نواز شریف کی وطن واپسی

 محمد رائد خان

بیانیے تشکیل دیے جا رہے ہیں، سیاسی مفروضات تراشے جا رہے ہیں اور مسلم لیگ نون اپنے قائد میاں محمد نواز شریف جو ملک کے تین بار وزیر اعظم رہ چکے ہیں لیکن شاید اب چوتھی بار بھی وزیر اعظم بننے کے خواہاں ہیں کو پاکستان کو درپیش بحرانوں کا واحد حل اور قومی مسائل کا تسلی بخش علاج قرار دے رہے ہیں۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو میاں محمد نواز شریف کی یہ بد قسمتی رہی ہے کہ وہ ملک کے تین بار منتخب وزیر اعظم رہ چکے ہیں لیکن ایک بار بھی وہ اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری نہ کرسکے۔پہلی بار انہیں 1993 میں صدر غلام اسحاق خان کی طرف سے برطرف کیا گیا تھا تو دوسری بار وہ مشرف کے مارشل لا کی نذر ہوئے۔ بعد ازاں، تیسری بار 2018 میں انہیں ایک نیم مارشل لا کے ذریعے اور عدالتی اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اس بات پر نااہل قرار دے دیا گیا کہ وہ اپنے بیٹے سے تنخواہ نہیں لیتے۔ الغرض، ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال یہ ہے کہ نواز شریف لاہور میں ہیں، لیگیوں کے مطابق مینارِ پاکستان پر ایک تاریخ ساز جلسے سے خطاب کرچکے ہیں اور اپنی جماعت کی تعمیر نو میں مشغول ہیں جو 2018 کے بعد عمران خان کے پروپیگنڈے کی زد میں آ کر مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔ اب یہ مکافات ِعمل ہے یا حسن ِاتفاق کہ جب 2017 میں میاں صاحب کو نااہل قرار دیا گیا اور نہیں جیل منتقل کر دیا گیا تو پی ٹی آئی اپنی مقبولیت کی تیز ترین اڑان بھر رہی تھی لیکن آج وہی پی ٹی آئی ریاستی غضب کا شکار ہے اور ان کے محبوب لیڈر جیل میں قید ہیں جبکہ نون لیگ عوامی مقبولیت کی دعویدار بن کر ابھر رہی ہے۔بہرحال، مینارِ پاکستان پر نواز شریف کے جلسے کو سیاسی مبصرین کی جانب سے مسلم لیگ نون کا دوسرا جنم قرار دیا جا رہا ہے البتہ پی ٹی آئی حلقے کے صحافیوں اور دانشوروں کی رائے اس معاملے میں مختلف مگر معمول کے مطابق ہے۔ ایسی صورتحال میں کچھ سوالات ہیں جو ذہن میں امڈ آتے ہیں مثلا کیا نواز شریف پاکستان کی آخری امید کی کرن ہیں؟ اور کیا واقعی نواز شریف کی وطن واپسی سے مسلم لیگ نون کا دوبارہ جنم ہو سکے گا؟ یہ وہ کچھ سوالات ہیں جو پاکستان کے موجودہ منظر نامے کے پس منظر میں دہرائے جا رہے ہیں، جن کا جواب تلاش کرنا ہمارے لیے ناگزیر ہے۔سیاسی مبصرین اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نواز شریف کی وطن واپسی، مسلم لیگ نون اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کسی ڈیل کا شاخسانہ ہے۔ اور نا صرف گزشتہ دنوں بلکہ آئندہ انتخابات میں بھی نون لیگ کو اسٹیبلشمنٹ کی غیر علانیہ حمایت حاصل تھی اور رہے گی۔ اس بات کا اندازہ کچھ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ نواز شریف کو مینار پاکستان پر قوم سے خطاب کرنے کی مکمل آزادی دی گئی لیکن اسی دوران جب پی ٹی آئی کارکنان نے لاہور میں ایک پارٹی کنونشن منعقد کیا تو اس پر پولیس نے دھاوا بول کر تقریبا 55 افراد کو زیر حراست لے لیا۔اس خبر سے نہ صرف اسٹیبلشمنٹ کی نون لیگ سے کچھ حد تک قربت جھلکتی ہے بلکہ نگران حکومت کی غیر جانبداری کی بھی قلعی بہر طور کھل جاتی ہے۔ تحریک انصاف تو کجا پیپلز پارٹی کی جانب سے بھی اسٹیبلشمنٹ اور نون لیگ کے درمیان قربت کو ہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے بلکہ اسے کچھ حلقوں کی جانب سے تو پاکستان میں جمہوریت کے لئے خطرہ تک قرار دیا جا چکا ہے۔ البتہ نون لیگ کی جانب سے اس تاثر کی بارہا نفی کی جا چکی ہے اور مسلم لیگ نون کے سینئر رہنماوں کی جانب سے یہی بیانات سامنے آرہے ہیں کہ ہم ووٹ کو عزت دو کے بیانیے پر آج بھی قائم ہیں ۔ اسٹیبلشمنٹ کے اس مبینہ رویہ اور ملکی سیاسی اتار چڑھاﺅ کی مناسبت سے ایک مزید سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ آیا پی ٹی آئی کو آئندہ انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ مل پائے گی یا نہیں؟ موجودہ صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تحریک انصاف کا لیول پلیئنگ فیلڈ ملنا تو درکنار انہیں باضابطہ سائڈ لائن کیا جا رہا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی انتخابات میں نہیں اتر سکے گی اور اگر اترے گی بھی تو انہیں اپنی روایتی قیادت میسر نہیں ہوگی۔بہرکیف، موضوع کی طرف واپس بڑھتے ہوئے پہلے اس سوال کا جواب دینا لازم ہے کہ کیا نواز شریف پاکستان کے آخری نجات دہندہ ہیں؟ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ نواز دور حکومت کو کچھ حد تک پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کے لئے خوش آئند گردانا جاسکتا ہے لیکن مجموعی طور پر کرپشن، منی لانڈرنگ اور بحرانوں سے جکڑی معیشت اور سیاست نواز حکومت کا بھی ناقابل فراموش خاصہ رہی، جسے کلی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک بات ہے کہ نواز شریف مقتدر ہونے کے بعد ملک کے تمام بحرانوں کا حل دریافت کر لیں گے اور ان کے پاس قوم کو لپٹے ہر مسئلہ اور مرض کا علاج ہے تو بہرحال میں اس بیانیہ کا خریدار نہیں اور نہ ہی میرے نزدیک کسی بھی شخص کے پاس کوئی ایسی جادوئی چھڑی ہے جس کے ذریعے ملک کو درپیش مسائل کو فورا حل کیا جاسکتا ہے۔اب جہاں تک تعلق اس دوسرے سوال کا ہے کہ آیا نواز شریف مسلم لیگ نون کو دوبارہ زندہ کرسکیں گے؟ تو اس کا بھی سیدھا سا جواب یہ ہے کہ یہ خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا کہ جب تک مسلم لیگ نون، عمران خان اور ان کی جماعت کے تشکیل کردہ بیانیہ کو مفلوج کر کے عوام کے اندر پھر سے ووٹ کو عزت دو کے بیانیہ کی ترویج شروع نہ کردے اور میاں صاحب دوبارہ اپنے آپ کو ایک عوامی لیڈر منوا نہ لیں جو تصویر انصافیوں کے پروپیگنڈے کی وجہ سے دھندلی سی پڑ گئی تھی۔ اگر نواز شریف ملکی سیاسی منظرنامہ میں اپنی سیاسی ساخت کو دوبارہ بحال کرلیتے ہیں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ عوام اور خاص طور پر نوجوان نسل جو پاکستان کی کل آبادی کے ساٹھ فیصد ہیں کو اپنی طرف مائل کرسکیں گے، اور اس بیانیہ کا رد کریں گے کہ عمران خان ہی پاکستان کی آخری امید ہیں جو سوشل میڈیا پر آج بھی زور و شور سے پھیلایا اور قبول کیا جاتا ہے۔علاوہ ازیں، اکیسویں صدی انفارمیشن کی صدی گردانی جاتی ہے کیونکہ 2000۔ 2010 کی دہائی میں انٹرنیٹ سے رونما ہونے والے انقلاب نے دنیا بھر میں ایسے لیڈروں کو جنم دیا ہے جنہیں اگر مینوفیکچرڈ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا، ان رہنماﺅں میں ٹرمپ، مودی اور عمران خان سرِ فہرست ہیں۔ ڈس انفارمیشن کے تیز تر پھیلاﺅ نے دنیا بھر کی عوام کو عمومیت پسندی کے مرض میں مبتلا کر دیا ہے اور دنیا کی اکثریتی نوجوان نسل سازشی مفروضوں پر تاریخی حقائق سے زیادہ یقین رکھتے ہیں۔اسی صورتحال کا ہمیں پاکستان میں بھی سامنا ہے اور لوگ اپنے بیانیہ کے خلاف کسی بھی قسم کے دلائل اور حقائق سننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر نوجوانوں کے جھکاﺅ کو نون لیگ یا بھر کسی دوسرے مینوفیکچرڈ لیڈر کی طرف مائل کر دیا جائے تو اس سے عمران خان کی مقبولیت کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے بالکل ویسے ہی جیسے موصوف کی وجہ سے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کو عوام کی غیر دلچسپی اور بد اعتمادی کا خطرہ ہوا تھا۔ اگر نواز شریف اور ان کی جماعت مسلم لیگ نون ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ کہنا قبل از وقت نہ ہو گا کہ عمران خان کا پاکستانی سیاست میں وجود دفن ہو جائے گا یا کم از کم کمزور تو ضرور پڑ جائے گا۔لیکن ہمیں یہ حقیقت بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ نوجوانوں کے اندر ملک کی مروجہ خاندانی و موروثی سیاست کے خلاف نفرت اور غصہ تیزی سے بڑھ رہا ہے، ایسے میں سیاسی خاندانوں کا دیر تک پاکستانی سیاست میں قدم جمائے رکھنا بہت مشکل ثابت ہو گا اور اسٹیبلشمنٹ کو پھر سے اپنی ساخت برقرار رکھنے کے لئے جلدی ہی کسی نئے بیانیہ اور عوامی لیڈر کی ضرورت پیش ہوگی۔