غزہ پر مستقل اسرائیلی قبضے کا منصوبہ

سید مجاہد علی

غزہ میں ایک بار پھر عارضی جنگ بندی کے لیے اسرائیل اور قطر کے درمیان رابطہ ہوا ہے۔ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے رپورٹ کیا ہے کہ قطر کے وزیرِ اعظم محمد بن عبدالرحمان الثانی ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کے ڈائریکٹر ڈیوڈ برنی کے ساتھ ملاقات کی ہے۔ آج ہی اوسلو میں ہزاروں لوگوں نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف پرجوش مظاہرہ کیا اور بچوں اور شہریوں کے خلاف جنگ روکنے کا مطالبہ کیا۔غزہ پر اسرائیلی بمباری کو آج 70 دن ہوچکے ہیں۔ پوری دنیا اس شرمناک، انسانیت دشمن، خونخوار جنگ پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اسرائیل امریکہ کی مکمل پشت پناہی سے انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ غزہ میں بمباری کے علاوہ زمینی حملے کرنے میں مصروف ہے۔ اگرچہ اب ایک بار پھر جنگ بندی کے لیے وسیع تر ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے لیکن یہ ملاقاتیں محض عارضی جنگ بندی اور حماس کی قید میں اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کروانے کی کوشش کے لیے کی جا رہی ہیں۔ اسرائیل غزہ میں جنگ بندی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا لیکن اپنی عسکری پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے جنگ میں عارضی وقفے پر متفق ہوتا ہے اور اسے پوری دنیا پر احسان بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اسرائیلی لیڈروں کے بیانات سنے جائیں تو درندگی سے لبریز تقریروں میں غزہ اور وہاں آباد فلسطینیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے دعوے کیے جاتے ہیں۔ اسرائیلی لیڈر تسلسل سے کہتے رہے ہیں کہ فلسطینی انسانوں کے روپ میں بھیڑیے اور خوں خوار جانور ہیں لیکن درندگی کی صورت حال دیکھی جائے تو اسرائیلی لیڈر اس معیار پر پورے اترتے ہیں۔اسرائیل کی بدحواسی اور مشکلات کا اندازہ اس حقیقت سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جنوبی غزہ میں ایک فوجی کارروائی کے دوران اسرائیلی فوجیوں نے اپنے اغوا ہونے والے تین افراد کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ اسرائیل فوج کے ترجمان نے اعتراف کیا ہے کہ شجاعیہ کے علاقے میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ میں غلطی سے تین یرغمالی مارے گئے۔ یرغمالیوں کی ہلاکت سے متعلق ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ یرغمالیوں نے سفید جھنڈے پکڑے ہوئے تھے۔ ایک فوجی نے بتایا کہ شجاعیہ کے علاقے میں اس نے کچھ فاصلے پر یرغمالیوں کو نکلتے ہوئے دیکھا تھا۔ یرغمالیوں نے قمیصیں اتاری ہوئی تھیں اور ان کے پاس موجود چھڑیوں پر سفید کپڑے لپٹے ہوئے تھے لیکن فوجی اہلکاروں نے بدحواسی میں اپنے ہی لوگوں کو خطرہ سمجھ کر ان پر فائرنگ کردی۔ یہ واقعہ ایک بالادست اور جدید ترین اسلحہ سے لیس فوج کے احساس عدم تحفظ اور خوف کی علامت ہے۔اسی خوف کی وجہ سے حماس کو ختم کرنے کے نام پر غزہ پر ستر دن سے مسلسل فضائی حملے کیے جا رہے ہیں اور اس علاقے میں طبی امداد کا سارا انفرا اسٹرکچر تباہ کر دیا گیا ہے۔ مصر کی سرحد رفحہ کے راستے امدادی ساز و سامان کی ترسیل پر روک ٹوک بھی جاری ہے اور غزہ کے شہریوں کو غذا کی فراہمی، ضرورت سے انتہائی کم ہے اور 25 لاکھ لوگوں کی ضرورتوں کے مقابلے میں سپلائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسرائیل کو اس بات کی کوئی پروا نہیں ہے کہ کتنے فلسطینی بموں، بھوک یا علاج نہ ہونے سے ہلاک ہوتے ہیں۔ درحقیقت اسرائیل کو ہر فلسطینی میں ایک دشمن دکھائی دیتا ہے اور وہ کسی بھی قیمت پر تمام فلسطینیوں کو ہلاک کرنے کے درپے ہے۔ اسی لئے عالمی تنظیمیں اور متعدد ممالک اسرائیلی جنگ جوئی کو فلسطینیوں کی نسل کشی کے مترادف قرار دے چکے ہیں۔ آج اوسلو میں ہونے والے مظاہرے میں بھی مقررین نے اسی الزام کو دہرایا اور ناروے کی حکومت کے علاوہ امریکی حکام اور اقوام عالم پر زور دیا کہ اس انسانیت سوز جنگ کو رکوانے کے لیے فوری اقدام کیا جائے۔ اوسلو میں ہونے والے مظاہرے کا اہتمام ملک کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین ایل او نے سیو دی چلڈرن، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور فلسطین کمیٹی کے ساتھ مل کر کیا تھا۔ ایل او کی لیڈر پیگی فولسوک کا کہنا تھا کہ اس مظاہرے کا مقصد غزہ میں بچوں اور شہریوں کی ہلاکتیں رکوانے کے لیے عوامی دباﺅ میں اضافہ کرنا ہے۔ غزہ میں جنگ کے دوران موجود رہنے والے نارویجن شہری سفیات دیاب نے بھی اس موقع پر خطاب کیا۔ 58 سالہ دیاب 7 اکتوبر کو جنگ شروع ہونے کے چالیس دن بعد تک وہاں مقیم رہے تھے۔ اس دوران ناروے کی حکومت اقوام متحدہ، امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ مل کر اپنے دو سو سے زائد شہریوں کو غزہ سے باہر نکالنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ اس دوران میں ایک نارویجن شہری اسرائیلی بمباری میں ہلاک بھی ہو گیا تھا۔سفیات دیاب نے اوسلو کے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں لوگ تین طریقے سے مر رہے ہیں۔ بمباری سے، بھوک اور بیماری سے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں خود چالیس دن تک جنگ کے دوران غزہ میں تھا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے شہریوں کو بربریت کا نشانہ بنتے دیکھا ہے۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس چھوٹے سے علاقے پر ساٹھ ہزار بم گرائے جا چکے ہیں۔ زخمیوں کو کوئی امداد فراہم کرنے والا نہیں ہے۔ ہزاروں لوگ جان دے چکے ہیں۔ مرنے والوں میں چالیس فیصد بچے ہیں۔ میں جب سے واپس آیا ہوں ٹھیک سے سو نہیں سکا۔ مرنے اور زخمی ہونے والوں کی تصویریں میری آنکھوں کے سامنے گھومتی رہتی ہیں۔ غزہ کو امن چاہیے۔ جنگ بند ہونی چاہیے ۔یہ صرف ایک انسان کی آواز نہیں ہے۔ اس آواز میں دنیا کے آٹھ ارب لوگوں کی بڑی تعداد اپنی آواز ملا رہی ہے۔ اسی لیے دنیا کے ہر ملک میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف تواتر سے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ حتی کہ اسرائیل کے حامی امریکی یہودیوں کی تنظیموں نے بھی اس جنگ جوئی کو غیر انسانی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے کیے ہیں۔ اس کے باوجود پوری دنیا کی حکومتیں انسانوں کے خلاف ایک جارح اور جنونی حکومت کی جنگ جوئی برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امن کی ہر قرار داد کو امریکی حکومت ویٹو کر رہی ہے۔ منگل کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دوسری بار غزہ میں جنگ بندی کے لیے قرار داد منظور کی۔ 193 ممالک پر مشتمل جنرل اسمبلی میں 153 ملکوں نے اس قرار داد کی حمایت میں ووٹ دیا۔ امریکہ اور اسرائیل سمیت دس ملکوں نے مخالفت کی کیوں کہ اسرائیل اور امریکہ کا کہنا ہے کہ اس وقت جنگ بند کرنے سے حماس کو فائدہ ہو گا۔ حیرت انگیز طور پر امریکہ جیسا بڑا ملک قلیل المدت مفادات کے لیے ایسی بڑی حقیقت فراموش کر رہا ہے کہ اس جنگ سے مرنے والوں اور تباہی کا شکار ہونے والے بچوں اور نوجوانوں میں نفرت اور انتقام کا بیج بویا جا رہا ہے۔ یہی حماس کی طاقت ہے۔ آج اگر حماس کے چند ہزار جنگجوﺅں کو مار دیا گیا تو چند ہی سال میں اسے اس سے دوگنا تعداد میں رضاکار مل جائیں گے کیوں کہ انہوں نے اسرائیل کی سفاکی اپنی آنکھوں سے دیکھی اور اپنے ناتواں جسموں پر سہی ہے۔ناروے میں ہونے والی ملاقاتوں میں قطر کے علاوہ مصری حکومت کے نمائندے بھی شریک ہیں۔ بعض مصری ذرائع نے جلد ہی ایک نئی عبوری جنگ بندی کا امکان ظاہر کیا ہے۔ خبروں کے مطابق اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کے ڈائریکٹر مصری حکام سے بھی مل رہے ہیں۔ واضح رہے کہ قطر، مصر اور امریکہ کی ثالثی کے نتیجے میں اسرائیل اور حماس کے درمیان گزشتہ ماہ چار روزہ جنگ بندی پر اتفاق ہوا تھا جس میں بعد ازاں دو مرتبہ توسیع کی گئی تھی۔ نومبر کے آخر میں ہونے والی اس جنگ بندی کے دوران حماس نے 105 یرغمالیوں کو رہا کیا تھا جن میں خواتین اور بچے شامل تھے۔ اس کے بدلے اسرائیل نے اپنی جیلوں میں قید 240 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا تھا۔اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کی کوششیں ایک مرتبہ پھر ایسے موقع پر شروع ہو رہی ہیں جب اسرائیلی فوج کو زمینی لڑائی کے دوران غزہ میں مزاحمت کا سامنا ہے۔ شجاعیہ میں ننگے بدن امن کے سفید جھنڈے اٹھائے اسرائیلی یرغمالیوں کو ان کی اپنی ہی فوج کے ہاتھوں ہلاکت، اس پریشان حالی کی سب سے بڑی مثال ہے۔ اسرائیل انہی حالات میں جنگی منصوبہ بندی کے لیے مہلت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کو چونکہ صدارتی انتخاب کے دوران شدید مقابلے کا اندیشہ ہے، اس لیے وہ اسرائیل کی حمایت کو انتخابی ایجنڈے کے طور پر استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ دنیا بھر میں انسانوں کی سلامتی اور بنیادی حقوق کا علم بردار کہلانے والا یہ عظیم ملک محض وقتی سیاسی فائدے کے لیے اسرائیل کے ہاتھوں نہتے فلسطینیوں کی مسلسل ہلاکت میں معاون بنا ہوا ہے۔ اسرائیلی جارحیت اور امریکی ہٹ دھرمی نے اقوام متحدہ کے پورے نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ ویٹو اختیار رکھنے والا ایک ملک اقوام عالم کی بڑی اکثریت کے فیصلے کو غیر موثر کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ اگر موجودہ نظام اسی طرح ظلم و ستم کی پشت پناہی کرتا رہا تو وہ وقت دور نہیں جب نہ صرف اقوام متحدہ کا ادارہ تباہ ہو جائے گا بلکہ پوری دنیا کے ممالک ایک نئی تباہ کن جنگ میں ایک دوسرے کے سامنے ہوں گے۔ اس اندیشے کو محسوس کرنے کے باوجود سیاسی طور سے کمزور اور فیصلہ کی طاقت سے محروم امریکی صدر کو اسرائیل کی اندھادھند حمایت کے سوا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔اس دوران یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ امریکہ درون خانہ اسرائیل کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ حماس کو کمزور یا ختم کرنے کے ساتھ ہی غزہ کا انتظام محمود عباس کی صدارت میں قائم فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کر دیا جائے۔ اس سے قطع نظر کہ یہ انتظام کس حد تک مطلوبہ مقصد حاصل کر سکتا ہے، اطلاعات کے مطابق اسرائیل کسی بھی قیمت پر غزہ کو فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے پر راضی نہیں ہے۔ درحقیقت اسرائیل خود ہی مستقل طور سے غزہ پر قبضہ کر کے وہاں کے لوگوں کو عملی طور سے غلام بنانے پر مصر ہے۔ امریکہ اس اسرائیلی خواہش کی منفی اور دوررس خرابیوں سے آگاہ ہے۔ اسی لیے امریکی حکومت غزہ پر اسرائیل کے مستقل قبضہ کی توثیق پر راضی نہیں ہے۔ لیکن امریکہ جس جنگ جوئی کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے، اسرائیل اپنی نام نہاد حفاظت اور سےکیورٹی کے نام پر اسے مستقبل قریب میں طویل مدت تک جاری رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے۔اس جنگ کی صورت میں دنیا بھر کے شہری اور طاقت ور ممالک اپنی آنکھوں کے سامنے غزہ کے نہتے 25 لاکھ انسانوں کو قدم بہ قدم موت کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ ایک طرف نہتی شہری آبادی اور معمولی اسلحہ سے لیس اس میں چھپے ہوئے چند ہزار جنگجو ہیں تو دوسری طرف دنیا کے جدید ترین اسلحہ سے لیس ایک جدید اور طاقت ور فوج ہے۔ لیکن اسے سےکیورٹی اور خود حفاظتی کا نام دے کر دنیا کو دھوکہ دینے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ خبردار رہنا چاہیے کہ اسرائیل کے انتقام کی آگ دنیا کو بھسم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔