موروثی سیاست،پاکستانی سیاستدانوں کا امتحان

 نثار حسین

 پاکستان میں ہمیشہ سے موروثی سیاست کو ہدف تنقید بنایا جاتا رہا ہے حالانکہ کسی کو اس بنا پر سیاست میں حصہ لینے سے نہیں روکا جا سکتا کہ اس کے باپ دادا بھی سیاستدان ہیں۔ آئین میں بھی سیاست دانوں کی اولاد اور رشتہِ داروں پر انتخابات میں حصہ لینے پر کوئی پابندی نہیں ،سیاستدانوں کے لیے ڈگری نہیں ،دور اندیشی بالغ نظری فہم و فراست، ڈپلومیسی بہادری اور برداشت ضروری ہے ،اگر نوجوان سیاست میں حصہ نہیں لیتے اور میدان بھی خالی ہے تو یقینا موروثی سیاست دان تو آگے آئیں گے اگر جرنیل کا بیٹا جرنیل ڈاکٹر کا بیٹا ڈاکٹر ،صحافی کا بیٹا صحافی ، آرٹسٹ کا بیٹا آرٹسٹ بن سکتا ہے تو پھر سیاستدان کا باصلاحیت بیٹا سیاست میں صرف اس لئے حصہ نہ لے کہ وہ سیاستدان کا بیٹا ہے ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بعض اوقات صلاحیتوں کے بل بوتے پر بیٹے، بیٹی نے باپ سے بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا، موروثی سیاست اتنی آسان نہیں اس کے لئے بھی عوامی حمایت ضروری ہے۔ موروثی سیاستدان بیساکھیوں کے سہارے نہیں بلکہ ایک جمہوری طریقہ کار کے تحت سیاست میں آتے ہیں قومی سطح پر بلاول بھٹو زرداری ،مریم نواز ،حمزہ شہباز، مولانا سعد الرحمن سمیت متعدد مثالیں موجود ہیں ،صرف اس نقطے پر سیاست دانوں کوہدف تنقید بنانا درست نہیں بلکہ سب سے بڑی درسگاہ تو یقینی طور پر بچے کا اپنا گھر ہوتا ہے جو کچھ بچہ ماں ،باپ سے سیکھ لیتا ہے دنیا کی کوئی یونیورسٹی احسن سلیقے سے نہیں سکھا سکتی ،ان حالات میں اگر کوئی اپنی مرضی سے ماں باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سیاست میں قدم رکھے تو اسے کھلے دل سے قبول کرنا چاہئے یہ کوئی معیوب بات نہیں ،ہمارے ہاں مورثی سیاست کا لیبل لگاکر اس معاملے کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔موجودہ عام انتخابات میں بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ نوجوان قیادت سامنے نہیں آرہی ،یوں سیاسی خاندانوں کے خانوادے اور عزیز و اقارب بڑی تعداد میں امیدوار ہیں ،خیبرپختونخوا میں امیدواروں کا جائزہ لیتے ہیں کہ امیدوار کا تعلق کس خاندان اور کس سیاستدان سے کیا رشتہِ ہے؟جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے پانچ رشتہ دار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔مولانا فضل الرحمان نے خود آبائی حلقہ این اے 44 ڈی آئی خان اور پشین سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں جبکہ ان کے بھائی مولانا لطف الرحمان نے پی کے 113 ڈی آئی خان اور مولانا عبیدالرحمان این اے 44 اور پی کے 111 سے میدان میں اترے ہیں۔مولانا فضل الرحمان کے فرزند سابق وفاقی وزیر مولانا اسعد محمود این اے 43 ٹانک اور مولانا اسجد محمود این اے 41 لکی مروت سے الیکشن لڑنے کے لیے تیار ہیں ۔اسی طرح خٹک خاندان سے پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین کے سربراہ پرویز خٹک نے نوشہرہ سے قومی اسمبلی کے حلقہ اور دو صوبائی نشستوں کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں۔ ان کے بیٹوں ابراہیم خٹک پی کے 85 اور اسماعیل خٹک پی کے 86 سے میدان میں ہیں جبکہ ان کے داماد عمران خٹک بھی قومی اسمبلی کی نشست کے امیدوار ہیں۔پرویز خٹک کے ناراض بھائی لیاقت خٹک اور ان کے فرزند احد خٹک جمیعت علمائے اسلام کے پیلٹ فارم سے الیکشن لڑیں گے۔ جمعیت علما اسلام کے رہنما سابق وفاقی وزیر اکرم خان درانی قومی اور صوبائی نشست پر الیکشن لڑیں گے ، ان کے بیٹے سابق ڈپٹی سپیکر زاہد اکرم درانی این اے 39 کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں، جبکہ چھوٹے بیٹے زوہیب درانی پی کے 100 سے میدان میں اتریں گے ۔اکرم خان درانی کے چچا زاد بھائی اعظم خان درانی بھی صوبائی نشست کے لیے امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ڈیرہ اسماعیل خان کے گنڈاپور خاندان سے سابق وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور قومی اور صوبائی اسمبلی کی سیٹوں کے امیدوار ہیں جبکہ ان کے بھائی فیصل امین اور ان کی اہلیہ بھی صوبائی نشست پر کاغذات نامزدگی جمع کروا چکی ہیں۔علی امین گنڈاپور نے اپنے والد میجر ریٹائرڈ امین اللہ گنڈاپور کو این اے 44 سے میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مسلم لیگ نون کے رہنما امیر مقام قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشست کیلئے کاغذات جمع کروا چکے ہیں ان کے بھائی ڈاکٹر عباد الحق اور بیٹے نیاز احمد خان نے بھی شانگلہ کی صوبائی اور قومی نشست کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔پشاور سے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما ارباب عالمگیر قومی اسمبلی اور ان کے بیٹے ارباب زرک خان صوبائی سیٹ کے امیدوار ہیں جبکہ اہلیہ عاصمہ عالمگیر بھی خواتین کی مخصوص نشست پر کاغذات جمع کرا چکی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ارباب شیر علی اس بار پھر قومی اسمبلی کی نشست کے لیے امیدوار ہیں اور ان کے بھائی ارباب محمد علی نے صوبائی نشست کے لیے کاغذات جمع کروائے ہیں۔قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب خان شیرپاﺅ نے این اے 24 اور ان کے بیٹے سکندر خان شیرپاﺅ نے پی کے 62 سے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں۔ ا گرچہ موروثی سیاست دنیا کے ہر ملک میں موجود ہے مگر ترقی پذیر ممالک میں خاندانوں کی سیاست کچھ زیادہ ہے۔ موروثی سیاست سے نظریاتی کارکنوں میں بے چینی بڑھتی ہے اور اکثر ورکرز اپنے قائدین سے ناراض ہوجاتے ہیں مگر یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے ۔ سیاست میں ریاست کا ہر شہری حصہ لے سکتا ہے تو پھر اس معاملے کو عوام کے مزاج اور قبولیت دینے پر چھوڑ دینا ہی زیادہ بہتر ہوگا ۔ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن میں امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال مکمل ہو چکی ہے ۔اپیلوں اور کاغذات نامزدگی واپس لینے کے بعد امیدواروں کی حتمی فہرست 12 جنوری کو جاری ہو گی۔اس طرح الیکشن کی گہما گہمی بھی بام عروج کو پہنچے گی اور سیاستدانوں کی صلاحیت اور مقبولیت کا بھی عوام کو پتہ چل جائے گا ۔پاکستان کے الیکشن ایک طرح سے سیاستدانوں کے لئے بھی امتحان ثابت ہونگے ،دیکھتے ہیں اس میں کون کس طرح سرخرو ہوتا ہے ؟