سید مجاہد علی
اسرائیل اور حماس غزہ میں چار روزہ جنگ بندی پر رضامند ہو گئے ہیں۔ اس پر جمعرات کو مقامی وقت کے مطابق 10 بجے سے عمل درآمد شروع ہو گا۔ اس دوران میں ہر قسم کی جنگی کارروائی یا چھاپے مارنے کا سلسلہ بند کیا جائے گا۔ جنگ بندی کا معاہدہ قطر کی سفارتی کوششوں اور امریکی دباﺅ کے نتیجے میں ممکن ہوسکا ہے تاکہ ایک طرف حماس کے قبضے سے اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کروایا جا سکے تو دوسری طرف غزہ کے شہریوں کو بنیادی ضرورت کی اشیا فراہم ہو سکیں۔حماس اس چار روز کے دوران میں چھوٹے چھوٹے گروپوں کی شکل میں 50 اسرائیلی بچوں و عورتوں کو رہا کرے گا۔ جبکہ اسرائیلی جیلوں سے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ فلسطینی بچے و خواتین رہا ہوں گے۔ اسرائیل کی جیلوں میں سینکڑوں فلسطینی بچے کسی باقاعدہ عدالتی کارروائی کے بغیر قید ہیں۔ ان میں 12 سے 15 سال کی عمر کے بچے شامل ہیں۔ جنگ بندی کے وقفے میں اسرائیل غزہ کے لیے امدادی سامان کی فراہمی کی اجازت دینے پر بھی راضی ہو گیا ہے۔ تاہم عالمی امدادی تنظیموں و اداروں کا کہنا ہے کہ تباہ حال غزہ میں بیس لاکھ سے زائد انسان خوراک، پانی اور دیگر بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ زخمیوں کے علاج کی سہولتیں محدود ہیں اور ہسپتالوں پر یا تو اسرائیلی فوج قابض ہے یا وہاں علاج معالجے کے لیے ساز و سامان نہیں ہے۔ اب تمام عالمی ادارے اسرائیل اور حماس پر جنگ بندی میں توسیع پر زور دے رہے ہیں۔عالمی اداروں کے علاوہ ایران نے بھی غزہ میں جنگ بندی میں توسیع کا مطالبہ کیا ہے۔ لبنانی ٹیلی ویژن کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہ نے کہا ہے کہ غزہ میں مستقل طور سے جنگ بند ہونی چاہیے۔ موجودہ جنگ بندی کی مدت میں اضافہ نہ ہوا تو یہ جنگ مشرق وسطی کے دیگر علاقوں تک پھیل سکتی ہے۔ ایران اس سے پہلے بھی جنگ میں توسیع کی بات کرتا رہا ہے۔ یہ تشویش صرف ایران تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ امریکہ اور عرب ممالک بھی محسوس کرتے ہیں کہ غزہ میں اسرائیل کی جنگ جوئی کو کسی مناسب طریقے سے اختتام پذیر ہونا چاہیے تاکہ علاقے میں پائیدار امن کے لیے کام ہو سکے۔جنگ بندی کے لیے دنیا بھر کے ممالک میں احتجاج کرنے والے مظاہرین کے علاوہ امریکہ سمیت متعدد ممالک زور دیتے رہے ہیں۔ امریکہ اگرچہ بظاہر اسرائیلی کارروائی کی حمایت کرتا رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی امریکی حکومت کی خواہش رہی ہے کہ کسی طرح غزہ کے لیے امداد فراہم کرنے کا انتظام ہو سکے اور یہ جنگ کسی بہت بڑے انسانی المیے میں تبدیل نہ ہو۔ تاہم چھ ہفتوں پر محیط اسرائیلی جنگ جوئی سے غزہ میں 14 ہزار سے زائد شہری جاں بحق ہوئے ہیں جن میں بچوں اور خواتین کی بہت بڑی تعداد شامل ہے۔ فضائی بمباری سے غزہ کی بیشتر رہائشی عمارتوں کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ سول سہولتوں کا ڈھانچہ ختم ہو چکا ہے حتی کہ ہسپتالوں، اسکولوں اور پناہ گزین کیمپوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق غزہ کے پچیس لاکھ لوگوں میں سے دو تہائی بے گھر ہوچکے ہیں۔ اب ان لوگوں کی آباد کاری اور بحالی کے کام میں سال ہا سال کی مدت اور اربوں ڈالر کا سرمایہ درکار ہو گا۔اسرائیل نے اپنے شہریوں پر سات اکتوبر کے بلا اشتعال حملہ کے بعد حماس کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تھا۔ اسرائیلی حکومت کا دعوی تھا کہ حماس نے بڑے پیمانے پر حملہ کر کے 1200 افراد کو ہلاک کیا جن میں اکثریت بچوں، خواتین یا بوڑھوں پر مشتمل تھی۔ اس حملہ کو اسرائیل کا نائن الیون قرار دیتے ہوئے حماس سے انتقام لینے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن امریکہ کی طرح اسرائیل بھی یہ بنیادی حقیقت فراموش کر بیٹھا تھا کہ عوام میں مقبول اور جڑیں رکھنے والے کسی شدت پسند گروہ کو ختم کرنے کے لیے صرف عسکری طاقت کافی نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے مسائل حل کرنے کے لئے سیاسی منصوبہ بھی ضروری ہوتا ہے۔ اسرائیل اپنی توسیع پسندی اور فلسطین دشمنی کے جوش میں اس حقیقت کو فراموش کر کے غزہ کو تو نیست و نابود کرچکا ہے لیکن اس جنگ سے ابھی تک اسرائیل کی مستقل سےکیورٹی کا مقصد حاصل نہیں کیا جا سکا۔ کیوں کہ اسرائیل فلسطینی ریاست کے قیام اور مقبوضہ علاقوں پر یہودی بستیاں آباد کرنے کی حکمت عملی ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔اسرائیل کی طرف سے جنگ بندی کے عارضی معاہدہ کی سب سے بڑی وجہ البتہ اسرائیلی عوام کا شدید احتجاج بھی ہے۔ حماس کی طرف سے یرغمال بنائے گئے اسرائیلی شہریوں کے اہل خاندان کی قیادت میں ملک بھر میں احتجاجی تحریک زور پکڑتی رہی ہے۔ یہ لوگ وزیر اعظم نیتن یاہو کی حکمت عملی کو ناکام اور ناقص قرار دے کر حکومت پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ بنیادی طور پر اپنی سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔ اسی لیے حماس کے جنگجوﺅں کو اسرائیل میں بری، فضائی اور بحری راستوں سے داخل ہو کر حملے کرنے اور سینکڑوں شہریوں کو ہلاک کرنے کا موقع ملا۔ طویل جنگ اور انسانوں کے خلاف بے رحمی سے کی جانے والی بمباری کے باوجود اسرائیل، حماس کے قبضہ سے یرغمالی شہریوں کو رہا کروانے میں کامیاب نہیں ہوا۔اس سے ایک ہی بات واضح ہوتی ہے کہ اسرائیل اپنی بے پناہ عسکری طاقت اور امریکہ کی غیر مشروط حمایت کے باوجود حماس کے گڑھ میں داخل ہو کر اپنے اغوا کیے گئے شہریوں تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ یہ بھی اسرائیلی حکومت کی ناکامی ہی سمجھنی چاہیے کہ جنگ شروع کرتے ہوئے اہداف کا تعین تو کیا گیا لیکن یہ منصوبہ نہیں بنایا جا سکا کہ ان اہداف کو کیسے حاصل کیا جائے گا یعنی حماس کو کیسے مکمل طور سے تباہ کیا جا سکے گا اور یرغمالی شہریوں کو کیسے بازیاب کروایا جائے گا۔ موجودہ جنگ بندی اور 50 یرغمالی اسرائیلیوں کے بدلے ڈیڑھ سو فلسطینیوں کی رہائی کا معاہد درحقیقت وزیر اعظم نیتن یاہو کا اعتراف شکست ہے۔ اسرائیل طویل جنگ جوئی اور شدید تباہ کاری کے باوجود یرغمالیوں کو رہا کروانے میں کامیاب نہیں ہوا اور اب اس نے اسی حماس کے ساتھ یرغمالی باشندے رہا کروانے کا معاہدہ کیا ہے۔خود پر انتقام طاری کرنے اور فلسطین دشمنی میں تباہ کاری کو ہتھکنڈا بنانے کی بجائے نیتن یاہو اگر سیاسی بصیرت اور سفارتی چابکدستی سے کام لیتے تو شاید اسرائیل کو پوری دنیا کی مذمت کے علاوہ اس سیاسی و سفارتی ہزیمت کا سامنا نہ کرنا پڑتا کہ ایک طرف حماس کو تباہ کرنے کا دعوی کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف اسی گروہ سے یرغمالیوں کی رہائی کے لئے معاہدہ کو کامیابی سمجھا جا رہا ہے۔ اسرائیل کابینہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے حوالے سے شدید اختلافات موجود ہیں۔ حکومت کا انتہا پسند گروہ جنگ جاری رکھنے اور کسی بھی قیمت پر حماس کے ایک ایک جنگجو کو ہلاک کرنے کا مطالبہ کر رہا تھا جبکہ لواحقین کے دباﺅ اور عوامی مطالبے کے علاوہ عالمی سطح پر بڑھنے والے دباﺅ کی صورت حال میں نیتن یاہو کے پاس جنگ بندی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ کابینہ کے اجلاس میں دیے گئے ایک بیان میں اسرائیلی وزیر اعظم نے دعوی کیا کہ ہم حالت جنگ میں ہیں اور اپنا مقصد حاصل کرنے تک جنگ جاری رہے گی۔ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ غزہ سے حماس یا کوئی بھی دوسرا گروہ یا ادارہ اسرائیلی شہریوں کے لیے خطرہ نہ بن سکے ۔ اسرائیلی وزیر دفاع یاو گیلان کا بھی کہنا ہے کہ حکومت نے تہیہ کیا ہے کہ جنگ جاری رہے گی اور جنگ میں وقفے کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہو گا کہ حماس کو مزید مہلت دی جائے ۔تاہم نیتن یاہو یا ان کی حکومت کا کوئی بھی عہدیدار یہ واضح کرنے میں ناکام ہے کہ جس گروہ کو تباہ کرنے کے لیے جنگ شروع کی گئی تھی، اسی کے ساتھ معاہدے کو کیا نام دیا جائے؟ کیا اسے اسرائیل کی شکست کہا جائے یا شدید خفت کا شکار اسرائیلی حکومت کے اس اقدام کو دہشت گردوں سے معاونت سمجھا جائے؟ اسرائیلی حکومت کو معلوم ہو چکا ہے کہ غزہ میں پھیلائی گئی تباہ کاری کے باوجود اس کے پاس حماس کو ختم کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ حماس کو ختم کرنے کے لیے غزہ کے شہریوں کو یہ یقین دلانا ضروری ہے کہ حماس ان کی دشمن ہے اور اس کی سرکردگی میں نہ تو انہیں امن حاصل ہو گا اور نہ ہی آزادی نصیب ہو سکے گی۔ دنیا کے دیگر خطوں میں رہنے والے لوگ باہر سے اس منظر کو دیکھتے ہوئے شاید یہی کہیں گے کہ اسرائیل کے عتاب سے بچنے کا واحد طریقہ حماس سے نجات حاصل کرنا ہے لیکن غزہ اور دیگر مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی جبر دہشت کا نشانہ بننے والے لوگ صورت حال کو اس زاویے سے نہیں دیکھ سکتے۔ وہ تو یہی سمجھیں گے کہ حماس نے کم از کم اسرائیل کو چیلنج کیا ہے اور ایک بار پھر فلسطینی مسئلہ کو پوری دنیا میں کے ایجنڈے پر لانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ آسمان سے برسنے والے بارود اور زمین پر فوجی ٹینکوں سے روندے جانے والے انسان کیوں کر ایک ایسے دشمن میں دوست یا انسانی ہمدردی کا کوئی شائبہ دیکھ سکتے ہیں جو ان کی نسل کشی کے لیے کسی بھی انتہا تک جانے پر تیار ہے۔ یہی حماس کی کامیابی اور اسرائیل کی ناکامی ہے۔اسرائیل کی جنگی کارروائی میں فضائی حملے واحد کامیاب ہتھکنڈا رہے ہیں۔ لیکن اسرائیل ابھی تک یہ ثابت نہیں کر سکا کہ ان حملوں میں حماس کو کوئی بڑا نقصان پہنچا سکا ہے۔ غزہ شہر کو خالی کروا کے وہاں فوجی کارروائی کی گئی لیکن اس زمینی آپریشن میں نہ تو اسرائیلی فوج یرغمالیوں تک پہنچ سکی اور نہ ہی سرنگوں کے اس سلسلہ کا سراغ لگایا جا سکا جو اسرائیل کے بقول حماس کے جنگجوﺅں کی پناہ گاہیں اور عسکری کارروائیوں کے مراکز ہیں۔ درحقیقت اس کارروائی کے دوران اسرائیلی فوجی کثیر تعداد میں ہلاک ہوئے ہیں۔ اسرائیلی حکومت بھی جانتی ہے کہ وہ بہت زیادہ دیر تک روزانہ کی بنیاد پر فوجی تابوتوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔ اسرائیلی فوج کا دعوی ہے کہ غزہ میں دہشت گردوں کا انفراسٹرکچر ختم کر رہی ہے۔ لیکن جنگ بندی پر رضامندی درحقیقت اسرائیل کی عسکری اور سیاسی ناکامی کا ثبوت بن رہا ہے۔ بربریت کا یہ عالم ہے کہ اسرائیلی فوج نے غزہ شہر میں سب سے بڑے ہسپتال الشفا کو فوجی مرکز بنایا اور مریضوں کے علاوہ ہسپتال میں پناہ لینے والے والے شہریوں کو زبردستی وہاں سے جانے پر مجبور کیا۔ حماس ذرائع کا کہنا ہے اسرائیلی فوجیوں نے ہسپتال کے احاطے کو مظلوم فلسطینیوں کا قبرستان بنا دیا ہے۔ عالمی تنظیمیں غزہ کو دنیا میں بچوں کے لیے خطرناک ترین جگہ کہہ رہی ہیں۔قطر کی طرف سے امن مذاکرات ٹیم کے سربراہ نائب وزیر خارجہ محمد الخلیفی کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ یہ عارضی معاہدہ مستقل اور طویل المدت امن معاہدے کی راہ ہموار کرے گا۔ اسرائیل کے لیے اس تنازعہ سے نکلنے کا شاید یہی واحد باعزت راستہ ہو گا۔ البتہ اگر اس نے بمباری جاری رکھنے اور غزہ پر دوبارہ قبضہ کرنے کا ارادہ کیا تو یہ جنگ مزید پیچیدہ اور گھناﺅنی ہو سکتی ہے۔ فریقین کو جنگ جوئی کی دھمکیاں دینے کی بجائے امن کا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔ یہ راستہ فوری جنگ بندی، غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلا اور حالات معمول پر آنے کے بعد دو ریاستی حل کے لیے عملی اقدامات سے ہی ہموار ہو سکتا ہے۔ یہی اسرائیلی لیڈروں کی بصیرت اور امریکی صدر کی سفارت کاری کا امتحان ہو گا۔