بشارت یزدانی
یکم نومبر کا روز ہر سال گلگت بلتستان کے باشندوں کے لیے ان گنت خوشیوں اور مسرتوں کا پیغام لے کر آتا ہے۔یہ دن گزشتہ کئی دہائیوں سے گلگت بلتستان کے ہر ایک شہری کا تعلق اس کے شاندار ماضی سے جوڑے ہوئے ہے۔وہ ماضی جو بیک وقت خوشی و شادمانی کا پیامبر بھی ہے اوردعوت غور و فکر بھی دیتا ہے کہ اہل شمال اپنے ماضی اورحال کے موازنے سے مستقبل کی پیش بندی کریں اور اپنے سماجی و اجتماعی رویوں میں سچائی،حق گوئی،جذبہ آزادی اور وطن پرستی کے جذبوں کو فروغ دینے کی کوشش کریں ۔ یہی بے لوث جذبے تھے جنہوں نے چند سو بے یار ومدد گار و بے سروسامان آزادی کے متوالوں کو آتش و آہن سے بھر دیا اور وہ قوت عطا کی کہ وہ دنیا بھر کی قوموں کے لیے شاندار مثال قائم کریں کہ جذبہ آزادی و حریت سے سرشار قومیں اپنی منزلوں کا نشاں کھوجنے کس حد تک جاسکتی ہیں۔آج سے چوہتر برس قبل گلگت بلتستان کی سرزمین پر غلامی کی تاریک شب کا سایہ تھااور یہ تاریکی اس سرزمین کے ہر اک باشندے کے قلب و روح میں منجذب تھی۔مطلق العنان حکمرانی کی ننگی شمشیرتلے رعایا پابہ زنجیر تھی اور ریاستی ظلم و جبر کے بدترین دور سے گزر رہی تھی۔سلطنت ِ برطانیہ کی طرف سے مبلغ سات روپیہ فی کس قیمت پر بکنے کے بعد وہ عزت ِ نفس اور خودی کا جوہر بھی کھو چکے تھے۔گردش ِایام نے ان کی قسمت میں مجبوری و محرومی کا نہ ختم ہونے والا باب لکھ دیا تھا۔ جبر و استبداد ، ظلم وبربریت ، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی اور ماورائے آئین و قانون قتل و غارت گری ایسے جرائم نے اس نام نہاد ریاستی حکومت و عمل داری کو مضبوط بنیادیں اور اساسیت فراہم کررکھی تھی۔خوف وہ واحد جذبہ تھا ،جسے وقت کے اولی الامر کی جانب سے پنپنے اور اپنی جڑیں مضبوط کرنے کی کامل آزادی تھی۔بھاری ٹیکسوں کی ادائیگی اور ریاست سے غیر مشروط وفاداری کا عوض جان کی امان کی صورت مل سکتا تھا۔گلگت بلتستان کے لوگ اس ظلم و ستم کی زندگی سے یکسرعاجز تھے مگر المیہ یہ تھا کہ وہ سرے سے یہ شعور ہی نہ رکھتے تھے کہ وہ کبھی آزاد شہری کی حیثیت سے زندگی گزار سکتے ہیں اور معاشرے میں عدل وانصاف، انسانی حقوق اور برابری کے مواقع سے مستفید ہو سکتے ہیں۔سالہا سال کی غلامی اور مایوسی کے دبیز اندھیروں نے ان سے امید کی آخری لو بھی چھین لی تھی، مگر ہر رات کے دامن میں سپیدہ سحر موجزن رہتا ہے اور ہر سیاہ بادل رخِ خورشید کا نقاب بن کر سرک ہی جاتا ہے۔گلگت بلتستان کی آزردہ و پژمردہ مٹی سے آزادی کے متوالوں کا خمیر اٹھا، جنہوں نے اپنی بہادری،جوش ، ولولے اور عزم سے ریاستی جبر و استبداد کا خاتمہ کر دیا۔گلگت سکاوٹس کے جان نثاروں نے غلامی و مایوسی کے اس مشکل دور میں یقین کی حدیں پھلانگ کر ،علاقے کے عوام کو ان کی تقدیر سے لا ملایا۔ان چند سو جانثاروں نے بے سروسامانی کی حالت میں اپنے سے کئی سو گنا طاقتور اور جدید اسلحے سے لیس دشمن کے خلاف جو کارنامہ سرانجام دیا ، وہ دنیا بھر کے عسکری ماہرین کو حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ایسی کامیابی عزم ِ راسخ،پختہ یقین اور اللہ تعالی کی ذات پر کامل ایمان ہی سے حاصل ہوسکتی ہے۔گلگت سکاﺅٹس کے جوانوں نے نہایت منظم حکمت عملی سے دشمن کے خلاف پے در پے کامیابیا ں حاصل کیں۔انہوں نے اپنا لائحہ عمل اس طرح ترتیب دیا کہ ان کی محدود افرادی قوت اور وسائل کی کمی بھی ان کے رستے میں حائل نہ ہو سکی۔انہوں نے زنگ آلود بندوقوں ، کلہاڑوں اور لاٹھیوں کے ساتھ برف زاروں میں ننگے پاﺅں ہمارے بقا کی جنگ لڑی اور فتح یاب ہوئے۔ان کی بہادری،دلیری اور بے خوفی لازوال ہے ۔غیرت و حمیت تو قبائل کی گھٹی میں ہے ،ان لوگوں نے جس طرح مستقبل کی پیش بینی کی اورقومی زندگی میں آزادی و خود مختاری کی اہمیت و افادیت کا ادراک کیا ،اس سے ایک خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔آج کا دن ان تمام غازیوں اور شہدا کے جذب آزادی کو خراج عقیدت پیش کرنے کا دن ہے ،جنہوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنے مایوسیوں سے لتھڑے ہوئے کل سے ہمارا روشن کیا۔آج گلگت بلتستان کے طول و عرض میں یوم ِ آزادی منایا جائے گا لیکن اس مرتبہ سطحی و رسمی تقریبات و خطبات میں احساس ِ ذمہ داری و تشکر کی گھلاوٹ بھی ہو تو سمجھنا چاہیے کہ یوم آزادی کو ہم نے یوم تجدید عہد کے طور پر منالیا۔گلگت بلتستان کے ہر ایک فرد کو یاد ہونا چاہیے کہ آج اگر وہ معاشرے کا ایک آزاد و خود مختار فرد ہے ،تو اس کی قسمت کی یہ روشن لکیر ہمارے آبا کے لہو سے کندہ ہے ۔یہ آزادی بہت ہی بیش قیمت ہے اور ہمیں اس کے تحفظ کے لیے یک دل ہو کر سعی کرنا چاہیے۔آزادی کی قدرو منزلت کا اندازہ ان قوموں کی تکالیف و اضطراب سے لگایا جاسکتا ہے،جنہیں یہ نعمت حاصل نہیں۔لہذا یہ قوم کے ہر اک فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ مساعی جمیلہ سے حاصل شدہ نعمت کی قدر کرے اور اس کی مضبوطی واستحکام کے لیے اپنا فریضہ بہ احسن نبھائے۔گلگت بلتستان کے لوگوں کو آج کے دن یہ عہد کرلینا چاہیے کہ وہ اس خطے کی سلامتی اور خودمختاری کے لیے کوششیں کرتے رہیں گے ۔وہ روا داری، مذہبی ہم آہنگی،پرامن بقائے باہم ، برداشت اور صلہ رحمی کو فروغ دیں گے اور ایسے افعال اور امور کو فروغ دینے سے اجتناب برتیں گے ،جن سے علاقائی امن و سلامتی کو خطرات لاحق ہوں اور علاقہ دشمنوں کے لیے تر نوالہ ثابت ہوسکے۔یہی یوم آزادی کا دن ہماراعہد ہونا چاہیے۔گلگت بلتستان پاکستان کے شمال میں قراقرم کے پہاڑی سلسلوں میں واقع ہے ۔یہ خطہ پاکستان کیلئے اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ دوسرے خطے اہم ہیں۔کیونکہ اس خطے میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو واقع ہے ساتھ ساتھ موسم گرما میں اس کے حسین نظارے دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں۔اس وجہ سے گلگت بلتستان دنےا بھر میں مشہور ہے اس خطے میں 1948تک ڈوگروں کا راج رہا ۔ان کی حکمرانی نے وہاں کے لوگوں کا جینا بھی محال کر دیا تھا ۔اس لئے وہاں کے مکینوں نے ڈوگروں سے آزادی حاصل کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا اور یکم نومبر 1948کو ڈوگروں سے آزادی ملی تو وہاں کے عوام نے اپنی معاشی و معاشرتی بہتری کیلئے پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیا۔اس دن سے لے کر آج تک گلگت بلتستان کے غیور عوام اپنے جشن آزادی کی بجائے چودہ اگست یعنی یوم آزادی مملکت پاکستان کو شایان شان طریقے سے مناتے ہیں۔گلگت بلتستان کا بچہ بچہ وطن عزیز کے نام پر کٹ مرنے کو ہمہ وقت تیار ہے لیکن یہ اہم ترین خطہ اب تک آئینی حقوق سے محروم ہے جس کے سبب وہاں کے لوگوں میں مایوسی پھیلی ہوئی ہے،وہاں کے لوگوں نے حکومت پاکستان سے بھرپور مطالبہ کےا ہے کہ اس خطے کو بھی دوسر ے صوبوں کی طرح مکمل آئینی حقوق دے کر صوبے کا درجہ دیا جائے۔