نثار حسین
پاکستان کے قیام سے آج تک اس کے خلاف کھلے بندوں اور خفیہ طور اندرونی و بیرونی سطح پر سازشیں ہورہی ہیں ۔بھارت کے ساتھ تعلقات کو خوشگوار بنانے کی خواہش کا اظہار ہمارے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے ببانگ دہل کیا مگر اسکے باوجود بھارتی جارحانہ پالیسی میں تبدیلی کے آثار نہیں دیکھے گئے دوسرا ہمارے برادراسلامی ملک افغانستان سے بھی ہمیں ہمشہ خطرات لاحق رہے ہیں ۔دہشت گردی کے خلاف خوفناک جنگ اسی خطے میں پھیلنے والی خرابی کے سبب پاکستان کوبھی لڑنا پڑی ۔پاک فوج نے عالمی امن کے قیام کی خاطر لازوال قربانیاں دے کر نئی تاریخ رقم کی ۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم نے 70 ہزار جانیں نچھاور کی ہیں ۔پاکستان نے دنیا کو ''وحشی دشمن''سے بچانے کے لئے انتہائی موثر کردار نبھایا ہے ۔پاک فوج نے امن کے امن کو آگے بڑھانے میں اپنی بے مثال صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔دہشگردوں کی کمر توڑنے میں پاک فوج کے اس کردار کی دنیا معترف ہے ۔پاک فوج نے ملک میں ہر سطح پر امن کی بحالی کا فریضہ احسن طریقے سے انجام دیا ہے ۔افغانستان میں امریکی فوج وہ کامیابیاں نہیں سمیٹ سکی جو پاک فوج کے حصے میں آئی ہیں ۔پاک فوج کے بغیر امریکی فوج کے قیام امن کے دعوے نہ ہوتے اور اب امریکہ کامیابی کا نعرہ لگاتے ہوئے افغانستان سے رواں سال ستمبر میں فوجی انخلا کا اعلان کرنے کے بھی قابل نہ ہوتا ۔پاک افغان سرحد سے دہشتگردی کے کچھ واقعات آج بھی وہاں قیام امن کے امریکی دعوئوں کو جھٹلانے کا اعلان کرتے ہیں ۔بدھ کے روز ہی افغانستان میں موجود دہشت گردوں نے بلوچستان کے ضلع ژوب کے علاقے مانزاکئی سیکٹر میں حملہ کیا۔ ایف سی کے جوان سرحد پر باڑ لگانے کے عمل میں مصروف تھے۔ ایف سی نے دہشتگردوں کی فائرنگ کا موثر انداز میں فوری جواب دیا۔آئی ایس پی آر کے مطابق دہشتگردوں کے حملے میں ایف سی کے چار جوان شہید جب کہ چھ زخمی ہو گئے،امریکی صدر نے افغان پالیسی کے حوالے سے اپنے تازہ بیان میں امن کے عمل کی بحالی میں جہاں پاکستان کے کردار کو سراہا وہاں وہ پاکستان سے امریکی فوجی انخلا کے بعد مزید کردار نبھانے کی بات بھی کررہے ہیں ۔یعنی اب نئی امریکی قیادت جوزف بائیڈن کی صورت میں بھی پاکستان سے وہی پرانا ''ڈومور''کا مطالبہ دہرارہے ہیں ۔امریکی افواج کو ایک ایسے وقت میں افغانستان سے نکالنے کا منصوبہ طشت ازبام ہورہا ہے جب طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بعد خطے میں نئی صف بندیوں کے امکانات خارج ازامکان نہیں دکھائی دیتے ۔واضح رہے کہ دسمبر 2018 میں پاکستان نے واشنگٹن اور طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت کا راستہ کھولنے میں مدد کی اور پھر دوحہ میں دونوں فریقین کے درمیان تاریخی امن معاہدہ طے پایا۔واضح رہے کہ پاکستان کی مدد سے جولائی 2015 میں افغان حکومت اور طالبان کے مابین پہلی بار براہ راست مذاکرات اسلام آباد میں ہوئے۔ پھر یہ امن عمل بیچ راستے اس وقت رک گیا جب طالبان نے اپنے رہنما ملا عمر کی موت کا اعلان کیا۔ اس سے طالبان میں اندرونی طور پر طاقت کی رسہ کشی شروع ہو گئی۔کئی مواقع پر امریکی حکام نے پاکستان کے کردار کی تعریف کی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اب جب واشنگٹن اور اس کے اتحادی افغانستان سے نکل رہے ہیں تو پاکستان 20 سالہ جنگ کے اثرات کو برقرار رکھنے کے لیے اہم رہے گا۔اس جنگ میں قریب 10 کھرب امریکی ڈالر اور 2300 سے زیادہ امریکی جانیں گنوائی جا چکی ہیں۔ اس نقصان کا ازالہ کسی صورت ممکن نہیں۔امریکہ کو کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے ساتھ بھاری فوجی نقصان اٹھانے پر بھی تاحال مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوسکے ۔ امریکا کے لئے پاکستان کی مدد کے بغیر ستمبر میں بھی افغانستان سے فوجی انخلا کا منصوبہ محال دکھائی دیتا ہے جس کا برملا اظہار پاکستان سے اسکے ''ڈومور''کے درپردہ مطالبے سے ہورہا ہے ۔افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کے حوالے سے ٹرمپ دور میں جو منصوبہ بندی ہوئی اسی تناظر میں اب جو بائیڈن انتظامیہ کو افغانستان کے حالات بگڑنے کے خدشات یقینی طور پر لاحق ہیں اور وہ اپنے قیام کی طوالت کو سمیٹ کر خسارے سے بچنے کا ارادہ ظاہر کرچکا ہے ۔امریکہ کے لئے اب اس قضیئے سے جان چھڑانے کی مزید قیمت ادا کرنے کی گنجائش بظاہر دکھائی نہیں دیتی مگر اسکے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں ۔امریکا نے پاکستان کو استعمال کرکے اپنے تئیں فارغ کردیا تھا مگر اب جو انخلا کے حوالے سے پیدا ہونے والے حالات اور دہشگردوں کی چھیڑ خوانی کے واقعات نئی صف بندیوں کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔پاکستانی وزیراعظم عمران خان کا بھی اب یہ کھل کر موقف سامنے آچکا ہے کہ ''اب ہم کسی صورت کرائے کے قاتل کا کردار نبھانے والے نہیں ۔کسی کی جنگ کا حصہ نہیں بن سکتے ۔یہی سبب ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے پاکستان سے افغان امن عمل کے نام پر کسی نئے کردار کے تقاضے کو طالبان بھی بھانپ گئے ہیں ۔پاک فوج نے اپنی سرحدوں کے تحفظ کو ہرحال میں یقینی بنانے کا بندوبست کرلیا ہے ۔نئی چھیڑ خوانی کا مقصد حالات کو نئے رخ پر ڈالنے کے لئے کسی کی جنگ میں ہمیں جھونکنے کی سازش کا حصہ بھی تو ہوسکتا ہے ۔پاکستان کے لئے سب سے مقدم اپنے عوام اور اپنی سرزمین ہے ۔پاک فوج کی لازوال قربانیوں نے دنیا کو محفوظ بنانے کا عظیم کارنامہ انجام دیا ہے ۔پوری دنیا امن کی بحالی میں پاک فوج کے بے مثال کردار کا برسر عام اعتراف کررہی ہے اسکے برعکس امریکا اپنی آندھی طاقت استعمال کرنے کے باوجود اپنی حقیقی کامیابی سے بہت دور ہے ۔امریکی صدر جو بائیڈن کہیں افغان جنگ میں اپنی ناکامیوں کو پاکستان کی جھولی میں ڈالنے کی کوشش تو نہیں کررہے ؟۔