بدلا ہوا گلگت بلتستان

محمد قاسم نسیم

گلگت بلتستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے بعد اب الحمداللہ حالات تیزی سے معمول کی جانب گامزن ہیں۔حالات کشیدہ ہونے پر گلگت بلتستان کے تمام اضلاع کی غالب اکژیتی آبادی کو شدید تشویش لاحق ہوئی اوروہ مضطرب تھی۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے کا تقریباً ہر فرد اس کشیدگی کے خاتمے اور امن و ہم آہنگی کی فضا کو پھر سے بحال کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کررہا تھا۔ اس سارے عمل میں ذمہ دار علما کا کردار لایق تحسین رہا۔ بلتستان کے علما نے ماضی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے مشکل حالات میں امن کے لئے عملی کردار کا اپنا فریضہ ادا کرنے میں ذرا بھر بھی کوتاہی نہیں برتی تو دیامر سے بھی علما اور عوام کی اکژیت نے امن پسندی کا ثبوت دیا۔ جب دیامر میں شاہراہ قراقرم کو بند کرکے لوگ احتجاج میں مصروف تھے تو یہ دیامر کے علما اور ذمہ دار شخصیات اور نوجوان ہی تھے جنہوں نے علاقائی اور مسلکی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر راستے میں پھنسے ہوئے ان کی مسافروں کے لئے کھلے دل کے ساتھ اپنے گھروں کے دروازے کھول دیے اور ان مسافروں کے کھانے پینے کا اہتمام کیا۔یہ الحمداللہ آج کے بدلے ہوئے گلگت بلتستان کا خاصا ہے وگرنہ ماضی میںہونے والی کشیدگیوں کے دنوں میں ایسی مثالیں دیکھنے کو نہیں ملتی تھیں۔ دوسری جانب حکومتی سطح پر پارلیمانی امن کمیٹی اور حکومتی اعلی عہدہ دار بھی فعال تھے اور صوبے میں قیام امن لئے سرگرم رہے۔ پارلیمانی امن کمیٹی نے گلگت ،سکردو اور دیامر کا دورہ کرکے علما اور اکابرین سے ملاقاتیں کیں اور امن کے لیے اپنا کردار ادا کیا ۔ پارلیمانی امن کمیٹی نے ان تینوں ڈویژنوں کا دورہ کرنے کے بعدحالات میں کسی حد تک بہتری تو آئی لیکن گلگت میں ہونے والی ایک اشتعال انگیز تقریر کے بعد پھر سے پیدا شدہ صورت حال میں جب اِن کو سر گرم عمل ہونے کی زیادہ ضرورت تھی مگر یہ کمیٹی گدھے کی سینگ کی طرح غائب ہوگئی۔اس سے قبل بھی وزیرداخلہ شمس لون جب سکردو آئے اور شام سے لے کر رات گئے تک امامیہ علما کے ساتھ مذاکرات میں رہے تاکہ خطے کے حالات میں آنے والی کشیدگی کو مذاکرات کے ذریعے ختم کیا جاسکے۔مذاکرات اس یقین دہانی کے ساتھ رات کو ختم ہوئے تھے کہ اس مذاکرات کے اعلامیے کو اعلی حکام تک پہنچایا جائے گا اور ایف آئی آر کی نوبت نہیں آنے دی جائے گی۔ لیکن اگلے روز اس بنیاد پر لوگ مشتعل ہو کر سڑکوں پر آئے کہ ایف آئی آر تو ایک روز قبل ہی ہوچکی تھی۔ بلکہ تشویش ناک بات تو یہ تھی کہ جب وزیر داخلہ علما کے ساتھ مذاکرات میں مصروف تھے تو اُسی لمحے سکردوسٹی تھانہ میں ایف آئی آر کاٹی جاچکی تھی۔ جس سے عوام اورانتظامی و حکومتی حلقوں میں بد اعتمادی کی بنیاد پڑگئی۔ بلتستان ڈویژن کی انتظامیہ بھی اس ایف آئی آر کے حق میں نہ تھی۔ وجوہات اور بھی ہوسکتی ہیں لیکن اسی ایف آئی آر کا معاملہ جب سر گرم تھاتوایف آئی آر سے ایک روز قبل بلتستان ڈویژن کے کمشنر کا تبادلہ ہوا اور ایف آئی آر کے دو روز بعد بلتستان ڈویژن کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس اور سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سکردو کو بھی تبدیل کردیا گیا۔ تبادلے اور تقرریاں سروس کا حصہ ہوتی ہیں اور نئے آنے والے آفسران بھی قابل اعتماد اور لائق افسران ہو سکتے ہیں لیکن خطے میں کشیدگی کے عین موقعے پہ اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز ان اہلکاروں کے یہ تبادلے معنی خیز ضرور تھے۔خطے میں امن کی خوشبو پھیلانے میں محراب و منبر کا ہمیشہ سے بنیادی کردار رہا ہے جنہوں اپنے ذمہ دا رانہ رویوں اور تقریروں میںبہتر الفاظ کے چناﺅ کے ذریعے سڑکوں پر آنے والے مشتعل ہجوم کو احتجاج کے آئینی حق کے استعمال کے بعد پُر امن طور پر منتشر ہونے کو یقینی بنایا ۔ ایسے میں ملک سے مختلف مکاتب فکر کے مرکزی علما نے بھی گلگت بلتستان کا دورہ کیا ۔اِن علما نے نہ صرف کئی اضلاع میں علما وفود سے اپنی ملاقاتوں میں امن کی ضرورت واہمیت کو اُجاگر کیابلکہ اُنھوں نے پیغام پاکستان کے نام سے ضابطہ اخلاق مرتب کرتے ہوئے ملک میں امن و ہم آہنگی کے فروغ اورمختلف طبقوں کے مابین اعتماد اور محبت کے پہلے سے موجود رشتوں کو اور مضبوط بنانے کے لئے موثر کردار ادا کیا۔ اِن علما کو ایک موثر فورم سکردو میں معروف ادبی تنظیم بزم علم و فن کی وساطت میں میسر آیا ۔جہاں اِنہی دنوں میں سالانہ کانفرنس” حسینؑ سب کا“ منعقد ہو رہی تھی۔مسلسل تیس سالوں سے جاری یہ کانفرنس ماضی میں اتحاد بین المسلمین کے لئے منعقد ہوتی رہی اب گزشتہ کئی سالوں سے یہ کانفرنس بین المذاہب ہم آہنگی کے لئے منعقد ہو رہی ہے۔ یوں اب یہ کانفرنس ملکی سطح کی کانفرنس ہے جو ملک میں بین المذاہب ہم آہنگی کا باعث بن رہی ہے۔ کانفرنس میں اہلسنت برادری سے ملکی سطح کے چوٹی کے علما سیدطیب شاہ گیلانی اور مولانا صاحبزادہ عبداللہ شاہ وارثی خود سے مدعو تھے لیکن اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن وامیر متحدہ جمعیت اہلحدیث پاکستان سید ضیا اللہ شاہ بخاری اور رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین ، تاریخی بادشاہی مسجد لاہور کے خطیب مولانا عبدالخبیرآزاد اور وحدت المسلمین پاکستان کے مرکزی جنرل سےکرٹری سید ناصر شیرازی دیگر علما کے ہمراہ امن مشن کے سلسلے میں گلگت بلتستان کے دورے پر سکردو میں موجود تھے ۔اُنھوں نے بھی اِس اَہم کانفرنس میں شرکت کی اور خطاب کیا ۔ کانفرنس میں جملہ ادیان کے اکابرین نے خطاب کرتے ہوئے پاکستان میں مختلف ادیان کے ماننے والوں کے مابین ہم آہنگی اور بھائی چارگی کی موجود فضا کی تعریف کی اور ماحول کو برقرار رکھنے بلکہ اِسے اور پروان چڑھانے کے لئے ہر ممکن کردار ادا کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔کانفرنس میں ایک بار پھر یہ موقف توانا انداز میں اُبھر کر سامنے آیا کہ حضرت امام حسینؑ کو ایک ہی مسلک تک محدود سمجھنا درست نہیں ہے بلکہ حضرت امام حسینؑ کی ذات بابرکات نہ صرف مسلمانوں کے تمام مسالک کے پیرو کاروں بلکہ دیگر ادیان کے ماننے والوں کے لئے یکساں محترم ہیں ۔حضرت امام حسینؑ کو رہبرِ انسانیت اور محسنِ انسانیت کا مقام حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ سب آپؑ کو اپنا راہبر و رہنما تسلیم کرتے ہیں۔ آپؑ کی ذات عالمِ انسانیت کے لئے مرکزِ اتحاد ثابت ہورہی ہے۔کانفرنس میںزیادہ موثر آواز جو یہاں سے بلند ہوئی وہ مختلف مکاتب فکر کے مرکزی علما کی تھی جنہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ گلگت بلتستان سمیت ملک میں کوئی فرقہ وارانہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ تمام مسالک کے لوگوں کے مابین مکمل ہم آہنگی موجود ہے ۔جومسائل گزشتہ دنوں میں پیدا ہوئے ہیں اُسے تمام مکاتب فکر کے علما،اکابرین اور لوگوں کے تعاون سے حل کیا جارہاہے ۔مرکزی علما نے جو مشترکہ موقف اختیار کیا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ:” سارے کلمہ گو سچے مسلمان ہیں۔ہمارا دین امن ،سلامتی ،رواداری اور محبت کا درس دیتا ہے ہم کیوں ایک دوسرے کے خلاف بات کریں؟ اپنے عقیدے کو چھوڑو مت اور دوسرے کے عقیدے کو چھیڑو مت کی پالیسی پہ عمل پیرا ہونگے تو اختلافات پیدا ہونے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔امن وسلامتی اور اخوت و ہم آہنگی کے فروغ کے لئے پاکستان میں ےزیدی نہیں بلکہ حسینی فلسفہ چلے گا۔“ گلگت بلتستان میں مختلف مکاتب فکر کے مابین ہم آہنگی کو مذید فروغ دینے اور مستقبل میں غلط فہمیوں کے پیدا ہونے کے امکانات کو روکنے کے لیے مرکزی علما نے ایک ضابطہ اخلاق کو ترتیب دیا ہے اگرچہ اسی نوعیت کی دستاویز”پیغام پاکستان“کے نام سے ملکی سطح کے مرکزی علما دستخط کرکے جاری کرچکے ہوئے ہیں لیکن اب مقامی سطح پر بھی علما کے دستخط ہو رہے ہیں۔ سکردو میںہونے والے احتجاجی مظاہروں کی بھارتی میڈیا نے غلط انداز سے تشہیر کی تھی ۔ یہاں کے مظاہروں کو بھارت نے اپنے حق میںظاہر کرنے کی بھونڈی کوشش کی ۔ جس پر سکردو میں علما، اکابرین اور عوام کا شدید رد عمل دیکھنے میں آیا۔ یہاں کے علما ، اکابرین اور عوام نے واشگاف الفاظ میںبھارت کو کرارا جواب دیتے ہوئے یہ واضح کیا کہ ہم نے ایک طویل جنگ آزادی میں بھارت کی حمایتی مہاراجہ گلاب سنگھ کی فوج کوذلت آمیز شکست دے کر اپنے خطے کو آزاد کرایا تھا ۔ ہم کل بھی پاکستانی تھے آج بھی پاکستانی ہیں اورآئندہ بھی پاکستانی ہی رہیںگے۔ گلگت بلتستان کے حالات کا قریب سے جائزہ لینے کے لئے سینٹ کے چیئرمین نے بھی سکردو کا دورہ کیا لیکن نہیں معلوم ہوسکا کہ وہ اور اُن کے ساتھی کچورا کے صحت افزامقام پر محظوظ ہونے کے علاوہ خطے کے حوالے سے کسی سرگرمی کا حصہ بھی رہے کہ نہیں۔البتہ نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے گلگت بلتستان کا دو روزہ بھر پور دورہ کیا۔اُنھوں نے گلگت اور ہنزہ میں مصروف ترین دن گزارے۔گلگت بلتستان کابینہ سمیت اہم اجلاسوں کی صدارت کرنے کے علاوہ اہم ملاقاتیں بھی کیں ۔ عوامی اہمیت کے حامل منصوبوں کا افتتاح بھی کیا۔ مقامی میڈیا سے گفتگو میں حکومت کی ترجیحات اور گلگت بلتستان کے مسائل کے حل کے لئے جاری پیش رفت پر روشنی ڈالی۔دورے کے بعد وزیر داخلہ شمس لون نے نیوز بریفنگ میں کہا کہ وزیر اعظم کا دورہ اسی فیصد گلگت بلتستان کے سےکیورٹی مقاصد کے لئے تھا۔ وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے امن میں خلل ڈالنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ہدایت دی ہے۔کسی بھی خطے میں امن و امان برقرار رکھنے کے لئے قانون کی نظر میں سب کا یکساں ہونا اورقانون کی بالادستی بنیادی ضرورت ہوتی ہے۔بدقسمتی سے گلگت بلتستان میں اس چیز کا فقدان رہا ہے۔ ماضی میں جتنی بار بھی خطے میں دھشت گردی ہوئی، بے گناہ لوگوںکو قتل کیا گیا، جب جب بھی لوگوں نے قانون کو ہاتھ میں لیا اور خطے کو بد امنی اور کشیدگی میں دھکیلا تب تب قانون اپنی بالادستی ثابت کرتی ،قانون شکنی کے اِن واقعات پر قانون حرکت میں آیا ہوتااور قانون شکنوں کے ساتھ واقعی میں آہنی ہاتھوں نے نمٹ لیتے تو گلگت بلتستان میں بار بار قانون کا مذاق نہ بنتا۔حکومتی اعلیٰ عہدہ دار کو یہ کہنا نہ پڑتا کہ قانون کی بالادستی ہے۔قانون کی بالادستی خود منہ چڑھ کر بول رہا ہوتا۔آج کے بدلے ہوئے گلگت بلتستان میں موجود ہم آہنگی کی فضا کو غنیمت جانتے ہوئے حکومت کو اس فضا کو برقرار رکھنے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سکردو میںبین الاقوامی ہوائی اڈے کے آپریشنل ہونے کے بعد سکردو جو ملک کا سب سے بڑا سیاحتی حب بنے جارہا ہے دوسری جانب آغا سید باقر الحسینی کی سربراہی میں سکردو شہر کے لئے مستقبل کے آب نوشی کے جس بڑے منصوبے پر اپنی مدد آپ کے تحت کام کا آغازہوچکا ہے ۔اس منصوبے میں علاقائیت اور مسلک کی تفریق سے بالاتر ہو کر سکردو میں مقیم تمام افراد کا مجتمع ہونا یقینا غیر معمولی نوعیت کے واقعات ہیں جو ملک دشمن عناصر کو ایک آنکھ نہیں بھاتا اور وہ گلگت بلتستان کی اتحاد و وحدت کونقصان پہنچانے کے درپے رہیں گے۔لہذا گلگت بلتستان کے عوم کو چاہیے کہ وہ اپنی صفوں میں اسی طرح اتحاد کا مظاہرہ کرتے رہیں تاکہ دشمن کی سازشیںکامیاب نہ ہو سکیں۔