محکمہ پولیس ضلع سکردو کی نئی آسامیاں

الطاف کمیل


کرپشن سے پاک  نئے پاکستان کے سلوگن نے پی ٹی آئی کو ملک کی  قبول سیاسی جماعت اور مرکز سمیت گلگت بلتستان، پنجاب اور کے پی کے میں حکومت بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو لوگ اس لئے بھی پسند کرتے ہیں کہ وہ اقربا پروری، بدعنوانی، لوٹ کھسوٹ کے موروثی سیاست کے بوسیدہ نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ 2020 میں گلگت بلتستان میں بھی جب پی ٹی آئی نے حکومت تشکیل دی تو یہاں کی لوکل لیڈرشپ اور پارٹی کے سیاستدان بھی اسی کرپشن فری گلگت بلتستان کے سلوگن کیساتھ سامنے آئے جو ایک اچھا امر ہے۔ مگر سوال یہ ہے جس سلوگن کے بل بوتے پر پارٹی مرکز سمیت تین صوبوں میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہے کیا اس کی لاج رکھتے ہوئے گلگت بلتستان سمیت پاکستان کو ایک مثالی فلاحی ریاست بنانے میں کامیاب ہوگی یقینا یہ ایک ملین ڈالر کا سوال ہے۔ جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے جی بی میں پی ٹی آئی بر سرِ اقتدار ہے مگر بدقسمتی سے عوامی حلقوں میں کرپشن، کک بیکس اور اقربا پروری سے متعلق وہی تاثرات آج بھی سننے کو ملتے ہیں جس کی نشاندھی اور شکایات حا لیہ ادروار میں سننے کو ملتی تھی۔مثال کے طور پر حالیہ پولیس بھرتیوں سے متعلق عوامی سطح پر ابتدائی مراحل میں ریکروٹمنٹ کا پروسس صاف و  شفاف قرار پایا۔ سلیکشن کمیٹی نے بڑے شفاف  اور احسن طریقے سے اہل اور لائق جوانوں کو پولیس ڈیپارٹمنٹ کا حصہ بنانے سے متعلق میرٹ لسٹ ترتیب دے کر اعلی حکام کو ارسال کی مگر جب اپوائنٹمنٹ لیٹر جاری کرنے کا مرحلہ آیا تو سکردو ڈسٹرکٹ سے شکایات سامنے آئیں کہ سلیکشن کمیٹی کی تجاویز کے برخلاف 36 امیدواران کے بجائے محض 24 امیدواران کو اپوائنٹمنٹ لیٹر جاری کئے۔ یوں بارہ نشستوں پر محکمہ کی جانب سے خاموشی اختیار کی گئی جس سے عوامی حلقوں میں تشویش اور غم و غصہ دیکھنے کو ملا۔ اپوزیشن لیڈر جی بی اسمبلی اور پی پی پی کے رہنمائوں امجد ایڈووکیٹ  مرکزی جامع مسجد کے پیش امام شیخ حسن جعفری سمیت بے شمار سیاسی،سماجی،مذہبی شخصیات نے رد عمل کا اظہار کیا اور صوبائی حکومت ، آئی جی پولیس اور بالخصوص وزیر اعلی جی بی خالد خورشید سے نوٹس لینے اور ریکروٹمنٹ کو شفاف انداز میں کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ان شخصیات نے بھی اسی سلوگن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کے کرپشن فری گلگت بلتستان میں آخر کیونکر کرپشن اور اقربا پروری کی بو آ رہی ہے۔ محکمہ پولیس کی بارہ نئی آسامیوں پر بھرتیوں کی شفافیت پر ایک بار پھر سوال اٹھنے لگا ہے جو کہ پارٹی کے مستقبل کے لئے نیک شگون نہیں ۔ذرائع کا دعوی ہے محکمہ کے اعلی افسران اور سیاسی اثرو رسوخ کے حامل افراد میرٹ کی پامالی اور سلیکشن کمیٹیوں کی جانب سے مرتب کردہ میرٹ لسٹ کے برخلاف اپنے من پسند امیدواروں کو مبینہ طور پر محکمہ میں کھپانے کی کوشش میں ہیں۔ واضح رہے حالیہ دنوں گلگت بلتستان پولیس نے تمام اضلاع میں خالی آسامیوں کو مشتہر کرکے مطلوبہ معیار پر پورا اترنے والے امیدواروں سے درخواستیں طلب کی تھیں۔ تمام اضلاع کے لیے مختلف ریکروٹمنٹ کمیٹیاں تشکیل دی گئی تھیں جنہوں میرٹ پر عملدرآمد کرواتے ہوئے تعیناتیاں عمل میں لائیں جس کی عوامی سطح پر بھرپور پذیرائی ہوئی ۔ضلع سکردو میں 33 مرد اور 3 خواتین امیدوران کو منتخب کیا گیا مگر ریکروٹمنٹ کمیٹی کے فیصلے کے برعکس سکردو میں 22 مرد اور 2 خواتین امیدواروں کو میڈیکل کیلئے بلایا گیا ہے جبکہ 12 سیٹیں اچانک غائب کی گئیں جس سے مختلف خدشات ظاہر ہوچکے ہیں۔ بعض عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ سکردو کی 12 پوسٹیں گلگت اور استور کیلئے دی جارہی ہیں جبکہ بعض حلقے خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اعلی حکومتی عہدیدار اپنے من پسند لوگوں کو کھپانے کی کوشش میں ہیں جو مطلوبہ معیار پر بھی پورا نہیں اترتے۔ جنہیں پولو یا دیگر اسپورٹس کے کھلاڑی گردان کر خانہ پوری کی جارہی ہے۔ متاثرہ امیدواروں کا کہنا ہے کہ اس ظلم پر کسی صورت خاموش نہیں رہ سکتے۔ متاثرین کا کہنا ہے ہم عدالت عالیہ کا دروازہ کھٹکھٹانے کے علاہ وزیر اعظم شکایات سیل سے بھی رجوع کریں گے اور اعلی سطح پر احتجاج کرنے پہ بھی مجبور ہوں گے۔خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ریکروٹمنٹ کے آخری مرحلے میں بدعنوانی یا میرٹ کی پامالی کی صورت میں سب سے زیادہ متاثر بلتستان کی سرحدی تحصیل گلتری کے کامیاب امیدوار ہوسکتے ہیں جنکی تعداد سلیکشن کمیٹی کی میرٹ لسٹ کے مطابق 11 ہے۔یہ بات عیاں ہے پہلے ادوار میں سیاسی اثرو رسوخ کے حامل اشخاص کو ہی پوسٹیں تفویض کی جاتی تھیں۔جونہی دنیا نے  گلوبلائزیشن اور جدیدیت  میں قدم رکھا جس سے  معیار زندگی میں بہتری آتی گئی اور آگاہی بہم میسر آئی لوگ انٹرکنیکڈڈ ہوئے اور مزید میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا نے اہم کردار ادا کیا اور سوشل میڈیا نے چیزوں کو مزید آشکار اور واضح کر کے رکھ دیا کہ دنیا کے جس کونے میں ظلم وبربریت ،زیادتی و ناانصافی یا کسی کے حق پر ڈاکہ ڈالا جائے تو ہر ذی روح اس ناانصافی کے خلاف بولتا یا لکھتا ضرور ہے تاکہ حق حقدار تک پہنچے اور ظلم کے خلاف علم بلند کر سکیں اور ظالم اور جابر افراد کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔خیر آج سوشل میڈیا کے ذریعے ظالم و جابر کے کرتوت عیاں ہو جاتے  ہیں چاہے وہ جتنے ہی  شفاف انداز میں کیوں نہ کریں۔آج الحمد اللہ پاکستان میں کسی حد تک سفارشی کلچر منہدم ہوتا جارہا ہے' اثر ورسوخ رکھنے والے افراد کی پہنچ کم  ہو تی جارہی ہے  اور سفارشی کلچر  زوال پزیری کی طرف گامزن ہے لیکن افسوس صد افسوس ایک بار پھر گلگت بلتستان محکمہ پولیس بالخصوص ضلع سکردو سیاسی اور عوامی  حلقوں میں میرٹ کی پامالی کی پرزور مذمت کی جارہی ہے اور اپیل کی جارہی ہے کہ جلد از جلد تمام کامیاب امیدواروں کو ضلع سکردو کی ویکنٹ سیٹوں پر اپائنٹ کیا جائے ایسا نہ ہونے کی صورت میں نتائج خاصے گمبھیر ہو سکتے ہیں جس کا خمیازہ حکومت وقت کو بھگتنا پڑسکتا ہے۔