اقتدار و اختیار کی جنگ


شاہد صدیقی
 اقتدار و اختیارکی جنگ میں برباد ہمیشہ غریب عوام ہوتے ہےں ‘خوشحالی صرف حکمرانوں کے حصے میں آتی ہے طاقتور لوگوں کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ غربت،مہنگائی،بےروزگاری سے تنگ کروڑوں لوگ اپنے جسم وروح کے رشتے کو برقرار رکھنے کے لیے کس کرب سے گزر رہے ہیں اور اس جنگ کا ایندھن بھی غریب عوام بنتے ہیں۔ ڈنڈے ،سوٹے گولی،آنسوگیس، جیل کی صعوبتیں بےچارے کارکن برداشت کرتے ہیں لیڈر تو گرفتاری سے بچنے کےلئے ٹانگ پر پلاسٹر چڑھا کر ویل چیئر پر بیٹھ جاتے ہیں اور کالے شیشوں والی بلٹ پروف گاڑیوں میں بیٹھ کر فرار ہوجاتے ہیں۔انہیں یہ سہولت بھی میسر ہوتی ہے کہ ان پر قائم سابق مقدمات اور آنے والے مقدمات میں ایڈوانس ضمانتیں مل جاتی ہیں۔جب گرفتاری کے لیے قانون حرکت میں آئے تو یہ آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں اور قومی سلامتی کے اداروں کو اپنی سیاسی جنگ کا ایندھن بنانے سے بھی گریز نہیں کرتے لیکن جب سے چےئر مین پی ٹی آئی کو گرفتار کرنے کےلئے ویل چیئر سے اٹھا کر کھڑا کیا گیا ہے دوبارہ انہیں ویل چےئر استعمال کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی پی ٹی آئی والوں کو شکرگزار ہونا چاہیے ان لوگوں کا جنہوں نے انکے محبوب قائد کی ٹانگ ایک دن میں ٹھیک کردی۔ماضی میں سیاست، نظریہ اور پارٹی منشور کی بنیاد پر کی جاتی تھی اور اسمیں رواداری، برداشت،شائستگی کے پہلو بھی نمایاں ہوتے تھے لیکن سابقہ دور حکومت میں ملک میں دیگر تبدیلیوں کے ساتھ ملکی سیاست میں بھی تبدیلی آ گئی اور اب سیاست مذہبی ٹچ کے ساتھ جہاد،امربالمعروف، گناہ،ثواب سائفر جیسی جھوٹی کہانی اور ملکی دفاعی اداروں کے خلاف بیانیہ کی بنیاد پر کی جارہی ہے جسکے ملکی سلامتی وخودمختاری پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ امربالمعروف کے دعویداروں نے اقتدار میں واپسی کے لیے تمام جتن کیئے بات نہ بنی تو ملک دشمنی پر اتر آئے یہاں تک کہ آئی،ایم،ایف کو خط لکھنے پر تیار ہو گئے کہ
 پاکستان کے ساتھ معاہدہ نہ کیا جائے تاکہ ملک ڈیفالٹ کر جائے۔ملکی معاشی ترقی کے راستے میں بارودی سرنگ بچھانے والے ہر روز پاکستان کو سری لنکا بناکر سوتے تھے۔ ہوس اقتدار کے نشے میں مست مرکز میں حکومت لینے کے لالچ میں خیبرپختونخوا اور پنجاب میں بھی حق حکمرانی کھو بیٹھے۔ سانحہ 9 مئی کے بعد ملکی سیاست نے ایک نیا رخ اختیار کیا اور پی ٹی آئی میں شامل سیاسی جہادیوں نے کپتان کو اکیلا چھوڑ کر پی ٹی آئی کو خیر آباد کہہ دیا لیکن اقتدار و اختیار کا نشہ ایک ایسا نشہ ہے کہ چھوٹنے کا نام نہیں لیتا چنانچہ اب یہ ملک و قوم کو مستحکم بنیادیں فراہم کرنے کے بہانے ایک نئی جماعت کے نئے امام کی امامت میں پاکستان استحکام پارٹی کے سائے تلے جمع ہو رہے ہیں اس بار انکی امامت کا فریضہ ملک کی نامور کاروباری شخصیت جہانگیر ترین ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان استحکام پارٹی میں سیاسی پناہ گزینوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے ان میں کچھ وہ ہیں جن کا شمار پی ٹی آئی کے بانی ارکان میں ہوتا ہے اور انہوں نے بہت پہلے مختلف وجوہ کی بنا پر پارٹی کو خیر آباد کہہ دیا تھااور کچھ وہ سیاسی خانہ بدوش ہیں جنکی نہ توکوئی مستقل پارٹی ہے،نہ نظریہ اور نہ ہی اپنی سیاست یہ سیاسی کٹھ پتلیاں ہیں جب کوئی انکی ڈور ہلائے تو یہ سیاسی دکان سجاتے ہیں ان کا مقصد خفیہ راستوں سے اقتدار کی راہ داریوں تک پہنچنا ہے عموماً یہ دوسری پارٹیوں سے بھاگے ہوئے سیاسی مہاجرین ہیں مجموعی طور پر یہ ایک ہی کنبے قبیلے کے لوگ ہیں ان کا ایک ہی شجرہ نسب ہے ہوا کا رخ دیکھ کر پارٹیاں بدلنا انکا وتیرہ ہے آخری بار یہ پی ٹی آئی میں اکھٹے دیکھے گئے تھے لیکن جب ہوا کا رخ بدلا اور پی ٹی آئی پر برا وقت آیا تو وہاں سے کوچ کرگئے۔ خیبرپختونخوا میں چےئرمےن پی ٹی آئی کے سابق جانثار پرویز خٹک بھی کپتان کو داغ مفارقت دے گئے اور انہوں نے بھی اپنی پارٹی پی ٹی آئی پارلیمنٹرین بنالی باقی پی ٹی آئی کے کچھ رہنما موقع کی تلاش میں ہیں جوں ہی انھیں اچھا پیکج ملے گا وہ بھی خدا حافظ کہہ دیں گے سیاسی جوڑ،توڑ کاعمل جاری ہے سب اپنی باری کے انتظار میں ہیں سب ایک ہی منزل کے مسافر ہیں اور انکی منزل اقتدار کا حصول ہے اقتدار کی راہ داریوں کی رونقیں آباد رہتی ہیں۔ کوئی آتا ہے کوئی جاتا ہے لیکن عوام کے حصے میں غربت، مہنگائی اور بے روز گاری کے سوا کچھ نہیں آتا حسب سابق آنے والے جانے والوں پر اپنی نااہلیوں اور بد اعمالیوں کا ملبہ ڈال کر قربانی عوام سے مانگتے ہیں کبھی بجلی،پانی،گیس کے بلوں میں اضافہ کبھی آٹا، چینی،پٹرول کی قیمتوں، اور کبھی ٹیکس میں اضافے کی صورت میں 75 سال سے عوام کی قربانیوں کا نہ ختم ہونے والا یہ سلسلہ جاری ہے سابقہ تبدیلی سرکار کے دور میں سیاسی عدم استحکام کے ساتھ ایک تبدیلی یہ بھی آئی کہ منافع خوروں کو حقیقی آزادی مل گئی حکومت کا قیمتوں پر کنٹرول ختم ہو گیا اور منافع خوروں نے عوام کو دونوں ہاتھوں سے خوب لوٹا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے پٹرول اور ڈیزل کی پرائس کم ہونے پر بھی مہنگائی پر کوئی فرق نہیں پڑتا اور مہنگائی بدستور بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔بدقسمتی سے موجودہ حکومت نے بھی اس طرف کوئی توجہ نہیں دی آئی ایم ایف کے بوجھ تلے دبی ملکی معیشت میں مہنگائی میں اضافہ ایک یقینی امر
 ہے لیکن ناجائز منافع خور مافیا کے مرض کے علاج کے لیے بھی ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ، طلب و رسد کا بہانہ بنا کر اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ کر کے مصنوعی مہنگائی کر نے والے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف طاقتور اداروں کو حرکت میں آنا چاہیے مہنگائی کی آڑ میں مصنوعی مہنگائی کرنے والے ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے لیے ڈنڈا پیر کا استعمال بہت ضروری ہے۔اب چور،ڈاکو پکڑنے میں وقت ضائع نہ کیا جائے کیونکہ۔ماضی قریب میں جو چور،ڈاکو پکڑ نے آئے تھے وہ خود چور،ڈاکو نکلے پی ٹی آئی نے اپنے پونے چار سالہ دور حکومت میں اس کام کے سوا کوئی اور کام نہیں کیا لیکن چور،ڈاکو بھر بھی نہ پکڑ سکے چوک،چوراہوں پر کھڑے ہو کر دوسروں کو چور،ڈاکو کہنے والوں کو اپنے دائیں بائیں،آ گے ،پیچھے بیٹھے ڈاکو چور کبھی نظر نہیں آئے انکے بارے میں ایک سےنئر صحافی رضی دادا نے درست فرمایا ہے کہ لمحہ موجود میں جو جرم یہ خود کررہے ہوتے ہیں اس کا الزام یہ دوسروں پر لگاتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی طرف سے احتجاج اور پرامن احتجاجی مظاہرے ان کا جمہوری حق ہے ماض میں بھی سیاسی جماعتوں کی طرف سے حکومتوں کے خلاف سیاسی تحریکیں چلتی رہیں جس کے نتیجے میں سیاسی رہنماو¿ں نے پھانسی کے پھندے قبول کیے، دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بنے، جلاوطنی اور جیل کی صعوبتیں برداشت کےں لیکن فوجی تنصیبات کو کسی نے آگ نہیں لگائی اس کے برعکس چےئرمےن پی ٹی آئی اور انکے رہنماو¿ں نے احتجاج کا جو طریقہ اپنایا ماضی میں اسکی مثال نہیں ملتی، حساس اداروں، مخالف جماعتوں کے سربراہان کو گالیاں، پبلک مقامات پر سیاسی مخالفین پر جملے کسنا،انکے گھروں کے باہر نعرے بازی اور ان کے خلاف سوشل میڈیا پر غداری کے ٹرینڈ چلائے گئے بدتمیزی اور بداخلاقی کی تمام حدیں کراس کرتے ہوئے ملکی حفاظت کے ضامن دفاعی اداروں کو بھی نہیں بخشا گیا حصول اقتدار کے لیے اس طرح مچلتے ہوئے اس سے پہلے کسی سیاسی رہنما کو نہیں دیکھا جس طرح چےئرمن پی ٹی آئی ایک ضدی بچے کی طرح مچل رہے ہیں۔ جمہوری طرز حکمرانی میں تمام مسائل کا حل انتخابات ہیں تاہم اس سے پہلے فوج کے خلاف پراپیگنڈہ مہم ،فوجی تنصیبات پر حملے اور قومی سلامتی ،خود مختاری کےخلاف ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ذمہ داران کا تعین ضرور ہونا چاہیے۔