مختلف موضوعات پر چھپنے والے کالموں پر قارئین کی جانب سے آراء اور تبصرے موصول ہوتے رہے ہیںجن میں سے بیشتر قارئین کالم میں اٹھائے گئے نکات کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ کالم کو اپنی آواز قرار دیتے ہوئے اس کی تائید و حمایت کرتے ہیںجبکہ ایک بڑی تعداد ایسے قارئین کی بھی ہے جو کالم کی وساطت سے اپنے انفرادی اور اجتماعی مسائل کو اُجاگر کرنا چاہتے ہیں۔ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بیشتر قارئین واٹس اَپ' میسنجر اور اِی میل کے ذریعے اپنی آراء پہنچاتے ہیں لیکن آج بھی ایسے افراد کی ایک معقول تعداد موجود ہے جو اپنی آراء اور احساسات کو پہنچانے کے لیے باقاعدہ خطوط کا سہارا لیتے ہیں۔ بیشتر خطوط میں لوگ مختلف حکام اور اداروں یا بااثر شخصیات کی جانب سے مبینہ طور پر ہونے والی زیادتیوں کا حوالہ دیتے ہیں لیکن بدقسمتی سے یا پھر شاید اخلاقی جرات کی کمی ہے کہ وہ اپنے نام اور اپنی شناخت کو ظاہر نہیں کرتے۔اپنی شناخت کو اس لئے بھی ظاہر نہیں کرتے کہ وہ صرف الزمات لگاتے ہیں جن کا اُن کے پاس ثبوت نہیں ہوتا ۔ اِن گمنام خطوط کو کبھی بھی کالموں کا حصہ نہیں بنایا۔ آج ایک خط نام اور شناخت کے ساتھ موصول ہوا ہے۔ موصوف سکردو میں ماضی میں قائم بیجوں کی تصدیق والے ادارے میں ملازم تھا لیکن بہت کم عرصے میں اس مفید اور اہم ترین ادارے کا بستر گول کرکے اس کی بساط لپیٹ دی گئی اور ادارے کے ملازمین بے روزگار کر دیئے گئے۔ ماضی کی حکومتوں کے سامنے بھی متاثرہ ملازمین نے اپنی فریاد رکھی مگر کہیں سے داد رسی نہیں ہوئی تو وہ تحریک انصاف کی حکومت سے انصاف کے طلب گار ہوتے ہوئے اپنی فریاد کو حکام بالا تک پہنچانے کے لیے زیر نظر کالم کا سہارا لیا ہے۔ کیونکہ بیجوں کی تصدیق والا ادارہ معاشرے کی اہم ضرورت ہے جس کے پیش نظر اس متاثرہ ملازم کا خط کالم میں شامل کیا جا رہا ہے تاکہ صاحب اقتدار کی توجہ حاصل کی جاسکے۔
مکرمی جناب محمد قاسم نسیم صاحب:السلام علیکم' عرض یوں ہے کہ سائل کا تعلق ایسے پروجیکٹ سے رہاہے بعد از سلام امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے جوکہ محکمہ زراعت کا ایک ذیلی ادارہ تھا
جسے 18اپریل2007ء کو سکردو میں قائم کیا گیا تھا اور 30 جون 2010 کو خاتمہ کرکے بیجوں کی تصدیق کے لاکھوں روپے مالیت کی مشینری سمیت یہ ادارہ گلگت منتقل کردیا گیا۔ یہ محکمہ '' فیڈرل سیڈ سرٹیفکیشن اینڈ رجسٹریشن ڈیپارٹمنٹ ''تھا جس کا 3سالہ پروجیکٹ (سبزیوں کی تصدیق شدہ بیجوں کا پیداواری اور تجزیہ کا ترقیاتی منصوبہ برائے شمالی علاقہ جات و آزاد کشمیر) کے نام سے متعارف کرایاگیا تھا۔ اس ادارے کا سکردو میں دفتر سدپارہ روڈپر واٹر سپلائی کمپلیکس کے ساتھ بنایا گیاتھا۔ ادارے کے قیام کے ساتھ ہی ہر سال فروری سے اپریل تک کے عرصے میں بازار میں موجود بیجوں کے کاروبار سے منسلک افراد سے بیجوں کے نمونے حاصل کئے جاتے اورلیبارٹری میں ان کا تجزیہ کرکے صحت مند بیج ہونے کی صورت میں باقاعدہ سرٹیفکیٹ جاری کرتے تھے۔ چونکہ یہ محکمہ وفاقی تھا اس لیئے لیب اسسٹنٹ سیڈ انسپکٹر سیڈ سرٹیفکیشن آفیسر اور ڈپٹی ڈائریکٹرجیسے تمام عہدوں پر اہلکار وفاق سے ہی آتے تھے جبکہ ہم چند لوئر سٹاف مقامی سطح پر متعین ہوئے تھے ۔باہر سے آفیسران آتے جاتے رہے اور کسی نے بھی یہاں اس ادارے کو ترقی دینے پر توجہ نہیں دی ۔ لوئر سٹاف نے اپنے طور پر دوکانداروں سے بیجوں کے نمونے لاکر اِن کا تجزیہ کرتے رہے۔ لیکن زمہ دار آفسران کی دلچسپی نہ ہونے کے باعث نہ صرف یہ ادارہ یہاں مستحکم اور موثر نہ ہو سکا بلکہ مقامی سطح پر لئے گئے لوئر سٹاف کو تنخواہ کے حصول میں بھی بڑی رکاوٹیںحائل رہیں۔اگرچہ دفتر میں بھی کوئی سہولیت موجودر نہیںتھی شدید سردی کے دنوں میں بغیر ہیٹنگ کی سہولتوں کے ملازمین کام کرتے رہے ۔علاقے کی ضرورت کا تقاضا تو یہ تھا کہ اس ادارے کو مستقل کردیا جاتا لیکن وفاق نے اس ادارے کو اپنے اوپر بوجھ تصور کرتے ہوئے اسے بند ہی کردیا۔ادارے میں موجود تمام مشینری اور سازوسامان گلگت آفس منتقل کرنے کا حکم ہوا۔ ہم متاثرہ ملازمین نے اُس وقت کے وزیر اعلی سید مہدی شاہ سے ملاقات کرکے آفس کی بندش سے ہونے والے علاقے کے نقصان اور سٹاف کی مشکلات سے آگاہ کیا تاہم انہوں نے کوئی دلچسپی نہیں لی۔ ہمیں جو معلوم ہو ا کہ اس وقت وفاق کی جانب سے گلگت بلتستان کے سیکرٹری زراعت کو ایک لیٹر آیا تھا جس میں یہ آپشن دیا گیا تھا کہ محکمے کے سامان سمیت ادارے کو صوبائی حکومت سنبھال لے اورملازمین کی تنخواہ گلگت بلتستان حکومت ادا کرے۔ مگر افسوس کہ اُس وقت کے سیکرٹری زراعت نے اس خط کو ردی کر دی نتیجتاً بلتستان کے زمیندار اس اہم ڈیپارٹمنٹ سے محروم ہوگئے لوئر سٹاف ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ گلگت میں بیٹھے حکام ویسے بھی اس محکمہ کو سکردو میں قائم رکھنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے تھے یوں سکردو آفس کی مشنیری بھی گلگت منتقل ہوگئی اور سکردو سے سیڈ سرٹیفکیشن کا محکمہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چلا گیا۔لہٰذا آپ کے کالم ہمیشہ سے مدلل موثر اور حقائق پر مبنی ہوتا ہے اس سلسلے میں چند حقائق اور دیگر تفصیلات جاننے کیلئے معلومات و مشاورتی پمفلٹ بھی منسلک ہے آپ بغور مطالعہ فرما کر آئندہ ایک آرٹیکل تحریر کیا جائے جس میں تصدیق شدہ بیجوں کی اہمیت ضرورت اور مستقبل میں مشکلات دفتر کی بندش کے نقصانات کو تفصیل سے تحریر کیا جائے تاکہ کسی ہمدرد نمائندہ اس ادارے کی اہمیت کے پیش نظر
بلتستان میں پھر سے اس ادارے کے قیام کے لئے متحرک ہو سکے۔ عوام اس ضروری ادارے کے قیام کیلئے دوبارہ مطالبہ کرے جس سے زمینداروں کو فائدہ ہوگا۔ ہماری تو عمر بھی جوں جوں بڑھ رہی ہے اب ہم کسی اور ادارے میں بھی ملازمت کے اہل نہیں رہیں گے کیونکہ اس پروجیکٹ سے فارغ ہوکر 10سال گزر گئے ہیں۔ دوبارہ ملازمت ملنے کی توقع تو ہرگز نہیں مگر وسیع تر عوامی مفاد کیلئے آپ کی خدمت میں چند عرائض پیش کرتا ہوں تاکہ آپ کی وساطت سے یہ حقائق اخباری کالم میں شامل ہو سکے۔عین نوازش ہوگی۔ زوار غلام مہدی شاہد، متاثرہ سٹاففیڈرل سیڈ سرٹیفکیشن اینڈ رجسٹریشن ڈیپارٹمنٹ سکردواس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ کسی بھی معاشرے میں بیجوں کی تصدیق والے ادارے کی بڑی اہمیت ہے ۔ کیونکہ جدید سائنسی اصولوں کے مطابق کی جانے والے کاشت کاری سے ہی زیادہ بہتر نتایج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ بلتستان میں شروع سے یہ مسئلہ رہا ہے کہ بیجوں کی سائنسی بنیادوں پر تصدیق نہ ہونے کے باعث نہ صرف فصل خراب ہونے سے زمینداروں کو مالی نقصان کا سامنا رہا ہے بلکہ خراب اور بیمار بیجوں کے استعمال سے زمین کی زرخیزی بھی متاثر ہوتی ہے اور زمین کئی سالوں تک کسی بھی فصل کے قابل نہیں رہتی۔ آج کل رسل و رسائل اورا ٹرنسپورٹیشن کی سہولتوں میں ہونے والی ترقی کے باعث ملکے کے مختلف حصوں سے ہی نہیں بلکہ مختلف ادارے دیگر ممالک سے بھی فصلوں کی بیج منگواتے ہیں جن کے ساتھ اُن علاقوں کی فصلوں کی بیماریاں بھی یہں منتقل ہوتی ہیں۔ بلتستان میں درختوں پر کبھی بھی ملی بگ نامی بیماری دیکھی نہیں گئی تھی لیکن جب سے مختلف ادارے سیزن میں بلتستان میں پودے منگوانے لگے تو ملی بگ سمیت کئی بیماریاں یہاں کے درختوںکو لاحق ہوگئیں۔ان بیماریوں نے یہاں پھل دار اور غیر پھل دار دونوں قسم کے درختوں کو یکساں طورپر متاثر کریا جو کہ متعلقہ محکموں کے لئے ابھی چلینج بنا ہوا ہے۔ یہی صورت حال فصلوںکی بھی ہے ۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے بلتستان ڈویژن کے وزرا بالخصوص وزیر زراعت جو اعلی تعلیم یافتہ ، باشعور اور علاقے کا درد رکھنے والی شخصیت کے مالک ہونے کے ناتے ان سے زیادہ توقعات وابستہ ہیں کہ وہ اس اہم ترین ادارے کی بحالی کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے۔