نجیب قاسمی
عالمی ادارہ ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے213صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ آئی تھی کہ اسرائیل مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں اور اپنے عرب شہریوں کے خلاف ریاستی جبر واستبداد، ظلم وجبر اور نسلی امتیاز کے جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اس رپورٹ کے آنے کے بعد، کچھ زندہ دل اور انسانیت پسند لوگ اس پر اپنے رد عمل کا اظہار کر تے ہوئے مذمتی بیان دیہی رہے تھے کہ گذشتہ جمعہ 7مئی 2021 سے ایک بار پھر غاصب ریاست کی قابض دہشت گرد فوج نے مسجد اقصی میں روزہ داوں اور نمازیوں پر حملہ کر کے اپنی بربریت ودرنگی اور جبر واستبداد کا نیا ثبوت پیش کر دیا۔ اس دن سے اب تک فلسطینیوں کے خلاف ریاستی سطح پر دہشت گردانہ عمل جاری ہے۔ اب مشرقی بیت المقدس کے ساتھ ساتھ غزہ کی پٹی وغیرہ میں بھی اسرائیل قابض فوجوں نے بمباری شروع کردی ہے۔ اس اسرائیلی دہشت گردی میں اب تک کئی معصوم جانیں شہید ہوچکی ہیں۔اس دفعہ اسرائیلی دہشت گردی کی ابتدا کی وجہ یہ ہوئی کہ مشرقی بیت المقدس کا ایک علاقہ شیخ جراح ہے۔ ظالم غاصب دہشت گرد اسرائیل کا یہ معمول ہے کہ اپنی دہشت گردی کے ذریعے نہتے فلسطینیوں کو فلسطین کے مختلف مقبوضہ علاقوں سے زبردستی خالی کراکر، یہودی بستی تعمیر کرتا ہے۔ یہ نہایت ہی شرم کا مقام ہے کہ وہاں عدالت میں بیٹھے ججز بھی اپنی حکومت کے اس بدبختانہ عمل میں، ایک عرصے سے معین ومددگار رہے ہیں اور وہ اپنے فیصلے سے حکومت کو اس حوالے سے مدد کرتے رہے ہیں۔ ابھی پچھلے ہفتے اسرائیل کے سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ سنایا کہ مشرقی بیت المقدس کے علاقہ شیخ جراح میں بس رہے فلسطینی مسلمان اپنے مکانوں کو خالی کردیں۔ اس فیصلہ کا مقصد یہ ہے کہ شیخ جراح میں یہودی بستی تعمیر کی جائے اور وہاں یہودی آبادکاروں کو آباد کیا جاسکے۔ جن مکانوں کے مکینوں کو اپنے مکانات خالی کرنے کا حکم دیا گیا ہے، وہ سب کے سب شیخ جراح کے باشندے ہیں۔ وہاں کئی دہائیوں سے بسے ہوئے ہیں۔ اس بنیاد پر یہ بات بغیر کسی شک وشبہ کے کہی جاسکتی ہے کہ تاریخ اس طرح کے سارے فیصلوں کو سیاہ ترین فیصلے کے طور پر یاد رکھے گی۔ یہ قابل افسوس بات ہے کہ اسی شیخ جراح سے 2002 میں 43 فلسطینیوں کو اپنے گھروں کو چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور کیا گیا اور انہیں ہجرت کرنی پڑی۔ یہی دہشت گردانہ عمل 2008 اور 2017 میں بھی پیش آیا اور کئی فلسطینی خاندانوں کو اپنے گھروں کو دہشت گردوں کے حوالے کرکے ہجرت کرنا پڑی۔غاصب ریاست کے اشارے پر، ظلم وجبر پر مبنی دیا گیا یہ ایسا فیصلہ ہے کہ اسے کوئی بھی شخص قبول نہیں کرسکتا ہے۔ یہ کیسی مضحکہ خیز بات ہے کہ ایک ملک کی سپریم عدالت ایک گھر کے باشندے کے خلاف یہ حکم جاری کردے تم اپنے گھر کو اپنے دشمنوں کے لیے خالی کردو اس طرح کاظالمانہ فیصلہ کوئی آدمی قبول بھی کیسے کرسکتا ہے؛ چناں چہ یہ فیصلہ قبول نہیں کیا گیاپھر اسرائیلی فوج ان گھروں میں آباد فلسطینیوں کو وہاں سے طاقت کے ذریعے بے دخل کرنے کا عمل شروع کردیا۔ اس طرح کے کسی بھی فیصلے کے خلاف عوامی رد عمل کا سامنے آنا فطری امر ہے؛ چنانچہ اس فیصلے سے ناراض فلسطینی عوام نے احتجاج شروع کردیا۔ انہوں نے سڑکوں پر آکر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس فیصلے کی مخالفت کا اعلان کر دیا۔ عوامی احتجاج سے ناراض اسرائیلی قابض فوجیوں نے پہلے ان مظاہرین پر حملہ کیا۔ پھر اسرائیلی فوج اور یہودی آباد کاروں کی ایک بڑی تعداد،مسجد اقصی کے احاطے میں داخل ہوگئی۔ انہوں نے وہاں موجود نمازیوں اور روزہ داروں پر حملہ شروع کر دیا۔ اس حملہ میں میں درجنوں فلسطینی زخمی ہوئے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ مشرقی بیت المقدس یہ وہ شہر ہے جسے اسرائیل نے 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے موقع سے قبضہ کرلیا تھا۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کئی بار یہ بات کہہ چکی ہے کہ مشرقی بیت المقدس پر اسرائیل کا قبضہ غیر قانونی ہے۔ وہاں یہودی آبادکاروں کو بسانا غیر قانونی اور جرم ہے۔ اسرائیل کے اس عمل سے معاملات سلجھنے کے بجائے مزید الجھیں گے۔ ابھی حال ہی میں یورپ کے پانچ ممالک: فرانس، جرمنی، اسپین، اٹلی اور برطانیہ نے اپنے مشترکہ بیان میں اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تمام مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی توسیع کی پالیسی کو منجمد کرے۔اب مشرقی بیت المقدس کے یہودی آبادکاروں نے اس شہر پر اسرائیلی قبضہ کو قوت بخشنے اور قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے قانونی جنگ چھیڑ دی ہے۔ یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ اسرائیلی عدالت سے فلسطینیوں کے حق میں فیصلے کا آنا تقریبا ناممکن ہے۔ مشرقی بیت المقدس کی حقیقت یہ ہے کہ یہاں مسجد اقصی واقع ہے۔ یہ مسجد مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔ یہ شہر فلسطین کا اہم حصہ ہے۔ فلسطینی اس مقام کو مستقبل میں قائم ہونے والی ریاست فلسطین کا دار الحکومت مانتی ہے۔مشرقی بیت المقدس میں کے علاقہ شیخ جراح اورمسجد اقصی میں اپنی دہشت گردی کاروائی کے ساتھ ساتھ اب اسرائیل دہشت گرد فوجیوں نے غزہ کی پٹی پر بھی فضائی حملہ شروع کردیا ہے۔ فضائی حملے کے ساتھ ساتھ، غزہ کی سرحد پر بھی اسرائیل اپنے فوجیوں کی تعداد بڑھا رہا ہے۔ اس حملے میں اب تک حماس کے زیر استعمال عمارت، غزہ کی پٹی میں پولیس کمان کے صدر دفتر کی عمارتیں ، غزہ شہر کے وسط میں رہائشی عمارت الجوہرہ ٹاور اور کئی شہریوں کے مکانات کو نشانہ بناکر انہیں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ کئی سڑکیں بھی ٹوٹ گئی ہیں۔ غزہ کی پٹی کے کئی خاندانوں نے اپنے مکانات چھوڑ کر، نقل مکانی شروع کردی ہے۔ اس دہشت گردانہ فضائی حملہ میں، غزہ کی وزارت صحت کی طرف سے جاری رپورٹ کے مطابق، اب تقریبا250 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں ہزاروں شہری زخمی بھی بتائے جارہے ہیں۔ سیکڑوں معصوم اور نہتے فلسطینیوں کو قید کرکے پس زنداں کردیا گیا۔ غزہ کی پٹی فلسطین کا وہ حصہ ہے جو بہت ہی زیادہ گنجان آبادی پر مشتمل ہے۔ ایک سروے کے مطابق غزہ پٹی کی موجودہ آبادی دو ملین سے زیادہ ہے۔حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈکی طرف سے جاری دفاعی کارروائی میں، سیکڑوں راکٹ غاصب اسرائیل پر داغے گئے ہیں۔ جن سے اسرائیل کے کئی شہر مثلا: تل ابیب، بیئر شیبہ، اسدود اور عسقلان بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ القسام کی طرف سے داغے گئے راکٹ کی زد میں ان شہروں کے علاوہ گیس پائپ لائن اور نیو کلیر ری ایکٹر بھی آئے ہیں؛ جب کہ اسرائیل کے پاس آئیرن ڈرون جیسا دفاعی نظام موجود ہے۔ غزہ کی پٹی سے فائر کیے گئے راکٹ کے حملوں میں تقریبا دس اسرائیلی شہریوں کے ہلاک اور متعدد لوگوں کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔اسرائیلی فوج فلسطینیوں کے ساتھ روز وشب جو کارروائی کر رہی ہے، وہ صاف طور پر دہشت گردی ہے۔ دومئی کی شام کو غرب اردن کے جنوبی شہر بیت لحم کے نواحی علاقے نحالین سے تعلق رکھنے والی ایک ساٹھ سالہ بوڑھی خاتون: رحاب محمد موسی خلف زعول کو مقبوضہ مغربی کنارے کے جنوبی شہربیت لحم میں، ایک اسرائیل فوجی نے اپنے بندوق کی گولی سے اس کے سر پر حملہ کردیا۔ وہ بوڑھی خاتون اسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاکر، دم توڑ گئی ۔ دہشت گرد اسرائیلی فوجی نے اپنے اس دہشت گردانہ عمل کو جواز فراہم کرنے کیلیے یہ کہانی سنانا شروع کردیا کہ وہ خاتون چاقو سے حملے کی منصوبہ بندی کررہی تھی۔ جب کہ دوسری طرف ایک ویڈیو فوٹیج اس واقعہ کی پورے طور پر تردید کر رہی ہے۔ اس ویڈیو فوٹیج سے یہ پتہ چل رہا ہے کہ دہشت گرد اسرائیلی فوجی ایک نہتی خاتون پر بندوق تانے اسے پیچھے ہٹنے کو کہہ رہا ہے۔ پھر اس خاتون کے سر میں گولی مار دیتا ہے۔ایک غاصب ریاست اپنی فوجی طاقت وقوت کے بل پر بار بار مسجد اقصی کی بے حرمتی کرتی ہے۔ وہ نہتے فلسطینی مرد وخواتین اور بوڑھے بچوں پر بغیر کسی امتیاز کے حملہ کرتی ہے۔ ہر وقت ایک نہ ایک شخص دہشت گرد فوجی کی گولی کا شکار بنتا ہے۔ جب یہ خبر عوام تک پہنچتی ہے؛ تو ان کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔یہ اسرائیل دہشت گردانہ حملہ نہ صرف امت مسلمہ؛ بل کہ انصاف پسندپوری انسانیت کے ضمیر کو زخمی کرتا ہے کہ آخر فلسطینی بھی تو انسان ہیں اور ان کو بھی اپنی سرزمین پر پورے شان وشوکت کے ساتھ جینے کا پورا حق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ57 مسلم ممالک قبلہ اول کے دفاع کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ صرف ایک چیز کی کمی ہے وہ یہ ہے کہ ان ممالک کی صفوں میں حقیقی اتحاد نہیں ہے۔پورے عالم کے مسلمانوں کی اولین خواہش ہے کہ کم از کم قضیہ قبلہ اول کے حوالے سے یہ سارے ممالک میں آپسی اتحاد ہوجائیاوروہ اسرائیل کی ناپاک حرکتوں پر قدغن لگانے کے لیے موثر اقدام کریں۔ وہ مسجد اقصی کا مسئلہ جلد از جلد حل کریں وہ ریاست فلسطین کے قیام کو یقینی بنائیں؛ تاکہ فلسطینی اپنے ملک میں چین وسکون اور اطمینان کے ساتھ رہ سکیں۔ انہیں ادھر ادھر بھٹکنا نہ پڑے۔ ان مسلم ممالک کے زعما وقائدین قبلہ اول اور فلسطین جیسے اہم مشترکہ قضیے کی طرف توجہ دیتے تو پوری دنیا کے مسلمانوں کی دعائوں سے اپنے دامنوں کو بھر لیتے۔