بڑے میاں بھی سبحان اللہ

سکردوکو ان دنوں بجلی کے بد ترین اور سنگین بحران کا سامنا ہے۔ شہر کے بیشتر علاقوں میں پوری رات میں بمشکل ایک گھنٹہ اور دن میں ایک سے ڈیڑھ گھنٹے بجلی دی جارہی ہے لیکن تکلیف اور تشویش کی بات یہ ہے کہ پورے چوبیس گھنٹوں میں جو ایک سے دو گھنٹے صارفین کو بجلی دی جاتی ہے وہ بھی وولٹیج مکمل ڈراپ کرکے دیتے ہیں۔یہ کم وولٹیج کی بجلی صارفین کے کسی کام کی نہیں کیونکہ اتنی کم وولٹیج والی بجلی سے بجلی سے چلنے والی کوئی بھی مشین ٹیلی ویژن،پانی کا موٹر،ڈیپ فریزر، گیزر یا استری وغیرہ کا چلنا تو دور کی بات حتیٰ کہ موبائل فون تک بھی چارج نہیں کیا جاسکتا ہے۔ایسی بجلی سے صارف فائدہ تو نہیںاُٹھا سکتا لیکن کم وولٹیج کے باعث گھروں میںبرقی آلات کے جل جانے سے صارفین کو مالی نقصان کا سامنا رہتا ہے۔ باعث تشویش پہلو یہ بھی ہے کہ بجلی کی اتنی تنگی اور بحران بےچارے اُن عام صارفین کے لئے ہے جو قانونی ایک ہی لائن سے بجلی لیتے ہیں اور بجلی بل باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں ۔ اُن کے ہاں دن اور رات کے اوقات میں گھنٹوں بلاتعطل بجلی موجود ہوتی ہے جو ایک سے زائد لائنوں سے اور بالخصوص سپیشل لائنوں سے بجلی لیتے ہیں ، بغیر میٹر بجلی کے استعمال کے لئے کُنڈے کا سہارا لیتے ہیں۔ اس صورت حال پہ متعلقہ محکموں کے حکام کو بالکل بھی تشویش نہیں ہے ۔ ان کے کسی اقدام سے بھی نہیں لگتا کہ وہ اس صورتحال میں بہتری کے لئے کو ئی کوشش کررہے ہوں۔ ہاں حال ہی میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی سربراہی میں ہونے والے ایک اجلاس جس میں واپڈا اور محکمہ برقیات کے حکام بھی شریک تھے میں یہ فیصلہ سامنے آیا ہے کہ بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے صارفین کی سروس لائینوں پر فیوز لگائے جائیں گے۔ یعنی چوبیس گھنٹوں میں صرف ایک گھنٹے دن میں اور ایک گھنٹے رات کو دی جانے والی بجلی سے بھی اب صارفین کپڑے استری کر سکیں گے نہ اس سرد موسم میں منہ ہاتھ دھونے کے لئے گیزر کا استعمال کرسکیں گے۔ کنڈے سے چوری کی بجلی استعمال کرنے اور سپیشل لائنوں سے بجلی لینے والوں پر ان کا بس نہیں چلتا۔لوگوں کو بجلی دینے کی بنیادی ذمہ داری منصوبے رکھنے کی حد تک منتخب عوامی نمائندوں کی پھر محکمہ برقیات اور واپڈا کی ہے۔ پھر ان محکموں سے کام لینے اور نظام میں بہتری لانے کے حوالے سے ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری بنتی ہے۔ معاشرے میں بحران اس سنگین حد تک تب پہنچ جاتے ہیں جب ان میں سے ہر شعبے سے ذمہ داری کی انجام دہی میں کہیں نہ کہیں کمی کوتاہی رہ جائے۔ذیل میں ہم سکردو میں مذکورہ بالا ان شعبوں کے کردار پہ طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔ہر سال سردیوں میں بجلی کا بحران سنگین سے سنگین تر ہونے کی روایت موجود ہونے کے باوجود واپڈا والے سدپارہ نالے میں موجود بجلی گھروں کی مرمت کرنے کی زحمت تک نہیں کرتے ۔اس وقت بھی ان کے بجلی گھروں میں سے ایک یونٹ خراب پڑا ہوا ہے ۔اگرچہ ان بجلی گھروں کی مکمل اوور ہالنگ پچھلے کئی سالوں سے مطلوب ہے اور واپڈا ہی کے مطالبے پہ ماضی میں پاکستان مسلم لیگ نون کی صوبائی حکومت ان بجلی گھروں کی مکمل اوور ہالنگ کے لئے 7 کروڑ 20 لاکھ روپے کی رقم فراہم کی تھی ۔ جو تاحال واپڈا کے اکاﺅنٹ میں پڑی ہے۔ اب تک تو اس رقم سے جتنا منافع واپڈا والوں کو حاصل ہوچکا ہے اس سے ان بجلی گھروں کا مرمت کا کام بھی آسانی سے کیا جا سکتا ہے مگر کوئی پوچھنے ولا ہو تب نا۔دوسری جانب گلگت بلتستان محکمہ برقیات کی بھی سردیوں میں بجلی بحران سے نمٹنے کی کوئی حکمت عملی نظر نہیں آتی۔سکردو شہر سمیت مضافات کے علاقوں میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی بالخصوص ہوٹل انڈسٹری کے تیزی سے پھیلاﺅ کے پیش نظر ہنگامی بنیادوں پر سکردو کے لئے کسی نئے بجلی گھر کے منصوبے پہ جنگی بنیادوں پہ کام کرنے کی تیاری کرتے مگر بد قسمتی سے ان کی ایسی کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی ہے۔ پچھلے سال وزیر اعلی نے غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ معاہدہ کیا کہ وہ کمپنیاں گلگت بلتستان میں 180 میگاواٹ کے شمسی توانائی کا منصوبہ لگائے گی مگر اب تک اس کا اَتا پتا نہیں۔ پچھلے دنوں ناروے کی ایک کمپنی کے نمائندوں نے اسلام آباد میں وزیر اعلی کی موجودگی میں سکردو میں 3.5 میگاواٹ کے شمسی بجلی پیدا کرنے کے منصونے پر دستخط کئے ۔اگلے روز کمپنی کے نمائندے سکردو آئے اور کمشنر کی سربراہی میں اس منصوبے سے متعلق اجلاس ہوا ۔جب کمشنر آفس سے اس اجلاس کی پریس ریلےز جاری ہوئی جس میں کہا گیا کہ ناروے کی کمپنی سکردو میں 3 میگاواٹ شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرے گی۔ 500 کلوواٹ بجلی اسلام آباد سے یہاں پہنچنے میں کہیں غائب ہوگئی۔دوسری جانب خطے میں بجلی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر اگرچہ محکمہ برقیات کے حکام نے خود سے سکردو شہر میں بجلی کی بڑھتی ضروریات کے پیش نظر کئی مقامات پہ بجلی کے قابل عمل منصوبون کی نشاندہی کر رکھی ہے۔ جن میں بشو کے مقام پہ 40 میگاواٹ طاقت کے بجلی گھر کافی سالوں سے GTZکمپنی نے واپڈا کے تعاون سے سٹڈی کرکے قابل عمل قرار دیا ہے جسے بعد میں سال 2011 میں دوبارہ نظرثانی کرکے اپڈیٹ کیا ہے۔ طورمیک میں 10 میگاواٹ طاقت کا بجلی گھرجون 2010 میں قابل عمل قرار دیا تب سے عمل در آمد کا منتظر ہے۔سدپارہ میں سکردو سے چودہ کلو میٹر اوپر سدپارہ نالے میں 5.3 میگاواٹ پن بجلی گھر کا منصوبہ سال 2018 سے قابل عمل قرار دیا ہوا ہے۔ مئی 2015ءمیںستک روندو میں24 میگاواٹ ، گانچھے دندا لامشہ بروم میں 10 میگاواٹ طاقت کا بجلی گھراور چھوربٹ گانچھے میں 20 میگاواٹ طاقت پن بجلی گھرکے منصوبے قابل عمل قرار دینے کے بعد عمل در آمد کے منتظرپڑے ہیں۔اسی طرح شگر ڈوغورو میں10 میگاواٹ اور برالدو شگر میں 10.91 میگاواٹ دسمبر 2018 سے قابل عمل قرار دیا ہوئے ہےں ۔تونگس روندو میں ایک چھوٹے ڈیم کا منصوبہ قابل عمل ہے جہاں سے 2200 میگاواٹ بجلی باآسانی پیدا ہو سکتی ہے جس کا pcii واپڈا نے975.013 ملین روپے کا تیار کیا ہے ۔ اسی طرح یلبو روندو کے مقام پر ایک چھوٹے ڈیم سے 2800 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے،اس منصوبے کا بھی واپڈا نے71.795 ملین روپے کا تیار کر کے pc-ii وزارت پانی و بجلی کو بھجوایا ہوا ہے ۔ان منصوبوں پہ عمل درآمد کی صورت میں ہی سکردو اور مضافات کے علاقوں کو بجلی کے موجودہ بحران سے نجات ممکن ہے لیکن بدقسمتی یہ کہ ان منصوبوں کی منظوری لے کر ان پہ کام کرنا تو دور کی بات گلگت بلتستان میں موجود محکمے کے جتنے بجلی گھرخراب ہیں ان کو ٹھیک کرنے کی کوئی جد وجہد بھی نظر نہیں آتی۔جہاں محکمے کی جانب سے کمزوری کا مظاہرہ ہو تو نگرانی اور ان کی کارکردگی پہ نظر رکھتے ہوئے اُن کی کارکردگی بڑھانے کے لئے کردار ادا کرنے کی ذمہ داری ضلعی اور ڈویژنل انتظامیہ کی ہو تی ہے لیکن یہاں بجلی کی صورتحال پہ ضلعی انتطامیہ کا کردا ر بھی مایوس کُن ہے۔ڈپٹی کمشنر سکردو یوں تو بہت ہی فعال اور متحرک انتظامی افسر ہیں لیکن بجلی تقسیم کے معاملے میں کارکردگی حوصلہ افزا نہیں رہی۔ پچھلے سال بجلی بحران سے نمٹنے سے متعلق اپنی سربراہی میںہونے والے کئی اجلاسوں کے بعد عمائدین سکردو کو کھرمنگ بھےجنے کا فیصلہ کیا تاکہ کھرمنگ سے دن کے وقت بجلی سکردو لانے کے لئے عمائدین سکرد و عمائدین کھرمنگ سے براہ راست گفتگو کر سکےں۔طے یہ پایا کہ ملاقات میں ڈپٹی کمشنر خود بھی شریک ہونگے۔ شیڈول کے مطابق عمائدین سکردو تو طولتی پہنچ گئے مگر عین وقت پہ خود ڈپٹی کمشنر طولتی نہیں آئے۔ خیر عمائدین سکردو اور عمائدین کھرمنگ کے بڑے خوشگوار ماحول میں مذاکرات ہوئے۔مذاکرات میں چند ایسے نکات عمائدین طولتی کی جانب سے اُٹھائے گئے جو حکومت سے متعلق تھے تو عمائدین سکردو نے یہ یقین دہانی کرائی کہ سکردو پہنچ کر ان نکات پہ اجلاس بلایا جائے گا تاکہ یہ ایشوز اُجاگر ہوسکیں لیکن عمائدین کے بار بار رابطے کے باوجودیہ اجلاس نہ ہوسکا اور معاملات پڑے رہے۔ سکردو شہر میں بجلی بحران اُس وقت انتہا کو پہنچا جب جنوری 2023 میں ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں ہونے والے ایک اجلاس جس میں واپڈا، محکمہ برقیات اور جھیل کمیٹی کے ارکان شریک تھے اس جواز کے ساتھ دن میں پانی کا اخراج اوربجلی مکمل بند کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ ڈیم میں رمضان کے لئے پانی بچایا جاسکے۔ میٹنگ شرکا کو یقین دلایا گیا کہ اس فیصلے کے نتیجے میں رمضان میںافطاری اور سحری پہ صارفین کو تین تین گھنٹے بجلی دی جائے گی ۔ جس پر صارفین بالخصوص کارباری طبقے نے مکمل قربانی دی کیونکہ دن کی بجلی مکمل بند کردی گئی تھی۔ جب رمضان کا مہینہ آیا تو صارفین کو سوائے مایوسی کے کچھ نہ مل سکا کیونکہ سحری اور افطاری پہ روزہ داروں کو بیس منٹ سے آدھ گھنٹہ بجلی ملتی رہی اور کبھی ایسا بھی ہوتا کہ لوگ بغیر بجلی کے سحری اور افطاری کر لیتے ۔ اس صورت حال پہ جب دوبارہ ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں واپڈا، محکمہ برقیات اور شہر کے عمائدین کا اجلاس ہوا تواب کی بار شرکاءکو یہ دلاسہ دیا گیا کہ بس روزے نکل جانے دو پورے ضلع سکردو کی بجلی سکردو شہر لائی جائے گی اور تمام علاقوں میں بجلی کی یکساں تقسیم یہیں سکردوسے ہوگی۔شرکاءاجلاس نے کہا عجیب منطق ہے پہلے بجلی دینے کے لئے روزوں کا انتظار کرایا گیا اب روزے نکلنے تک کا انتظار کرایا جارہا ہے ۔ بحرحال رمضان کو گزرے اب نو ماہ گزر چکے ہیں لیکن اب تک سکردو ضلع بھر کی بجلی سکردو شہر لائی گئی نہ ہی صارفین کویکساں بجلی مل سکی ہے۔انہی ایام میں سکردو مین بازار کے کاروباری طبقے اور سکمیدان کے عمائدین کی ملاقات بجلی کے بحران کو لے کر ڈپٹی کمشنر سکردوسے ہوئی ملاقات میں شرکا کو یہ باور کرایا گیا کیونکہ گورنر صاحب نے بھی مین شہر کی بجلی بحران کے مسئلے کو حل کرنے کی ہدایت کی ہے لہذا ابھی جو ڈیزل جنریٹر سکردو پہنچنے والے ہیں اُن میں سے ایک سکیمیدان میں اُتارا جائے گا تاکہ یہ مسئلہ حل ہو سکے۔ شرکا خوشی خوشی واپس آئے لیکن آج کے دن تک کوئی جنریٹر سکمیدان میں اُترا نہ ہی اس گاﺅں کی بجلی کا مسئلہ حل ہوا۔ جب واچ ڈاگ کاکردار ادا کرنے والی انتظامیہ کی حالت یہ ہو تو آخری بلکہ سب سے توانا اور قابل اعتبار سہارا منتخب عوامی نمائندے کا ہوتا ہے لیکن سکردو شہر والے اس حوالے سے بھی بد قسمت ثابت ہوئے ہیں ۔ اسی حلقے سے پہلا منتخب وزیر اعلی ،دو بار گورنر کا عہدہ ، ایک بار وزیر برقیات و خزانہ اور ایک بار سینیئر وزیر جنگلات ،جنگلی حیات و ماحول اسی ہتھیلی جتنے حلقے سے رہا۔ اس وقت بھی بجلی اور برقیات و منصوبہ بندی ، تعمیرات، بلدیات جیسی اہم وزارتوں کے قلمدان بلتستان کے عوامی نمائندوں کے پاس ہیں۔ جو سب کے سب سکردو شہر کے رہائشی ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اس شہر کے باسی زندگی کی بنیادی ضرورت ،پینے کا صاف پانی اور روشنی کی غرض سے جلانے کی بجلی کے لئے دست و گریباں ہیں ۔ کوئی بھی اس شہر کے باسیوں کو زندگی کی بنےادی سہولتیں دینے یا انہیں اندھیروں سے نکالنے میں مخلص نہیں۔ایسے میں یہاں فقط محکمے کے اہلکاروں کو ہی ذمہ دار ٹھہرانا درست نہیں ہوگا۔ بلکہ ۔۔چھوٹے میاں تو چھوٹے میاں۔ بڑے میاں بھی سبحان اللہ۔