کن اور پریشانی کا سبب ہے کہ ایک موقر میڈیا آﺅٹ لیٹ نے ایک ایسے فرد کے نام سے مضمون شائع کیا ہے جو جیل میں ہے اور اسے سزا سنائی گئی ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ اخلاقی معیار کو برقرار رکھنا اور ذمہ دارانہ صحافت کو فروغ دینا بے حد ضروری ہے۔ ہم جاننا چاہیں گے کہ ادارتی فیصلہ کیسے کیا گیا اور دی اکانومسٹ کی طرف سے مواد کی قانونی حیثیت اور اعتبار کے حوالے سے کن باتوں کو مدنظر رکھا گیا۔ ہمیں یہ جاننے میں بھی دلچسپی ہو گی کہ کیا دی اکانومسٹ نے کبھی دنیا کے کسی دوسرے حصے سے جیل میں قید سیاستدانوں کے ایسے گھوسٹ مضامین شائع کیے ہیں؟ اگر جیل میں بند مجرم میڈیا کو لکھنے میں آزاد ہوتے، تو وہ اپنی یک طرفہ شکایات کو نشر کرنے کے لیے ہمیشہ موقع کا استعمال کرتے ۔سب سے پہلے تو وزیر اطلاعات کی یہ غلط بیانی نوٹ کرنی چاہیے کہ عمران خان مجرم ہیں۔ انہیں توشہ خانہ کیس میں سزا ضرور سنائی گئی ہے جسے ہائی کورٹ نے معطل کر دیا ہے۔ ٹرائل کورٹ کے فیصلہ کے خلاف ان کی اپیل ابھی ہائی کورٹ میں زیر غور ہے۔ جب تک ملک کی اعلی ترین عدالت اس سزا کی توثیق نہ کردے، کسی ٹرائل کورٹ کے فیصلہ کی بنیاد پر عمران خان یا کسی بھی شخص کو مجرم کہنا درست نہیں۔ عمران خان اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف یہی ہتھکنڈا استعمال کرتے رہے ہیں لیکن محض اس عذر پر نگران حکومت کے نمائندے کو ان کے بارے میں ویسا ہی لب و لہجہ اختیار کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔وزیر اطلاعات نے ایک غیر ملکی جریدے کے ایڈیٹر کو خط لکھ کر صحافتی اخلاق اور ذمہ داری کے بارے میں وضاحت مانگنے کی بات کی ہے۔ لیکن اکنامسٹ پاکستان سے شائع ہونے والا کوئی جریدہ نہیں ہے جسے کوئی بھی حکومت دھونس سے کوئی اعتراف کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ کسی بھی خود مختار میڈیا کے طور پر اکنامسٹ نے ضرور یہ فیصلہ لیتے ہوئے تمام پہلوﺅں کا جائزہ لیا ہو گا لیکن وہ پاکستانی حکومت کے نمائندے کو اس بارے میں وضاحت دینے کا پابند نہیں ہے۔ البتہ اگر اس مضمون میں کسی برطانوی قانون کی خلاف ورزی نوٹ کی جائے تو حکومت پاکستان کسی برطانوی عدالت کے ذریعے ضرور اکنامسٹ کو جوابدہ قرار دینے کی کوشش کر سکتی تھی۔ البتہ ازالہ حیثیت عرفی کے قانون کا اطلاق عام طور سے کسی فرد پر ذاتی الزامات سے ہوتا ہے۔ اس

 مضمون میں ایسا کوئی اشارہ موجود نہیں ہے۔مرتضی سولنگی خود ایک تجربہ کار صحافی ہیں۔ انہیں یہ علم ہونا چاہیے کہ کسی جریدے کا ادارتی بورڈ اپنے فیصلوں کے بارے میں گفتگو کرنا پسند نہیں کرتا۔ اس کے علاوہ حکومت پاکستان کا نمائندہ ہونے کے طور پر نگران وزیر اطلاعات کس صحافتی اخلاقیات کی بات کر رہے ہیں؟ پاکستان میں میڈیا کو ہر طرح سے پابند کیا گیا ہے اور حکومت و ریاستی ادارے، قومی ٹیلی ویژن یا اخبارات میں آنے والے مواد کو ہر طرح کنٹرول کرتے ہیں۔ حتی کہ الیکشن کمیشن جسے انتخابات کے انعقاد کا ذمہ دار ادارہ ہونے کے طور پر جمہوری روایت اور آزادی رائے کا پاسبان ہونا چاہیے، میڈیا کو ہدایت نامہ جاری کر کے یہ تک حکم دے رہا ہے کہ کوئی میڈیا انتخابات کے بارے میں رائے عامہ کا کوئی جائزہ تک شائع یا نشر نہیں کر سکتا۔ ایسی حکومت اور ملک کے نمائندے کو اکنامسٹ کا ایڈیٹر کیوں توجہ کا مستحق سمجھے گا؟تجربہ کار صحافی کے طور پر مرتضی سولنگی کا یہ دعوی غلط ہے کہ کوئی میڈیا کیسے کسی ملک کی جیل میں قید ایک شخص کا یک طرفہ مضمون شائع کر سکتا ہے۔ ایک تو عمران خان کوئی اخلاقی مجرم نہیں ہیں۔ ان پر بنائے گئے مقدمات ان کی سیاسی حیثیت کی وجہ سے قائم ہوئے ہیں اور جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے، موجودہ حالات تبدیل ہونے پر یہ مقدمے بھی ختم ہوجائیں گے یا عدالتیں انہیں تبدیل کر دیں گی جیسا کہ اس وقت نواز شریف کے خلاف تمام الزامات مسترد کر دیے گئے ہیں۔عمران خان کی ایک پبلک حیثیت اور اپیل ہے۔ انہیں پاکستان ہی نہیں عالمی منظر نامے پر بھی شناخت کیا جاتا ہے۔ اس لیے کسی بھی اخبار یا جریدے کا مدیر ایسے کسی بھی لیڈر کا مضمون ضرور شائع کرے گا۔ اس کے لیے اسے کوئی مثال تلاش کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ حقیقت ہی کافی ہے کہ دنیا بھر میں لوگ اس شخص کی باتوں کو سننا یا پڑھنا چاہتے ہیں۔ ایسا کرنے والے کسی بھی ایڈیٹر کو دیانت دارانہ صحافت سے گریز کا الزام نہیں دیا جاسکتا۔

 مرتضی سولنگی نے عمران خان کے مضمون پر غیر ضروری طور سے ایک مضحکہ خیز بیان جاری کیا ہے حالانکہ نگران حکومت کا نمائندہ ہونے کے طور پر ان کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہونا چاہیے۔عمران خان نے البتہ اس مضمون کے ذریعے تحریک انصاف کی یہ پوزیشن واضح کی ہے کہ اول تو انہیں انتخابات کی امید نہیں ہے اور اگر موجودہ حالات میں تحریک انصاف کو پابند کر کے ایک جانبدار الیکشن کمیشن انتخابات کروا بھی دے جن میں ان کے بقول نواز شریف نے اسٹےبلشمنٹ سے ساز باز کر رکھی ہے، تو اس سے تباہ کن حالات پیدا ہوں گے جو ملکی معیشت کو مزید نیچے لے جائیں گے۔ عمران خان درحقیقت یہ اعلان کر رہے ہیں کہ اگر انہیں مرضی کے انتخابات نہیں دیے جاتے تو انہیں بھی ملکی معیشت کی بحالی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔تحریک انصاف نے حال ہی میں آئی ایم ایف سے ملاقات کر کے واضح کیا تھا کہ پی ٹی آئی پاکستان کو قرض دینے کی حمایت نہیں کرتی کیوں کہ ملک میں شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔ عمران خان کے مضمون کے بین السطور یہی کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف کے نزدیک شفاف انتخابات وہی ہوں گے جن کے نتیجے میں انہیں اقتدار مل جائے۔اس معاشی و سیاسی ایجنڈے پر اصرار کرنے کے علاوہ عمران خان نے امریکی سازش کا الزام دہرا کر اور سانحہ 9 کو جعلی فلیگ آپریشن قرار دے کر درحقیقت ریاست سے براہ راست تصادم کا اعلان کیا ہے۔ 9 مئی کے واقعات کو پولیس مقابلے قسم کی جعل سازی کہہ کر عمران خان درحقیقت کوئی بھی متوازن اور مفاہمانہ طرز عمل اختیار کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ اس پالیسی کی حکمت تو وہ خود ہی جانتے ہوں گے لیکن یہ طرز عمل عمران خان اور تحریک انصاف کی مشکلات میں اضافہ کا سبب بنے گا۔ اس سے درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کرنے والے تحریک انصاف ہی کے بعض ذمہ دار لیڈروں پر اعتبار کرنا مزید مشکل ہو جائے گا۔