احسان علی دانش
گلگت بلتستان میں جوں جوں ٹھنڈ بڑھتی جاتی ہے ندی نالوں میں پانی کی کمی واقع ہو رہی ہوتی ہے۔ ایسے میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں لا محالہ اضافہ ہوتا جاتا ہے اور بجلی کے صارفین بجلی گھر کے اہلکاروں کو کوس رہے ہوتے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ کے مسائل شدید ہونے کے بعد لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں، ٹائر جلاتے ہیں اور اپنے دل کا خوب غبار نکالتے ہیں۔ اپنے حقوق کے لئے حکومتی اہلکاروں کے سامنے احتجاج کرنا شہریوں کا حق ہے مگر۔۔۔شہریوں کے پاس یہ علم بھی ہونا چاہیے کہ اس موسم میں شہر بھر کے لئے کل کتنی میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے، شہریوں کی ضرورت کتنی ہے، فالتو بجلی کتنی ہے وغیرہ۔ میں چونکہ سکردو شہر میں رہتا ہوں اور بجلی کے معاملے میں میں بھی ایک عام صارف کی طرح بجلی استعمال کرتا ہوں۔ سب کی طرح ہمارے ہاں بھی بجلی آتی ہے جاتی ہے اور جب جاتی ہے تو آتی بھی ہے۔ میں نے حساب لگایا کہ شہر بھر کے لئے کل کتنی بجلی پیدا ہو رہی ہے۔ معلوم ہوا سکردو شہر کے لئے سرمیک سے کل 03 میگاواٹ بجلی آرہی ہے، باقی بجلی سرمیک، گول، تسو، غورو، نر ، تھورگو بالا ، تھورگو پائن اور حسین آباد میں استعمال ہو جاتی ہے۔ اسی طرح کچورا سے صرف 01 میگاواٹ بجلی سکردو کی طرف آتی ہے وہ بھی سکردو حلقہ 2 میں استعمال ہوجاتی ہے، بشو سے آنے والے بجلی قمرا تک کے علاقے کو روشن کر سکتی ہے۔ شہر کے لئے بجلی کا سب سے بڑا سورس سدپارہ ڈیم سے متصل واپڈا کے بڑے بجلی گھر ہیں۔ کہنے کو جن کی مجموعی طاقت 17 میگاواٹ کی ہے تاہم ان بجلی گھروں کا سارا نظام واپڈا والوں ہی کے پاس ہے۔ ان کی مشینیں جب بھی خراب ہوتی ہیں، اور اکثر ہوتی رہتی ہیں تو ان کا علاج لاہور میں ہوتا ہے آج کل واپڈا فیز 2 کا یونٹ 1 خراب ہوکر مرمت کے لئے گلگت شفٹ کردیا گیا ہے اور سنا گیا ہے کہ اس مشین کو گلگت سے لاہور منتقل کیا جائے گا، جہاں سے مرمت ہوکر واپس پہنچتے پہنچتے غالب والا شعرآہ کو چاہیے ایک عمر اثر ہونے تک بن جائے گا۔ گزشتہ ایک عرصے سے سکردو شہر کے لئے کسی میگا پراجیکٹ پر کام ہوتے نہیں دیکھا۔ بلتستان کے ہر طبقہ فکر کو خبر ہے کہ سکردو بلتستان بھر کا کاروباری مرکز ہے، ٹورازم کا حب ہے، بلتستان کا پایہ تخت ہے۔ ان تمام حقائق کے باوجود کسی وزیر، مشیر، فقیر کو خیال نہیں آیا کہ اس شہر میں بجلی عام ہونی چاہیے۔ لوڈ شیڈنگ کبھی نہ ہو، لوگ زندگی کا کاروبار بنا تعطل چلا سکیں۔ اپنے وقت کے سینیئر وزیر اکبر تابان کے دور میں ہرگیسہ نالہ پر کسی بڑے منصوبے پر کام کرنا چاہا تو بعض لوگوں کی مداخلت سے وہ بھی پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ شغرتھنگ ، ہرپو اور غواڑی کی کہانی کاغذات پر چل رہی ہیں مگر ان منصوبوں پر کام مکمل ہوکر بجلی ملنے تک پھر وہی غالب کا قول کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔ ہمارے شہریوں کو چاہیے کہ سردیوں کے دنوں میں بجلی کے لئے ایکسین اور آر ای کے خلاف احتجاج کرنے سے بہتر ہے ایکبار اپنے ووٹوں سے منتخب کرنے والے وزیر مشیر یا اسمبلی کے ممبر کے سامنے یہی احتجاج کریں تاکہ 100 یا 200 میگاواٹ کا کوئی بڑا منصوبہ ملے۔ ندی نالوں میں بننے والی 1 میگاواٹ بجلی سے شہر کا مسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا۔ محکمہ برقیات کے لائن مین سے چیف انجینئر بلکہ سیکرٹری تک سسٹم میں موجود 08 میگاواٹ بجلی کو ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر کر کے کام چلانے کی کوشش میں ہیں۔ ان کے پاس اللہ دین کا وہ چراغ نہیں جسے رگڑ کر بجلی پیدا کر سکیں۔ آج شہریوں کو ضرور لوڈ شیڈنگ برداشت کرنا ہوگی چونکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق شہر بھر کے لئے 40 میگاواٹ بجلی درکار ہے جبکہ سسٹم میں کل 08 میگاواٹ بجلی موجود ہے۔ اب اسی بجلی کو گھنٹوں کے حساب سے تقسیم کرنا ہے ایسے میں لوڈ شیڈنگ تو ہونی ہی ہے۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ سکردو کی موجودہ آبادی ڈھائی لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور ٹورازم کا حب قرار دینے کے بعد یہاں ایک ساتھ دو سو ہوٹل زیر تعمیر ہیں جن میں کم از کم 50، 50 کمرے ہوں گے اس طرح آنے والے پانچ سالوں میں ایک نیا سکردو وجود میں آچکا ہوگا۔ ایسا ہونے کی صورت میں 08 میگاواٹ بجلی ان ہوٹلوں کے لئے ناکافی ہوگی۔ یوں سارا شہر اندھیرے میں ڈوب جائے گا۔ مگر۔۔۔صرف لائٹ کے لئے ایک علاج ہمارے ہاتھ میں موجود ہے کہ ہم اپنے گھروں میں استعمال کرنے والے بھاری آلات جن میں گیزر، ہیٹر، اون یا دیگر مشینیں وغیرہ اگر استعمال نہ کریں اور فالتو بتیوں کو بھی بجھائے رکھیں تو یہ 08 میگاواٹ کی بجلی کم از کم سب کو روشنی دی سکتی ہے۔۔۔۔آج بھی ہمارے سیاسی رہبران اس گمبھیر مسئلے کے حل کے لئے سر جوڑ کر کوئی لائحہ عمل پر غور نہ کریں، کسی دریا پر سو دو سو میگاواٹ بجلی گھر کے منصوبے کا آغاز نہ کریں تو ہمارا مستقبل تاریک سے تاریک تر ہوجائے گا۔ لہذا احتجاج اور نعرے کے رخ کو چینج کریں تاکہ مستقبل درخشاں ہو سکے۔