اسرائیل میں مسیحی برادرری پر حملے
دی ٹائمزآف اسرائیل اتوارجولائی کی رپورٹ کے مطابق یروشلم میں موجودہ صہیونیت کے بانی تھیوڈورہرزل (1850-1904) کی یادمیں ہونے والی ایک سرکاری تقریب کے دوران اسرائیلی صدر نے مسیحیوں پرہونے والے حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔اخباری رپوتاژکے مطابق اسرائیلی صدرنے گزشتہ ہفتے اور گزشتہ مہینے یہودی نوجوانوں کے گروہوں کی طرف سے مسیحیوں کے مقدس مقامات پر عبادت میں مصروف پادریوں اور عام مسیحی لوگوں پر حملوں کو سخت الفاظ میں ردکیا ہے اورکہاہے کہ مسیحیوں کی قبروں پر تھوکنااوران کی بے حرمتیاں اوربے ادبیاں کرنے کو کسی صورت برداشت نہیں کیاجاسکتا۔اسرائیلی صدر نے ریاست کے ذمہ اداروں سے کہاکہ ایسی نازیباحرکتوں کو ہرصورت میں روکناہوگاکیونکہ یہ اسرائیلی ریاست کی اقدارکے خلاف ہے۔ایک قدم اورآگے بڑھتے ہوئے انہوں نے کہاکہ وہ خود قانون نافذکرنے والے اداروں کے ذمہ داران کے ساتھ مل کرایسی ناپسندیدہ حرکات کوروکیں گے جو یہودی معاشرے اوریہوسی ریاست کے لیے بدنامی کاباعث بن رہی ہیں۔اسی اخبار کے مطابق اسرائیلی صدر کے اس خطاب کے بعد اسرائیلی وزیرخارجہ ایلے کوہن کا اگلے ہفتے ویٹی کن سٹی کادورہ بھی طے کرلیاگیاہے تاہم ابھی پوپ سے ملاقات کاوقت طے نہیں ہوپایا۔بین الاقوامی خبررساں ادارے این بی سی(NBC)کے مطابق اسرائیلی مسیحیوں نے کہاکہ وہ اوران کے مقدس مقامات یہودی نوجوانوں سے محفوظ نہیں ہیں۔اسرائیلی پادریوں اور اسرائیلی گرجاگھروں کے منتظمین نے کہاکہ یہودی نوجوانوں کے گروہ انہیں تنگ کرتے ہیں اورپریشان کرتے ہیں اوران کی عبادت گاہوں پر حملے کرتے ہیں۔مسیحی بزرگوں نے حکومت اسرائیل پرالزام لگایاکہ حکومتی اداروں نے ان پریشان کن نوجوانوں کے گروہوںکوکھلی چھوٹ دے رکھی ہے اور ان کامواخذہ کرنے والاکوئی نہیں ہے اورباربار شکایات کے باوجود ان کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی عمل میں نہیں لائی جارہی۔الجزیرہ کی رپوتاژکے مطابق یروشلم کے قدیمی مسیحی برادری کے علاقے میں ایک آرمینیائی مسیحی جوکہ ایک شراب خانے کامالک تھااسے رات گئے فون پربتایاگیاکہ تمہاری دکان پریہودی بلوائیوں نے حملہ کردیاہے اور وہ مسیحیوں کے لیے موت کے نعرے لگارہے ہیں،یہودی شرپسندنوجوانوں نے یہی کام مسیحی برادری کے رہائشی مکانات کے باہر بھی جاکر کیااوراونچی اونچی آوازوں میں مکینوں کو دھمکیاں دیتے رہے۔ایک اورخبررساں ادارے دی گارڈین کے مطابق اسرائیلی رومن کیتھولک چرچ کے لاٹ پادری نے وزیراعظم بن یامین نتن ےاہوکوخبردارکیاہے مسیحیوں کو حضرت یسوع مسیح کی جائے پیدائش میں بھی پریشان کیاجارہاہے جب کہ وہ گزشتہ دوہزارسالوں سے یہاں کے باسی ہیں۔ایک اور خبررساں ادارے ہارٹز Haaretzنے اطلاع دی ہے کہ اس سال کے آغاز سے ہی اسرائیلی ریاست میں مسیحیوں کے خلاف حملوں میں غیرمعمولی تیزی آگئی ہے،رپوتاژکے مطابق ان حملوں میں مسیحی افراد،مسیحی مذہبی راہنما اور ان کے مراکزعبادت کو نشانہ بنایاجاتاہے اوران پر حملے کرکے اپنی نفرت کااظہارکیاجاتا ہے،اس ضمن میں اخباری نمائندے نے اسرائیلی حکومت کے امن و امان کے اداروں کوبھی ہدف تنقیدبنایاہے۔یہودی انتہاپسند گروہوں کاموقف ہے کہ مسیحی برادری لوگوں کومذہب تبدیل کرنے کی تبلیغ کرتی ہے،نیزیہ یہودی گروہ بین المذاہب شادی پربھی اپناایک علیحدہ موقف رکھتے ہیں اورانہیں اس بات پربھی اعتراض ہے کہ اسرائیلی ریاست کی حدودمیں غیریہودی افرادداخل کیوں ہوتے ہیں،یہ ایک یہودی عقیدہ ہے اور صہیونیوں نے اس مقصدکے لیے ایک تنظیم بھی بنارکھی ہے۔اخباری اطلاعات کے مطابق مسیحیوں کے خلاف سرگرم یہ گروہ ہم جنسیت کے لیے بھی مسیحی پادریوں کی مخالفت کوناپسندکرتے ہیں۔بین الاقوامی مسیحی سفار تخانہ یروشلم(International Christian Embassy of Jerusalem )کے نمائندے ڈیوڈ پارسنز نے بھی اسرائیلی حکومت اور ان دہشت گردیہودی گروہوں پر شدیدتنقید کی ہے اورکہاکہ یہودیوں کی تاریخ خونریزی سے بھری ہے،اس نے مزیدکہاکہ کم ازکم ہر مسیحی مبلغ کوسمجھ لیناچاہیے کہ اسرائیلی ریاست میں اس کے لیے ہرگزکوئی موافق حالات نہیں ہیں۔اس نمائندے نے مذہب کی تبدیلی والے الزام کی بھی تردیدکی اورکہاکہ مسیحی برادری کی طرف سے اس طرح کی کوئی مہم نہیں چلائی جارہی۔مسیحیوں کی ایک محفل موسیقی جس پر یہودی شرپسندوں کے گروہوں نے یہ کہہ کرحملہ کیاتھاکہ یہاں تبدیلی مذہب کاپرچارکیا جا رہا ہے اس کے بارے میں بین الاقوامی مسیحی سفارتخانے کے نمائندے نے بتایاکہ وہ ایک مسیحی مذہبی موسیقیائی محفل تھی جس میں یہودی علما و عمائدین کوبطورمہمان بلایاگیاتھا۔مختلف اخبارات نے جنوری سے تاحال مسیحیوں پر حملوں کی تاریخ نقل کی ہے اور مختلف واقعات میں تصاویرکے ساتھ ہونے والے نقصانات بھی دکھائے ہیں ساتھ ہی ساتھ یہودی انتہاپسندنوجوانوں کے مکروہ عزائم اوراسرائیلی انتظامیہ کی جانبداری کی تفصیل بھی بتائی اور مسیحی متاثرین ،عوام و خواص،کی آرا اوران کی زبانی واقعات کی تفصیلات بھی نقل کی ہیں۔قرآن مجید نے یہودیوں اورمسیحیوں کے باہمی اختلافات کو صدیوں پہلے طشت ازبام کردیاتھا،سورہ بقرہ: ترجمہ:”اور یہودیوں نے کہا: عیسائی کسی شے پر نہیں اور عیسائیوں نے کہا : یہودی کسی شے پر نہیں حالانکہ یہ کتاب پڑھتے ہیں اسی طرح جاہلوں نے ان پہلوں جیسی بات کہی تو اللہ قیامت کے دن ان میں اس بات کا فیصلہ کردے گا جس میں یہ جھگڑ رہے ہیں “۔اسی کے ساتھ ساتھ قرآن مجید نے مسلمانوں کوایک اورحقیقت سے بھی آگاہ کیاہے کہ ۔المائدہ:ترجمہ: اے ایمان والو تم یہود و نصاری کو دوست نہ بناﺅ ، یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بے شک ان ہی میں سے ہے، ظالموں کو اللہ تعالی ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا۔ قرآن مجیدکی یہ دونوں آیات روزروشن کی مانند آج اپنی حقیقت زمانے سے منوارہی ہیں۔ایک طرف یہودی عوام و نوجوانان ہیں جن کے لیے مسیحیوں کوبرداشت کرنا مشکل ہورہا ہے اورانہوں نے ریاست کے اندر نصاری کے خلاف ایک غیراعلانیہ جنگ برپاکررکھی ہے اور جلاﺅ،گھیراﺅ،اٹھاﺅ اور ڈراﺅ دھمکاﺅ کے منصوبوںپر سختی سے،پابندی سے اورباقاعدگی و تسلسل کے ساتھ کاربندہیں،ان کے لیے غیرمذاہب کے لوگ،ان کے بزرگ اورمذہبی راہنما،ان کے مراکزعبادت اور ان کے مقدسات صرف انکی نفرتوں کی مستحق ہیں۔ دوسری طرف یہودی قیادت ہے جن کے دل مسیحیوں کی محبت میں پھٹے جارہے ہیں اوراسرائیلی صدر کومسیحیوں کی پریشانی کھائے جارہی ہے کہ کسی طرح سے انہیں اسرائیلی ریاست میں چین و سکون اوراطمےان حاصل ہوجائے اوریہودی معاشرے میں ان کے لیے کوئی نفرین باقی نہ رہے۔اس رویے کے مقابلے میں مسلمانوں کے لیے یہودیوں کارویہ قوم شعیب کے پیمانوں سے تعلق رکھتاہے۔مسیحیوں کی بے چینی نے یہودی قیادت کی نیندیں اڑادی ہیں اورمسلمانوں کی کھوپڑیوں کی کٹتی ہوئی فصل اورکشتوں کے پشتے ان کے لیے باعث اطمےان ہےں اوروہ اس میں مزیداضافے کے خواہش مندہیں۔اسرائیلی قیادت کے یہ دوہرے معیار اورالگ الگ پیمانے کوئی نئی بات نہیں ہے ،دور سیرة النبیﷺ سے ہی یہ ملت اسی رویے کی مالک رہی ہے۔اللہ تعالی نے قوم شعیب کے بارے میں قرآن مجید کی سور ہود میں فرمایا کہ ترجمہ:”آخرکارجب ہمارے فیصلے کاوقت آگیاتوہم نے اپنی رحمت سے حضرت شعیب علیہ السلام اوران کے ساتھی مومنین کو بچالیااورجن لوگوں نے ظلم کیاتھاان کوایک سخت دھماکے نے ایساپکڑاکہ وہ اپنی بستیوں میں بے حس و حرکت پڑے رہ گئے،گویاکہ وہ وہاں کبھی بستے ہی نہ تھے۔سومدین والے بھی دورپھینک دیے گئے جس طرح ثمود والے پھینک دیے گئے تھے“۔آج بھی قوم شعیب کی حامل اسرائیلی ریاست ملت یہود اسی انجام کاانتظارکرے کہ ماضی قریب میں بھی ہالوکاسٹ کے نام پر کم و بیش ان کایہی انجام ہواتھا اورتاریخ کاپہیہ بہت اپناچکرپوراکرکے وہیں آن رہتاہے۔اللہ تعالی نے چاہا توفلسطینی مسلمان بہت جلدجذبہ جہاد کے باعث اپناکھویاہواوطن حاصل کرلیں گے اور اہل مدین و قوم ثمودکی طرح باسیان ریاست اسرائیل دورپھینک دیے جائیں گے،ان شااللہ تعالی۔