اسمگلنگ اور احتساب

 سید مجاہد علی 

نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ کراس بارڈر اسمگلنگ میں ملوث فوجیوں کو سخت احتساب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آرمی چیف نے اپنے لوگوں پر واضح کر دیا ہے کہ جو لوگ بھی اس کام میں ملوث پائے جائیں گے، ان کا نہ صرف کورٹ مارشل ہو گا بلکہ انہیں جیل بھی بھیجا جائے گا۔ تاہم اس کے ساتھ وزیر داخلہ نے فوج کے نظام احتساب پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ فوج اپنے احتساب کے نظام کو 9 مئی کے واقعات کے خلاف کارروائی میں ثابت کر چکی ہے ۔ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے اعتراف کیا کہ اسمگلنگ اونٹوں پر نہیں بلکہ ٹرکوں پر ہوتی رہی ہے۔ ایران سے اسمگل ہونے والا پیٹرول اسلام آباد تک پہنچتا تھا۔ اس لئے یہ کہنا درست نہیں ہو گا کہ اس میں سےکیورٹی فورسز کے لوگ شامل نہیں تھے۔ تاہم ان کا دعوی تھا کہ فوج میں چونکہ احتساب کا موثر اور سخت نظام موجود ہے، اس لیے ایسے بدقماش عناصر کو ضرور انجام تک پہنچایا جائے گا۔ اس حوالے سے انہوں نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی ہدایات کا حوالہ دیا اور کہا کہ انہوں نے واضح کر دیا ہے کہ کورٹ مارشل کے علاوہ ایسی لاقانونیت میں ملوث عناصر کو جیل بھیجا جائے گا۔وزیر داخلہ کے بیان میں پہلی بار سرکاری طور سے اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ سےکیورٹی فورسز کے عناصر کراس بارڈر اسمگلنگ میں ملوث رہے ہیں۔ یہ ایک سنگین انکشاف ہے۔ اس ملک کے عام شہری سےکیورٹی فورسز کو اپنا محافظ سمجھتے ہیں اور عام طور سے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاک فوج میں سخت ڈسپلن و تنظیم کی وجہ سے اس فورس میں کسی قسم کی بدعنوانی کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک حالیہ گیلپ سروے میں 88 فیصد لوگوں نے فوج پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا تھا جبکہ سیاست دانوں پر اعتبار کرنے والوں کی شرح صرف 39 فیصد تھی۔ اس کی واضح وجہ یہی ہے کہ عوام کا خیال ہے کہ سیاست دان عام طور سے بدعنوانی میں ملوث ہوتے ہیں جبکہ فوج کے بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ وہ وطن کی خدمت اور حفاظت کے جذبے سے سرشار ہے اور اس کے جوان اور افسر کبھی مالی بدعنوانی میں ملوث نہیں ہوسکتے۔اعتبار کی یہ سطح حال ہی میں پاک فوج کے سیاست میں مداخلت کی خبریں سامنے آنے اور مرضی کی حکومتیں بنانے کی اطلاعات عام ہونے کے باوجود موجود رہی ہے۔ حالانکہ اعلی عہدوں پر فائز فوجی افسر ملکی سیاست میں مداخلت کرتے رہے ہیں۔ اور ملکی سیاسی معاملات میں مداخلت یا ان پر اثر انداز ہونے کے طریقے فوج کے آئینی کردار کے خلاف ہیں۔ جو فوجی عہدیدار بھی اس قسم کی حرکتوں میں ملوث رہے ہیں، وہ درحقیقت اپنے عہد کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے تھے۔اس کے باوجود عوام کی اکثریت فوجی افسروں کی اس آئین شکنی کو خاطر میں لانے پر آمادہ نہیں ہوئی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ایسی حرکتوں میں چند لوگ ملوث ہوتے ہیں لیکن فوج کے افسروں و جوانوں کی اکثریت کا اس قسم کے جرائم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ لیکن اس سے بھی اہم وجہ یہ سمجھی جا سکتی ہے کہ عوام چونکہ فوج کے بارے میں یہ گمان رکھتے ہیں کہ وہ مالی بدعنوانیوں میں ملوث نہیں ہوتی، اس لیے ایسی غیر آئینی مداخلت کو بھی یہ سوچ کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے کہ فوج نے ایسا کوئی اقدام سیاست دانوں کی بدعنوانی روکنے کے لیے کیا ہو گا۔یہ امید کی جاتی ہے کہ فوج جب بھی کوئی اقدام کرے گی تو وہ وسیع تر قومی مفاد میں ہو گا۔ اسی لیے حالیہ سالوں میں فوج کو نہ صرف ملک کی جغرافیائی سرحدوں کا محافظ سمجھا گیا بلکہ نظریاتی سرحدوں کا محافظ قرار دے کر اسے ملکی معاملات میں مداخلت کا سرٹیفکیٹ بھی عطا ہوا ہے۔ یہ ایک طرح سے عوام کی طرف سے فوج کے لیے انعام تھا کہ اسے اس کی نیک نیتی اور قوم پرستی پر پورا بھروسا ہے۔سرفراز بگٹی کی پریس کانفرنس سے البتہ یہ تصویر داغدار ہوئی ہے۔ اب ملک کا وزیر داخلہ بتا رہا ہے کہ اسمگلنگ میں فوجی عناصر ملوث رہے ہیں۔ اگرچہ وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ فوج کا نظام احتساب ان عناصر کی روک تھام کرے گا۔ لیکن عام شہری کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو سب سے پہلے یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ جس فوج کا ڈسپلن اپنے اہلکاروں کو اسمگلنگ جیسے گھناﺅنے جرم میں ملوث ہونے سے روک نہیں سکا، اس کا نظام احتساب کیسے انہیں کیفر کردار تک پہنچائے گا۔ نگران وزیر داخلہ نے اسمگلنگ میں فوجی عناصر کے ملوث ہونے کی بات سرسری طور سے کر کے آگے بڑھنے کی کوشش کی ہے اور قوم کو یقین دلایا ہے کہ اب آرمی چیف نے واضح ہدایات جاری کردی ہیں، اس لیے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ البتہ اس اعلان یا وعدے پر اعتبار کرنا آسان نہیں ہو گا۔جو فوجی عناصر اسمگلنگ جیسے جرم میں ملوث رہے ہیں، انہوں نے ایک تو ملکی قوانین کی خلاف ورزی کی اور فوجی ڈسپلن کو نظر انداز کیا۔ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ ایسی منظم اسمگلنگ جس میں ایران سے لایا جانے والا پیٹرول اسلام آباد کے پیٹرول پمپوں پر فروخت ہونے کے لیے پہنچ رہا ہو، محض سرحد پر پہرہ دینے والے چند لوگوں کی ملی بھگت سے ملک میں لایا جا رہا تھا بلکہ ایرانی سرحد سے لے کر اسلام آباد پہنچنے تک ہر مرحلے پر طاقت ور عناصر اس کی ترسیل کی نگرانی کرتے تھے اور یہ یقینی بناتے تھے کہ اسمگل ہونے والا مال منزل مقصود بلکہ صارفین تک پہنچ جائے۔اس کا مطلب ہے کہ اس میں چند درجن یا چند سو افراد ہی ملوث نہیں ہیں بلکہ فوجی چین آف کمان میں نیچے سے لے کر اعلی عہدوں پر فائز بعض عناصر بھی اس اسمگلنگ مافیا کا حصہ رہے ہیں۔ وزیر داخلہ اسمگلنگ کے ایسے منظم نظام کے بارے میں سرسری بیان دے کر اور آرمی چیف کے حکم کا حوالہ دے کر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ کیوں کہ اس بیان سے عوام کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ مسلح افواج پر ان کا غیر متزلزل یقین شاید درست نہیں تھا۔ اس کے علاوہ عالمی مالیاتی اداروں کو یہ پیغام بھی پہنچے گا کہ اب کرپشن کے خاتمے اور ملک میں شفافیت کی ضمانت کے لیے شاید فوج کی ضمانت بھی قابل اعتبار نہیں ہوگی۔یہ نہایت سنگین صورت حال ہے جس کے بارے میں محض یہ قیاس نہیں کیا جاسکتا کہ فوج اپنے نظام احتساب کے ذریعے ان عناصر کی سرزنش کر لے گی اور اس علت کا قلع قمع کر دیا جائے گا۔ سب سے پہلے تو یہ واضح ہونا چاہیے کہ فوج کا داخلی احتساب فوجی ڈسپلن کی خلاف ورزی کے حوالے سے ہے۔ 9 مئی کے واقعات میں بھی ان فوجی عناصر کی گرفت ہوئی تھی جنہوں نے کسی خاص سیاسی وابستگی کی بنا پر فوجی ڈسپلن اور اعلی کمان کی ہدایات کو نظر انداز کیا اور عسکری تنصیبات کو نقصان پہنچنے دیا یا اس میں معاونت کی۔ ایسے عناصر کا احتساب فوج نے اپنے طریقے سے ضرور کر لیا ہو گا۔ لیکن جب کوئی فوجی کسی ایسے جرم میں ملوث ہو جس سے عام شہریوں کے مفادات اور ملکی نظام کو داو پر لگایا جا رہا ہو تو ان کی جواب دہی کسی ایسے نظام احتساب کے ذریعے نہیں ہو سکتی جو اندرونی ڈسپلن برقرار رکھنے کے لیے وضع کیا گیا ہے۔ایسے عناصر کا کورٹ مارشل کر کے ان کے معاملات نہ صرف یہ کہ عام ہونے چاہئیں بلکہ ان لوگوں کو پولیس کے ذریعے عام نظام انصاف کے حوالے کیا جائے تاکہ ملکی عدالتیں انہیں ان کے جرم کی بنیاد پر قرار واقعی سزا دیں۔ اسی طرح مستقبل میں تمام فوجیوں پر یہ واضح ہو گا کہ اگر وہ کسی جرم کا ارتکاب کرتے ہیں تو فوج کا ادارہ انہیں تحفظ فراہم نہیں کرے گا بلکہ وہ ایسے عناصر سے دست برداری اختیار کر لے گا۔ تب ہی فوج میں تمام رینک کے عہدیدار، فوج سے تعلق کی بنیاد پر بے خوفی سے اسمگلنگ جیسے گھناﺅنے جرم کی سرپرستی سے باز رہیں گے۔آرمی چیف نے اگر جرائم میں ملوث فوجیوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم کر ہی لیا ہے تو انہیں سب سے پہلے تو اعلی سطحی تحقیقات کے ذریعے اس جرم کے دائرہ کار اور حجم کا تعین کرنا چاہیے۔ یہ جرم طویل عرصہ سے سرزد ہوتا رہا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ دیکھا جائے کہ اس کا آغاز کیسے ہوا اور کس دور میں کس کس افسر نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوکر خود کو سیراب کیا تھا۔ ان تمام عناصر کی جائیدادیں ضبط کر کے، قومی خزانے کو پہنچنے والا نقصان پورا کیا جائے۔ ان تمام لوگوں کو فوج سے تعلق کی بنا پر منظر عام سے پوشیدہ رکھ کر عزت فراہم کرنے کا کوئی جواز موجود نہیں ہے۔ یہ سب لوگ قوم کے مجرم ہیں اور ان کے نام اور ان کے جرم کی نوعیت کے بارے میں عوام کو تفصیلات سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔آرمی چیف اور نگران وزیر داخلہ کو جاننا چاہیے کہ یہ معاملہ صرف اسمگلنگ کے ایک واقعہ تک محدود نہیں ہے۔ ان عناصر نے قوم کے اعتبار کو نقصان پہنچایا ہے اور فوج کا وقار خاک میں ملایا ہے۔ یہ عناصر کسی رعایت اور تحفظ کے مستحق نہیں ہیں۔