سید مجاہد علی
پاکستان میں ایک نئے سیاسی عہد کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ اس عہد کے سرنامے پر فی الوقت نا اہل و سزا یافتہ لیکن تین بار وزارت عظمی کے منصب پر فائز رہنے والے نواز شریف کا نام لکھا ہے۔ کچھ لوگ اسے ایک انقلاب آفریں تبدیلی سے تعبیر کر رہے ہیں۔ اس رائے کے مطابق اسٹےبلشمنٹ اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے نواز شریف کی سیاسی حکمت سے فائدہ اٹھانے پر تیار ہو گئی ہے۔ البتہ ایک دوسری رائے کے مطابق معروف ہائبرڈ نظام کے تحت عمران پراجیکٹ کی ناکامی کے بعد اب نواز پراجیکٹ لانچ کیا جا رہا ہے۔اس بحث میں بنیادی نکتہ یہی ہے کہ ملک میں اصل اختیار اسٹےبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہے۔ جس سیاسی لیڈر کو اس کی تائید و حمایت حاصل ہو جائے، سمجھ لیا جاتا ہے کہ اقتدار کی کرسی اب اس کا نصیب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 21 اکتوبر کو میاں نواز شریف کی واپسی سے بہت پہلے یہ واویلا سنائی دینے لگا تھا کہ ملک کو موجودہ معاشی، سیاسی اور سفارتی بحران سے نواز شریف ہی باہر نکال سکتے ہیں۔ اس امیج بلڈنگ کا ہمیشہ سے یہی مقصد ہوتا ہے کہ عوام کی اکثریت کو اس گمان میں مبتلا کر دیا جائے کہ اب ملک میں کس کے لیے اقتدار کا راستہ ہموار ہو رہا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں چونکہ کم شرح خواندگی اور سماجی و معاشی تفاوت کی وجہ سے عوام میں سیاسی شعور پختہ نہیں ہوتا، اس لیے یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ اگر کسی لیڈر کی ہوا باندھ دی جائے تو اس کے لیے اقتدار کے راستے میں حائل دیگر رکاوٹیں عبور کرنا دشوار نہیں رہتا۔ بدقسمتی سے ان رکاوٹوں میں سب سے بڑی مشکل انتخابات کو سمجھا جاتا ہے۔ملک میں ایک جمہوری آئین نافذالعمل ہے اور اعلی عدالتیں گاہے بگاہے اس کی بالادستی اور حفاظت کی یقین دہانی بھی کرواتی رہتی ہیں لیکن اس یقین دہانی بلکہ نگرانی کے باوجود ملک کے جمہوری نظام میں نقب لگانے کا سلسلہ بھی ہمیشہ سے جاری رہا ہے۔ نہ اعلی عدالتوں نے اس طریقہ کار کو روکنے کی ضرورت محسوس کی ہے، نہ سیاسی قائدین نے بلوغت و شعور کی وہ منازل طے کی ہیں کہ جمہوری عمل کی شفافیت اور خودمختاری کو یقینی بنایا جائے اور نہ ہی عوام جذباتی نعروں سے بلند ہو کر صورت حال کا معروضی حالات و ضروریات کے مطابق جائزہ لینے کے قابل ہوئے ہیں۔ یا کم از کم یہ گمان کر لیا گیا ہے کہ عوام شعور کی اس سطح پر نہیں پہنچ سکے کہ ایک فعال سیاسی عمل کو یقینی بنانے میں کردار ادا کریں۔ اور جمہوری نظام کی آئینی ضمانت کو شہری کے طور پر اپنا بنیادی حق سمجھ کر اسے فراہم کرنے پر اصرار کریں اور سماجی فریضہ کے طور پر اسے بجا لائیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جمہوری انتخابی عمل نعروں، مخالفین کی کردار کشی اور درپردہ گٹھ جوڑ یا سازشوں کے چنگل سے نجات نہیں پا سکا۔ملک کو ایک بار پھر ایسے ہی امتحان کا سامنا ہے۔ بظاہر نئے انتخابات کا انتظار کیا جا رہا ہے اور کسی حد تک یہ اشارے بھی دیے جا رہے ہیں کہ جلد عام انتخابات منعقد ہوں گے اور عوام کو مستقبل کے پانچ سالوں کے لیے اپنے نمائندے چننے کا حق دیا جائے گا۔ حالانکہ جس عوامی استحقاق کی بات کی جا رہی ہے، اس بارے میں کوئی شبہ یا بے یقینی کی کیفیت پیدا ہی نہیں ہونی چاہیے لیکن گزشتہ دو سال کے دوران تسلسل سے ایسے حالات سامنے آئے ہیں جن میں یہ پریشانی لاحق رہی ہے کہ کیا ووٹ عوام کا آئینی حق ہے یا یہ کوئی ایسا تحفہ ہے جو مقتدر طبقات مرضی و منشا کے مطابق جب جی چاہے عوام کو عطا کر دیں اور جب ضروری سمجھا جائے، انہیں اس حق سے محروم کر دیا جائے۔ اسی تناظر میں کچھ سال پہلے ملک میں ووٹ کو عزت دو کا نعرہ گونج رہا تھا اور اب اس نعرے سے گریز پا ہونے کی کوشش کرنے والی مسلم لیگ نون کے لیڈر یہ باور کروانے پر بضد تھے کہ عوام کے ووٹ سے ہی ملکی تقدیر کا فیصلہ ہونا چاہیے۔ حالانکہ اس وقت بھی ملک میں ایک منتخب حکومت ہی کام کر رہی تھی لیکن اسے نامزد حکومت کا نام دے کر دھاندلی زدہ انتخابات مسترد کرنے اور شفاف انتخابات منعقد کروانے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ماضی قریب کی سیاسی تاریخ کے سرسری مشاہدے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس موقف کو بڑی حد تک عوامی پذیرائی نصیب ہو رہی تھی۔ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت کے امیدواروں کو شکست ہو رہی تھی اور عام طور سے ملکی نظام بحران کا شکار تھا۔ ایک بڑی سیاسی پارٹی چند چھوٹی جماعتوں کے ساتھ حکومت میں تھی لیکن دو بڑی اور چند دیگر چھوٹی جماعتیں اس حکومت کو جعلی قرار دے کر شفاف انتخابات کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ یہ کشمکش حالات کو اپریل 2022 تک لے آئی، جب قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور کرلی گئی۔ اقتدار کا ہما عمران خان کے سر سے پرواز کر کے شہباز شریف کے سر پر بیٹھ گیا اور جن چند چھوٹی پارٹیوں کے سہارے عمران خان ملک کے وزیر اعظم بنے تھے، انہوں نے اب شہباز شریف کو اپنے اعتماد کے قابل سمجھا۔ بظاہر یہ معمول کی پارلیمانی کارروائی تھی لیکن اپوزیشن سے سیاسی اقتدار تک کا سفر کرنے والے لیڈروں اور پارٹیوں کے لیے یہ قانونی، آئینی اور مصدقہ جمہوری طریقہ تھا جبکہ اقتدار سے محروم ہونے والے عمران خان کے نزدیک یہ صریحا سازش تھی جس کے ڈانڈے جی ایچ کیو سے ہوتے ہوئے واشنگٹن تک پہنچتے تھے۔ اس حوالے سے ثبوت کے طور پر ایک سفارتی مراسلہ بھی سامنے لایا گیا۔ اب اسی الزام میں عمران خان اور ان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پر سائفر کیس میں فرد جرم عائد کر کے عدالتی کارروائی شروع کی گئی ہے۔یہ ساری صورت حال واضح کرتی ہے کہ ملکی نظام کے اصل وارث عوام نہیں ہیں بلکہ یہ اختیار بعض ایسے عناصر کو تفویض ہو چکا ہے جو اپنی صوابدید کے مطابق یہ فیصلہ کرنے کے مجاز قرار پائے ہیں کہ ملک پر باقاعدہ یا رسمی حکومت کرنے کا حق و اختیار کس لیڈر، پارٹی یا سیاسی گروہوں کو حاصل ہونا چاہیے۔ قومی مفاد کے یہ کسٹوڈین عرف عام میں اسٹےبلشمنٹ کہلاتے ہیں۔ اگرچہ یہ ایک وسیع اصطلاح ہے لیکن بنیادی طور پر اسے فوج کے سیاسی فیصلوں یا عزائم کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ گو کہ آئینی طور سے ملکی نظام اور قانونی حکومت کو یقینی بنانے کا اختیار ملکی سپریم کورٹ کو تفویض کیا گیا ہے لیکن تاریخ کے ہر ایسے دوراہے پر جب عوام کے ووٹ اور فوج کے اختیار کے درمیان توازن قائم کرنے اور عوام کے آئینی حق کو فائق قرار دینے کی ضرورت پیش آئی تو عدالت عظمی کے ججوں کی اکثریت نے اپنا وزن فوجی طاقت کے پلڑے میں ہی ڈالا۔ ابھی تک یہ سارے عدالتی فیصلے نہ تو چیلنج ہوئے ہیں اور نہ ہی انہیں تبدیل کرنے کی کوئی موثر کوشش کی گئی ہے۔ اس لیے یہ تاثر راسخ ہو چکا ہے کہ ملک میں بھلے انتخابات کا ڈھونگ کر لیا جائے لیکن فیصلہ وہی ہو گا جو فوجی قیادت کو منظور ہو گا۔آئینی لحاظ سے اگرچہ ملکی نظام چلانے کا حق صرف عوام کو حاصل ہے اور وہ اپنے ووٹ کے ذریعے مرضی کی سیاسی پارٹی یا لیڈر کو اقتدار تفویض کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ سیاست دان و سیاسی پارٹیاں اس اعتماد کو مقدس امانت سمجھ کر امور حکومت طے کرنے کا فریضہ سرانجام دیتی ہیں لیکن عملی طور سے اب یہ طریقہ محض تھیوری تک محدود ہو چکا ہے۔ ملک میں اس سوال پر چونکہ کوئی ریفرنڈم منعقد نہیں ہوا، اس لیے عوام کی اکثریت کے بارے میں تو کوئی رائے زنی نہیں کی جا سکتی کہ وہ اس صورت حال پر کیا سوچتے یا محسوس کرتے ہیں لیکن فوج کے علاوہ ملکی عدلیہ اور سیاسی لیڈروں کے بارے میں البتہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ سارے عناصر انتخابات کو ایک ایسا انتظام سمجھنے لگے ہیں جس میں عوام کو ووٹ کے ذریعے لیڈر منتخب کرنے کا موقع دیا جائے گا تاہم قومی مفاد کی مکمل حفاظت کے لیے قبل از وقت ہی یہ یقینی بنالیا جائے گا کہ عوام کسی گمراہی کا شکار نہ ہوں۔ اگر اس کا امکان پیدا ہونے لگے تو انتخابی عمل کے دوران ہی اس کی درستی کا انتظام کر لیا جائے۔ ملک میں اس عملیت پسندی کو ہی اب جمہوریت کہا جاتا ہے۔ 2018 کے انتخابات اس کے تازہ ترین ثبوت کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں اور آثار بتا رہے ہیں کہ اگر 2024 میں نئے انتخابات منعقد ہوتے ہیں تو از سر نو یہ یقین حاصل کیا جائے گا کہ کوئی فیصلہ لکھے ہوئے اسکرپٹ کے خلاف نہ ہو۔گویا پاکستان میں جمہوری عمل عوامی ووٹ کے بہاﺅ کی بے یقینی کا متحمل نہیں ہو سکتا بلکہ اسے مینیج کرنے کے لیے اہم ریاستی اداروں کو چوکنا رہنا پڑتا ہے۔ اسی چوکسی کا نتیجہ ہے کہ انتخابات کے انعقاد سے پہلے ہی یہ اہتمام کر لیا جاتا ہے کہ کسی ایک خاص لیڈر یا جماعت کو کامیابی کے لیے نشان زد کر دیا جائے تاکہ عوام و خواص متنبہ رہیں کہ ریس کے کس گھوڑے کو جیتنے کی اجازت دی جائے گی۔ اس بار تو یہ اہتمام یوں بھی چونکا دینے والا ہے کہ سیاسی انتخابی دوڑ میں ایک اہم امیدوار کی شرکت کو مشکوک بنایا جا رہا ہے۔