جملے کسنے اور صحافت کرنے میں بڑا فرق ہے

تحریر ۔جرنلسٹ سبخان سہیل

مرا    قلم  نہیں  کردار  اس  محافظ  کا 

جو اپنے شہر کو محصور کر کے ناز کرے 

مرا  قلم   نہیں   کاسہ  کسی سبک  سر کا 

جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے

مرا   قلم    نہیں   اوزار    اس  نقب   زن   کا 

جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے

مرا  قلم   نہیں  اس  دزد   نیم شب  کا  رفیق 

جو   بے چراغ  گھروں   پر کمند  اچھالتا  ہے


 صحافیوں پر جملے کسنے والوں کے نام۔۔

فسبکی جملے کسنے اور صحافت کرنے میں بڑا فرق ہے۔


گلگت بلتستان کا پسماندہ ترین اور قدرتی خوبصورتی سے مالا مال ضلع استور کے مسائل کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کے لیے انتہائی مشکل ترین اور نامساعد حالت کے باجود دن رات کام کرتے ہیں۔استور کے سیاحت پوری دنیا کے اندر پہچان کسی نہ کرائی ہے تو وہ یہاں کے صحافی ہیں۔۔۔۔۔

استور سمیت پوری گلگت بلتستان  میں جتنے بھی صحافت سے وابستہ افرد ہیں انتہائی مشکل ترین حالت میں صحافتی خدمات سر انجام دئے رہے ہیں۔

ایک کرپٹ گورنمنٹ آفیسر گورنمنٹ سے بھاری تنخواہ ۔۔۔بھاری مرعات ۔۔اور نوکروں چاکروں کی فوج ساتھ ہی تنخواہ کے علاؤہ ہاتھ کی صفائی کرنے کے باجود بھی خوش نہیں ۔۔۔۔ایسے بھی افرد پھر صحافت کے معنی سمجھنے نکلتے ہیں فیس بک میں۔۔۔۔۔۔واہ تیرا انصاف۔

ایک ایسا سرکاری  کرپٹ آفسیر یا ملازم سرکار سے سب کچھ لینے باوجود بھی تیرے دس جائز نا جائز کاروبار  ہیں ۔۔۔اور تو بھی نکلا صحافت کا پہاڑا پڑنے فیس بک میں۔۔۔۔واہ تیرا انصاف۔

ایک  نام نہاد سیاسی یتیم جو ایک گلی سے کسی پارٹی کا جھنڈا لیکر نعروں اور چپلوسیوں کا عظم لیکر نکلا ۔۔وہی یتیم کو دنیا کے اندر یہی صحافیوں نے پہچان کرایا تو آج تو بھی صحافت سمجھنے نکلا ۔۔۔۔۔واہ تیرا انصاف۔

ایک ایسا سرکاری ملازم /آفیسر جو لوگوں سے نوکریوں کی لالچ دے کر رشوت کو بڑے مزے سے کھاتا ہے اور شام کو اپنے والدین اور بچوں کی بے جا خواہشوں کو پورا کرتا ہے آج تو بھی نکلا ہے صحافی کو صحافت سمجھنے ۔ واہ تیرا انصاف۔

چند  ٹھیکداروں کی شروعات ہی کرپشن اقربا پروری اور مالیش کرنے سے شروع ہوتی ہے وہ بھی صحافت کو گالی دینے سینہ تان کر فیس بک میں جملے کستا ہے ۔۔۔۔۔واہ تیراہ انصاف ۔

واہ سماج میں بسنے والے میرے ذی شعور لوگو۔۔۔۔صحافی اپنا ایک پیسے کا کام بحثیت شہری کہیں کسی ادرے سے کراتا ہے ۔۔یا دو روپے کا جائز کام ہوتا ہے تو آپ اس پر پتا نہیں کون کون سے الزامات لگا رہے ہو۔

کرپشن بیوروکریٹس کریں تو وہ قابل ترین آفیسر کہلاتا ہے۔

یہی کرپشن ایک چھوٹا ملازم کرے تو بچاری ملازم کا حق تھا۔۔۔۔

آگر ہی کرپشن کوئی کرپٹ حکمران کرے تو اس کے سامنے بھگی بیلی بن جاتے ہیں۔۔

آگر یہی کرپشن کوئی ٹھیکدار کرے تو وہ اس کا حق تصور کیا جاتا ہے۔۔

آگر یہی کرپشن ایک دوکاندار کرے تو وہ مظلوم بن جاتا ہے۔۔۔

یہ ہے ہمارا پڑا لکھا معاشرہ۔۔۔۔

ایسا پڑھا لکھا معاشرے میں اپنے علم کو سر عام بازار میں نیلم کرنے والے سے تو ایک میڑک پاس صحافی بہتر اور اعلی ہے۔۔

کم از کم وہ اپنے علم اور فرسودہ عقل کے نام پر معاشرے کا ناصور تو نہیں بن رہا ہے۔۔معاشرے میں کسی غریب کا خون تو نہیں چوستا ہے ۔ 


پتا ہے دوسروں پر جملے کسنا دنیا کا آسان ترین کام ہے۔

جملوں کے دنت بھی ہوتے ہیں ۔۔۔بہت تیز کاٹتے ہیں

جملوں میں احساس بھی ہوتا ہے ۔۔۔جو روح تک جلاتے ہیں۔۔۔

جملوں میں تاثر بھی ہوتا ہے۔۔۔۔جو آپ کی مکمل کہانی سناتے ہی۔ 

جملے کا ظرف بھی ہوتا ہے ۔۔۔جو کہنے والوں کا ظرف بتا رہے ہوتے ہیں۔۔

جملے تیر اور تلوار سے بھی تیز ہوتے ہیں ۔۔۔جو سامنے والے کا سب کچھ تباہ کردیتے ہیں۔

اسلیے اپنے جملے کسنے سے قبل ایک بار ضرور سوچیں  جملے کسنا اور حقیقت میں فلیڈ پر کام کرنے میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔۔۔

جملے کسنے والے کبھی کسی کے خلاف دو لفظ بول کے تو دیکھو۔ صحافی تو قلم سے لکھتا ہے۔جملے کسنے والو کبھی کسی ظالم کے آگے کھڑے ہوکے تو دیکھو ۔۔۔صحافی ان سے آنکھ میں آنکھ ڈالا کر ڈٹ جاتا ہے۔

جملے کسنے والو کبھی کسی بیروکریٹس کے دفتر جاکر اونچی آواز میں بات بھی کرو نا۔۔۔صحافی تو ان کے خلاف روز لکھتا ہے۔

جملے کسنے والے کبھی کسی مذہبی لبادے میں چھاپے نیم ملاؤں کے خلاف کچھ بولو نا کچھ لکھو  نا اگلے دن فتوے جاری ہوتے ہیں ۔۔صحافی ان نیم ملاؤں کو بے نقاب کرتا ہے قلم کی قرطس سے۔۔

جملے کسنے والو کبھی کسی حکمران کے خلاف بولو نا جو اپنے ووٹ سے منتخب کرتے ہو مسالیحت کا شکار ہوتے ہو نا۔۔۔صحافی تو روز ان کو آئینہ دیکھاتا ہے۔

کبھی کسی کرپٹ ٹھیکدار کے خلاف بھی کچھ بولو نا جو اربوں کے منصوبوں کو محکموں کے ساتھ ملکر پیٹ بھرتا ہے۔۔۔

کسی کے خلاف آپ لوگ نہیں بول سکتے ہو کیونکہ ان سب کی پشت پر آپ ہم سب کھڑے ہیں۔

صرف فیسبک میں اپنی ڈگریوں کا روپ جمانے سے کچھ نہیں ہوتا ہے۔۔۔ایسی ڈگریوں ہے لعنت بھیجتا ہوں جو صرف اپنی ذات کی حد تک ہو ایسی ڈگریوں کا کیا فائدہ جو رشوت خوری اور  پیسوں پر نوکریوں کو فرخت کے جمعہ بازار لگنے کے کام آتی ہوں 

آگر یہی جملے آپ پر کسے جائیں تو کیا آپ کے اندر وہ ہمت حوصلہ ہے کہ برداشت کر سکو۔۔


صحافی ۔

صحافی بھی معاشرے کا ایک فرد ہے۔

صحافی بھی ایک انسان ہے۔صحافی کے بھی گھر والے ہوتے ہیں اس کے بھی بال بچے ہوتے ہیں ۔۔۔اس کی بھی آپ کی جیسی ہزار ضرورتیں ہوتی ہیں ۔۔۔۔۔

پر پھر بھی صحافی معاشرے میں سماج میں اپنے قلم کے زریعے لڑتا ہے ۔۔

 ہر کرپٹ حکمران کے ساتھ ۔۔۔آپ کے حقوق کے لیے۔۔

ہر کرپٹ بیوروکریٹس کے ساتھ ۔۔۔آپ کے حقوق کے لیے۔۔۔۔

ہر کرپٹ سیاست دان کے ساتھ ۔۔۔آپ کے حقوق کے لیے۔۔

ہر کرپٹ مذہبی ٹھیکداروں کے ساتھ جو مذہب کے نام پر اپنی دوکان چلاتا ہے۔۔۔۔آپ کی امن اور حقوق کے لیے۔

ہر کرپٹ ٹھیکدار کے ساتھ جو آپ کے اربوں روپے کے منصوبوں کو تباہ کرتا ہے ۔۔۔۔۔آپ کے حقوق کے لیے 


ہر اس دوکاندار سے لڑتا ہے جو آپ کے پیسوں کے بدلے آپ کے لیے موت کا سامان فروخت کرتا ہے۔۔۔آپ کے حقوق کے لیے۔۔

ہر اس بندے سے لڑتا ہے جو آپ کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔۔

معاشرے کے ان تمام تر طبقات سے وابستہ تمام افرد ایک ایک سچھے ایماندار صحافی کے لیے دشمن بن جاتے ہیں۔۔۔۔

بدلے میں کیا ملتا ہے آپ کی طرف سے۔۔۔

کرپٹ,چور ،لفافہ،بلیک میلر ،ان پڑھ ، پتا نہیں اور کون کون سے القابات ۔۔


تو میں ان تمام سے میں بہتر ہوں جو معاشرے کو ایک دیمک کی طرح اندر سے کھوکھلا کررہے ہیں۔ اور  معاشرے میں جو جیسا کہے مگر میں اپنے اللہ کے ہاں جوابدہ ہوں حق اور سچ لکھنے میں جو بھی مشکلات کا سامنا ہوگا انشااللہ کرتا رہوں گا۔۔

اللہ پاک مجھے سمیت تمام صحافیوں کو حق اور سچ بولنے لکھنے کی توفیق عطاء کرے آمین