یاور عباس
سرسبز و شاداب میدانوں ،فلک شگاف برف پوش بلند و بالاپہاڑوں، سرسبز وادیوں، قدرتی وسائل اور حسن سے مالا مال بہادر مجاہدین کی سرزمین گلگت بلتستان اٹھائیس ہزارمربع میل وسیع اور قریب بیس لاکھ کی آبادی پر مشتمل ہے۔یہاں کے باسی ہر سال یکم نومبر کو یوم آزادی مناکر جنگ آزادی گلگت بلتستان کے ان شہیدوں اور غازیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنکی بے پناہ قربانیوں کی بدولت یکم نومبر 1947 کو مہاراجہ کشمیر سے بغاوت اور الحاق بھارت سے نفرت کرتے ہوئے آزادی حاصل کی۔1947 میں جب جیسے دو مملکتیں پاکستان اور بھارت وجود میں آئیں وہاں ٹھیک دو ماہ سترہ دن بعد ایک ایسے خطے نے بھی جنم لیا جسے آزاد جمہوریہ گلگت بلتستان کہا گیا ۔ یکم نومبر 1947 سے پہلے ہمارے لوگ ڈوگروں کے زرخرید غلاموں کی حیثیت سے زندگی بسر کر رہے تھے ۔ مختلف قوتیں مسلمانوں کوورغلا کر ان کے اندر اختلافات کا بیج بو کر مسائل کو ہوا دے رہی تھےں۔ دوسری طرف ہمارے معاشی حالات کمزور تھے پہننے کے لئے لباس میسر نہیں تھااور اپنی زمین پر اناج اگانے کے لئے کوئی جدید مشین نہ تھی ایسے حالات میں مجبورا ہمارے آباﺅاجداد نے انقلاب آزادی گلگت کا نعرہ بلند کیا نتیجتا نومبر 1947 کو ڈوگرہ راج سے 28 ہزار مربع میل پر پھیلی یہ عظیم دھرتی قابل ستائش قربانیاں پیش کر کے آزاد کرا لی گئی جس میں کرنل مرزا حسن خان، بابر خان،صوبیدار شیر علی ، گروپ کیپٹن شاہ خان ،کرنل احسان علی، کیپٹن محمد علی ، صوبیدار رستم ، صوبیدار مفتی اللہ اور صوبیدار مجاہد بختاور کی قیادت قابل ذکرہے جنہوں نے بے سروسامانی کی حالت اور بغیر کسی خارجی ہتھیار کے اپنے زور بازو سے انقلابِ آزادی کا یہ باب رقم کیا۔ راجہ رئیس خان کو آزاد جمہوریہ گلگت کا پہلا صدر مقرر کیا گیا۔ آزادی کے بعد یہ ریاست فقط چودہ روز دنیا کے نقشے پر اپنی خود مختاری کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئی۔ہمیں ماننا پڑے گاکہ جس طرح آزادی ایک حقیقت تھی بالکل اسی طرح یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس انقلاب کو ناکام بنانے کیلئے برطانوی سامراجی ایجنٹ میجر براﺅن اور انکے حواریوں نے بھر پور سازشی کردار ادا کیا اور انہی سازشوں کو الحاق کا نام دیکر ہمارے قومی ہیروز کو دیوار سے لگا کر بغیر کسی معاہدے کے ایک تحصلیدار کے ہاتھ میں خطہ قراقرم کا نظم نسق تھما دیا گیا۔کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی کیونکہ یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ گلگت بلتستان کے کچھ حصے ایک عرصے تک مہاراجہ کشمیر کے زیر نگیں رہے ہیں یہ الگ بات ہے کہ مہاراجہ سے قبل جموں کشمیر پر لداخی بلتی اور گلگتی بادشاہوں نے طویل حکمرانی کی ہے لیکن جب تاریخ سازشوں کی نذر ہوجاتی ہے تو قوموں میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنی تاریخی حیثیت کو برقرار رکھنے کیلئے بھی مجبورا دوسروں کا سہارا لیتے ہیں۔ایسا ہی کچھ گلگت بلتستان کے ساتھ بھی ہوا جنگ آزادی کے وقت چونکہ گلگت بلتستان ریاست جموں کشمیر کا حصہ تھا اور آزادی کے فورا بعد کیونکہ یہ علاقے کشمیر کی دوسری ریاستوں کی نسبت سیاسی طور پر بھی کمزور تھے لہذا اس کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اس وقت کے کشمیری حکمرانوں نے نہ صرف ہماری آزادی پر شب خون مارا بلکہ ہماری شناخت کو بھی متنازعہ بنایا۔ یوں اگر ہم سولہ نومبر سے لیکر اٹھائیس اپریل تک کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس ریاست کے عوام کو اپنی مدد آپ کے تحت جنگ لڑ کر آزادی حاصل کرنے کے باوجود ثمرات نہ مل سکے۔ یہاں سردار ابراہیم کی آمد اور پھر ہمارے عوام سے پوچھے بغیر کشمیری لیڈران کی طرف سے معاہدہ کراچی کے بعد 1971 تک اس خطے کو بالکل نظرانداز کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری آزادی کی کوئی حیثیت ہی نہیں کیونکہ آزاد قوموں کے ساتھ اسطرح کے واقعات پیش آنا اور عوام کا آنکھ بند کرکے صرف یوم آزادی کے دن کو یاد رکھ کر تالیاں بجانا یقیناہماری کوتاہیوں کی ناقابل معافی داستان ہے۔ستم ظریفی کی انتہا اگر دیکھیں تو یہاں آزاد کشمیر سے ہٹ کر ایف سی آر نافذ کیا گیا لیکن گلگت بلتستان کی حاکمیت کے دعوےدار کشمیری لیڈران کو منہ کھولنے کو توفیق نہ ہوئی۔ اس طرح گلگت بلتستان کی عوام کے ساتھ زیادتیوں کا نہ ختم ہونے والے سلسلے کا آغاز ہوگیا۔کراچی معاہدہ جس پر مشتاق گورمانی آزاد کشمیر کا صدر سردار ابراہیم اور مسلم کانفرنس کے صدر چوہدری غلام عباس نے دستخط کیے جبکہ ان مذاکرات میں گلگت بلتستان کا کوئی لیڈر موجود نہیں تھا نہ ہی گلگت بلتستان کے عوام نے نام نہاد کراچی معاہدے کو کبھی تسلیم کیا ،اس معاہدے کے تحت نام نہاد کشمیری لیڈران نے سازش کرکے یہاں کی عوام سے کسی قسم کی رائے لئے بغیر 28 اپریل1949کو مسئلہ کشمیر کے ساتھ جوڑ کرمزید غلامی کی طرف دھکیل دیا ابھی زخم بھرا نہیں تھا کہ 1963 میں ایک بار پھر متنازعہ خطے کی عوام سے رائے لیے بغیر اکسائی چن جو گلگت بلتستان کا حصہ تھا اسے چین کی تحویل میں دے دیا گیا۔ اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جہاں گلگت بلتستان کے عوام کو مقامی ڈوگروں سے آزادی نصیب ہوئی وہیں بھٹو نے اس خطے سے سٹیٹ سبجیکٹ قانون کو ختم کرکے یہاں کے وسائل اور زمینوں کو ایک طرح سے نیلام کر دیا۔ اس وقت سے لیکر آج تک گلگت بلتستان کے بہادر نڈر جوانوں نے پاکستان کی سرحدیں سنبھال رکھی ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ گلگت بلتستان میں کوئی ایسا شہر اور گاﺅں نہیں جس میں سبز ہلالی پرچم کے سائے میں کسی شہید کی قبر موجود نہ ہو۔ان سب شہیدوں نے پاکستان کی خاطر اپنی جانیں قربان کیں اور پاکستان پر جب بھی کوئی مشکل وقت آیا گلگت بلتستان کی غیورعوام نے بڑھ چڑھ کر افواج پاکستان کا ساتھ دیا۔ مثال کے طور پر وہ جنگیں جو بھارت کے ساتھ لڑی گئیں، ان جنگوں کے دسیوں غازی اب بھی بھارتی جیلوں میں اپنی زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں وہ 1965 کی جنگ ہو یا کارگل کی ان جنگوں میں گلگت بلتستان کے نڈر جوانوں نے ساری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ہم اپنا سر تو قلم کرواسکتے ہیں لیکن مادرِ وطن سے بے وفائی نہیں کر سکتے ۔ شہید نشان حیدر حوالدار لالک جان کا تعلق بھی اس ہی سرزمینِ سے ہے۔ ےہاں کے لوگوں کو ان کے جائز بنیادی انسانی حقوق سے دور رکھا جا رہا ہے ۔پاکستانی حکمران اور ادارے اس سرزمینِ سے تھوڑی سی بھی وفا کرنے کو تیار نہیں۔گلگت بلتستان کے لوگوں کو پاکستان سے وفا کرنے کی سزا دے رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ 1947 سے اب تک گلگت بلتستان کے لوگوں کو تعلیم سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی اور یہ سب گلگت بلتستان کی شناخت کو ختم کرنے کے لئے کیا گیا۔1947 سے لیکر اب تک کوئی خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے صرف ایک ہی یونیورسٹی ہے جس کی بنیاد بھی ایک فوجی جرنیل پرویز مشرف نے 2002 میں رکھی گلگت بلتستان کی عوام اس آمر کو سلام پیش کرتی ہے۔ اس آمر نے ہمارے لئے تعلیم کے دروازے کھول دئیے جبکہ تعلیمی ادارے نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے نوجوان دوسرے شہروں میں جانے پر مجبور ہوئے اور ہمارے باشعور اور وطن پرست طلبا پر سیاست دانوں نے ہمارے لئے اپنے شہروں میں کوٹہ سسٹم کے نام پر پابندی لگاکر تعلیمی دروازے بند کر دئیے وہ حکمران یہ نہیں جانتے جس سرزمین سے یہ نوجوان آتے ہیں وہاں یہ پتھروں کے سینے چیر سکتے ہیں تو کیا اپنے لیے لگائی گئی پابندیاں نہیں ہٹوا سکتے؟ اگر یہ نوجوان سیاچن سے وزیرستان تک سرحدوں کی حفاظت کر سکتے ہیں تو اپنے حقوق کی جنگ نہیں لڑسکتے ؟ اس وقت پاکستان کے چاروں صوبوں کو ان کے بنیادی حقوق مل رہے ہیں ۔گلگت بلتستان کی جغرافیائی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں یہ سرزمینِ ہمالیہ ، قراقرم اور ہندوکش کے درمیان میں واقع قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ ہی نہیں بلکہ دنیا کی چار بڑی ایٹمی طاقتوں کے عین وسط اور دنیا کے تین عظیم ریاستوں کا فلکرم ہے جسے سینٹرل ایشےا کا گیٹ وے ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اس خطے کے ارد گرد ہندوستان ، چین، تاجکستان ، افغانستان اور پاکستان جیسے بڑے اہم ممالک موجود ہیں۔گلگت بلتستان کے گلیشےئرز ، چشموں اور جھیلوں سے بننے والا صاف پانی دنیا بھر میں مشہور ہے بلند و بالا پہاڑ جس میں کے ٹو ، راکاپوشی نگر ، اور نانگاپربت جیسے نام ہیں، ان سب پر پاکستان کو کنٹرول حاصل ہے 1947 سے لیکر آج تک گلگت بلتستان کی عوام نے بنیادی انسانی حقوق نہ ملنے کے باوجود دھرتی ماں پاکستان کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ 1947 سے لیکر اب تک نہ ہمارے خطے کو تسلیم کیا اور نہ ہماری حیثیت کو تسلیم کیا گیا۔ کہا تو یہ جاتا ہے کہ ہم سب سے زیادہ محب وطن ہیں لیکن ہمیں ووٹ ڈالنے کا اختیار بھی نہیں دیا جاتا ، دکھ اس بات کا ہے کہ ہمارے وسائل پر تو سب کی نظر ہے لیکن ہمارے مسائل کو حل کرنے والا کوئی نہیں۔آخر میں سی پیک سے متعلق کچھ معلومات اور گلگت بلتستان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ذکر نہ کیا تو یہ کالم مکمل نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ میگا پروجیکٹ عوامی حلقے خصوصا گلگت بلتستان کے نوجوانوں میں زیر بحث ہے اگر ہم سی پیک پر بات کریں تو اس حقیقت سے انکارکرنا مشکل ہے کہ یہ پروجیکٹ یقیناپاکستان کی قسمت بدل دے گا اور ہماری دعا ہے کہ قائد کے پاکستان کو کرپٹ اور جمہوریت کے نام پر لوٹ مار کرنے والے اشرافیہ سے آزادی ملے اور پاکستان دنیا میں ایٹمی سپرپاور کی طرح معاشی طور پر بھی سپر پاور بن کر ابھر کر سامنے آئے۔سی پیک کا ذکر ہواور گلگت بلتستان کا نام نہ لیا جائے ایسا ممکن نہیں کیونکہ گلگت بلتستان کو سی پیک گیٹ ہونے کا اعزاز حاصل ہے یہ الگ بات ہے کہ اس مظلوم خطے کو سی پیک سے اب تک کوئی فائدہ تو نہیں حاصل البتہ ماحولیاتی آلودگی بڑھ جانے کا خدشہ ضرور ہے یہاں کے گلیشےئرز پگھل جائیں گے۔اس حوالے سے ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے کی جانب سے باقاعدہ ایک رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں سی پیک کی وجہ سے گلگت بلتستان کے برفانی گلیشےئرز پر پڑنے والے منفی اثرات کے حوالے سے آگاہ کیا ہے لیکن مجھے یہ نہیں معلوم کہ ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کے لئے سی پیک کے فریقین پاکستان اور چائنا نے کیا حکمت عملی طے کی ہے البتہ اتنا ضرور اندازہ ہے کہ گلیشےئرز پگھل جانے کی صورت میں گلگت بلتستان نے بھی بہہ جانا ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب سی پیک کی آمد آمد تھی اور لوگ بڑے بے چین تھے گلگت بلتستان کی مقامی حکومت اس حوالے سے بڑی پرامید تھی کہ اس پروجیکٹ سے گلگت بلتستان بھی مستفید ہو گا۔یہاں بھی ترقی اور تعمیر کی راہیں کھلیں گی لیکن اےسا نہ ہوا۔المیہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے روایتی وزرا آج تک عوام سے جھوٹ بول کر مراعات حلال کرتے رہے ہیں یہی سلسلہ سی پیک کے مسئلے پر ہے گلگت بلتستان کے نمائندے آخری وقت تک یہی کہتے رہے کہ نہیں جناب گلگت بلتستان کو بڑا فائدہ ہوگا۔ قوم کو یہ نہیں بتایا کہ گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کے سبب دیگر صوبوں کے برابر حقوق ملنا اس وقت تک ناممکن ہے جب تک گلگت بلتستان کے لئے آئین ساز اسمبلی دے کر یہاں کی اسمبلی سے باقاعدہ ایک فریق کے طور پر قرار داد پاس نہیں کراتے ۔سابق وزیر اعلی بھی اقرار کرچکے ہیں کہ سی پیک میں گلگت بلتستان متنازعہ حیثیت کے سبب وہ فوائد حاصل نہیں کرسکتا جو پاکستان کے چاروں صوبوں کو حاصل ہیں ۔بد قسمتی سے مسلسل آنے والی وفاقی حکومتوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور پاکستان کی عدالت عظمی کے فیصلے کے باوجود آئینی حقوق اور گلگت بلتستان کے مسائل کا حل تاحال نہیں نکالا۔ہمارے آباﺅاجداد نے ہمیں آزادی جیسی نعمت اپنے خون کو بہا کر فراہم کی ہے اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس آزادی کو ہر حال میں سنبھال کر رکھیں اور اس نعمت کو مزید بہتر بنائیں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے یہی ہماری اخلاقی اور ملی ذمہ داری ہے۔