جی ٹوئنٹی کانفرنس ناکام بھارت کو شرمندگی

علی شیر

کرہ ارض کی سیاست نئے تنازعات کو جنم دے رہی ہے اور اسکے باعث جھگڑے ختم کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے جبکہ موسمیاتی تبدیلی سے بھی پوری دنیا متاثر ہو رہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی اور باہمی فاصلے ختم کرنے اور بحرانوں کا حل تلاش کرنے میں جی۔20 کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ ہر سال اسکے اجلاس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اسکے امیر ترین ممالک ترقی پذیر ملکوں کے بحرانوں کا تعین کریں تاکہ انکے مسائل حل کئے جاسکیں۔ جی۔ 20 گروپ دنیا کی 20 اہم معیشتوں والی حکومتوں اور مرکزی بینک کے گورنروں کا ایک بین الاقوامی فورم ہے۔ اسکے ارکین میں 20 انفرادی ممالک ارجنٹائن، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، بھارت، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا، میکسیکو، روس، ہسپانیہ،سعودی عرب، جنوبی افریقہ، ترکی، مملکت متحدہ، ریاستہائے متحدہ امریکہ اور یورپی یونین کے کچھ ممالک شامل ہیں۔ جی۔20 ممالک کی اکثریت ترقیاتی بینکوں کے بورڈ میں شامل ہے ۔نریندر مودی کی زیر قیادت فسطائی بھارتی حکومت کی طرف سے سرینگر میں G-20 اجلاس کے انعقاد کا مقصد عالمی برادری کو کشمیر کی زمینی صورتحال کے بارے میں گمراہ کرنا ہے۔ بھارتی حکومت اپنے تزویراتی اہداف کے حصول کے لیے جھوٹ کو ریاستی پالیسی کے طور پر استعمال کرنے کی ایک گھناﺅنی تاریخ رکھتی ہے۔ بھارت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی ڈھٹائی سے خلاف ورزی کرتے ہوئے 2019 میں غیر قانونی طور پر مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کر دی تھی جس کے بعد سے وہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کے حوالے سے عالمی برادری کو بے وقوف بنانے کے لیے بے شرمی سے جھوٹ بول رہا ہے۔22 مئی کو سری نگر میں جی20 اجلاس کے انعقاد نے نہ صرف مقبوضہ کشمیر بلکہ دنیا بھر میں رہنے والے کشمیریوں کو تشویش اور بے چینی میں مبتلا کر دیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی نسل کشی جاری ہے۔ بھارت کشمیری مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت بنانا چاہتا ہے۔ورلڈ کشمیر اویئرنس فورم کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں جی 20 اجلاس کے خلاف واشنگٹن میں ڈیجیٹل ٹرک پر آگاہی مہم بھی چلائی گئی۔ ڈیجیٹل ٹرک سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مذموم مقاصد کو بے نقاب کیا گیا اور پیغام دیا گیا کہ جی 20 اجلاس اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف ہے۔مقبوضہ کشمیر میں G-20 اجلاس کے انعقاد کے پیچھے مودی حکومت کا مقصد دنیا کی تو جہ کشمیر کی ابترصورتحال سے ہٹانا اور ان جرائم پر پردہ ڈالنا ہے جنکا ارتکاب اسکی فورسز کشمیریوں کے خلاف کر رہی ہیں۔کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنماں نے G-20 ملکوں کو مخاطب کرتے ہوئے ان سے کہا کہ وہ مقبوضہ علاقے کی موجودہ صورتحال کا ایک مکمل جائزہ لیں اور مقبوضہ علاقے میں اجلاسوں کے پیچھے کارفرما بھارتی حکومت کے مذموم عزائم کا ادراک کریں۔ جموں و کشمیر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازع علاقہ ہے جہاں G-20 اجلاس کا انعقاد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جی 20 اجلاس کے انعقاد کا واحد مقصد دنیا کو یہ تاثر دینا ہے کہ خطے میں حالات معمول پر ہیں لیکن مودی حکومت جھوٹ اور فریب کی سیاست کے ذریعے عالمی برادری کو گمراہ نہیں کر سکتی۔کل جماعتیں حریت کانفرنس نے اپنے موقف میں یہ بھی کہا کہ بھارت کی جانب سے ایسی کسی متنازع تجویز 7 دہائیوں سے جاری غیر قانونی اور جابرانہ قبضے کے لئے بین الاقوامی قانونی جواز تلاش کرنے کے لیے تیار کی گئی ہے۔ جی 20 کے اراکین قانون اور انصاف کے تقاضوں سے پوری طرح آگاہ ہوں گے اور اسے یکسر مسترد کر دینگے۔ انہوں نے عالمی برادری سے پرزور مطالبہ بھی کیا کہ وہ بھارت سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین اور منظم خلاف ورزیوں کا سد باب کرنے کے لئے 5 اگست 2019 کے بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کو منسوخ کرنے اور حقیقی کشمیری رہنماﺅں سمیت تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کرے۔دوسری جانب پاکستانی دفتر خارجہ نے سری نگر میں بھارت کی جانب سے بلایا گیا جی 20 ورکنگ گروپ اجلاس کو مسترد کرتے ہوئے اسے کشمیریوں کیخلاف ایک چال قرار دیا ۔ دفتر خارجہ نے اپنے جاری بیان میں کہا کہ بھارت ایسے اقدامات سے عالمی برادری کی آنکھوں میں مقبوضہ کشمیر میں اپنے ظلم وبربریت کو کسی صورت نہیں چھپا سکتا۔ ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا ہے کہ متنازع علاقے میں جی 20 اجلاس منعقد کرنا مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے ساتھ غداری ہے، مقامی آبادی کو یرغمال بنا کر اور ان کے حقوق اور آزادیوں سے انکار کر کے سیاحت اور ترقی کو فروغ نہیں دیا جا سکتا۔ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں جی 20 اجلاس کر کے بھارت نے ایک اور بین الاقوامی فورم پر سیاست کی ہے۔دفتر خارجہ کے مطابق اجلاس میں شرکت نہ کرنے پر چین، سعودی عرب، ترکیہ، مصر اور عمان قابل تعریف ہیں۔پاکستان کے واضح موقف اپنانے کے بعد عوامی جمہوریہ چین نے پاکستانی مﺅقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے متنازع علاقے میں ہونے والے جی 20 ٹوراِزم اجلاس پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے شرکت کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ چین متنازعہ علاقوں میں جی 20 کا کوئی بھی اجلاس بلانے کی بھرپور مخالفت کرتا ہے اور ایسی کسی بھی میٹنگ میں شرکت نہیں کی جائے گی۔کل جماعتی حریت کانفرنس نے گروپ 20کے سرینگر اجلاس کا بائیکاٹ کرنے پر چین، سعودی عرب، ترکیہ، مصر اور دیگر ممالک کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ مودی کی زیر قیادت بھارتی حکومت اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ متنازعہ علاقے جموں و کشمیر پر اپنے ناجائز قبضے کو جائز قرار دینے کے لئے اس طرح کے ڈرامے رچا رہی ہے۔ جموں و کشمیر میں کوئی بھی بین الاقوامی تقریب علاقے کی زمینی صورتحال کو تبدیل نہیں کرسکتی جہاں گزشتہ سات دہائیوں سے زائد عرصے سے لوگوں کو اپنے حق خودارادیت کا مطالبہ کرنے پر بدترین ظلم و جبر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جی 20 اجلاس کو کامیاب بنانے اور بین الاقوامی برادری کی آنکھوں میں دھول ڈالنے کے لئیے بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں بدترین آمریت کا مظاہرہ کیا انسانی حقوق کی کھلم کھلا پامالی کرتے ہوئے سرینگر میں لال چوک، بڈھ شاہ چوک، ریذیڈنسی روڈ، مائسمہ میں لوگوں کے باہر نکلنے پر پابندی تک عائد کردی تھی بھارتی فوج، پولیس اور پیراملٹری فورسز جی 20اجلاس کے وفود کی سیکےورٹی کے نام پر گھروں پر چھاپے مار رہی تھی اور محاصرے اور تلاشی کی کارروائیاں کررہی تھی۔ مقامی لوگوں نے میڈیا کو بتایا کہ فورسز اہلکار ان کے گھروں میں گھس کر خواتین اور بچوں سمیت مکینوں کو سخت ہراساں کرتے رہے۔کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنما ایڈووکیٹ دیویندر سنگھ بہل نے جموں میں ایک بیان میں جی 20 اجلاس کی ناکامی کو پاکستان اور عوامی جمہوریہ چین کی سفارتی فتح قرار دیا۔دریں اثنا جی 20 اجلاس میں چین، سعودی عرب، ترکیہ، مصر اور اس طرح کے دیگر ممالک کی غیر حاضری کے حوالے سے صحافیوں کے سخت سوالات نے تقریب میں شریک بھارتی وزیر جتیندر سنگھ کو پریشان کر دیا۔ بھارتی وزیر اعظم کے دفتر سے منسلک وزیر سے انڈیا ٹوڈے کے لیے کام کرنے والی گیتا موہن نے پوچھا کہ کیا چین کے علاوہ سعودی عرب، ترکیہ اور مصر جیسے ممالک کی عدم شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم کے ساتھ ان کی و ابستگی بھارت کے ساتھ ان کی اسٹریٹجک شراکت داری سے زیادہ اہم ہے ۔ جس پر بھارتی وزیرنے ادھر ادھر کی باتیں کرکے جاں چھڑانے کی کوشش کی۔ایک فرانسیسی صحافی نے جب اجلاس کے لئے انتہائی سخت سیکیورٹی اور اسکولوں کی بندش پر سوال کیاتوہ صحافیوں سے الجھ پڑے۔ جتیندر سنگھ نے صحافی سے کہا کہ وہ سیکورٹی پر سوال اٹھاکر وفود کو خوفزدہ نہ کریں۔ جتندرسنگھ نے صحافی سے کہا کہ انہوں نے اپنے ملک فرانس میں بھی اسی طرح کی پابندیوں کے ساتھ کئی اجلاسوں میں شرکت کی ہوگی۔جس پر فرانسیسی صحافی یہ پوچھنے پر مجبور ہوگیا کہ کیا انہیں لگتا ہے کہ فرانس میں اس طرح کی تقریبات کے لیے اسکول بند کیے جاتے ہیں۔ عالمی میڈیا نے جی 20 اجلاس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی تقریبات منعقد کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ جموں و کشمیر میں حالات معمول کے بالکل برعکس ہیں۔ برطانیہ سے شائع ہونے والے اخبار دی گارڈین نے لکھا ہے کہ چین اور دیگر اہم رکن ممالک کے بائیکاٹ کے بعد گروپ کی بھارتی صدارت تنازعات میں گھری ہوئی ہے۔ فرانس میں قائم خبر رساں ادارے اے ایف پی نے کہاکہ اختلاف رائے کو جرم قرار دیا گیا ہے، میڈیا کی آزادیوں کو سلب کرلیاگیا ہے اور ناقدین کے بقول علاقے میں عوامی احتجاج پر پابندیاں ہیں اور بھارتی حکام کی طرف سے شہری آزادیوں کو سلب کرلیا گیا ہے۔ بین الاقوامی مبصرین نے پاک چین موقف کی حمایت کرتے ہوئے اپنے تبصروں میں کہا کہ جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کا واحد راستہ بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو ان کا ناقابل تنسیخ حق خود ارادیت دینا ہے جیسا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں میں ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔اقوام متحدہ انسانی حقوق کمیشن کی 2018، 2019 کی رپورٹس واضح ہیں ہندوستان مقبوضہ خطے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے درپے ہے۔ بھارت اقوام متحدہ سلامتی کونسل قراردادوں، بین الاقوامی قانون کی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔ ہندوستان چوتھے جنیوا کنونشن کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں جی 20 اجلاس کی سربراہی میں بدترین ناکامی پر مودی سرکار نے شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس آن لائن کرانے کا اعلان کردیا۔ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے اعلان کیا کہ شنگھائی تعاون تنظیم ایس سی او کونسل آف ہیڈز آف سٹیٹ سمٹ کا 22 واں اجلاس وزیراعظم نریندر مودی کی صدارت میں 4 جولائی کو ہوگا۔بھارتی وزیر خارجہ نے مزید بتایا کہ جی 20 اور ایس سی او کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے برعکس یہ اجلاس ویڈیو کانفرنس کے ذریعے منعقد کیا جائے گا تاہم انہوں نے اس کی وجہ نہیں بتائی۔بھارتی حکام نے میڈیا کے بار بار پوچھنے پر یہ عذر پیش کیا کہ ویڈیو کانفرنس کے ذریعے اجلاس کا انعقاد کی وجہ رکن ممالک کے چند سربراہان کی نجی مصروفیات ہیں جس کے باعث وہ بھارت آنے سے قاصر تھے۔یاد رہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم ایک سیاسی اور سیکےورٹی بلاک ہے جس میں پاکستان، روس اور چین بھی شامل ہیں، گزشتہ برس ستمبر سے اس تنظیم کی سربراہی بھارت کے پاس ہے۔