گلگت بلتستان اپنی متنازعہ حیثیت ، اسٹریٹجک اور دفاعی نقطہ نگاہ سے اسکی
اہمیت کے پیش نظر ایک انتہائی حساس علاقہ ہے۔ سی پیک کا گیٹ وے ہونے کی وجہ
سے بھی دنیا کی نظریں اس کی طرف جمی ہوئی ہےں۔ چار بڑے ممالک افغانستان ،
چائنہ ، چین اور انڈیا کے ساتھ سرحدوں کی وجہ سے علاقے کی اہمیت مزید بڑھ
جاتی ہے، واخان کوریڈور کے راستے وسطی ایشےائی ممالک روس اور یورپ تک کی
راہداریوں کے امکانات بھی دنیا کو اس علاقے کی طرف دیکھنے پر مجبور کرتی
ہیں ، گلگت بلتستان کی جغرافیائی پوزیشن اس لحاظ سے بھی بہت اہمیت کی حامل
ہے کہ یہ تین ایٹمی ممالک کے درمیان ایک بفر کی صورت میں موجود ہے، سی پیک
کے بعد اس علاقے پر دنیا کی نظریں جمی ہوئی ہیں ، ایک طرف وہ ممالک ہیں جو
کسی بھی طور پر سی پیک کی تکمیل نہیں چاہتے ، دوسری طرف چین، روس پاکستان
سمیت وہ ممالک ہیں جو ہر حال میں سی پیک کی تکمیل چاہتے ہیں ، ایسے میں اس
علاقے کی حساسیت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس اہمیت کے پیش نظر گلگت
بلتستان اس وقت عالمی طاقتوں کے کھیل کا مرکز بنا ہوا ہے، کچھ طاقتیں نہیں
چاہتیں کہ یہ علاقہ پرامن ہو اور سی پیک تکمیل کے مرحلے تک آجائے ، علاقے
میں سیاحت اور دیگر ذرائع سے جو ترقی ہو رہی ہے وہ بھی دنیا کی نظروں میں
کھٹک رہی ہیں ، سکردو میں انٹرنیشنل ائیرپورٹ کا قیام ایک بڑا سنگ میل تھا
جس سے کچھ لوگوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنا فطری بات ہے۔ دوسری طرف اس علاقے کو
پچھہتر سالوں سے تمام تر بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے ، یہاں
کے عوام کے اندر احساس محرومی کا ایک لاوا بھی پک رہا ہے، یہاں کے عوامی
نمائندوں کو بااختیار بنانے کی بجائے ایک ڈمی سیٹ اپ کے تحت بیوروکریٹس کے
ذریعے اس علاقے کو چلایا جاتا ہے ، جس سے عوامی سطح پر عوامی نمائندوں کا
اثرو رسوخ نہ ہونے کے برابر ہے، عوامی نمائندوں اور عام عوام کے درمیان کا
خلا وہاں کے مذہبی رہنما پورا کرتے ہیں ، یہاں کے لوگوں کے مذہبی رجحان کی
وجہ سے بھی علاقے میں مذہبی رہنماﺅں کا اثرو رسوخ بہت زیادہ ہے ، بد قسمتی
سے یہاں مذہب کے نام پر قتل و غارت گری کی ایک بھیانک تاریخ ہے ، اس سے بڑی
بد قسمتی یہ ہے کہ ان واقعات پر کوئی ایکشن ہوتا ہے اور نہ ایسے واقعات
میں ملوث عناصر کو پکڑا جاتا ہے ، ایسے میں یہاں کے لوگوں کا ریاست پر
اعتماد انتہائی کمزور ہے، بالفاظ دیگر یہاں کے لوگ ان واقعات کو ریاست ہی
کی کارستانی سمجھتے ہیں اور ریاست کو ماں کا درجہ دینے پر تیار نہیں ہیں ،
یہ صورتحال انتہائی الارمنگ ہے۔ کسی علاقے کے عوام کا ریاست سے اعتماد اٹھ
جانا بہت خطرناک ہوتا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس علاقے کو اندرونی طور
پر خودمختار بنایا جائے اور یہاں کے عوامی نمائندوں کو بااختیار بنایا
جائے، آج کے اس ایڈوانس دور میں جہاں انفارمیشن اتنی تیزی سے فلو کررہی ہو
ان تمام چیزوں پر سے آنکھیں چرانا عقلمندی نہیں ہے۔ ریاست کو اگر علاقے میں
اپنی رٹ قائم کرنی ہے تو فوجی یا رینجر تعینات کرنے کی بجائے لوگوں کا
اعتماد جیتنا ہوگا ، یہ صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ یہاں کے لوگوں کے اپنے
منتخب نمائندوں کی ذریعے اس علاقے پر حکومت کی جائی ، مصنوعی طریقوں سے اس
علاقے کے عوام کو اینگیج کرنے کی کوششوں کے نتائج اچھے نہیں نکلیں گے۔ جب
ہم عوامی نمائندوں کی بات کرتے ہیں تو وہ حقیقی عوام نمائندوں کی بات کرتے
ہیں جن پر واقعی میں عوام اعتماد کرتے ہیں ،ہماری نظر میں عوام نمائندے وہ
نہیں جنہیں وفاقی حکومتی پارٹی کا ٹکٹ دیکر یہ تاثر دیکر جتایا جاتا ہے کہ
یہی وفاقی حکومت کا انتخاب ہے اور جیت اسی کی ہوگی۔ وفاقی حکومت اور اداروں
کی ملی بھگت سے جو نمائندے اسمبلیوں تک پہنچتے ہیں ، ان پر بھی عوام
اعتماد نہیں کرتے۔اس حوالے سے سب سے پہلا قدم یہ ہوسکتا ہے کہ گلگت بلتستان
کی اسمبلی کو خودمختار بنایا جائے ، اسے یہاں کے حوالے سے تمام تر قانون
سازی اور فیصلہ سازی کے اختیارات دئیے جائیں اداروں کی مداخت بالکل ختم کی
جائے۔ جب علاقے کے عوام کو حق حاکمیت کا احساس ہوگا تب ریاست پر عوام کے
اعتماد میں اضافہ ہوگا۔ خالصہ سرکار اور وہ متنازعہ اقدامات جن کی وجہ سے
یہاں کے لوگ حکومت سے ناراض رہتے ہیں ان کو فوری طور پر سیٹل کیا
جائے۔دوسری طرف ایسے اقدامات کرنا بھی اہم ہوگا جس سے یہاں کے لوگوں کی
معاشی صورتحال بہتر ہو، تعلیم و صحت کے معیار ٹھیک ہوں اور لوگوں کی معیار
زندگی بلند ہوں۔گلگت بلتستان کی حساسیت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ یہاں
امن و امان کی صورت حال بہتر ہو۔ یہ حساس علاقہ کسی طورپر بھی بدامنی کا
متحمل نہیں ہوسکتا ، خاص طور پر فرقہ وارانہ فسادات یہاں کے امن کو مکمل
برباد کرکے رکھ دےں گے نتیجتا یہاں کی ترقی مکمل طور پر رک جائیگی۔ امن کے
بغیر ترقی کا خواب کسی طور پر بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ اس سلسلے میں
حکومت اپنی رٹ قائم کرے ، لوگوں کے مذہبی جذبات کو ابھار کر علاقے میں
بدامنی پھیلانے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے ، ہر ایک کو اس بات کا
پابند کیا جائے کہ کسی کے مذہبی عقائد کو نہ چھیڑا جائے ، ہر مسلک کے
مقدسات کی توہین سے روکا جائے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں سے قوانین کے
مطابق سختی سے نمٹا جائے۔ جب تک عوامی احتجاج اور شور شرابے سے ڈر کر ایسے
لوگوں کو چھوٹ دی جاتی رہے گی اس وقت تک امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو
سکتا۔عام عوام اور پڑھے لکھے یوتھ کو میرا یہ پیغام ہے کہ ایسے شرپسندوں
کی صرف اس لیے حمایت نہ کی جائیں کہ یہ آپ کے مسلک سے تعلق رکھتے ہیں ،
بلکہ ان کو مکمل طور پر رد کیا جائے اور ان کی حوصلہ شکنی کی جائے تاکہ ان
شرپسندوں کو مزید شہ نہ ملے ، چاہے یہ شرپسند تقریریں کرکے نفرت کا سودا
کرےں چاہے یہ سڑکیں بلاک کرکے مسافرین کے قتل عام کی دھمکیاں دیکر خوف کا
چورن بیچے۔ ہر مسلک کے اندر سے پڑھے لکھے نوجوان نکلے اور ان شرپسندوں کے
ارادوں کے سامنے کھڑے ہوجائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم انہیں روکنے میں
کامیاب نہ ہوں۔