یہ جہاں چیز ہے کیا ،لوح و قلم تیرے ہیں

ڈاکٹر ساجد خاکوانی

 اﷲ کی بہت ساری صفات میں سے ایک صفت ”عدل“بھی ہے،قرآن میں اﷲ تعالی نے فرمایاکہ (سورة انعام،آیت115)“ترجمہ: تمہارے رب کی بات سچائی اور عدل کے اعتبار سے کامل ہے۔ اﷲ تعالی نے انسان میں اپنی روح پھونکی ہے اورپھرفرمایاکہ ترجمہ:اے انسان تجھے اپنے رب کرم کی طرف سے کس نے دھوکے میں ڈال دیا جس نے تجھے پیداکیا،تجھے نک سک سے درست کیا اور تجھے متناسب(فعدلک)بنایا“۔گویا”عدل“نہ صرف یہ کہ انسان کی فطرت میں شامل ہے بلکہ انسان کی ساخت میں بھی شامل کردیاگیاہے۔ان سب کے بعداﷲ تعالی نے اپنی آخری کتاب میں عدل کرنے کا حکم بھی دیا(سورة نحل آیت 90)ترجمہ:اﷲ تعالی عدل اور احسان کا حکم دیتاہے۔اس رب کریم نے صرف اسی پر ہی بس نہیں کیابلکہ ایک ذات بابرکات بھی مبعوث فرمائی جس کی کل حیات طیبہ اور تعلیمات کے تمام تر مجموعہ کواگر عدل کامل کانام دیاجائے تو بے محل نہ ہوگا۔معاملات کے اعتبارسے تین اصطلاحات کااستعمال عموماََورد زبان رہتاہے،عدل،احسان اور ظلم۔عدل سے مرادکسی کو اس کا حق اداکردیناہے،احسان سے مراد حق سے زیادہ ادا کردیناہے جبکہ ظلم سے مراد کسی کا حق دبالیناہے۔ظلم سے ملتاجلتاایک اور لفظ”طاغوت“بھی آسمانی تعلیمات میںکثرت سے استعمال ہوتاہے جو بالاصل ”عدل“کے متضادکے طور بھی استعمال کیاجاتاہے۔عدل سے ایک مراد یہ بھی ہے کہ کوئی اپنی حدودکے اندر رہے جبکہ ”طاغوت “کی اصطلاح کو ”طغیانی “کی کیفیت سے بآسانی سمجھاجاسکتاہے جب کہ دریااپنی حدود سے باہر نکل آتاہے،پس انسانی رویے جب اپنی حدود میں رہیں گے تو گویا عدل کامصداق ہوں گے اور جب اپنی حدود سے نکل کر دوسروں کی حدود میں داخل ہونے لگیں گے تو طاغوت کی شکل اختیار کر جائیں گے اور تب یہیں سے فسادات جنم لیتے ہیں جو انسانی معاشرے میں بگاڑ کا باعث بنتے ہیں۔ظلم سے بچنا،عدل پر عمل پیرارہنااوراحسان کے رویے کو بخوشی اپنانااسوة حسنہ کے سوتے پھوٹنے والے چشمے کاوہ پانی ہے جو انسانیت کی پیاس کو بدرجہ اتم مٹانے کی پھرپورصلاحیت رکھتا ہے اوریہی وہ منزل ہے جس کی طرف عدل اجتماعی کی شاہراہ کاراستہ صراط مستقیم کی چھاو¿ں سے ہوکر گزرتاہے۔محسن انسانیت ﷺ نے انسانیت کو عدل کی بالادستی کا درس دیااورایک بار جب ایک حد کے اجراسے روکنے کے لیے آپ ﷺ پر ناجائزدباو¿ ڈالا گیاتوآپ نے ارشاد فرمایا کہ تم سے پہلے کی اقوام اسی لیے تباہ ہوئیں کہ جب ان کے بڑے جرم کرتے تو ان سے صرف نظر کرلیاجاتاتھااور جب ان کے چھوٹے طبقوں کے لوگ جرم کرتے تو ان پر قانون پوری قوت سے نافذ کردیاجاتا۔ایک اور موقع پر عدل کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے آپ ﷺکے ارشاد کا خلاصہ ہے کہ اگرکسی مسلمان نے اسلامی ریاست کے کسی غیر مسلم (ذمی)پر زیادتی کی آپ ﷺ نے فرمایاکہ اس مسلمان کے خلاف روز محشراس غیرمسلم کی طرف سے میں محمدﷺ خود دعوی دائر کروں گا۔آپ ﷺ نے ظلم کوقیامت کے اندھیروں میں سے ایک اندھیراقراردیااور اس سے بچنے کا حکم دیااور ساتھ فرمایا کہ تمہیں قیامت کے دن حق والوں کے حق ضرور اداکرنے ہوں گے۔حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایاجس آدمی پر بھی اپنے بھائی کاکوئی حق ہو تو اسے چاہیے کہ دنیامیں ہی اس سے عہدہ براہو جائے قبل اس کے کہ وہ دن آ جائے جس دن کسی کے پاس درہم و دینارنہ ہوں گے۔عدل نبوی ﷺ کااس بات سے بھی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ جب بھی کسی کو حاکم بناکر بھیجتے یاکسی سرکاری امورکی بجاآوری کے لیے روانہ فرماتے یا زکواة کی وصولیابی کے لیے تعینات کرتے تو عدل کادامن تھامے رکھنے کی ہدایات صادر فرماتے۔اس آسمان نے وہ دن بھی دیکھاجب خیبر کے یہود اس بات کے منتظر تھے کہ اب انہیں غلام بناکراسلامی افواج میں تقسیم کردیاجائے گا، ان کی جائدادیں اور تیارفصلیں اجاڑ دی جائیں گی اور ان کی خواتین کو بھیڑبکریوں کی طرح ہانک کر لے جایاجائے گاکہ اس وقت تک یہی دستوردنیاتھالیکن وقت کی رفتار تھم گئی جب تاریخ انسانی کے مشاہدہ کار نے اس صفحہ ہستی پر پہلی بارفاتح اور مفتوح کے درمیان مزاکرات کے عمل کو جاری و ساری ہوتے دیکھااور فصلوں کی ایک نسبت کی تقسیم پرمعاہدہ نامہ طے پاگیااور پھر اگلی فصل پر جب ایک قاصد نبویﷺ خیبرپہنچااورفصلوں کو نصف نصف تقسیم کیاگیاتواس قاصدنے یہود سے کہا کہ ان میں سے جو حصہ چاہو لے لواور جو جو تم چھوڑ دو گے وہ ہم لے جائیں گے،اس پر خیبر کے یہود چیخ اٹھے کہ خدا کی قسم اسی عدل و انصاف کا حکم توریت میں ہمیں دیا گیا تھااور اسی عدل و انصاف کے حامل کی توریت میں پیشین گوئی تھی کہ وہ آخری نبی علیہ السلام ہو ں گے۔محسن انسانیت ﷺ کی ختم نبوت کا ایک حسین پہلو یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ نے عدالتوں کو عدل و احتساب کا درس دیا،یہ سبق آپ ﷺ کی ذات بابرکات سے پہلے دنیاسے عنقا ہوچکاتھااورانسایت عدل و انصاف کو فراموش کر چکی تھی ،آپ نے انبیاءعلیھم السلام کے اس درس انسانیت کی اس طرح تجدید کی کہ اس کا حق ادا ہو گیا،آپ ﷺ کے گزرے آج کم و بیش ڈیڑھ ہزار برس بیت چکے،اس دوران انسانیت نے بہت ترقی کر لی،علو م و معارف آسمان ثریاکو چھونے لگے ہیں،انسان کے قدم اس کائنات میں زمین سے کوسوں دور خلاو¿ں میں جا ٹکے ہیں،راتیں دنوں سے زیادہ روشن ہونے لگی ہیں،تہذیب و تمدن اور ثقافت کے ڈانڈے مستقبل میں کمندیں ڈالنے کے قابل ہواچاہتے ہیں،فاصلے سمٹ گئے اورانسان اس جگہ پر پہنچ رہاہے جہاں پر چند سال پہلے تک بھی سوچنا محال تھا لیکن اس سب کچھ کے باوجود عدالتوں کے لیے کسی ازم نے،کسی دانشورنے،کسی نئے نظام حیات نے عدل و انصاف سے بڑھ کر کوئی درس تجویز نہیں کیایہ انسانیت اپنی ساری ترقیوں کے باوجود نبی آخرالزمانﷺ کے دیے ہوئے درس اعتدال و عدل اوحتساب سے آگے نہیں گزرسکی،ہماری عقل کہتی ہے کہ ہم اس کو آخری نبی مانیں گے جو اس درس میں کوئی اضافہ کر عمل عدالت کے ارتقاءمزید کاباعث بنے گاجبکہ ہمارا ہماراایمان کہتاہے کہ عدالتوںکے ارتقاءکا سفرمعراج مکمل ہو چکااور اب اس میں کسی اضافے کی گنجائش باقی نہیں رہی کیونکہ(مجھے اخلاقیات کے معیارات کی تکمیل کے لیے بھیجاگیاہے)اور ایمان ہر درجہ عقل سے کہیں بڑااور بزرگ و برتر ہے ،سودرس عدل مکمل ہوچکااورچونکہ اس میں اب اضافہ ممکن نہیں اس لیے کسی نئے نبی کی بھی ضرورت نہیں۔محسن انسانیت ﷺ نے عدل کے اطلاقی پہلویعنی بے لاگ احتساب کے لیے سب سے پہلے اپنی ذات کو پیش کیا،اس سے بڑھ کر عدل و احتساب کی کوئی مثال کہاں مل سکتی ہے کہ عمرمبارک کے آخری ایام میں خود کو پیش کر دیاکہ میرے ہاتھوں کسی سے زیادتی ہوئی ہو تووہ اپنا بدلہ چکاسکتاہے۔ایک مسلمان آگے بڑھااورعرض کی ایک جنگ کے موقع پرآپ ﷺنے صفیں سیدھی کرتے ہوئے میری ننگی کمر پر چھڑی رسید کی تھی،پس سورج کی آنکھیں موندنے کو ہو گئیں جب ختم عدالتﷺنے اپنی کمر ننگی کرلی اور فرمایاکہ آو¿اپنابدلہ وصول کرلووہ مسلمان آیااور کمرمبارک سے لپٹ کرمہرنبوت کو بوسے دینے لگااور پھراس نے کہاکہ میری کیامجال کہ نبی سے بدلہ لوں میںتودراصل اس بہانے مہر نبوت کابوسہ لیناچاہتاتھا۔سود حرام کیالیکن سب سے پہلے اپنے گھرکا حضرت عباس بن عبدالمطلبؓ کاسودمعاف کیا،قتل معاف کرنے کی ریت کاآغاز کیااورسب سے پہلے اپنے گھرکاحضرت حمزہ بن عبدالمطلبؓ کاخون معاف کیااورغلام آزاد کرنے کاحکم دیاتو سب سے پہلے غزوہ حنین کے موقع پراپنے غلام آزاد کیے۔احتساب کی یہ مثال آج بھی دنیاکے قوانین میں نابود ہے۔دنیاکایہ مسلمہ رواج ہے کہ جو طبقہ قانون بناتاہے وہ اپنے طبقے لیے خصوصی مراعات کا تعین کرتاہے یاجو خاندان قانون بناتا ہے وہ اپنی نسل کے لیے برہمنی تفوقات کاپہلے سے دائرہ کھینچ لیتا ہے لیکن خود احتسابی کی یہ مثال کہیں بھی تو نہیں ملے گی ختمی مرتبتﷺ نے اقرباپروری کے دروازے ہمیشہ کے لیے بندکرکے تو بے لاگ احتساب کا شیریں چشمہ فیض تاابد جاری فرمایا یہ کہہ کر کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں سوائے تقوی کے۔نبی ﷺکایہ بے لاگ احتساب جب اپنی ذات مبارکہ سے نکل کر معاشرے میں جگہ پاتاہے تو وہ معاشرہ مدینةالنبی کی پاکیزہ و مقدس ریاست بن جاتاہے جہاں ایک بار جب حضرت عمرؓ جیسے قریش کے اعلی نسب شخص نے ایک غلام زادے کو سخت سست الفاظ کہہ ڈالے تو احتساب نبوی جوش مار گیااوربات تب ختم ہوئی جب حضرت عمرؓ نے اپناایک گال زمین پر رکھاتودوسرے پراس غلام زادے صاحب ایمان نے اپنا پاو¿ں رکھا،بھلااس طرح کااحتساب اس آسمان نے کہیں اور بھی مشاہدہ کیاہوگا؟محسن انسانیت ﷺ نے دوستوں اور دشمنوں پر بہت احسانات کیے لیکن عدل کے معاملے میں کسی سے کوئی رعایت نہیں کی ،غزوہ احزاب کے موقع پر جب بنی قریظہ نے غداری کی توان کا محاصرہ کرلیاانہوں بہت زور لگایا لیکن احتساب نبوی ﷺ کا کوڑا اس زور سے ان یہودیوں پر برسا کہ ان کے سینکڑوں قابل جنگ مرد حضرات سر بازار قتل کر دیے گئے کہ دامن نبوی ﷺمیں دوستوں اور دشنوں دونوں کی گنجائش ہے لیکن غداروں کے لیے جو آستین کے سانپ ہوں اور مسلمانوں کے درمیان آسودہ رہ کر دشمن کے گن گائیں اوراہل ایمان کے خلاف سازشیں کریں ان کے لیے دامن نبوی ﷺ میں بھی کوئی نرم گوشہ نہیں ہے۔عوامی جمہوریت کے نام پر گزشتہ تین صدیوں سے سیکولر مغربی تہذیب نے جن عالمی اداروں کے اندر عالمی عدالت انصاف کا ڈھنڈوراپیٹ رکھاہے اس کی حقیقت بوسنیاکے لاکھوں مسلمانوں کے مقدمہ قتل کے دوران کھل گئی تھی،گوری چمڑی کے تعصب سے بھرپورسیکولرازم کے مکروہ چہرے سے اس دنیائے انسانیت کو عدالت کے کٹہروں سے بھی سوائے ظلم و ستم کے کچھ میسر نہیں آیا۔آج بھی عدل نبوی ﷺ اور نبی علیہ السلام کے بے لاگ احتساب سے معمورتعلیمات ہی اس کرہ ارض سے ظلم و ستم کے خاتمے اور عدل و انصاف کے قیام کے باب کاعنوان بن سکتی ہیںاور وہ دن دور نہیں جب کیمونزم کے خاتمے کی طرح سیکولرازم بھی بحراوقیانوس کے موجوں میں جا ڈوبے گااور سرمایاداری نظام کی باقیات بھی اس کو ڈھونڈ نہ پائیں گیںاور یہ انسانیت بلآخرتوحیدو نبوت و فکرآخرت کی ٹھنڈی چھاو¿ں میں خوب خوب جگہ پائے گی اور اپنے آنے والی نسلوں کی بھی آسودگی و راحت کاباعث بنیں گی۔

ختم نبوت کیاہے؟ہم جانتے ہےں خدائی فیصلوں میں تبدیلی ممکن نہیں ہوتی۔انسان جس خاتون کے بطن سے جنم لے اسکے بعددنیاکی کوئی عورت اس کی ماں نہیں بن سکتی،جس باپ کی نسل سے جنم لیاجائے پھراس کے بعد کوئی مرد انسان کا باپ نہیں بن سکتا۔جس ملک ،جس قوم ،جس نسل،جس خاندان اور جس سرزمین پر انسان آنکھیں کھولتاہے یہ خدائی فیصلے آخری ہوتے ہیںجن میں کوئی بھی تبدیلی ناممکنات عالم میں سے ہے۔اسی طرح اﷲ تعالی نے انسان کی ہدایت کے لیے جو فیصلے کیے ہیں ان میں بھی تبدیلی ممکن نہیں ہوسکتی۔خالق کائنات نے انسانوں میں انبیاءعلیھم السلام کاسلسلہ شروع کیا۔شیطان جیسے جیسے انسان کوگمراہ کرنے کے نت نئے طریقے اختیارکرتارہاویسے ویسے اﷲ تعالی انبیاءعلیھم السلام کو دنیامیں بھیجتارہااورانسانوں کو سیدھی راہ دکھائی جاتی رہی۔پھرایک وقت آیاکہ شیطان کو گمراہی میں مہارت حاصل ہوگئی،جس کے بعد انسان کو بھی ہدایت کامکمل سامان فراہم کردیاگیا۔اب قیامت تک شیطان جن جن راستوں سے انسان کو گمراہ کرسکے گااور جن نت نئے حربوں کو آزماسکے گاان سب کاتوڑ قرآن وسنت میں محفوظ ہے۔ختم نبوت کایہی مطلب ہے کہ انسانی ہدایت کا سامان مکمل ہوچکاہے اور اب کوئی نبی نہیں آئے گا،کوئی رسول نہیں آئے گا،کوئی کتاب،کوئی شریعت اور وحی کے نزول کاسلسلہ بندہوچکاہے۔اگرکسی نے نبوت ورسالت اور شریعت و کتاب و وحی کے دعوے کیے تووہ کذاب ہوگااوراسکی پیروی کرنے والے امت مسلمہ سے خارج ہوں گے۔ہر نبی اور ہر آسمانی کتاب نے اپنی امت کو اپنے بعد پیش آنے والے حالات کے بارے میں اطلاعات دی ہیں۔کتب آسمانی میں یہ اطلاعات بہت تفصیل سے بیان کی گئی ہیں۔گزشتہ مقدس کتب میں اگرچہ انسانوں نے اپنی طرف سے بہت سی تبدیلیاں کر دیں ،اپنی مرضی کی بہت سی نئی باتےں ڈال کر تو اپنی مرضی کے خلاف کی بہت سی باتےں نکال دیںلیکن اس کے باوجود بھی جہاں عقائد کی جلتی بجھتی حقیقتوں سے آج بھی گزشتہ صحائف کسی حد تک منور ہیں وہاں آخری نبی ﷺ اور قےامت کی پیشین گوئیاں بھی ان تمام کتب میں موجود ہے۔یہودونصاری نے بعثت نبوت اخری کے بعد ان نشانیوں کو مٹانے کی بہت کوشش کی لیکن پھر بھی بکثرت آثار اب بھی باقی ہیںاور علمائے امت مسلمہ نے انہیں تلاش کر کے عالم انسانیت کے سامنے پیش بھی کردےا ہے۔اسی طرح وہ بعد میں آنے والے حالات مستقبل قرےب سے تعلق رکھتے ہوں ےا مستقبل بعےد سے متعلق ہوں ،ان کی جزوی تفصیلات ہر کتاب اور نبی نے پیش کی ہیںتاکہ امت کی راہنمائی ہر حال میں جاری رہے۔گزشتہ کتب اور گزشتہ انبیاءعلیھم السلام کی طرح آخری نبیﷺ نے اور آخری کتاب قرآن مجید نے بھی اپنے بعد آنے والے حالا ت کے بارے میں بارے میں امت مسلمہ کو بہت تفصیل سے بتاےاہے۔نئے آنے والے حالات اچھے ہوں ےا برے ہوں،وہ دور فتن سے تعلق رکھتے ہوں یاقےامت اور آخرت کی نشانیوں کی طور پر ظہور پذےر ہونے والے ہوں،وہ انسانوں کے روےوں سے متعلق ہوں ےا آسمانی آفات و بلیات کی پیش آمدہ اطلاعات ہوں ےا آنے والے حالا ت کے تجزےے،اسباب و نتائج ہوں ےا ان کے اثرات ہوں اور ےا امت میں آنے والی مقدس ہستےاں ہوں ےا امت کے مقابلے میں آنے والے ظالم و جابر وقاہرافراد ہوں سب کی تفصیلات قرآن مجید میں اجمالاَََ اور کتب حدیث میں تفصیلاََ وارد ہوئی ہیں۔بعض محدثین نے تو ان حالات کے بیان کے لےے الگ ابواب باندھے ہیں۔سوال یہ ہے کہ یہ سب حالات اور افراداہم تھے ےا کسی نبی کی آمد کی اطلاع اہم تھی؟ظاہر ہے مذکورہ حالات تو ایمان کا حصہ نہیں ہیں لیکن اگر کسی نبی نے آنا ہوتا تونبی تو ایمان کاحصہ ہی نہیں بلکہ ایمان کی بنیاد ہوتا ہے۔پس اگر کسی نبی نے آنا ہوتا اور مشیت اےزدی میں کسی نبی کی بعثت اگر باقی ہوتی تو قرآن و حدیث کے مندرجات اس نبی کی اطلاعات سے بھرے پڑے ہوتے۔یہ بات بہت بڑا دستاویزی ثبوت اور ناقابل انکار شہادت اور ناقابل تردید امرہے کہ چونکہ قرآن و حدیث میں ایسی کسی پشین گوئی کا ذکر نہیں ہے جس میں کسی نبی کی آمد کی اطلاع ہو اس لےے اب قےامت تک کسی نبی کی آمد قطعاََ نہیں ہوگی۔یہ ہو نہیں سکتا کہ ایمان و ےقین جیسے نازک معاملے میں کوئی نبی اپنی امت کو یوں اندھےرے میں چھوڑ جائے۔قرآن مجید میں متعدد ایسے مقامات ہیں جہاں کسی آنے والے نبی کاذکر موجود ہوناچاہیے تھامثلاََسورة بقرہ کے آغازمیں ہی فرمایا ترجمہ:”اس پر ایمان رکھتے ہیں جوآپﷺ پر نازل کیاگیااور آپﷺ سے پہلے نازل کیاگیااوریوم آخرت پر یقین رکھتے ہیں“۔اگرآپﷺ کے بعد کوئی کتاب،کوئی شریعت،کوئی نبوت و رسالت یا وحی کاکوئی سلسلہ باقی ہوتاتواس مقام پر ضرور اس کاذکرکیاجاتا۔بلکہ آپ ﷺ کی نبوت کے ذکرکے بعد ملطقاََآخرة کاذکر کیاگیا یعنی اس نبی محترمﷺکے بعد آسمان سے صرف آخرة کی آمد ہی ہوگی۔محسن انسانیت خاتم النبیین ﷺ نے انسانیت کے جملہ معےارات اخلاق کو مکمل کیا ہے ،آج کئی صدےاں گزرنے کے باوجودان معےارات میں کوئی اضافہ نہیں ہوسکا۔خاتم النبیینﷺنے معاشرت کو مساوات کا درس دےا،نماز جیسے پنج وقتہ عمل میں اس مساوات کو قائم کیا ،امیر،غرےب،عالم ،جاہل اور عوام حکمران سب کو تاقےامت ایک صف میں کھڑا کردےااور کسی کو یہ اجازت نہیں دی کہ پہلی صف میں جماعت شروع ہو چکنے کے باوجود اپنے لےے جگہ کو خالی رکھوائے بلکہ پہلے آو¿پہلے پاو¿کی بنیاد پر نماز میں جگہ حاصل کرنے کا اصول دےا ۔اسی طرح حج میں بھی مساوات قائم کی سب لوگ ایک ہی لباس پہنے ایک ہی کمرے کے گرد ایک ہی رخ میں چکر لگاتے ہوئے اور ایک ہی کلمہ زبان سے اداکرتے ہوئے حج کرتے ہیں۔آج صدےاں گزر گئیں کسی کتنے ہی نئے نظام ہائے فکروعمل آئے،کتنے ہی فلسفہ ہائے اخلاق آئے اور تہذیب و تمدن نے کتنی ہی ترقی کر لی لیکن انسانی معاشرے کوخاتم النبیینﷺکے درس مساوات سے بڑھ کر کوئی درس میسرنہ آ سکا۔آپﷺنے معاشرے کے لیے مساوات کے درس اخلاق کومکمل کردیاجس میں آج تک اضافہ ممکن نہ ہوسکا۔خاتم النبیینﷺنے انسانی معیشت کوسود کی ممانعت،تقسیم دولت اور حقوق کی ادائےگی کا درس دےا اور یہ درس دےا کہ ”مزدورکی مزدوری اسکا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اداکردو“اسکے دو مطلب ہیں ،ایک تو وہی جو سمجھ آگےاےعنی ادائےگی بروقت ہو جانی چاہےے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ مزدوربھی مزدوری کرتے ہوئے اپنا پسینہ نکالے،یعنی اپنے کام کاحق تواداکرے ۔آج صدےاں بیت گئیں ،ماضی قریب میں کیمونزم،سوشلزم ےااشتراکیت کے نام سے بہت بڑے بڑے معاشی انقلابات آئے جنہوں نے دنیا کے جغرافےے سمیت عالمی معیشت کو نیچے سے اوپر تک ہلامارا،انکی پشت پر تاریخی شہرت کے حامل اہل فکرودانش کی کاوشیں کارفرماتھیں اور نسلوں کے استحصال کے بعد بہت بڑی بڑی افکار پیش کی گئیں جن کو بنیاد بناکر لاکھوں انسانوں کے خون کی قیمت پر ان معاشی نظاموں کونافذ کیا گےا لیکن ان سب کے باوجودبھی وہ حقوق کی ادائےگی سے بڑھ کر کوئی نیادرس انسانوں کے سامنے پیش نہ کر سکے ،جب کہ یہی درس صدےوں پہلے خاتم النبیینﷺاپنی معاشی تعلیمات میں پیش کر چکے تھے۔آج کی تہذیب نے راتوں کودنوں سے زیادہ روشن کردیالیکن معیشت کے میدان میںسوائے اندھیروں کے کچھ نہ دے سکی اورمحسن انسانیتﷺ جن معاشی اخلاقی حقوق و اعلی معاشی معیارات کاتعین فرماگئے ان میں بال برابربھی اضافہ ممکن نہ ہوسکا۔خاتم النبیینﷺنے مذہب کوانسانیت کادرس دےا،جنگی قےدےوں کو حق زندگی دےا،غلاموں کی آزادی کو رواج دےا،دشمنوں کو معاف کیا،قاتلوں پر انعامات کی بارش کی،رنگ،نسل ،زبان اور علاقے کی بجائے اخوت کو مذہب کا وسیع البنیےاد پلیٹ فارم عطاکیا،خدمت کو انسانیت کی معراج قراردےا اور صلہ رحمی کے احکامات جاری کےے۔ہندومت آج بھی حقوق العبادکا استحصال کرتاہے،عےسائیت نے حقوق اﷲ میں غلو سے کام لیا،یہودےوں نے محض حقوق النفس ہی اداکےے ،دنیامیں کم و بیش پچیس ہزارمذاہب پر انسانوں کے گروہ عمل پیرا ہیں لیکن تمام مذاہب افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ان مذاہب سے تنگ آکر یورپ نے ”سیکولرازم“کے نام پر مذہب سے روگردانی اختےارکرنا چاہی اورانسانیت کے نام سے اپنی پہچان بنانے کی کوشش کی اور اسی انسانیت کے ہی نئے معےار قائم کےے ان پر عمل پیرا بھی ہونے کی کوشش کرتے رہے اسکا حق اداکیا یا نہیں یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن تب بھی انسانیت سے بڑھ کرکوئی نےا درس تو انہوں نے بھی پیش نہ کیا اور اسی درس کو خاتم النبیینﷺصدےاں پہلے پیش کر چکے تھے۔سیکولرازم نے انسانیت کے نام پر انسانیت کااستحصال کیالیکن انسانیت کی کوئی خدمت بجانہ لاسکی وہ انبیاءعلیھم السلام ہی تھے جو بغیرکسی معاوضہ کے خدمت انسانیت کے اعلی ترین منصب پر فائزہوئے اور آخری نبیﷺ نے تواس معیار انسانیت کو اس کے بام عروج تک پہنچادیااور انﷺ کے بعد اس میں کوئی اضافہ ممکن ہی نہ ہوسکااگرچہ تعلیم و تہذیب کاسفرکائنات کے اسرارورموزکی تلاش میں زمین کے مدارسے باہربھی نکل گیا۔خاتم النبیینﷺنے سےاست کو” خلافت “کادرس دےا کہ اقتدارایک امانت ہے جواﷲ تعالی کی طرف سے انسان کو ملی ہے،خاتم النبیینﷺنے اپنی تعلیمات میں واضع کیا کہ اقتدار کوئی موروثی حق نہیں ہے،زورآوری اور طاقت و قوت کے بل بوتے پر حاصل ہونے والی چیز نہیں جسے ذاتی ملکیت سمجھ لیا جائے بلکہ یہ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے جس کے بارے میں سختی سے جوابدہی کی جائے گی۔صدےاں گزر گئیں پولٹ بیورو،پارلیمانی نظام،صدارتی نظام،بنیادی جمہورےت اور نہ جانے کتنے ہی اورسےاسی نظام اس دنیا میں آئے،کتنے ہی سےاسی مفکرین نے اپنے اپنے سےاسی افکار پیش کےے ”علم سیاسےات“کے نام سے ایک علم و فن کی ایک شاخ بھی وجود میں آ گئی اور جمہورےت نامی سےاسی نظام سمیت کئی سےاسی نظاموں کو انسانیت نے آزما کر بھی دیکھ لیالیکن گھوم پھر کر چکر لگا کر اسی نقطے کے گرد ہی سب نظام گھومتے رہے کہ ”اقتدار“امانت ہے۔کسی نے اسے عوام کی امانت کہا تو کسی نے اسے تارےخ کی امانت کہا تو کسی نے اسے آنے والی نسلوں کی امانت کہا،خاتم النبیینﷺکے عطا کردہ درس سے آگے بڑھ کر کسی نے کوئی درس پیش نہ کیا۔خاتم النبیین ﷺنے میدان سیاست کی تمام اخلاقیات کوان کی معراج تک پہنچادیااور آپ کے مقدس وارثین نے ان سیاسی اخلاقیات کواس زمین کے سینے پر جاری وساری و نافذالعمل کر کے ان سیاسی اخلاقی معیارات کو ہمیشہ کے لیے امرکردیا۔اس کے بعد آج تک یہ آسمان ان سیاسی اخلاقی معیارات میںکوئی اضافہ نہ دیکھ سکا۔خاتم النبیینﷺنے عدالتوں کو عدل و انصاف کا درس دےا،صدےاں گزرجانے کے باوجود اور تہذیب و تمدن میں اتنی ترقی ہو چکنے کے باوجود کہ راتےں دنوں سے زےادہ روشن ہو گئی ہیں اس درس میں کوئی اضافہ آج تک نہ ہوسکا۔خاتم النبیینﷺنے میدان جنگ کوجن اصولوں کاپابند بناےا ان میں آج تک کوئی اضافہ ممکن نہ ہوسکا،خاتم النبیینﷺنے بین الاقوامی قوانین میں برداشت و رواداری کی جو رےت ڈالی اس میں یہ آسمان آج تک کوئی بڑھوتری نہ دیکھ سکا،خاتم النبیینﷺنے خانگی زندگی میں پیارومحبت کا درس دےا اورنوجوانوںکو نکاح کا درس دےا ان سے زےادہ پاکیزہ درس آج تک کہیں سے ابھر نہ سکااورایک فرد کو تقوی کادرس دےا بھلا اس سے بہتر درس کب ممکن ہے۔یہ سب تشریح ہے کہ آپ ﷺ خاتم النبیین تھے اور جو معےارات آپﷺ قائم کر گئے چونکہ ان میں اضافہ ممکن نہیں اس لےے کسی نئے نبی کی آمد بھی ممکن نہیں۔ہماری عقل کہتی ہے کہ جس کسی نے ان معےارات اخلاق میں اضافہ کیا ہم اسے خاتم النبیین مانیں گے اور ہمارا ایمان کہتا ہے کہ اب تاقےامت ان معےارات میں اضافہ ممکن نہیں ایمان چونکہ عقل سے بڑا ہے اس لےے ہم ایمان کو عقل پر ترجیح دیں گے ۔سب انسان سر جوڑ کر بیٹھ جائیں اور چاہیں کہ ان تعلیمات میں کوئی اضافہ کر سکیں ےا ان میں کوئی سقم ڈھونڈ کر اس کو ختم کر سکیں ےا کوئی کمی تلاش کر کے اسکو پورا کرسکیں ےا کسی طرح کی کوتاہی کاازالہ کر سکیں تو اسکا قطعاََ کوئی امکان نہیں ہے۔یہ حکم ربی ہے اور خدائی فیصلہ ہے کہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا،کسی اورکاکلمہ نہیں پڑھا جائے گااور کوئی اور ”مطاع“اب تاقےامت پیدا نہیں ہوگا جس کسی نے اس طرح کے دعوے کےے بالاجماع امت وہ کذاب ہوگااور امت سے خارج سمجھا جائے گا۔تاریخ نے ایسے لوگ دےکھے اور ممکن ہے مزےد بھی نظر آنے لگیں لیکن ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہوگی اور نہ ہی ان کا کوئی دینی و اخلاقی مقام ہوگا ۔جو کوئی خاتم النبیینﷺ کی اطاعت کا قلاوہ اپنی گردن میں ڈالے گا وہی دنیاوآخرت میں مسلمان گردانا جائے گا۔تاریخ اسلام میں سینکڑوں لوگوں نے نبوت کے دعوے کیے ان میں خواتین بھی شامل رہیں لیکن کل امت نے اجماعی طورپر ان کاانکارکیا۔کہیں بھی کسی عالم دین یاکسی حق پرست گروہ نے ایسے مدعیان نبوت کے بارے میں کسی طرح کے نرم گوشے کاقطعاََاظہارنہیں کیا۔کل امت کی کل تاریخ میں تاشرق و غرب اور صحابہ کرام کے مقدس گروہ کے دورسے آج دن تک ختم نبوت پر کسی طرح کا سمجھوتہ دیکھنے کو نہیں ملا۔آپﷺ کے فوراََبعد تو کذابین کی وباپھوٹ پڑی تھی لیکن اصحاب رسولﷺکے پہاڑوں جیسے ایمان نے انہیں برداشت نہ کیااور اکثرکے ساتھ تو قتال تک کی نوبت آئی لیکن اجماع صحابہ نے اس قتال سے بھی گریزنہیں کیا۔ان مدعیان نبوت کے حالات پڑھنے سے صاف محسوس ہوتاہے کہ حرص و لالچ کی کثرت کے باعث شیطان نے انہیں اس راستے پرڈال دیا۔امت مسلمہ کے مختلف الخیال گروہ ایک دوسرے کے خلاف بہت دورتک نکل جاتے ہیں اور بعض اوقات دوسرے کوخارج از ایمان سمجھتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہر گروہ میں ایک معتدل طبقہ کل امت مسلمہ کے تمام گروہوں کو مسلمان ہی سمجھتاہے جب کہ کسی نئے نبی کو ماننے والوںکو کل امت کے کل گروہوں کے کل علماءبالاجماع دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں اور کسی کے ہاں اس طرح کے طبقوں کے لیے اےک فےصد بھی برداشت نہیں پائی جاتی۔ ماضی قریب میں دورغلامی کے دوران کل میدان ہائے حیات میں تبلیس کے باوجود جب امت کے عقائد کوگمراہ نہ کیاجاسکاتو گورے سامراج نے عقیدہ ختم نبوت میں نقب لگانے کی ناپاک سعی کی۔امت نے ہمیشہ کی طرح آج بھی اس ناپاک سعی کے خلاف آہنی بندباندھااوراسے کفرکے کے اندھیرے غارمیں دھکیل دیااور آئندہ بھی اس طرح کی کوئی کاوش ناقابابل برداشت ہوگی تاآنکہ قیامت کاسورج طلوع ہوجائے۔