کون انتخابات میں تعطل چاہتا ہے؟

سید مجاہد علی

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل نے حلقہ بندیوں اور انتخابی طریقہ کار میں عدم توازن پر سوال اٹھاتے ہوئے موجودہ الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں شفاف انتخابات کے انعقاد پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ دونوں تنظیموں کی طرف سے علیحدہ علیحدہ بیانات میں ایک ہی موقف اختیار دہرایا ہے۔ وکلا تنظیموں کا کہنا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر نے سیاسی بنیاد پر اضافی حلقے بنائے ہیں اور حلقہ بندیوں میں سنگین بے قاعدگیاں موجود ہیں۔واضح رہے گزشتہ روز ہی سپریم کورٹ نے گزشتہ روز دو حلقہ بندیوں کے حوالے سے بلوچستان ہائی کورٹ کا فیصلہ مسترد کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ انتخابی شیڈول کے اعلان کے بعد حلقہ بندیوں پر اعتراضات نہیں کیے جا سکتے۔ جسٹس طارق مسعود کی سربراہی میں سہ رکنی بنچ نے کہا تھا کہ 8 فروری کو بہرصورت انتخابات ہوں گے اور اس حوالے سے کوئی ہتھکنڈا قابل قبول نہیں ہوگا۔ بنچ میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ بھی شامل ہیں۔ جسٹس طارق مسعود نے عدالتی کارروائی کے دوران حیرت کا اظہار کیا کہ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ ہر کوئی کیوں انتخابات ملتوی کروانا چاہتا ہے ۔ اس سے پہلے 13 دسمبر کو سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے انتخابات کی نگرانی کرنے والے ریٹرننگ افسروں کی تعیناتی کے معاملے پر حکم امتناع منسوخ کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو فوری طور سے انتخابی شیڈول کا اعلان کرنے کا حکم دیا تھا۔ واضح رہے کہ 12 دسمبر کو بلوچستان ہائی کورٹ نے صوبے کی دو حلقہ بندیوں پر حکم امتناع جاری کیا تھا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اس مقدمہ کی سماعت کے دوران واضح کیا کہ کسی ایک فرد کی شکایت پر پورے انتخابی عمل کو روکا نہیں جاسکتا۔ ہم نے اس حوالے سے ایک لائن کھینچ دی ہے اور حد مقرر کردی گئی ہے۔13 دسمبر کو لاہور ہائی کورٹ کے حکم کو مسترد کرتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے بھی یہی واضح کیا تھا کہ انتخابات میں التوا کا کوئی طریقہ سپریم کورٹ کے لیے قابل قبول نہیں ہو گا۔ اب ملک کی دو بڑی وکلا تنظیموں نے حلقہ بندیوں پر اعتراضات کے علاوہ چیف الیکشن کمشنر پر براہ راست تنقید کی ہے اور انہیں مستعفی ہونے کا مشورہ دیا ہے۔ شیڈول کے مطابق انتخابات کے انعقاد سے چھے ہفتے قبل سنگین الزامات کے ساتھ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کی ساکھ پر حملے کا بظاہر ایک ہی مقصد ہو سکتا ہے کہ کسی بھی طرح انتخابات ملتوی ہوجائیں۔ ان حالات میں جسٹس طارق مسعود کا سوال بروقت اور اہم ہے کہ آخر انتخابات میں روڑے اٹکانے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے ۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایگزیکٹو کمیٹی کے 26 ویں اجلاس کے دوران واضح کیا گیا کہ انتخابات کا بروقت انعقاد جمہوریت کی بنیاد ہے۔ تاہم شکایات دور کیے بغیر انتخابی ٹائم لائن پر عمل سے ملک میں استحکام کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ انتخابی نظام میں کمزوریوں کو دور نہ کر کے پورے انتخابی عمل کو مشتبہ بنایا گیا ہے اور اس کے نتائج کے بارے میں سنگین سوالات سامنے آئے ہیں۔ اس لیے ان معاملات پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ قومی انتخابات اور وسائل کے تحفظ کے لیے ان معاملات کو موثر طریقے سے حل کیا جائے۔ انتخابات آزادانہ ماحول میں شفاف طریقے سے منعقد ہونے چاہئیں اور سب اسٹیک ہولڈرز کو انتخاب میں حصہ لینے کا مساوی موقع ملنا چاہیے۔ تاہم سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا خیال ہے کہ موجودہ الیکشن کمشنر کی نگرانی میں یہ مقاصد حاصل نہیں ہوسکتے اس لئے انہیں گھر جانا چاہیے ۔مختلف حلقہ بندیوں پر اعتراض کرتے ہوئے پاکستان بار کونسل کے چیئرمین حسن رضا پاشا اور وائس چیئرمین ہارون الرشید نے بھی ایک بیان میں اسی قسم کی تشویش کا اظہار کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں شفاف انتخابات نہیں ہوسکتے۔ موجودہ حالات میں بار کونسل آنکھیں بند نہیں کر سکتی۔ بار کونسل کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کو ملک کی اعلی ترین آئینی عدالت کے طور پر ان بے قاعدگیوں کا نوٹس لینا چاہیے ۔ بار کونسل نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ساتھ مل کر موجودہ حالات میں مناسب اقدام کے لیے حکمت عملی تیار کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ اس دوران الیکشن کمیشن نے ایک بیان میں وکلا تنظیموں کی طرف سے حلقہ بندیوں کے حوالے سے لگائے گئے الزامات کو مسترد کیا ہے۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل ملک کے و کلا کی معتبر اور نمائندہ تنظیمیں ہیں۔ ملکی وکیلوں نے انتخابی عمل اور انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے طویل جد و جہد بھی کی ہے لیکن یہ بھی واضح ہے کہ ملک کے متعدد ممتاز وکیل پارٹی سیاست میں ملوث ہوتے ہیں اور ان کے خیالات خالصتا قانونی یا متوازن نہیں ہوتے۔ بعض اوقات وکلا تنظیموں میں سیاسی اثر و نفوذ کی بنیاد پر بھی ایک خاص سیاسی نقطہ نظر کو سامنے لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ انتخابات منعقد ہونے سے چند ہفتے پہلے دو اہم وکلا تنظیموں کی طرف سے جو مطالبات سامنے آئے ہیں، ان کی روشنی میں صورت حال کا جائزہ لیا جائے اور قیاس کیا جائے کہ یہ مطالبات پورے ہونے چاہئیں تو یہ امر یقینی ہو گا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق عام انتخابات 8 فروری کو منعقد نہیں ہوسکتے۔ کیا ملک کی نمائندہ وکلا تنظیمیں واقعی یہ افسوسناک مقصد حاصل کرنا چاہتی ہیں؟ یا انہیں چیف الیکشن کمشنر کے استعفے اور حلقہ بندیوں میں تبدیلی کا مطالبہ کرتے ہوئے اوقات کار کی اہمیت اور ان کے متوقع اثرات کا اندازہ نہیں ہے؟یوں بھی وکلا تنظیمیں انسانی حقوق، آزادی رائے، سیاسی سرگرمیوں کی آزادی اور جمہوریت کے لیے تو آواز بلند کرتی رہی ہیں اور ایسا کرنے سے ملکی جمہوریت کو فائدہ بھی ہوتا ہے لیکن وکلا تنظیمیں بہر حال کوئی سیاسی جماعت نہیں ہیں۔ اس لیے پاکستان بار کونسل کی طرف چیف الیکشن کمشنر پر ذاتی حملے کرتے ہوئے حلقہ بندیوں پر اعتراضات کا کوئی جواز قابل فہم نہیں ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل کا یہ موقف بھی اصولی نہیں ہے کہ شفاف انتخابات کے لیے چیف الیکشن کمشنر مستعفی ہوجائیں کیوں کہ ان کی نگرانی میں منصفانہ انتخابات منعقد نہیں ہوسکتے۔ ایک فرد کے خلاف الزام تراشی، کسی سیاسی پارٹی کا وتیرہ تو ہو سکتا ہے لیکن وکلا تنظیموں کو ایسے طریقے اختیار کرتے ہوئے احتیاط کرنی چاہیے تاکہ ان کی غیر جانبداری پر سوال نہ اٹھائے جا سکیں۔ان دونوں وکلا تنظیموں کے اعتراضات سپریم کورٹ کی رائے اور حکم سے براہ راست متصادم ہیں۔ اگر ان تنظیموں کے دباﺅ میں چیف الیکشن کمشنر استعفی دے دیتے ہیں تو الیکشن کمیشن کیسے کام کرے گا اور نیا چیف الیکشن کمشنر کون اور کیسے مقرر کرے گا؟ کیا انتخابات سے چند ہفتے پہلے ایسا انتہاپسندانہ مطالبہ کسی خاص سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے سامنے لایا گیا ہے؟ یہ دونوں تنظیمیں الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کے حوالے سے ہونے والے سیاسی مباحث کا مشاہدہ کرتی رہی ہیں لیکن اس سے پہلے ان کی طرف سے چیف الیکشن کمشنر کے استعفے کا مطالبہ نہیں کیا گیا تھا لیکن سپریم کورٹ کے حکم پر انتخابی شیڈول جاری ہونے کے بعد اب ایسے اعتراضات انتخابات کے علاوہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل کے مقاصد اور نیک نیتی کے بارے میں بھی سوالات اٹھائیں گے۔ موجودہ الیکشن کمیشن پر بہت سے اعتراضات کیے جا سکتے ہیں لیکن سب اس بات سے متفق ہیں کہ موجودہ مشکل سے نکلنے کے لیے انتخابات کا انعقاد سب سے اہم ہے۔ اس لیے سب اداروں اور تنظیموں کو اس میں رکاوٹ ڈالنے کی بجائے سہولت کاری کرنی چاہیے۔پاکستان میں ہر انتخاب پر اعتراض ہوا ہے۔ قیاس غالب ہے کہ فروری 2024 میں ہونے والے انتخابات بھی اس سے مستثنی نہیں ہوں گے۔ متعدد سیاسی پارٹیاں ابھی سے دھاندلی کا شور مچانے کی تیاری کر رہی ہیں لیکن خاص طور سے تحریک انصاف کی طرف سے انتخابات کے التوا کی کوششوں کا حصہ بننا ناقابل فہم ہے اور اب ملکی وکلا تنظیمیں بھی تحریک انصاف کی اس نئی حکمت عملی کی حمایت پر کمربستہ دکھائی دیتی ہیں۔ کیا یہ قیاس کر لیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل کے مطالبے پر سپریم کورٹ کو دباﺅ میں لاکر انتخابات ملتوی کروا لیے جائیں گے؟ پاکستان بار کونسل نے اپنا مطالبہ منوانے کے لئے طریقہ کار کے بارے میں مشاورت کا اعلان بھی کیا ہے۔ یعنی یہ دونوں وکلا تنظیمیں سپریم کورٹ سے چیف الیکشن کمشنر کو ہٹانے اور حلقہ بندیوں کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کریں گی۔ سپریم کورٹ اگر ایسا کوئی اقدام کرتی ہے تو انتخابات غیر معینہ مدت تک بے یقینی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اس صورت حال میں ملکی جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔امید کی جانی چاہیے کہ ملک کی اہم وکلا تنظیمیں کسی صورت انتخابات کے لیے خطرہ بننے کے کسی سیاسی منصوبے کا حصہ نہیں بنیں گی۔ انہیں انتخابات کی شفافیت کے لئے ضرور واچ ڈاگ کا کردار ادا کرنا چاہیے لیکن کسی صورت انتخابات کے التوا کا سبب نہیں بننا چاہیے۔ تاہم دونوں تنظیموں کے مطالبات کی روشنی میں اس کے سوا کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ یا تو انتخابات ملتوی کر کے ان کے مطالبات مانے جائیں یا انتخابات کو دھاندلی زدہ اور ناقابل قبول قرار دیا جائے گا۔ انتخابات کے انعقاد سے پہلے ہی ایسے دباﺅ کا ماحول ملک میں جمہوری نظام کے تسلسل کے لیے خوش آئند نہیں ہو سکتا۔یہ جان لینا چاہیے کہ پاکستان میں مکمل جمہوریت لانے کے لیے تسلسل سے انتخابات کروانا ضروری ہے۔ انتخابات میں غیر ضروری رکاوٹ ملک میں جمہوری استحکام کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ملک میں یہ طریقہ موجود رہا ہے کہ انتخابات میں ایک گروہ جیت جاتا ہے اور ہارنے والی پارٹیاں دھاندلی کا نعرہ لگاتے ہوئے احتجاج اور بائیکاٹ کا راستہ اختیار کرتی ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی کی سیاسی تاریخ شاہد ہے کہ اس حکمت عملی سے اہم قومی مفادات ہی داﺅ پر لگائے گئے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ کسی سیاسی وابستگی یا رائے سے بالا ہو کر انتخابات کی حمایت کی جائے۔ انتخابی عمل کی کمزوری کو مل جل کر دور کیا جائے اور محض کسی گروہ کی شکست کی وجہ سے پورے جمہوری عمل کو جعل سازی نہ کہا جائے۔