اسرائیلی ایٹم بم کیسے، کب

حماد علی 

عالمی دہشت گرد ریاست اسرائیل نے اپنے غاصب اور ناپاک وجود کو برقرار رکھنے ، وسعت دینے کے لئے  نیو کلیئر بم بنانے کا فیصلہ کر تو کرلیا مگر سوال یہ تھا کہ وہ کونسی ایسی جگہ نیوکلیئر ری ایکٹر  بنائیں جہاں دوسرے ممالک کی نظر نہ پڑے اور مکمل ہو نے تک راز  رہے. ریگستان کے بیچ ایک جگہ ڈیمونا میں بجلی گھر تھا جو اسرائیل کی نظر میں بہت موضوع جگہ تھی ۔چناچہ اسرائیل نے طے کیا کہ نیو کلیئر پلانٹ وہاں بنایے، ایک ایسے وقت جب عرب ممالک اپنی سر زمین میں پیٹرول کے چشمے پا کر بے خود ہو گئے تھے اور فروعی مسائل اور عیش و عشرت میں مشغول ہو گئے تھے اس وقت یہودی دور اندیشی کا مظاہرہ کر رہے تھے یہ وہ وقت تھا جب فرانس اسرائیل کو بجلی پیدا کر نے کے لئے یورنییم سپلائی کر رہا تھا۔بن گورین نے طے کیا کہ وہ فی الحال عربوں سے جنگ نہیں کرے گا کیونکہ اگر ایسا ہوا تو ڈیمونا میں بڑی بڑی عمارتوں کی تعمیر کا پتہ دیگر ممالک کو لگ جائے گااسے ڈر تھا کہ اگر امریکی صدر آئزن ہور کو معلوم ہو گیا تو وہ اسرائیل کے راستے میں رکاوٹ بنے گا اسے  یہ بھی معلوم تھا کہ اگر اسرائیل نیوکلیئر پاور بن گیا تو عرب اس پر حملہ نہیں کر پائیں گے (یہ بات اگر عرب ممالک آج بھی سمچھ گئے اور نیوکلیئر  طاقت بن گئے تو دنیا کی کوئی بھی حکومت ان پر حملہ نہیں کرے گی)مارچ 1960 کو فرانس کو معلوم ہوا کہ اسرائیل اسکے سپلائی کئے ہوئے یورانیم سے ڈیمونا میں نیوکلیئر پلانٹ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے، تب فرانس کے صدر ڈیگال نے اسرائیل سے اپنا نیوکلیئر معاہدہ ختم کر دیا۔مئی 1960میں بین گورین نے امریکی صدر سے  بات کی اور کہا کہ اسے عربوں سے سخت خطرہ ہے اور اسکے لئے اسے ایواکس اور اینٹی ایر کرافٹ میزائل اور رڈار چاہیے یہ سنکر آئزن ہاور نے کہہ دیا کہ وہ مشرق وسطی میں ہتھیار سپلائی نہیں کرے گا۔اب اسرائیل نے دوبارہ فرانس سے رجوع کیا اور عہد کیا کہ وہ صرف پر امن ریسرچ کر نا چاہتا ہے امریکہ کو بتایا گیا کہ جو عمارتیں دیمونا میں بنائی جا رہی ہیں وہ ٹیکسٹائل پلانٹ ہیں۔آگسٹ 1960 کوامریکہ کے u2 جاسوسی جہازوں نے توثیق کر دی کہ وہ نیوکلیئر پلانٹ ہی ہیں ۔اسرائیل نے فرانس کو یہ کہہ کر بلیک میل کیا کہ اگر وہ اسکا ساتھ نہیں دے گا تو عربوں کو ان تمام کمپنیوں کے نام بتا دے گا جو اسکی اس کام میں مدد کر رہے ہیں جسے سن کر عرب انکا بائیکاٹ کر دیں گے۔فرانس نے مجبورا اپنی کمپنیوں کو پلانٹ بنانے کا کام مکمل کر نے کی اجازت دے دی ۔پہلے فرانس اصرار کر رہا تھا کہ دیمونکا کا پلانٹ انٹر نیشنل معائنہ کے لئے کھول دے مگر اس طرح بلیک میل ہو نے کے بعد فرانس نے اصرار کر نا چھوڑ دیا1960 کو بین گورین نے دنیا کے سامنے اعلان کیا کہ وہاں جو پلانٹ ہیں زراعت، صنعت، صحت اور سائنس کے ریسرچ میں مدد کر نے کے لئے بنائے جا رہے ہیں (کاش ایران بھی ایسا ہی کر تا) اس طرح بین گورین نے اپنے مشن کو راز رکھنے کے لئے جھوٹ پر جھوٹ بولتا رہاجبکہ گولڈا میر اور یشکول وغیرہ پریشان تھے کہ اس وقت کیا ہو گا جب امریکہ کو سچائی معلوم ہو جا ئے گی۔دسمبر 1960 میں امریکہ کے نئے صدر کینیڈی نے اسرائیل سے مکمل معلومات طلب کیں تو بین گورین نے ٹال مٹول سے کام لیا اور ان سے بچنے کے لئے جنوری 1961 کو استعفی دے دیا۔مارچ 1961 کو کینیڈی کو اطلاع دی گئی کہ دیمونا میں جو پلانٹ ہے وہ بہت طاقتور اور زبردست نیوکلیئر پلانٹ ہے سیکرٹری آف اسٹیٹ ڈین رسک نے کینیڈی کو بتایا کہ اگر روس کو معلوم ہو گیا تو وہ عرب ممالک کو اپنے نیو کلیئر ہتھیار دے دے گا اور نیوکلیئر پلانٹ بھی قائم کر دے گا (کاش عرب اپنا عیش چھوڑ کر یہ راز جان جا تے اور روس سے نیوکلیئر مدد لے لیتے)آج بھی عرب ممالک اپنے دوست ممالک سے نیوکلیئر ہتھیار خرید لیں تو اسرائیل بغیر جنگ لڑے بات چیت کے لئے راضی ہو جائے گا۔نادانوں کو کون سمجھائے) 1961 میں جب بین گورین دوبارہ وزیر اعظم بنے تو انہوں نے انٹر نیشنل معائنے کے لئے رضامندی دے دی مگر جب معا ئنہ کار آئے تو ان سے سازباز کرکے وہ خفیہ چیمبرز نہیں دکھائے جہاں اصل کام چل رہا تھاجو دو امریکی سائنٹسٹ آئے تھے انہوں نے واپس جا کر رپورٹ دے دی کہ وہاں کوئی نیوکلیئر پلانٹ نہیں ہے  30 مئی کو بین گورین نے امریکہ آ کر کینیڈی سے کہا کہ وہ عربوں کو یقین دلا دے کہ اسرائیل کوئی نیوکلیئر بم نہیں بنا رہا ہے بلکہ وہ اس پلانٹ کے ذریعہ سمندری پانی کو صاف کر کے اسے پینے کے قابل بنا رہا ہے۔بین گورین نے مغربی ممالک پر اپنا ڈر ظاہر کیا کہ مصر کے صدر عبدالناصراپنے ملک کو نیوکلیئر پاور بنانے کی کوشش میں لگے ہیں اور اگر وہ کامیاب ہو گئے اور اسرائیل کو شکست دے دی تو اسرائیل ہمیشہ ہمیشہ کے لئے صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔یہ سب سن کر کینیڈی نے کہا  تم جانتے ہو کہ مجھے نیو یارک کے یہودیوں نے الیکشن میں جتایا ہے مجھے بتائو کہ میں انکے لئے اور تمہارے لئے کیا کر سکتا ہوں ۔یہ سن کر بین گورین نے شاطرانہ انداز میں کہا کہ  آپ وہی کیجیے جو امریکہ کے لئے مفید ہے مجھے اینٹی ایر کرافٹ میزائل  چاہیں کیونکہ ناصر نے عہد کر رکھا ہے کہ وہ اسرائیل کو نیو کلیئر پاور بننے سے روکنے کے لئے جنگ تک کر سکتا ہے اور اس کے لئے ناصر نے امریکہ میں کیلی فورنیا کے ایک فرم سے بیلسٹک میزائل بنا نے کی ٹیکنالوجی خرید رکھی ہے 1961 کو اسرائیل نے 47 میل دور تک مار کر نے والے شیوٹ راکٹ فائر کیے دوسرے ہی سال عبدالناصر نے 350 میل دور تک مار کر نے والے چار بیلسٹک میزائلز داغے اور دنیا کو تعجب میں ڈال دیااسرائیل نے امریکہ سے یہ بھی کہا کہ ناصر جرمن سائنسدانوں کی مدد سے 1959 سے زمین سے زمین پر دور تک وار کر نے والے میزائل بنانے کی فیکٹریاں قائم کر رہا ہے اور ڈرٹی بم بھی بنا رہا ہے اسرائیل نے جرمنی سے اس کی شکایت کی اور ساتھ ہی مصری پروگرام سے جڑے ہووے سات سائنسدانوں کو قتل کر دیا اور مصری فیکٹریوں کو پوسٹل بموں سے اڑا دیا۔ان تمام باتوں کو سچ مان کر امریکہ نے آگست 1962کو ہاک ایر ڈیفینس میزائلز دینے پر رضا مند ہو گیا۔کینڈی اسرائیل پر نرم گوشہ رکھتا تھا کیونکہ اسے 1964 میں دوبارہ الیکشن لڑنا تھا اور اسے دوبارہ یہودیوں کے ووٹوں کی ضرورت تھی۔حقیقت یہ تھی کہ مصر کے پاس جو میزائل تھے وہ موثر نہیں تھے اور ٹھیک نشانے پر وار بھی نہیں کر سکتے تھے مگر اسرائیل نے امریکہ سے جھوٹ بول کر کئی قسم کے مہلک ہتھیار خرید نے کے معاہدے کر لئیے۔یہودیوں نے یورپ اور مشرق وسطی میں ہر طرف ان انجنیئروں اور سائنسدانوں کو قتل کر نا شروع کر دیا جو عربوں کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے اور ان کے لئے کام کر تے تھے۔یہ کام وہ مسلمان ایجنٹوں سے بھی کروا تے تھے (خود عرب مسلمان غداروں نے مسلم کاز کو نقصان پہنچایا)یہ دیکھ کر یورپی ممالک اسرائیل پر غصہ ہو گیے ۔اسی وقت روس اور امریکہ نے دیگر ممالک کو نیو کلیئر بننے نہ دینے کا معاہدہ کر لیا اور اسرائیل کو صاف صاف کہہ دیا کہ وہ اپنے ارادے سے باز آ جائے۔اسرائیل کو ڈر پیدا ہو گیا پیرز نے کینیڈی کو کہا کہ اسرائیل مشرق وسطی میں کبھی نیو کلیئر ہتھیار نہیں بنائے گا اور یقیناًوہ پہلا ملک نہیں ہو گا جو ایسے ہتھیار بنا ئے گا۔دراصل اسرائیل نے قدم قدم پر جھوٹ اور دھوکے  سے کام کر رہا تھا اب کینیڈی نے مصر اور اسرائیل دونوں سے کہا کہ وہ عہد کریں کہ وہ اپنے ملکوں میں نیو کلیئر ہتھیار نہیں بنائیں گے اور گارنٹی کے طور پر تمام کارخانے انٹر نیشنل معائنہ کے لئے کھول دیں گے۔مصر تو رضامند ہو گیا مگر اسرائیل نہ ہاں کہہ سکتا تھا اور نہ ہی نہ ایسے وقت میں دیمونا کا نیو کلیئر پلانٹ مکمل تیار ہو گیا تھا اور نیو کلیئر بم بنانے شروع کر دیا تھااپریل 1963 میں مصر، شام اور عراق نے مل کر فلسطین کو آزاد کرانے کے لئے ایک فیڈریشن بنائی ۔یہ دیکھ کر اسرائیل نے کینیڈی سے درخواست کی کہ وہ اسرائیل کو نیو کلیئر بنتا دیکھ کر خاموشی اختیار کرے مگر کینیڈی نہیں مانے ۔وہ بضد تھے کہ اسرائیل نیو کلیئر ہتھیار بنانے سے باز آ جائے امریکی دبائو اتنا زیادہ تھا کہ اسے بین گورین برداشت نہ کر سکا اور 1963 کو 77 سال کی عمر میں اپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔اسکے فورا بعد کسی نامعلوم سازش کے تحت کینیڈی کا قتل کر دیا گیا اور اسرائیل نے کھلم کھلا ایٹمی دھماکہ کرکے  تجربہ کر لیا۔کینیڈی کو کیوں مارا گیا یہ اب تک راز ہی ہے Mordechai vanunu جو 1985' 1976 کے درمیان دیمونا میں کام کر رہے تھے انہوں نے دنیا کے سامنے پہلی مرتبہ اسرائیل کے راز سے پردہ اٹھا یا تھا  اس لئے موساد نے انہیں اغوا کر کے جیل میں ڈال دیا  اسرائیل اپنے خفیہ سننے اور فلمانے کے آلات ملکوں اور لوگوں کے بریف کیسوں، آفسوں، گھروں اور انٹرنیٹشنل مواسلاتی آلات اور فرنیچر کے اندر رکھنے کا فن بہ خوبی جانتا ہے آج اسرائیل کے پاس قریبا ایک سو سے زیادہ نیو کلیئر بم ہیں اور دنیا کی کوئی بھی طاقت اسے ڈرا نہیں سکتی جب اتنا سب کچھ ہو رہا تھا تب عرب ممالک صرف باتوں میں، ٹاورز ، خوبصورت عمارتیں بنانے میں اور عیش و عشرت میں اور بڑائیاں ہانکنے میں مشغول تھے ۔اسرائیل نے 2006  تک سرکاری طور پر اس بات کا اقرار نہیں کیا کہ اسکے پاس نیو کلیئر بم ہیں   2006 کو اسرائیلی وزیر اعظم یہود والمرٹ نے اپنے جرمنی کے دورے میں اس بات کا اقرار کیا کہ وہ نیو کلیئر ہتھیار رکھتا ہے ۔اسکے مقابلے میں ایران کو دیکھیے کہ وہ نیو کلیئر پلانٹ بنانے سے پہلے ہی حماقت سے اپنے راز دنیا پر فاش کر دیے اور خود کو مصیبت میں ڈال لیا عرب ممالک کی ہر گلی میں اسرائیلی جاسوس بے دھڑک گھوم رہے ہیں اور وہ اور کوئی نہیں بلکہ خود عرب مسلمان ہیں آج بھی اگر اسرائیل چاہے تو عرب ممالک کی کسی بھی گلی میں بموں کی بوجھاڑ کر سکتا ہے اور کسی کو بھی چاہے قتل کر سکتا ہے آج عرب بیرونی دشمن کو بھلا کر خود ہی ایک دوسرے کو مارنے میں مشغول ہیں انہیں سنی، شیعہ، عرب، غیر عرب اور کردوں اور قبیلوں کی پڑی ہے انکے ہر ادارے اور تنظیم میں اسرائیلی اور یوروپی ایجنٹ موجود ہیں جو انہیں فروعی مسائل میں الجھا کر آپس میں لڑا رہے ہیں (پاکستان میں بھی مسلمان اس کے شکار ہیں اور سمجھ میں نہیں آتا کہ کون کس حلیے میں یہ کام کر رہے ہیں سب کی زبان پر کلمہ ہے اور سب کی زبان پر اللہ اکبر ہے مگر کون کیا ہے یہ کسی کو نہیں معلوم سچائی یہ ہے کہ سچا مسلمان فروعی مسائل اور مسلکوں کو لے کر بد زبان نہیں ہو سکتا اور کبھی ایک دوسرے کو کافر نہیں کہہ سکتا اور کبھی ضدی اور پر تشدد نہیں ہو سکتا)آج بھی مصر، ایران، ترکی اور سعودی عرب نیو کلیئر پاور بن گئے تو فلسطین کا مسئلہ بغیر جنگ کئے حل ہو سکتا ہے۔