جواد احمد خان
پی ڈی ایم کے پچھلے اجلاس میں آصف زرداری صاحب نے جو دھماکا کیا ہے اس کے آفٹر شاکس ابھی تک محسوس کیے جارہے ہیں ۔پی ٹی آئی اس خوش فہمی میں مبتلا ہو گئی ہے کہ پی ڈی ایم ختم ہو گئی ۔حالانکہ ایسا نہیں ہے ہاں یہ ضرور ہوا کہ مولانا فضل الرحمن جیسے زیرک سیاستداں بھی میڈیا اور پوری قوم کے سامنے اپنا ٹمپر لوز کر بیٹھے ،جب انہوں نے یہ اعلان کیا کہ 26مارچ کا لانگ مارچ ملتوی ہو گیا ہے ،پی پی پی نے مہلت مانگی ہے کہ وہ اپنی سی ای سی Central executive comitteeکے اجلاس استعفے کے آپشن پر دوبارہ غور کریں گے پھر پی ڈی ایم کے سامنے اپنی پارٹی کا موقف رکھیں گے ۔ایک ڈیڑھ منٹ میں مولانا یہ بات کہہ کر پریس کانفرنس سے شدید غصے میں چلے گئے جبکہ مریم نواز انھیں آواز دیتی رہ گئیں کہ مولانا رپورٹروں کے سوال تو لے لیں لیکن مولانا پلٹ کر نہیں آئے۔مولانا مجموعی طور پر ٹھنڈے مزاج کے سیاستداں ہیں وہ صحافیوں کے سخت سے سخت سوالات کے جواب بھی بڑی دلاویز مسکراہٹ کے ساتھ دیتے ہیں لیکن یہاں پر وہ بجھے بجھے سے لگ رہے تھے ۔اس سارے پس منظر میں ایک سوال اپنی جگہ اب بھی موجود ہے کہ کیا لانگ مارچ استعفے دیے بغیر نہیں ہو سکتا تھا ایسی صورت میں پی پی پی بھی بھرپور انداز میں ساتھ دیتی اور اس لانگ مارچ کا کوئی نہ کوئی منطقی نتیجہ تو سامنے آتا ۔ایک چیئرمین سینٹ کی شکست کے علاوہ پی ڈی ایم نے حکومت کے خلاف کئی سیاسی کامیابیاں حاصل کی تھیں اور اس کا سیاسی امیج بلندیوں پر تھا ۔مولانا کی یہ تجویز تھی کہ پہلے اسمبلیوں سے استعفے دیے جائیں پھر لانگ مارچ شروع کیا جائے ،استعفوں کے حوالے سے پی پی پی کے تحفظات دور کرنے کے لیے درمیان کی یہ راہ نکالی گئی کہ پہلے قومی اسمبلیوں سے استعفے دیے جائیں ۔اس پر پی پی پی کی شاید کوئی تیاری نہیں تھی اور اس کا اس حوالے سے کوئی ہوم ورک نہیں ہوا تھا ان کے ممبران قومی اسمبلی بھی تیار نہیں تھے ۔ن لیگ کو بھی تھوڑی بہت مشکل پیش آتی لیکن مولانا تو بالکل تیار تھے ،مولانا نے یہ نہیں سوچا کے کروڑوں روپے خرچ کرکے ممبر بنتے ہیں وہ اتنی آسانی سے کیسے اپنی سیٹ چھوڑ دیں گے ۔پی پی پی کو ایک انجانا خوف یہ بھی رہا ہوگا کہ اگر پی ڈی ایم نے قومی اسمبلی کے ممبران کے استعفے اسپیکر کو دے دیے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ وفاقی حکومت سندھ میں یہ کہہ کر گورنر راج لگادے کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک پارٹی حکومت کے خلاف ایجی ٹیشن بھی کرے اور وہ حکومت میں بھی شامل رہے ۔اگر استعفوں کے آپشن کو بالکل آخر میں رکھتے جیسا کہ پی پی پی کی اور ویسے مجموعی طور پر پی ڈی کی رائے بھی کسی حد تک یہی بن چکی تھی،پی ڈی ایم لانگ مارچ کا آغاز کر دیتی تو کسی نہ کسی مرحلے پر حکومت سے تصادم ہوتا جو کس نوعیت کا ہوتا پہلے سے تو کوئی پیشن گوئی نہیں کرسکتا تھا لیکن کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ممکن ہے کہ حالات ازخود اس نہج پر پہنچ جاتے کے پی ڈی ایم کی جماعتوں کو استعفوں کے ہتھیار کو استعمال کرنا پڑتا۔پہلے استعفی کی شرط لگا کر مولانا نے خود پی ڈی ایم کو توڑنے کا راستہ اپنایا ،جملہ معترضہ کے طور پر ایک بات یہ بھی سامنے آچکی تھی جس کا ذکر تجزیہ نگار ہارون رشید نے اپنے پروگرام مقابل میں کیا کہ آصف زرداری صاحب کو ایک ایسی وڈیو دکھائی دی گئی جس میں نواز شریف اسحاق ڈار مریم نواز اور دیگر ن لیگی اپنی آپس کی بات چیت میں آصف زرداری صاحب کا مذاق اڑا رہے تھے ۔زرداری صاحب کو اس کا بھی غصہ تھا اور اس بات کا بھی غصہ تھا کہ ن لیگ نے اپنے سات ووٹ ضائع کروا کے یوسف رضا گیلانی کی شکست کی راہ ہموار کی انھیں فوری طور پر اس کا بدلہ تو لینا تھا ، چنانچہ انھوں نے استعفون کے حوالے سے یہ شرط لگائی کہ نواز شریف صاحب اسحاق ڈار کے ساتھ ملک میں واپس آئیں ہم ان کے ہاتھ میں اپنے استعفے رکھ دیں گے اس کا مطلب خدا نخواستہ یہ نہیں تھا ،آصف زرداری صاحب کو مولانا فضل الرحمن پر اعتماد نہیں تھا بلکہ یہ شرط انھوں نے اس لیے لگائی کہ نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی ۔وہ مولانا عنایت علی خان کا ایک شعر ہے کہ۔۔۔ حادثہ سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ ۔۔۔۔۔رکا نہیں کوئی حادثہ دیکھ کر اگر یہ ساری باتیں اجلاس کے اندر ہوتیں اور میڈیا پر اس کے ٹکر نہ چل رہے ہوتے تو مولانا اور اچکزئی جیسے سینئر سیاستدان اس معاملے کو سنبھال لیتے اور ساجھے کی ہنڈیا چوراہے پر نہ پھوٹتی ۔۔۔اب ہو یہ رہا ہے کہ ایک طرف حکومت اور پی ٹی آئی والے خوشیاں منارہے ہیں کہ پی ڈی ایم ختم ہو گئی بلکہ اس کی تدفین بھی ہو گئی اس طرح تحریک انصاف کی حکومت کے لوگ اس کے کارکنان خوش فہمی کی انتہائوں پر چلے گئے ہیں کہ جیسے اب ان کے سامنے کی بڑی رکاوٹ ختم ہو گئی ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ پی ٹی آئی حکومت کی ناہلی ،ناکامیاں اتنی زیادہ ہیں اور یہ کہ روزانہ کے حساب سے مہنگائی نے عوام کو نان شبینے کا محتاج کردیا ہے ،لوگ اتنے تنگ آگئے ہیں کہ خود کشیوں پر مجبور ہو گئے ہیں بے روزگاری میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے یہ تو سمجھئے کہ پی ڈی ایم کے رہنمائوں کی حماقتوں نے آپ کو موقع دیا ہے کہ آپ اپنی گورننس کو بہتر کرلیں ملک میں مہنگائی کے جن پر قابو پائیں اور اپنی ساری توجہ اپنی اور اپنی ٹیم کی کارکردگی پر رکھیں ،جزا و سزا کا بھی اہتمام کریں کہ جو وزیر اچھی کارکردگی دکھائے اس کی حوصلہ افزائی کی جائے جو مطلوبہ کارکردگی نہ دکھا سکیں انھیں تبدیل کردیا جائے اور جن کے خلاف کرپشن کی شکایت آئے تحقیقات سے وہ درست ثابت ہو جائے تو ان کا احتساب کیا جائے ۔بہرحال حکومت یہ سمجھے کہ پی ڈی ایم میں اب جان نہیں رہی حکومت کی نااہلیوں سے اس میں دوبارہ جان پڑسکتی ہے اور آپ کے لیے یہ ایک مصیبت نہ بن جائے ۔دوسری طرف پی ڈی ایم کے رہنما بھی مایوسی کی انتہا پر جاتے ہوئے لگتے ہیں ایک دو روز پہلے میں مریم نواز کا بڑا غصے سے لبریز جلا کٹا بیان دیکھ رہا تھا جس میں صحافیوں سے مخاطب تھیں جس میں ہاتھ پیر توڑنے کی بات کررہی تھیں ان کی گفتگو سے ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ پی ڈی ایم میں آصف زرداری نے جو جھگڑا کھڑا کردیا ہے اس نے مریم نواز کی طبیعت پر اعصابی اور نفسیاتی طور بڑے منفی اثرات ڈالے ہیں ،مریم اپنے آپ کو اس صورتحال سے نکالیں اور یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ن لیگ پورے ملک میں عوامی حمایت رکھتی ہے ضمنی انتخابات کے نتائج اس کا ثبوت ہیں پھر یہ کہ جے یو آئی کے کارکنان میدان پکڑو ہیں اور ن لیگ کے میدان چھوڑو ہیں ۔آپ کے ووٹرز تو جے یو آئی سے بہت زیادہ ہیں لیکن کسی تصادم کے موقع پر جے یو آئی کے کارکنان میدان میں کھڑے رہنے والے ہیں ۔اسی طرح پی ڈی ایم میں چاروں صوبوں سے علاقائی ،صوبائی اور لسانی جماعتیں بھی ہیں جنہیں وفاقی حکومت سے بہت سی شکایات ہیں آپ ان کو بھی پی ڈی ایم کا حصہ بنائیں ۔پی پی پی کا سیاسی سفر قومی جماعت کے اسٹیج سے صوبائی جماعت کی طرف جارہا تھا پی ڈی ایم نے اسے دوبارہ قومی دھارے کا حصہ بنادیا ہے ۔اس لیے پی پی پی کا پی ڈی ایم چھوڑنا خود پی پی پی کے لیے پی ڈی ایم سے زیادہ نقصان دہ ہے ۔اس لئے پی پی پی کا پی ڈی ایم میں رہنا ہی زیادہ مفید ہے اس لیے سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کے لیے پی پی پی کو ہی قربانی دینا ہو گی ۔
پاکستان اور ہندوستان کے درمیان لائن آف کنٹرول پر پچھلے کئی برسوں سے ہندوستانی فوج کی طرف سے بلا اشتعال بارڈر سے متصل شہری آبادی پر آئے دن فائرنگ ہوتی رہتی تھی جس سے اکثر بے گناہ پاکستانی شہری جاں بحق ہو جاتے تھے ۔بلکہ پچھلے چند مہینوں سے تو روزانہ لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے نتیجے میں پاکستانی فوجیوں کے ساتھ اکثر شہری بھی جاں بحق ہوتے ہمارا کام بس یہ رہتا کہ بھارتی سفارتکار کو وزارت خارجہ میں بلا کر احتجاجی مراسلہ پکڑا دیتے ،جس کا بھارت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر بھارتی مظالم ،جس میں بھارتی فوجوں کا گھروں میں گھس کر نہتے نوجوانوں کو ہلاک کرنا ،بے گناہوں کو گرفتار کرنا ان پر جھوٹے مقدمات قائم کرنا روز کا معمول ہے اس پر پاکستان نے بین الاقوامی برادری کی توجہ بارہا بھارت کے اس ظلم کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کی لیکن کسی طرف سے کوئی حوصلہ افزا جواب نہیں آیا ۔اب ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ لائن آف کنٹرول پر اچانک خاموشی ہو گئی ہے کسی سرحدی دیہات پر بھارتی فوجیوں کی فائرنگ کی کوئی کارروائی سامنے نہیں آئی ،آئے دن جو ہمارے فوجی اور بیگناہ شہری فائرنگ کی زد میں آکر مرتے رہتے تھے وہ سلسلہ بھی بند ہوگیا ہے ۔بین الاقوامی سیاست میں ایسی کیا تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں جس میں پاکستان کو اپنی سرحدوں پر یہ ریلیف مل رہا ہے ۔منگل 23مارچ کے اخبارات میں اس حوالے سے جو خبریں شائع ہوئی ہیں اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ پاک بھارت تعلقات معمول پر لانے کے لیے متحدہ عرب امارات کی درپردہ کوششیں جاری ،جنگ بندی بھی اسی کا نتیجہ ہے دونوں ملک شنگھائی تعاون تنظیم کے تحت انسداد دہشتگردی کی مشقوں میں بھی حصہ لیں گے امریکا بھی افغانستان میں دونوں ملکوں کی محاز آرائی ختم کرانے کے لیے کوشاں ہے ،امریکی میڈیا نے دعوی کیا ہے کہ امن کے وسیع روڈ میپ کا آغاز ہو گیا ہے ،کشمیر کا حتمی فیصلہ ،تجارت کی بحالی اور سفیروں کا تقرر ایجنڈے میں شامل ہے دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات کا بھی امکان ہے ۔امریکی نشریاتی ادارے نے دعوی کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ سیز فائر معاہدے کے پیچھے متحدہ عرب امارات کا ہاتھ ہے ،جنگ بندی کا یہ معاہدہ دونوں ممالک کے مابین پائیدار امن کے وسیع روڈ میپ کا آغاز ہے ،اس کے بعد کے مراحل میں دونوں ممالک میں سفیروں کا تقرر تجارت کی بحالی اور کشمیر کا حتمی فیصلہ ہو گا ۔ماضی کے مقابلے میں یہ کوششیں اس لیے مستحکم ہیں کہ جو بائیڈن افغانستان میں قیام امن کی کوششیں کررہے ہیں ۔پچھلے دنوں اسی سلسلے میں متحدہ عرب امارات کے وزیر خاجہ شیخ عبداللہ بن زید نے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر سے جو بات چیت کی اس میں وسیع تر روڈ میپ کے لیے جنگ بندی کے بعد اب مشکل مرحلے شروع ہوں گے جس میں سفیروں کی تقرری اور تجارت کی بحالی ہے ۔پچھلے دنوں ماسکو میں افغانستان میں امریکی فوجوں کے انخلا کے حوالے سے ایک کانفرنس ہوئی جس میں امریکا روس پاکستان ایران طالبان اور ترکی شامل تھے اس میں بھارت نہیں تھا ۔اس میٹنگ میں گلبدین حکمتیار ،ڈاکٹر رشید دوستم ،زلمے خلیل زاد اور طالبان کے نمائدے شامل تھے
افغانستان میں امن و امان اور بیرونی افواج کے انخلا کے حوالے ماسکو میں جو اجلاس ہوا اس میں کئی باتیں خاص تھیں مثلا جب دوستم نے طالبان کے ایک رہنما سے ہاتھ ملانا چاہا تو طالبان کے اس رہنما نے دوستم کا ہاتھ یہ کہہ کر جھٹک دیا کہ میں قاتلوں سے ہاتھ نہیں ملاتا دوسری بات یہ ہوئی کہ اس اجلاس میں رشید دوستم فوجی وردی پہن کر آئے تھے اجلاس کے تمام ہی شرکا نے اس پر اعتراض کیا تو دوستم نے لباس تبدیل کرکے سادہ اور شہری لباس میں اجلاس میں شرکت کی ۔روس جو ایک زمانے میں طالبان کا حریف تھا اب وہ بہت حد تک طالبان کے موقف کا حامی ہے ۔اب اس کا اگلا اجلاس ترکی میں ہو گا جس میں بھارت کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔یہ تو پوری دنیا جانتی ہے کہ افغانستان میں امن و امان کے قیام کے حوالے سے اور فوجوں کے انخلا کے حوالے سے بھی امریکا کو پاکستان کی ضرورت پڑے گی گو کہ اب بھی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا افغان طالبان سے ہلکا پھلکا رابطہ تو ہے لیکن پہلے جیسی بات نہیں ہے لیکن امریکا اس زمینی حقیقت کے باوجود یہ سمجھتا ہے کہ اب بھی پاکستان طالبان پر اپنے اثر و رسوخ استعمال کر سکتا ہے ۔امریکا کو پاکستان کے اسٹریٹیجک مسائل کا اندازہ ہے کہ جب تک بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات نارمل سطح پر نہیں آئیں گے پاکستان دلجمعی کے ساتھ افغان مذاکرات میں حصہ نہیں لے سکتا ۔انٹر نیشنل پالیٹکس میں کیا ہورہا ہے ،دو مسلم ممالک سعودی عرب اور امارات پاکستان اور بھارت کے درمیان امن و امان کے قیام کے لیے مذاکرات میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہے ہیں یہ بات ظاہر ہے کہ کسی بڑی طاقت کے کہنے پر ہی ایسا کچھ ہو رہا ہے ورنہ جب بھی کسی کی ثالثی کی بات آتی تو بھارت سب سے پہلے انکار کرتا رہا ہے اب بھارت کیوں تیار ہو گیا ہے اسے بڑی طاقتوں کی طرف کیا یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں ۔بین الاقوامی سیاست کی پیچیدگیوں کو آسانی سے سمجھنا بہت مشکل ہے جیسے جیسے سفارتی سرگرمیاں آگے بڑھتی رہیں گی مستقبل کا نقشہ اور اس کے خد وخال سامنے آتے رہیں گے اس وقت تو کشمیر کی صورتحال یہ ہے کہ 23مارچ والے دن بھی یہ خبریں آئی ہیں کہ چار کشمیری نوجوانوں کو جعلی پولیس مقابلے میں مار دیا گیا ۔یہ جو بات آئی ہے کہ کشمیر کا حتمی حل ہو گا تو حتمی حل کیا ہوگا پاکستان کے لیے مثبت پیش رفت تو یہ ہو گی کہ بھارت پہلے اگست 2020کی آئینی ترمیم کو واپس لے ہماری سمجھ میں تو یہ نکتہ آرہا ہے کہ کشمیر کے حتمی حل کے حوالے سے اصل بات کو چھپایاجارہا ہے ۔امریکی صدر جو بائیڈن نے اقتدار سنبھالنے کے بعد مودی سے فون پر بات کی تھی لیکن پاکستان جس کی انہیں افغان معاملے میں ضرورت پڑے گی اس کے وزیر اعظم کو ابھی تک کوئی فون یا رابطہ نہیں کیا یوم پاکستان کے حوالے سے امریکا کے صدر بائیڈن کا پاکستان کے صدر عارف علوی کے نام تہنیتی پیغام آیا ہے ۔اسی طرح شاید پہلی بار بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی یوم پاکستان پر پاکستان کے عوام کو تہنیتی پیغام بھیجا ہے ۔در اصل یہ جو مختلف دانشوروں کے تجزیے سامنے آتے رہے ہیں کہ امریکا بھارت کو اس علاقے میں تھانیدار بنانا چاہتا ہے چین کے مقابلے پر تیار کررہا ہے کسی حد تک سمجھ میں آتی ہے ۔ایک اور بات سامنے رہنا چاہیے کہ سلامتی کونسل کی نشست کے لیے بھارت کو کہا گیا ہو کہ وہ اپنے پڑوس ممالک سے اپنے تعلقات کو بہتر بنائے ابھی حال ہی میں بھارتی وزیر اعظم مودی نے بنگلہ دیش کی حسینہ واجد کے ساتھ ایک پل کا افتتاح کیا ہے ،پاکستان کے ساتھ بھی بھارتی رویوں میں یہ تبدیلیاں حقیقی نہیں بلکہ مصنوعی و عارضی نظر آتی ہیں لیکن ہمیں امید اچھی رکھنا چاہیے اور مستقبل کے اندیشوں کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔