محمد یوسف برکاتی
آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ امید پر دنیا قائم ہے اب یہ امید کیا ہے اور اس کی شرعی حیثیت کیا ہے اس تحریر میں ہم اس کا ذکر کریں گے اگر مستقبل میں کسی چیز کے پائے جانے کا احتمال ہے اور وہ دل پر غالب ہے تو اسے انتظار اور توقع کہتے ہیں اور جس کا انتظار ہے اگر وہ ایسی ناپسندیدہ ہے جس سے دل میں دکھ اور تکلیف پیدا ہوتی ہے تو اسے خوف کہتے ہیں اور جس کا انتظار ہے اگر وہ پسندیدہ ہے اور دل کا اس سے تعلق پیدا ہوچکا ہے اور اس سے دل کو لذت و آرام پہنچ رہا ہے تو اسے رجا یعنی امید کہتے ہیں۔ تو گویا کہ امید دل کی راحت کا نام ہے جو محبوب چیز کے انتظار سے حاصل ہوتی ہے لیکن یہ محبوب چیز جس کی توقع کی جارہی ہے اس کا کوئی سبب ہونا چاہئے ، اب اگر اس کا انتظار اکثر اسباب کے ساتھ ہے تو اس پرامید کا لفظ صادق آتا ہے اور اگر اسباب بالکل نہ ہوں یا اِضطراب کے ساتھ ہوں تو امید کے مقابلے میں اس پر دھوکے کا لفظ زیادہ صادق آتا ہے اور اگر اسباب کا وجود بھی معلوم نہ ہو اور ان کی نفی کا علم بھی نہ ہو تو اس کے انتظار پر تمنا کا نام زیادہ صادق آتا ہے کیوں کہ یہ انتظار کسی سبب کے بغیر ہے الغرض کوئی بھی حالت ہو امیدوار خوف کانام اسی پر صادق آتا ہے جس میں تردد ہو اور جس کے بارے میں یقین ہو اس پر صادق نہیں آتا کیوں کہ طلوعِ آفتاب کے وقت نہیں کہا جاتا کہ مجھے طلوعِ آفتاب کی امید ہے اور غروب کے وقت یہ نہیں کہا جاتا کہ مجھے غروبِ آفتاب کا خوف ہے کیوں کہ یہ دونوں باتیں قطعی ہیں۔
امام محمد غزالی رحم اللہِ تعالی علیہِ فرماتے ہیں:اربابِ قلوب جانتے ہیں کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے اور دل زمین کی طرح ہے، ایمان اس میں بیج کی حیثیت رکھتا ہے اور عبادات زمین کو الٹ پلٹ کرنے، صاف کرنے، نہریں کھودنے اور ان زمینوں کی طرف پانی جاری کرنے کی طرح ہیں اور وہ دل جو دنیا میں غرق اور ڈوبا ہوا ہے اس بنجر زمین کی طرح ہے جس میں بیج پھل نہیں لاتا اور قیامت کا دن فصل کاٹنے کا دن ہے اور ہر شخص وہی کچھ کاٹے گا جو اس نے بویا ہوگا تو مناسب یہی ہے کہ بندے کی امید ِمغفرت کو کھیتی والے پر قیاس کیا جائے کہ جو شخص اچھی زمین حاصل کرتا ہے اور اس میں عمدہ بیج ڈالتا ہے جو نہ تو خراب ہوتا ہے اور نہ ہی بدبودار اور پھر اس کی تمام ضروریات کو پورا کرتا ہے اور وہ وقت پر پانی دینا پھر زمین کو کانٹوں اور گھاس پھونس نیز ان تمام خرابیوں سے پاک کرنا ہے جو بیج کو بڑھنے سے روکتی یا خراب کر دیتی ہیں، پھر وہ اللہ تعالی کے فضل کا منتظر ہوکر بیٹھ جائے کہ وہ زمین کو بجلی کی گرج اور دیگر مفسد آفات سے بچائے گا یہاں تک کہ کھیتی اپنی تکمیل کو پہنچ جائے تو اس انتظار کو امید کہتے ہیں۔آپ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اگر سخت زمین میں بیج ڈالے جو شور زدہ ہو اور بلندی پر ہو جس تک پانی نہیں پہنچ سکتا اور بیج کی پروا بھی نہ کرے، پھر اس کے کٹنے کا انتظار کرے تو اس انتظار کو امید نہیں کہتے بلکہ بیوقوفی اور دھوکہ کہتے ہیں اور اگر اچھی زمین میں بیج ڈالا لیکن اس میں پانی نہیں ہے اب وہ بارش کے انتظار میں ہے اور یہ ایسا وقت ہے جس میں عام طور پر بارش نہیں برستی اور نہ ہی اس میں کوئی رکاوٹ ہوتی ہے تو اس انتظار کو امید نہیں بلکہ تمنا کہتے ہیں تو گویا امید کا لفظ کسی ایسی محبوب چیز کے انتظار پر صادق آتا ہے جس کے لیے وہ تمام اسباب تیار کردیئے گئے جو بندے کے اختیار میں ہیں اور صرف وہی اسباب باقی رہ گئے جو بندے کے اختیار میں نہیں ہیں اور وہ اللہ تعالی کا فضل ہے جس کی وجہ سے تمام نقصان دِہ اور فاسد کرنے والے اسباب کھیتی سے دور ہوجاتے ہیں ۔آپ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ پس جب بندہ ایمان کا بیج ڈالتا ہے اور اس کو عبادات کا پانی پلاتا ہے دل کو بد اخلاقی کے کانٹوں سے پاک کرتا ہے اور اللہ تعالی کے فضل کا مرتے دم تک منتظر رہتا ہے، حسنِ خاتمہ جو کہ مغفرت تک پہنچاتا ہے اس کا انتظار کرتا ہے تو یہ انتظار حقیقی امید ہے اور یہ ذاتی طور پر قابلِ تعریف ہے اور موت تک اسبابِ ایمان کے مطابق اسبابِ مغفرت کی تکمیل کے لیے قیام اور دوام کا باعث ہے اور اگر ایمان کے بیج کو عبادات کا پانی نہ دیاجائے یا دل کو برے اخلاق سے ملوث چھوڑ دیا جائے اور دنیاوی لذت میں منہمِک ہوجائے، پھر مغفرت کا انتظار کرے تو اس کا انتظار ایک بیوقوف اور دھوکے میں مبتلا شخص کا انتظار ہے۔ جب کوئی شخص جو اپنا کاروبار کرتا ہے مطلب ایک معمولی ٹھیلا چلانے والا رات کو گھر لوٹتا ہے تو یہ حساب کرتا ہے کہ آج کے دن کیا کمایا اور کیا نقصان کیا اور پھر اگلے دن کی خریداری کے لیئے ایک پلان بناتا ہے صرف اور صرف ایک امید پر کیوں کہ اسے یہ تو معلوم نہیں ہوتا کہ صبح تک اس کی زندگی اس کے ساتھ وفا کرے گی یا نہیں لیکن وہ کیا ہے جو اسے وہ کام کرنے پر مجبور کررہا ہے پس اسی کا نام امید ہے ۔
لوگ اپنی عارضی زندگی کے بارے ساری حقیقت سے واقف ہوکر بھی بڑی بڑی پلاننگ کرتے ہیں اور بڑی طویل مدت کی پلاننگ یہ سب کچھ امید پر ہوتا ہے لیکن امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ کے مطابق امید کی شرعی حیثیت یہ نہیں ہے بلکہ اگر انسان سے کوئی گناہ یا خطا سرزرد ہوجائے اور اس گناہ پر بعد میں اسے پچھتاوا ہو پشیمانی ہو جس کی وجہ سے وہ اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہوکر توبہ کا طالب ہوجائے تو وہ ایسا صرف اس لیئے کرتا ہے کہ اسے اپنے رب تعالی سے اپنے خطاﺅں کی بخشش اور مغفرت کی ایک امید ہوتی ہے اور اس امید کی شرعی حیثیت یہ ہی ہے کہ انسان کا یہ عمل اللہ تعالی کو پسند ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے اس کی ہر ممکن یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ انسان کو خدا سے دور کردے یعنی انسان نہ نماز پڑھے‘ نہ قرآن کی تلاوت کرے نہ اس کا ذکر کرے مطلب اس کا دل کسی عبادت میں بھی نہ لگے اور جب وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوجاتا ہے تو پھر وہ انسان کو اپنے رب تعالی کی رحمت سے مایوس کرنے میں لگ جاتا ہے کیوں کہ اسے معلوم ہے اللہ تعالی کی رحمت بہت بڑی ہے اور اللہ تعالی نے اہنے بندوں کو جس چیز کی سب سے زیادہ امید دلائی ہے وہ رحمت ہی ہے ۔ قرآن مجید کی سورہ الزمر کی آیت نمبر 53 میں ارشاد خداوندی ہے ترجمہ کنزالایمان ۔۔اے محبوب فرمادیجئے کہ میرے وہ بندے جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوں بیشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے بیشک وہی بخشنے والا مہربان ہے ۔اللہ تعالی نے اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی سب کے لیئے رحمت بناکر بھیجا اور قرآن مجید کی سورہ الاعراف کی آیت نمبر 53 میں فرمایا کہ ”میری رحمت یر چیز سے وسیع ہے “ابوالکلام آزاد کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے آپ لکھتے ہیں کہ : قرآن پاک نے اللہ تعالی کی کسی صفت کو اتنی کثرت کے ساتھ بیان نہیں کیا اور نہ ہی دہرایا ہے جتنا رحمت کو دہرایا ہے اگر ان تمام مقامات کو یکجا کیا جائے تو لگ بھگ تین سو کے قریب یا اس سے زیادہ ہوں گے اور اگر ان مقامات کو بھی شامل کرلیا جائے جہاں لفظ رحمت استعمال نہیں ہوا لیکن مطلب وہاں بھی رحمت ہے جیسے ربوبیت ، مغفرت ، کرم ، رافت ، عفو وغیرہ تو اس کا شمار انتہا کو پہنچ جائے گا اور یہ کہنا پھر غلط نہ ہوگا کہ قرآن اول سے آخر تک کچھ بھی نہیں بلکہ یہ رحمت الہی کا پیام ہے اسی لیئے خود خدا نے کہا کہ میرے رحمت کی کوئی حد مقرر نہیں ۔ہر وہ خواہش اور وہ تمنا جو اللہ تعالی کی رضا اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی کے حصول کے لیئے کی جائے وہ جائز اور مناسب ہے اور یہ ہی اس کی شرعی حیثیت ہے جیسے اپنے گناہوں سے پچھتاوے پر اللہ تعالی کی بارگاہ میں بخشش کی امید کرنا اپنے گناہوں سے معافی مانگتے ہوئے مغفرت کی امید کرنا بروز قیامت سرکار علیہ وسلم کی شفاعت سے اللہ تعالی سے امید رکھنا اور اہل جنت میں شامل لوگوں کے ساتھ جنت میں جانے کی امید رکھنا یہ تمام امیدیں اور خواہشات شرعی حیثیت سے صحیح اور مناسب ہیں۔گاڑی ‘بنگلہ‘ بینک بیلنس اور بیشمار مال و دولت کی امید اس عارضی زندگی کے لیئے رکھنا غیر مناسب اور غیر شرعی کام ہیں اگر ان تمام نعمتوں سے اللہ رب العزت آپ کو نوازتا بھی ہے تو وہ اس کی طرف سے ہمارے لیئے آزمائش اور امتحان ہے اس کا شکر ادا کرکے ان نعمتوں میں برکتیں حاصل کریں کیوں کہ یہ نعمتیں بھی اس رب الکائنات کی مرضی اور مصلحت کے پیش نظر ہمیں عطا ہوئی ہیں ۔ اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں بیشمار ایسے لوگ نظر آئیں گے جو ہسپتالوں میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں کئی لوگوں کو ڈاکٹر جواب دے چکے ہیں لیکن وہ پھر بھی ایک امید پر سانس لے رہے ہیں کہ وہ رب تعالی بڑا غفور ہے‘ رحیم ہے کئی بیگناہ لوگ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بلاوجہ کے مقدمات میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں صرف اس امید پر کہ حق اور انصاف کا فیصلہ ان کے ساتھ بھی ہوگا۔ مفسرین و اکابرین نے لکھا ہے کہ اللہ تعالی کے پاس ایک کتاب ہے جو عرش پر اس کے پاس موجود ہے اور جسے بروز قیامت کھولا جائے گا بخاری کی ایک حدیث قدسی ہے جسے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں۔انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ کہتا ہے: اے آدمؑ کے بیٹے جب تک تو مجھ سے دعائیں کرتا رہے گا اور مجھ سے اپنی امیدیں اور توقعات وابستہ رکھے گا میں تجھے بخشتا رہوں گا ، چاہے تیرے گناہ کسی بھی درجے پر پہنچے ہوئے ہوں، مجھے کسی بات کی پرواہ وڈر نہیں ہے، اے آدم کے بیٹے اگر تیرے گناہ آسمان کو چھونے لگیں پھر تو مجھ سے مغفرت طلب کرنے لگے تو میں تجھے بخش دوں گا اور مجھے کسی بات کی پروا نہ ہو گی۔ اے آدم کے بیٹے اگر تو زمین برابر بھی گناہ کر بیٹھے اور پھرمجھ سے مغفرت طلب کرنے کے لیے ملے لیکن میرے ساتھ کسی طرح کا شرک نہ کیا ہو تو میں تیرے پاس اس کے برابر مغفرت لے کر آوں گا اور تجھے بخش دوں گا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے اور ہم اس حدیث کو صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔اللہ تعالی سے اچھی امیدیں رکھنا اور اچھا گمان رکھنا واجب ہے بندہ اپنے رب سے جیسا گمان کرے گا رب تعالی اس کے ساتھ ویسا ہی برتاﺅ کرے گا بخاری شریف کی ایک حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ”میں اپنے بندوں کے گمان کے مطابق ہوتا ہوں “اسی لیئے ہمیں اس کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیئے کیوں کہ اگر وہ چاہے تو کسی ایک گناہ پر ایسی پکڑ کرلے کہ ساری نیکیاں کم پڑجائیں اور اگر وہ چاہے تو کسی کو ایک نیکی پر ایسا نوازدے کہ اس کے گناہ ختم ہوجائیں یہ اس کی رحمت ہی ہے کہ وہ گناہ کرتے وقت اپنے بندے کو پکڑتا نہیں یعنی سزا نہیں دیتا بلکہ اسے مہلت دیتا ہے کہ وہ اس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر توبہ کرلے ۔قرآن مجید کی سورہ الفاطر کی آیت نمبر 45 میں اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ ”اللہ اگر لوگوں کے گناہوں پر ان کی پکڑ شروع کردے تو زمین میں کوئی ذی روح باقی نہ رہے لیکن وہ انسانوں کو ڈھیل دیتا ہے“۔ ہم اہل ایمان مسلمانوں کو چاہیئے کہ ہمیشہ اللہ رب العزت کی ذات پر پورا بھروسہ ، یقین اور اچھا گمان رکھیں ہم بیشک گناہ گار ہیں‘ خطاکار ہیں‘ سیاہ کار ہیں لیکن وہ بڑا غفور الرحیم یے اور اس کی رحمت بڑی وسیع ہے بس اس کے ساتھ کسی کو شریک کیئے بغیر اس کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے اس ذات بابرکت سے اچھی امیدیں وابستہ رکھتے ہوئے اور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہوکر اپنی زندگی گزاریں ۔ نیک نیتی سے اچھی اور نیک امیدیں رکھنے کی شرعی طور پر بھی نہ صرف اجازت ہے بلکہ اللہ تعالی کے نزدیک اپنے بندے کا ایک پسندیدہ عمل ہے انسان ہونے کے ناتے ہم لوگ اپنے ایمان کی کمزوری کی وجہ سے شیطان مردود کے بہکاوے میں جلدی آجاتے ہیں اور گناہ کا ارتکاب کربیٹھتے ہیں لیکن جب تک زندگی کی سانس چل رہی ہے ہمیں توبہ کرنے کی مہلت ملی ہوئی ہے اور اس پاک پروردگار سے اپنے گناہوں کی معافی اور بخشش کی بڑی امید ہے ۔ امید پر دنیا قائم ہے لیکن بے جا اور بے معنی امید رکھنا کوئی معنی نہیں رکھتا اللہ تعالی سے اچھی امید رکھیں اچھا گمان رکھیں تو ان شا اللہ وہ پاک پروردگار ہمیں وہ کچھ عطا کرے گا جو ہماری امیدوں سے بھی بڑھ کر ہوگا اور وہاں سے عطا کرے گا جس کا ہمیں وہم و گمان بھی نہیں ہوگا کیوں کہ وہ رب اپنے بندے سے ستر ماﺅں سے زیادہ محبت کرتا ہے وہ اپنے بندے کو کبھی بھی پریشان اور تکلیف میں نہیں ڈالتا ہم پر آنے والی ہر پریشانی اور مصیبت یا تو اللہ تعالی کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے یا پھر ہمارے کیئے گئے گناہوں کی سزا ۔یہ بات بھی واضح ہے کہ صرف اور صرف امید سے کام نہیں بنتے بلکہ نیکی کے کام کرنا اللہ تعالی کے حکم کی پیروی کرنے کی کوشش کرنا رب العالمین کے بتائے ہوئے راستے کو چننا اور پھر اچھی امید رکھ کر اپنے مقدر اور اپنے نصیب کی تمنا کرنے سے کام ہوتے ہیں اور زندگی بنتی ہے میں اپنی اس تحریر کا اختتام مشہور شاعر جناب ندا فاضلی صاحب کے ایک شعر پر کروں گا مجھے بھی آپ لوگوں سے امید ہے کہ اس عارضی دنیا میں آپ صرف نیک اور اللہ تعالی کے حکم کے مطابق اچھی امید رکھیں گے جس کی شرعی حیثیت بھی ہو اور اللہ تعالی کی رضا بھی شامل ہو جناب ندا فاضلی صاحب فرماتے ہیں کہ ۔۔
کوشش بھی کر امید بھی رکھ راستہ بھی چن
پھر اس کے بعد تھوڑا مقدر تلاش کر