بلوچستان میں بھارتی مداخلت


صوبہ بلوچستان 347188مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے، جو کہ پاکستان کے کل رقبے کا 43فیصد بنتا ہے۔ بلوچستان روس کے لئے خصوصی اہمیت کا حامل بنا جب اس نے جنوبی ساحلوں تک رسائی کا منصوبہ بنایا۔ بلوچستان بہت زمانوں سے اپنی اہم جغرافیائی حدود کے حوالے سے بیرونی مداخلت کا شکار رہا ہے۔ گوادر کی بندر گاہ خلیج ہرمز کے سامنے واقع ہے جس راستے سے دنیا کا 40 فیصد تیل مختلف ممالک تک پہنچتاہے۔ یہ علاقہ تیل اور گیس بردار جہازوں کو وسطی ایشیاء سے بحیرۂ عرب تک ایک موزوںراستہ فراہم کرتا ہے۔ بھارت کو پاکستان کی ترقی اور CPECکی تیزی سے پیش رفت اور خصوصاََ اسے سے بلوچستان کو ہونے والے ممکنہ فائدوں نے پریشان کر رکھا ہے۔ بھارت CPECاور گوادر میں چین کی موجودگی سے بالکل خوش نہیں۔ وہ اسے اپنی مواصلاتی لائن SLOCکے خطرہ سمجھتا ہے۔ بھارت کا مقصد پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچانا ہے، خصوصاََ بلوچستان کو جہاں وہ افغانستان کے راستے دراندازی کر رہا ہے اور بلوچ علیحدگی پسند سوچ رکھنے والوں کو دوسرے ممالک میں بھیج کر وہاں سے علیحدگی پسند تحریکوں کو ہوا دے رہا ہے۔ امریکہ کے سابقہ ڈیفنس سیکریٹری چک ہیگل نے اس بات کی تصدیق کی کہ بھارت گزشتہ کئی سال سے افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے افغانستان ایک فرنٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی نے بھی 15 اگست2016کو بھارت کے یومِ آزادی کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کا جھوٹا رونا رو کر بلوچستان کارڈ کھیلنے کی کوشش کی۔ 3مارچ2016کو بھارتی نیوی کے حاضر سروس آفیسر کلبھوشن یادو کو بلوچستان سے گرفتار کیا گیا، جو صوبے میں دہشت گرد حملے کروانے میں ملوث تھا۔ اس نے ایک ویڈیو بیان میں یہ اعتراف کیا کہ میرا کام بلوچ علیحدگی پسندوں سے ملنا اور ان کی مدد سے صوبے میں مختلف کارروائیاں کرنا تھا۔اس نے یہ بھی اعتراف کیا کہ وہ اس علاقے میں ہزارہ برادری کا قتل عام کرکے فرقہ واریت کو فروغ دیتا رہا ہے۔ اس نے یہ بھی اقرار کیا کہ اس CPECمیں ہونے والی پیش رفت میں خلل ڈالنے اور دہشت گردی پھیلا کر بلوچستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی۔ بھارت جلال آباد اورقندھار میں قائم اپنے کونسل خانوں سے بلوچستان میں  باغیوں کی مالی اور فنی تربیت اور اسلحے کی فراہمی کی  مد میں معاونت کرتا رہا ہے۔ بھارت پاکستان میں ISISکی سرگرمیاں بھی شروع کروانا چاہتا ہے۔ 2014میں اجیت داول جو کہ بھارت کے قومی سیکیورٹی اڈوائزر ہیں، عراق جا کر داعش کے ساتھ عملی شراکت قائم کرنے کے سلسلے میں ملے۔کابل گرودوارہ حملے اور جلال آباد جیل حملے کے پیچھے بھی بھارت کا ہاتھ تھا جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی۔ بھارت نے افغانستان کے اندر سے بلوچی زبان میں ایک ویب'ریڈیو سروس بھی شروع کی ہے وہ پاکستان کے اندر پاکستان مخالف پراپیگنڈا پھیلاتا ہے۔ 23جون 2018میں بھارت نے نئی دلی میں Free Balochistan کے نام سے ایک دفتر کا افتتاح کیا جسے RAWکی مدد سے بلوچ باغی چلا رہے ہیں۔ بہت سے بلوچ باغی جو پاکستان سے باہر ہیں تواتر کے ساتھ بھارت کے دورے کرتے ہیں جہاں سے انہیں احکامات دیئے جاتے ہیں۔2009 شرم الشیخ مصر میں وزرائے اعظم کی سطح پر ہونے والے ایک اجلاس میں اس وقت کے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے من موہن سنگھ کو ایک ڈوزیئر دیا جس میں بھارت کی بلوچستان میں مداخلت  ٹھوس شواہد موجود تھے۔ یہی شواہد اس مشترکہ بیانئے میں بھی شامل کئے گئے تھے جو کہ مصرمیں ہونے والیNon-Alingned  Movement Summit میں پیش کئے گئے تھے۔ 2015 میںبلوچستان، FATA اور کراچی میں بھارتی مداخلت کے حوالے سے تین سے زائد ڈوزئیر اقوام متحدہ کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کو بھی پیش کئے گئے۔ 2017میں اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی مستقل ترجمان ملیحہ لودھی نے بھی ایک ڈوزئیر پیش کیا جس میں بلوچستان اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھارتی مداخلت باقاعدہ ثبوت موجود تھے۔ 2020میںاقوامِ متحدہ، اسلامی سربراہی کانفرنس اور سیکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل ممبران کو ایک اور ڈوزئیر پیش کیا گیا ۔اس ڈوزئیر میں پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں، جیسے JuH،TTP، BLA، BLF، BRA وغیرہ کی پشت پناہی کے حوالے سے RAW تعلقات کی نشاندہی کی گئی۔ اس میں CPECکو ناکام کرنے کے بھارتی عزائم کا بھی ذکر تھا۔ 2020نومبر کی ایک پریس کانفرنس میں DG ISPR بھارت کی پاکستان میں دہشت گرد کاورائیوں کے حوالے سے ایسے شواہد پیش کئے جنہیں جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ کرنل راجیش جو کہ TTPاور بلوچ جنگجوؤں کو ملانے کا ماسٹر مائنڈ تھا، کابل میں قائم بھارتی سفارتخانے میں کام کرتاتھا۔یہ بھی سامنے آیا کہ جال آباد میں تعینات بھارتی سفیر اور کونسل جنرل TTP  اور علیحدگی پسند بلوچ جنگجوؤں کو مالی مدد فراہم کرتے تھے۔ بھارت اب تک پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کے لئے 80ارب روپے خرچ کر چکا ہے اور اس نے حال ہی میں 700 لوگوں کی ایک فوج تیار کی ہے جس کا مقصد پاکستان میں CPECکی پیش رفت کو روکنا ہے۔ اس بات کے بھی شواہد ملے کہ بھارت کے افغانستان میں سابق سفیر نے افغانستان میں حاجی کاگ کے مقام پر ایک ایسے کیمپ کا دورہ بھی کیا جہاں بلوچ جنگجوؤں کو تربیت دی جاتی تھی۔ گوادر کے پرل کانٹیننٹل ہوٹل حملے ، کراچی چینی سفارتخانہ حملے اور اوماڑا اور کراچی سٹاک ایکس چینج حملے میں بھی بھارت ملوث تھا۔ سراج رئیسانی پر ہونے والاخود کش حملہ جس میں 400سے زائد بے گناہ افراد جان کی بازی ہار گئے، افغانستان کے علاقے سپن بولدک سے کنٹرول کیا جا رہا تھا۔ یہ دہشت گرد CPECکی ناکامی چاہتے ہیں مگر وہ اپنے مذموم مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ اویناش پالیوال اپنی کتاب My Enemy's Enemy میں لکھتے ہیںکہ بھارت پاکستان کے خلاف افغانستان سے ایک پراکسی جنگ لڑ رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کے بھارت 2002سے خفیہ طور پر افغانستان میں ترقیاتی کام کر رہا ہے جس کے ذریعے سے وہ پشتون اور بلوچ کارڈ کھیل سکے۔ اب پاکستان کی مغربی سرحد پر بھی باڑ لگا دی گئی ہے جس پر کل لاگت 53 کروڑ 30 لاکھ ڈالرآئے گی۔اس پر 84فیصد کام مکمل ہو گیا ہے جس میں سرحدی باڑ اور سینکڑوں فوجی پوسٹوں کی تعمیر شامل ہے۔ بلوچستان میں بھی 1100کلومیٹر پاک افغان سرحد پر کام مکمل ہو چکا ہے، جس میں ایک خندق بھی شامل ہے جس کی چوڑائی  تین سے چار میٹر اور گہرائی تین میٹر ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی نام نہادجموریت اب ایک غنڈ ہ گرد ریاست بن چکی ہے جو کے خطے میں دہشت گردی کے شعلوں کو ہوا دے رہی ہے۔ بین الاقوامی برادری کو چاہئے کہ وہ بھارت کی خطے میں دہشت گردی کے فروغ میں مالی معاونت پر اوراس کے خلاف پاکستان کے مسلسل پیش کئے جانے والے ڈوزئیر کا نوٹس لے جسے پاکستان نے بارہا ایسے ثبوتوں کے ساتھ پیش کیا ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ پاک فوج اس سلسے میں بہت اہم کردار کر رہی ہے تا کہ خطے میں امن و امان کی صورتِ حال کو بہتر بنایا جا سکے  اور صوبے میں ترقی اور خوشحالی لا کر ملکی اثاثوں کی حفاظت کی جا سکے اور دہشت گردوں کے قائم کردہ ٹھکانوں کو ختم کیا جا سکے۔ پوری پاکستانی قوم اس جنگ میں پاک فوج کے شانہ بہ شانہ چل رہی ہے۔