خمار گندم، فوڈ سکیورٹی اور گلگت بلتستان کا آئینی قضیہ

عاشق فراز

ان دنوں گلگت بلتستان کی فضا میں پھر ہلچل کے آثار دکھائی دے رہے ہیں اور وجہ بن رہی ہے گندم جسکی قیمت میں اضافہ متوقع ہے۔ حالیہ دنوں میں گلگت بلتستان موجودہ حکومت کی کابینہ میٹنگ پہلی مرتبہ سکردو میں منعقد ہوئی تھی جس کی صدارت وزیر اعلی حاجی گلبر خان نے کی۔ اجلاس کی جو تفصیلات وزرا کی پریس کانفرنس اور میڈیا کے توسط سے ملی ہیں اس میں دو اہم نکات سامنے آئے ہیں۔ پہلا نکتہ شغرتھنگ پراجیکٹ پر کام کی پیش رفت کے حوالے سے کابینہ کا دعوی ہے۔یہ اہم پراجیکٹ جو سابق وزیر اعلی خالد خورشید کے دور میں منظور ہوا تھا اس کے تحت بلتستان اور استور کو شغرتھنگ اور شونٹر پاس کے ذریعے مظفر آباد اور پھر راولپنڈی سے ملانا مقصود تھا۔ یہ راستہ نہ صرف پورے خطے کی سیاحت کے فروغ کے لئے ناگزیر ہے بلکہ گلگت بلتستان کے لئے ایک اور متبادل ذرائع آمد و رفت کی سہولت کا باعث بھی ہے لیکن اس اہمیت کے باوجود کئی بار ناقابل فہم وجوہات کی بنا پر اس متبادل راستے کا ٹینڈر ملتوی ہوتا رہا جس کی وجہ سے عوام میں سخت غم و غصہ دیکھا گیا۔ تاہم خدا خدا کر کے کچھ دن پہلے اس روڈ کے شغرتھنگ والے حصے کا ٹینڈر ہوا تھا تو پھر یہ درفنطنی چھوڑی گئی ہے کہ شاید ایک بار یہ پراجیکٹ پھر التوا کا شکار ہوگا۔ یوں بلتستان میں مذہبی ،سماجی اور معاشرتی سطح پر پھر بے چینی پیدا ہوئی ہے اور اس کی لہر اب تک باقی ہے۔تاہم کابینہ کے حالیہ بلتستان میں منعقدہ اجلاس میں وزیر اعلی کے توسط سے یہ خبر شائع ہوئی کہ شغر تھنگ پراجیکٹ پر بروقت کام شروع ہوگا اور وہی کمپنی کام کرے گی جس کے نام ٹینڈر جاری ہوا ہے۔ متذکرہ اجلاس کے دو دن بعد محکمہ تعمیرات عامہ کی طرف سے یہ وضاحتی بیان میڈیا کو جاری ہوا ہے کہ شغر تھنگ پراجیکٹ کا ٹینڈر ابھی تک کسی کمپنی کو ایوارڈ نہیں ہوا ہے ابھی تو اس کا Technical Bid کھولا گیا ہے جس میں پانچ فرم شارٹ لسٹ ہوئی ہیں جبکہ فنانشل جائزہ اور آگے کے کئی مرحلے ابھی باقی ہیں، نیز کابینہ اجلاس میں اس حوالے سے دیا گیا بیان غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔غالب نے کیا خوب کہا تھا۔

یارب نہ وہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات

دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور

مقام حیرت یہ ہے کہ نہ کابینہ اور وزیر اعلی کو پتہ ہے کہ پراجیکٹ کا Status کیا ہے اور نہ ہی شاید محکمہ تعمیرات عامہ سے بریفننگ لی گئی ہے اس الل ٹپ صورتحال نے صوبے میں گورننس کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔دوسرا بڑا ایشو جس کی تہہ سے اب اضطراب کی لہریں بلند ہورہی ہیں اور آگے جاکر عوامی سطح پر احتجاج کا منظر نامہ بن رہا ہے وہ گندم سبسڈی میں کٹوتی اور قیمت میں اضافہ ہے۔ گلگت بلتستان زیادہ تر سنگلاخ چٹانوں اور برفانی حصے پر مشتمل ہے لہذا یہاں زرعی زمین اور پیداوار بہت کم ہے۔ اوپر سے سرد منطقہ ہونے کی وجہ سے اکثر دیہاتوں اور گاﺅں میں ایک فصل تیار ہوتی ہے جس کی وجہ سے فوڈ سیکےورٹی کا ایشو بھی ابھر رہا ہے۔ماہرین زراعت اور حکومتی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق گلگت بلتستان میں بمشکل دو فیصد رقبہ اراضی زراعت کے لئے دستیاب ہے۔یہاں کے لوگ صدیوں سے روایتی طور پر گندم، جو، مٹر، مکئی، شلجم ، آلو اور کچھ دیگر ترکاریاں اگاتے چلے آرہے ہیں۔ 1974 میں ذوالفقار علی بھٹو نے جب گلگت بلتستان کے کونے کونے کا دورہ کیا تو ایک بات سامنے کھل کر آئی کہ اس پس ماندہ خطے کو جہاں ذرائع حمل و رسد نہ ہونے کے برابر ہیں اور زرعی پیداوار بڑھانے میں بھی فوری جدت لانے کے لئے وقت درکار ہے۔ لہذا اس وقت کی نزاکت اور ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے پورے گلگت بلتستان کو سبسڈی پر گندم فراہم کرنا شروع کر دیا گیا۔ یہ سلسلہ بعد کی حکومتوں نے بھی جاری رکھا تاہم گزشتہ چند سالوں سے اس رعایتی قیمت کو ختم کرنے کے لئے وفاق سے صوبائی حکومتوں پر دباﺅ بڑھ رہا ہے۔پچھلی صوبائی حکومت کو یہی مسئلہ درپیش آیا اور حکومتی فیصلے کے خلاف گلگت بلتستان میں شٹر ڈاﺅن اور ہڑتالوں کا طویل سلسلہ شروع ہوا اور اس وقت کی حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا۔مختلف مذہبی جماعتوں ، عوامی ایکشن کمیٹی اور سول سوسائٹی تنظیموں کی طرف سے گندم کے حالیہ فیصلے کے تحت قیمت بڑھانے کے اقدام کے خلاف ابتدائی ردعمل سامنے آیا ہے۔ اس ردعمل کے تحت سبسڈی کے خاتمے کو گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے ساتھ مشروط کیا جارہا ہے ورنہ سخت احتجاج کی راہ اپنانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ان عوامی تنظیموں کا کہنا ہے کہ جب تک خطے کی حثیت کا تصفیہ نہیں ہوتا تب تک یہاں نہ تو کوئی ٹیکس لگایا جاسکتا ہے اور نہ ہی سبسڈی ختم ہوسکتی ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین کے تحت دیگر اشیا خورونوش پر بھی سبسڈی دی جانا چاہئے۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے قوانین کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے حوالے سے ملک کی اعلی عدلیہ نے کس طرح کے فیصلے دیے ہیں۔1947-48 میں ڈوگرہ حکومت سے نجات پانے کے بعد گلگت بلتستان نے مرحلہ وار طریقے سے مملکت پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا۔ اس ضمن میں جو معاہدات اور کوشش کی گئی ہیں اس کی تفصیل مختلف کتابوں اور مضامین میں آگئی ہیں لہذا طوالت کے پیش نظر ان کا ذکر ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ وفاق کی طرف سے گلگت بلتستان کو 1999 تک FCR اور مختلف لیگل فریم ورک آڈرز کے تحت چلایا گیا ہے۔ تاہم سپریم کورٹ آف پاکستان کے 1999 کے فیصلے کے بعد ان فریم ورک آڈرز میں کچھ تبدیلی لائی گئی اور انتظامی ڈھانچے میں بعض ترامیم کی گئیں۔ حاجی گام سکردو کے انجینئر غلام مرتضی اور چند دیگر احباب نے وہاب الخیری کے ذریعے سپریم کورٹ میں یہی مدعا اٹھایا تھا جو آج گلگت بلتستان کے ہر شخص کی نوک زباں پر ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ”چھ ماہ کے اندر اندر سیلف گورننس کا اختیار اور بنیادی انسانی حقوق دے جائیں اور اس ضمن میں آئین اور قانون میں جہاں جہاں ضرورت پڑے ترمیم یا تبدیلی لائی جائے“لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کی اصل روح کے مطابق اختیارات اور نمائندگی نہیں ملی تاہم 2009 میں گلگت بلتستان گڈ گورننس آرڈر کے تحت کچھ اشک شوئی کرنے کی کوشش کی گئی۔ جب کہ 2018 میں ایک نیا صدارتی آڈر جاری کیا گیا جس کا خشت اول اور بنیاد تو 2009 کا ہی آرڈر تھا لیکن اس میں کچھ نئی ترامیم کی گئیں اور پہلے کے صدارتی آرڈر کے اختیارات میں کچھ کمی کی گئی تھی۔ سپریم کورٹ میں یہ آرڈر چیلنج ہوا۔اسی دوران دوسری حکومت آئی اور سپریم کورٹ نے اس وقت کی حکومت کو حکم دیا کہ 2018 کے آرڈر میں سرتاج عزیز کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مناسب تبدیلیاں کی جائیں ۔ یوں 2019 گورننس آرڈر کا ڈرافٹ جمع کیا گیا جسے عدالت نے صدراتی حکم کے ذریعے جاری رکھنے کا حکم صادر کیا تاہم اس مجوزہ آرڈر میں کسی بھی قسم کی رد و بدل کو سپریم کورٹ کی اجازت سے مشروط کیا گیا ہے۔اس فیصلے میں گلگت بلتستان کی حےثیت کو جموں و کشمیر کی آئینی پوزیشن اور اقوام متحدہ کی قراردادوں میں پاکستان کی Commitments کے تناظر میں دیکھنے پر زور دیا گیا ہے۔ علاہ ازیں فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی اس پوزیشن کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے گلگت بلتستان کو انتظامی و دیگر اختیارات دیے جائے۔یوں 2019 کے اس فیصلے کے مطابق گلگت بلتستان کو صریحا کشمیر ایشو کے ساتھ باندھ دیا گیا۔فدا محمد ناشاد صاحب اہم حکومتی عہدوں پر فائز رہے ہیں اس سے بڑھ کر وہ صاحب علم ہیں ، تاریخ سے گہری شناسائی کے علاہ وہ ملکی سطح کے سیاسی ، داخلی اور خارجی قوانین سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ جب میں نے ان سے گلگت بلتستان کو دی جانے والی مراعات کی قانونی حیثیت کے بارے میں دریافت کیا تو ان کہنا تھا کہ گو کہ 1948 کے معاہدہ کراچی کے دوران گلگت بلتستان کا کوئی نمائندہ موجود نہیں تھا جس کے تحت حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان کے انتظامی امور کو سنبھالا تھا۔ تاہم ان کے مطابق اس معاہدے کی ایک شق میں لکھا گیا ہے کہ حکومت پاکستان تمام پروکیورمنٹ اور سول سپلائی وغیرہ کا ذمہ دار ہوگا اسی Provision کے تحت یہاں پر ٹیکس نہیں لگایا جاسکتا ہے اور ساتھ ہی معاشی اور انتظامی اخراجات بھی وفاق کے ذمہ ہیں۔انہوں نے گندم سبسڈی کا پس منظر بتایا کہ جب 1974 میں ذوالفقار علی بھٹو دورے پر گلگت پہنچے تو جلسے میں اس وقت پیپلز پارٹی کے صدر ایڈوکیٹ جوہر علی نے اپنی تقریر میں کہا کہ پاکستان نے نام نہاد معاہدہ کراچی کے نام سے ہماری ذمہ داریاں اٹھائیں تھیں مگر یہ کیا کہ لگان اور مالیہ کے تحت ہمارا استحصال اب تک جاری ہے۔ اس پر بھٹو صاحب نے راجگی نظام ختم کردیا یوں عوام مالیہ اور لگان سے آزاد ہوئے۔ اجلال حیدر زیدی ریذیڈنٹ شمالی علاہ جات تھے انہوں نے بھٹو صاحب کی توجہ خطے میں فوڈ سیکیورٹی کی طرف بھی دلائی جس پر گندم، نمک اور چینی سبڈی کے تحت بارعایت قیمت پر دینے کے احکامات جاری ہوئے۔یہ حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان ایک زرعی علاقہ نہیں اس کی جغرافیائی ساخت اور طویل موسم سرما ہر قسم کی غذائی اجناس کی بقدر احتیاج پیداوار کے لئے کم موزوں ہے۔ زرعی ترقیاتی بینک کے ہیڈ آفس اسلام آباد کی ایک رپورٹ کے مطابق گلگت بلتستان کا 90 فیصد ایریا پہاڑوں اور چٹانوں پر مشتمل ہے جبکہ صرف کل حصے کا 1.2فیصد زراعت اور دیگر کاشت کے لئے دستیاب ہے۔اس پر مستزاد گزشتہ کئی سالوں سے Climate Change کے برے اثرات نے سر اٹھانا شروع کیے ہےں۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے زراعت اور پینے کے لئے پانی کی کمی دیکھی گئی ہے ۔ دوسری طرف آبادی کے دباﺅ اور Urbanisation کی وجہ سے گلگت بلتستان کی محدود زرعی زمین بھی تیزی سے ہوٹل ، مکانات اور دوکانات میں تبدیل ہو رہی ہیں۔ حکومت کی جانب سے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ محکمہ کے تحت کروائے گئے سروے رپورٹ MICS-2017 کے مطابق گلگت بلتستان کے اکثر علاقوں کی صحت عامہ بہتر نہیں ہے اور اس کی بنیادی وجہ فوڈ سیکےورٹی ایشو ہے۔گلگت بلتستان کی فی کس آمدنی نہایت قلیل اور ضروریات زندگی کے لئے ناکافی ہے۔ پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ محکمے کی کثیرالابعاد غربت ٹیبل کے مطابق گلگت بلتستان 0.179 پر ہے۔ادھر نیشنل نیوٹریشن سروے 2018 کے تحت بھی گلگت بلتستان دوسرے صوبوں کے مقابلے میں Stunting میں اورHousehold Level Food Insecurity میں پہلے نمبر پر ہے اور بنیادی وجہ غذائیت کی کمی اور غذائی اجناس کی کمیابی ہے۔ ایسے میں گندم کی قیمت میں یک لخت اضافہ لوگوں کی قوت خرید سے باہر کا معاملہ بن رہا ہے اور غذائیت میں مزید کمی کا خطرہ ہے۔موسمیاتی تغیر و تبدل کے ساتھ ساتھ اکثریتی علاقے سخت سردی کی لپیٹ میں رہتے ہیں اور اس دوران نہ کاشتکاری ہوتی ہے نہ ہی Green Leaf سبزیاں اگائی جاسکتی ہیں۔ یوں مناسب غذائیت کا فقدان ہے ایسے میں گندم ہی واحد غذا ہے جس پر اکثریتی آبادی انحصار کرتی ہیں۔گلگت بلتستان کے حکومتی اعدادوشمار کے مطابق وفاق سالانہ کی بنیاد پر 9 ارب روپے گندم سبسڈی کی مد میں دے دیتا ہے۔ 2023 میں کی گئی مردم شماری کے مطابق گلگت بلتستان کی آبادی 18 لاکھ ہے اس طرح ایک فرد کے لئے پانچ ہزار روپے سالانہ سبسڈی بنتی ہے جس کے لئے آسمان سر پر اٹھایا ہوا ہے۔ گلگت بلتستان میں معدنیات ، ہائیڈرو انرجی اور ٹوارزم کے بے پناہ مواقع ہیں جن میں بڑے پیمانے پر انوسٹمنٹ کر کے نہ صرف علاقے کی معاشی ترقی اور سماجی زندگی میں بڑی بہتری لائی جاسکتی ہے بلکہ ملکی سطح کی معیشت کو بھی استحکام مل سکتا ہے۔ ان مواقع سے بہتر فائدہ حاصل کرنے کے لئے قومی سطح پر عزم صمیم اور بلند سوچ کے ساتھ طویل مدتی پلاننگ کے ذریعے بروقت کام شروع کرنے کی ضرورت ہے جس کا ابھی تک فقدان ہے۔