تنویراحمد
گزشتہ ماہ عالمی نشریاتی ادارے الجزیرہ کی ٹیم پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات اور سیاحت سمیت کئی ایشوز پر رپورٹنگ کے لئے گلگت بلتستان آئی ہوئی تھی ۔ ہنزہ میں موسمیاتی تبدیلی کی سٹوری کرتے ہوئے جب ہم نے گلاف کی زد میں رہنے والے دو گاﺅں حسینی، اور حسن آباد کا دورہ کیا اور وہاں کی کمیونٹی سے حکومتی اقدامات کے بارے سوال کیا تو ٹیم یہ جان کر حیرت زدہ رہ گئی کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لئے عالمی ادارے یو این ڈی پی کی طرف سے دیئے گئے پراجیکٹ گلاف ٹونے ان علاقوں میں اب تک سوائے معلوماتی سیشنز کے کوئی عملی کام نہیں کیا ہے۔ ٹیم کو اہل علاقہ کی جانب سے بتایا گیا کہ ششپر اور حسینی گلیشیئر میں ابھی تک کوئی ارلی وارننگ نظام نصب نہیں ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ لوگ رات کو سو نہیں پا رہے ہیں کہ نہ جانے کب گلیشیئر پھٹ جائے ۔ الجزیرہ ٹی وی کی ٹیم کو اور بھی حیرت ہوئی کہ آخر اس مد میں ملنے والے کروڑوں ڈالرز گلاف پراجیکٹ کہاں صرف کر رہا ہے جبکہ اس منصوبے کو پورے چار سال ہو گئے ہیں اور اس وقت کوئی زمینی کام کہیں نظر نہیں آ رہا ہے۔ اس حوالے ٹیم نے منصوبے کے صوبائی ذمہ داران سے رابطہ کیا تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا جس پر ٹیم نے اسلام آباد میں متعلقہ منسٹری سے رابطہ کیا جس پر علاقائی ذمہ داران کو متحرک کیا گیا پھر گلاف کے ہنزہ کے ذمہ داران نے بتایا کہ حسن آباد میں ابھی ارلی واننگ سسٹم نصب کرنے کا عمل شروع ہوا ہے۔ وزٹ کرنے پر زیر نظر تصویر ہی مل گئی ۔ پھر ٹیم نے اہل علاقہ سے ملاقاتیں کیں تو انہوں نے یہ بتایا کہ گزشتہ سال جب گلیشیئر پھٹا تھا تو وہ لوگ لاعلم رہے خوف کی وجہ سے لوگ ادھر ادھر دوڑتے بھاگتے رہے اگر ارلی وارننگ کا کوئی نظام ہوتا تو لوگ اس قدر خوف اور بے چینی کا شکار نہ ہوتے۔ عوام علاقہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم اب ان معلوماتی سیشنز سے تنگ آ چکے ہیں اب ہمیں ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے درکار ضروری چیزیں آلات چاہیں ارلی وارننگ نظام دیا جائے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال پر ہم بروقت آگاہ رہ سکیں اور خطرات کو کم سے کم کر سکیں لوگوں نے بتایا کہ گلاف ٹو کی کارکردگی یہی ہے باقی ہم کوئی خلاف بات نہیں کرنا چاہتے البتہ ہم چاہتے ہیں کہ یہ پراجیکٹ عملی کام کرے تعارفی سیشنز تک ہی محدود نہ رہے ۔ لوگوں کے خیالات جان کر عالمی نشریاتی ادارے کی ٹیم نے افسوس کا اظہار کیا کہ چار سالوں میں ایک ارلی وارننگ نظام نصب نہ ہونا یہ پاکستان اور گلگت بلتستان کے ساتھ ساتھ ان ڈونرز کے ساتھ بھی زیادتی ہے جو کار خیر سمجھ کر ڈالرز دیتے ہیں پھر ٹیم نے منسٹری آف کلائمیٹ چینج میں متعلقہ ذمہ داران سے بات کی تو وہ بضد تھے کہ انہوں نے درکار نظام نصب کر دیا ہے۔ مجھے اندازہ ہوا کہ وفاقی وزارت موسمیاتی تبدیلی کو بھی اس حوالے سے اندھیرے میں رکھا گیا ہے۔ بہر صورت عالمی ادارے کی ٹیم کو گلاف پراجیکٹ کے کام کی مد میں دنیا کو دکھانے کے لئے زمین پر سوائے اس تصویر کے کچھ نہ ملا تو وہ وہاں سے چل دیئے اور انہیں سٹوری پچ ہی تبدیل کرنی پڑی کیوں کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اتنے بڑے عالمی نشریاتی ادارے پر پاکستان کی بدنامی ہو ۔ گلگت بلتستان دنیا کے ان چند علاقوں میں سے ہے جو موسمیاتی تغیر پذیری اور درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے قدرتی آفات کی زد میں ہے، ہر سال یہاں موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے سیلاب آتے ہیں گلیشیائی جھیلیں اچانک پھٹنے سے انسانی جانیں ضائع ہوتی ہیں اور لوگوں کی املاک کو بھی بڑے پیمانے پر نقصان پہنچتا ہے اسی کو کم سے کم کرنے کے لئے عالمی ادارے ہم پر مہربان ہوتے ہیں مگر ہم ،ہمارے ادارے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ عالمی اداروں سے ملنے والی امداد جب تک محکمہ پلاننگ منصوبہ بندی گلگت بلتستان کے ذریعے خرچ ہوتی رہے گی ایسے عالمی فنڈڈ پراجیکٹس کا حشر ہمارے پی ڈبلیو ڈی کے منصوبوں جیسا ہوتا رہے گا۔ یہ بھی گزارش کروں گا کہ اس منصوبے یا اس جیسے منصوبوں پر محکمہ منصوبہ بندی، قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی سمیت دیگر اداروں کو ہاتھ صاف کرنے سے دور رکھا جائے، وفاق ایسے منصوبوں کو صوبائی حکومت کے تھرو ضرور چلائے لیکن ایک ایسا میکانزم ڈویلپ کرے کہ جس کی نگرانی اس غیر منصوبہ بندی والے محکمے کی بجائے کسی متعلقہ محکمے کے ذریعے کرائی جائے اور پھر چیک اینڈ بیلنس بھی عالمی معیار کے مطابق رکھا جائے اس طرح شاید کروڑوں روپے یا ڈالرز میں ملنے والی عالمی امداد ان تعارفی سیشنز پر صرف ہونے کی بجائے موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ علاقوں کے لوگوں پر حقیقی معنوں میں خرچ ہو سکے اور ان کی ضرورت کے مطابق کوئی کام ہو سکے۔ افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ پراجیکٹ جو ہمارے ازلی دشمن بھارت کی بہت بڑی مخالفت کے باوجود عالمی ادارے نے ہمیں دیا تھا، کے ثمرات سے ہمارے لوگ متاثرین محروم ہیں انہیں عملی کام کی جگہ تعارفی سیشنز سے ٹرخایا جا رہا ہے اور ستم بالائے ستم پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ اگر یہی صورت حال رہی تو کل کلاں کیا عالمی ادارے ہمارے علاقے کے لئے امداد دیں گے۔ ؟گلگت بلتستان کی ترقی سرکاری و نیم سرکاری اداروں کی کارکردگی سے ہی مشروط ہے ورنہ ہم صرف تعارفی سیشنز سرکاری سکولوں کے ہالز کی رینوویشن یا پھر انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کے نام پر کمپیوٹرز کی خریداری پر کمیشن خوری کرتے رہیں گے۔