حماس اور اسرائیل

 سید مجاہد علی

غزہ پر اسرائیلی بمباری کو دو ہفتے سے زیادہ گزر چکے ہیں لیکن عالمی برادری ابھی تک غیر مسلح اور نہتے شہریوں کے خلاف اسرائیل کے جابرانہ اقدامات ختم کروانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ نام نہاد مہذب دنیا کے لیڈر ایک ایک کر کے اسرائیل سے اظہار یک جہتی کے لیے تل ابیب پہنچ رہے ہیں لیکن اسرائیلی قیادت کے غیر انسانی رویے اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر انگلی اٹھانے کا حوصلہ نہیں کرتے۔اس دوران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئیتریس نے کہا ہے کہ جیسے مسئلہ فلسطین کو جواز بنا کر حماس کو اسرائیل کے بے گناہ شہریوں کو ہلاک کرنے کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ ویسے ہی حماس کے حملوں کے بعد اسرائیل کی طرف سے غزہ کے تمام شہریوں کو اجتماعی سزا دینے کا بھی کوئی جواز نہیں ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ ان حملوں کے نتیجہ میں پورے علاقے میں صورت حال کشیدہ ہے اور یہ جنگ پھیل سکتی ہے۔ اس انتباہ کے باوجود نہ تو اسرائیل نے غزہ پر بمباری روکنے کا عندیہ دیا ہے اور نہ ہی غزہ کی چوبیس لاکھ آبادی کو بنیادی ضروریات کی فراہمی موثر طریقے سے شروع ہو سکی ہے۔مصر کی طرف سے غزہ جانے والے راستے سے روزانہ کی بنیاد پر کچھ ٹرک ضرور روانہ ہوتے ہیں لیکن اقوام متحدہ اور دیگر امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ غزہ کے شہریوں اور وہاں ہسپتالوں کا نظام چلانے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر کم از کم ایک سو ٹرک سامان درکار ہے۔ البتہ اسرائیل، نام نہاد امریکی دباﺅ و یقین دہانی کے باوجود رفاہ کے سرحدی علاقے میں بھی مسلسل بمباری کر رہا ہے۔ اس کی وجہ سے ایک طرف غزہ کو امدادی سامان کی ترسیل میں شدید مشکلات پیش آ رہی ہیں تو دوسری طرف غزہ میں پھنسے ہوئے مغربی ممالک کے سینکڑوں شہریوں کو وہاں سے نکالنے کا کام بھی مکمل نہیں ہو پایا۔ اب اسرائیلی حملوں کی وجہ سے غزہ میں یورپی ملکوں کے شہریوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔ ناروے کی وزارت خارجہ نے سوموار کے دن تصدیق کی تھی کہ غزہ میں پھنسے ہوئے متعدد نارویجین شہری زخمی ہوئے ہیں تاہم وزارت خارجہ نے ان کی تعداد بتانے سے گریز کیا اور نہ ہی ان کی حالت کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ غزہ میں اس وقت ناروے کے کم از کم دو سو شہری محصور ہیں جو اسرائیلی بمباری اور رفاہ کا راستہ بند ہونے کی وجہ سے وہاں سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو رہے۔ہفتہ سات اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر مختلف راستوں سے حملہ کر کے 1400 شہریوں و فوجیوں کو ہلاک کیا تھا۔ مرنے والوں میں بچے بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ حماس کے جنگجو 222 اسرائیلی و دیگر ممالک کے شہریوں کو یرغمال بنا کر ساتھ لے گئے تھے۔ ان لوگوں کو اب غزہ میں بمباری رکوانے کے لیے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ حماس کی قیادت متعدد بار اعلان کرچکی ہے کہ یرغمال افراد کی باحفاظت واپسی کے لیے بمباری فوری طور سے بند کی جائے۔ حماس کے ہتھکنڈوں سے قطع نظر فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، متعدد ممالک کی حکومتیں اسرائیلی بمباری کو غیر انسانی طریقہ قرار دے کر اسے فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کرچکی ہیں لیکن اسرائیلی قیادت مسلسل انتقام کی آگ میں جل رہی ہے اور حماس کا نام لے کر دنیا کو گمراہ کرنے میں مصروف ہے۔اس تنازعہ میں امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی حکومتوں کی متضاد بیانی اور دوہرے معیار کا پردہ ہی چاک نہیں ہوا بلکہ مغربی میڈیا بھی یک طرفہ رپورٹنگ کرتے ہوئے غیر جانبداری کے تمام اصول فراموش کرچکا ہے۔ مغربی میڈیا تسلسل سے اسرائیل پر حماس کے حملے کے متاثرین کے بارے میں تفصیلی رپورٹیں دکھا کر رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن غزہ میں ہونے والے تباہی، اسرائیل کے شدید ظلم اور عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی کا ذکر زبان پر لانے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ اگرچہ یورپ کے متعدد شہروں میں غزہ پر اسرائیلی حملوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے گئے ہیں لیکن میڈیا ان کی کوریج میں بھی بخل سے کام لیتا ہے۔ یا کسی متاثرہ اسرائیلی خاندان کا انٹرویو دکھا کر اور اسرائیلی لیڈروں کے بیان سنا کر اس ظلم کو کم تر بنا کر پیش کرنے کی شعوری کوشش کی جاتی ہے۔ لگتا ہے کہ اہل مغرب متوازن اور Ojective Reporting کا جو سبق ترقی پذیر ممالک کو سکھاتے رہتے ہیں، موجودہ جنگ میں وہ خود اسے فراموش کرچکے ہیں۔صورت حال کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ تمام مغربی میڈیا کے نمائندے کثیر تعداد میں اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں جمع ہیں لیکن کسی رپورٹر کو غزہ جانے کا حوصلہ نہیں ہوا۔ حالانکہ یورپی میڈیا کے نمائندے خطرناک ترین صورت حال میں لائیو رپورٹنگ کرنے اور غیر جانبدارانہ طور سے حالات کی تصویر کشی کی شہرت رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس غزہ میں اب تک درجن بھر سے زیادہ فلسطینی صحافی جاں بحق ہوچکے ہیں لیکن ان کے بارے میں بھی کسی بڑی عالمی صحافی تنظیم کو احتجاج کرنے یا اسرائیل کو شرم دلانے کی توفیق نہیں ہوئی۔ امریکہ اور یورپ کے ایسے بڑے اخبار جو انسانی حقوق اور زندگی کے تحفظ کا پرچم بلند کرنے کا دعوی کرتے ہیں، انہیں بھی اسرائیلی ہلاکتوں سے آگے بڑھ کر صورت حال کا جائزہ لینے کی توفیق نہیں ہوتی۔ نہ ہی کسی حکومت نے اسرائیل پر دباﺅ ڈالا ہے کہ عالمی میڈیا کے نمائندوں کو غزہ جانے کی سہولت بہم پہنچائی جائے اور ان کی حفاظت کا اہتمام کیا جائے تاکہ دنیا کو معلوم ہو سکے کہ چوبیس لاکھ آبادی کے اس مختصر سے قطعہ زمین پر عام لوگوں کے ساتھ کیا بیت رہی ہے۔اس حوالے سے جو خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں وہ فلسطینی ذرائع یا بعض امدادی تنظیموں کے حوالے سے ہی فراہم ہوتی ہیں۔ ابھی تک موصول ہونے والی خبروں کے مطابق اسرائیلی بمباری سے غزہ میں جاں بحق ہونے والے لوگوں کی تعداد 5800 سے تجاوز کرچکی ہے۔ ان میں 2400 کے لگ بھگ بچے بھی شامل ہیں۔ اسرائیلی جارحیت میں زخمی ہونے والوں کی تعداد سترہ ہزار سے زائد ہے۔ متعدد ہسپتال اسرائیلی بمباری سے تباہ ہوچکے ہیں یا طبی سامان سپلائی نہ ہونے کی وجہ سے ان کی کارکردگی بری طرح متاثر ہے۔ فلسطینیوں کی مدد کے لیے کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ایجنسی نے آج ہی متنبہ کیا ہے کہ اگر ایک دن کے اندر غزہ میں ایندھن کا انتظام نہ ہوا تو ہسپتال بالکل ناکارہ ہو کر رہ جائیں گے۔ سنگین بیمار مریض ایسی صورت میں لائف سیونگ سہولت بہم نہ ہونے کی وجہ سے فوری طور پر ہلاک ہوسکتے ہیں۔ ان میں ایسے درجنوں نومولود بچے بھی شامل ہیں جنہیں پیدائش کے فوری بعد وینٹی لیٹرز پر رکھنے کی ضرورت ہے۔اس کے برعکس امریکہ اور نام نہاد مہذب دنیا کا زور اس بات پر ہے کہ کسی طرح حماس کے قبضے سے ان 222 اسرائیلی و دیگر ممالک کے باشندوں کو رہا کروایا جائے جنہیں حماس کے جنگجو سات اکتوبر کے حملوں کے بعد اپنے ہمراہ لے گئے تھے۔ حماس نے ابھی تک ان میں سے چار خواتین کو رہا کیا ہے۔ اس رہائی کے لیے قطر نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ پہلے ایک امریکی ماں بیٹی کو رہا کیا گیا تھا جبکہ آج دو معمر اسرائیلی خواتین کو آزادی ملی ہے۔ تاہم کسی طرف سے اس بارے میں کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی کہ حماس جیسا دہشت گرد اور ظالم گروہ ان شہریوں کو رہا کرنے پر کیوں رضامند ہو گیا؟ حماس کے اپنے اعلان کے مطابق ان لوگوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہا کیا گیا ہے۔ تاہم ایک ایسے گروہ انسانی ہمدردی کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے جس نے ایک جنگی کارروائی میں شہریوں، خواتین و بچوں کو یکساں طور سے نشانہ بنایا۔ اس کے بعد اسرائیلی جوابی کارروائیوں کے نتیجے میں اپنے زیر انتظام رہنے والے لاکھوں لوگوں کی زندگی کو داﺅ پر لگا دیا۔ موجودہ صورت حال میں اسرائیلی بمباری سے غزہ کے ہزاروں فلسطینی ہلاک ہوچکے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں شہری جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ ایسے میں حماس کا یہ موقف قطعی ناقابل فہم ہے کہ وہ جنگی دہشت گردی کے عین بیچ انسانی بنیادوں پر یرغمال کیے گیے لوگوں کو رہا کرنے پر آمادہ ہو رہا ہے۔ قطر کے حکام نے آج ہی مطلع کیا ہے کہ حماس کے ساتھ بات چیت آگے بڑھی ہے اور مزید یرغمالی بھی رہا ہو سکتے ہیں۔قطر کے علاوہ امریکہ اور اسرائیل کو حوصلہ کر کے بتانا چاہیے کہ ان شہریوں کو رہا کروانے کے لیے ایک دہشت گرد تنظیم کے ساتھ کیا لین دین کیا جا رہا ہے۔ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ حماس کسی فائدے کے بغیر اسرائیلی شہریوں کو رہا کر رہا ہو۔ یا تو ان لوگوں کو رہا کروانے کے لیے قطر میں موجود حماس کی قیادت کو تاوان ادا کیا جا رہا ہے یا انہیں کوئی سیاسی رعایت دی گئی ہے۔ یہ رویہ اس بظاہر دکھائی جانے والی تصویر سے متصادم ہے جو جنگ کی صورت حال میں سامنے آ رہی ہے۔ اس سے امریکہ و اسرائیل کا اصل مکروہ چہرہ مزید عیاں ہوتا ہے۔ ایک طرف وہ حماس کو انسان دشمن اور دہشت گرد گروہ قرار دے رہے ہیں تو دوسری طرف انہی کے ہاتھ مضبوط کرنے کا اہتمام بھی کیا جا رہا ہے۔غزہ کے فلسطینیوں پر قیامت برپا کرنے کی ذمہ داری اگر اسرائیل پر عائد ہوتی ہے تو حماس کو بھی اس سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ سات اکتوبر کے حملوں کا بہت غلغلہ ہے اور حماس اور اس کے پشت پناہ ایران نے اس پر بلند بانگ دعوے بھی کیے ہیں۔ لیکن اس دن کے بعد سے اسرائیل نے نہتے شہریوں کے خلاف جس جنگ جوئی کا مظاہرہ کیا ہے، اس بارے میں کوئی وضاحت دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اگر حماس نے اسرائیل جیسی فوجی طاقت کو ایک حملہ کے ذریعے للکارا تھا تو اس کے جوابی ردعمل کا مقابلہ کرنے کی کیا تیاری کی گئی تھی؟ کیا حماس اور اس کے پشت پناہوں کو خبر نہیں تھی کہ اسرائیل پر حملے کے جواب میں غزہ کے نہتے اور مجبور عوام کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی؟ اگر حماس کے پاس اسرائیل کو للکارنے یا اپنے شہریوں کی حفاظت کی سکت نہیں تھی تو اس وقت غزہ میں ہونے والی ہلاکت و تباہ کاری کی ذمہ داری اسرائیل کے ساتھ ہی ساتھ حماس پر بھی عائد ہو گی۔ اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا بھونڈا دعوی کرتے ہوئے، یہ تنظیم خود مختار فلسطین اور دو ریاستی حل کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس طرح حماس درحقیقت فلسطینی کاز کی بجائے اسرائیل کے سیاسی موقف کی حمایت کا باعث بنتی رہی ہے۔عرب ممالک کی اکثریت حماس کی جنگ جوئی اور سیاسی موقف کی حمایت نہیں کرتی۔ نہ ہی دنیا کے مسلمانوں کی اکثریت دہشت گردی کے حامی ہے لیکن اسرائیل، حماس کی ایک کارروائی کے بعد جیسے جنگی جنون کا مظاہرہ کر رہا ہے، اس سے درحقیقت ایک دہشت گرد گروہ کی لگائی ہوئی آگ کو بھڑکانے کا کام لیا جا رہا ہے۔ کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہے کہ اسرائیل اور حماس درحقیقت ایک ہی ایجنڈے پر گامزن ہیں اور وہ یہ کہ مشرق وسطی میں کسی قیمت پر امن قائم نہ ہو۔ یوں اسرائیل، امریکی امداد کے سہارے دن بدن بڑی عسکری طاقت بنتا رہے اور حماس کے نام سے بے گناہ لوگوں پر قیامت نازل کرنے کا سبب بننے والے نام نہاد لیڈر اربوں ڈالر کی امداد سمیٹ کر محفوظ ملکوں میں اپنی اور اپنے خاندان کی پرتعیش زندگی کا انتظام کرتے رہیں؟