انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان کو یومِ پاکستان کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک پڑوسی ملک کے طور پر انڈیا پاکستان کے عوام کے ساتھ خوشگوار تعلقات چاہتا ہے۔ایسا ممکن بنانے کے لیے دہشتگردی اور دشمنی سے خالی اور اعتماد سے بھرپور ماحول کی ضرورت ہے۔اسی طرح انڈیا کے صدر رام ناتھ کووند نے بھی پاکستان کے صدر عارف علوی کے نام ایک خط میں انھیں یوم پاکستان کے موقعے کے حساب سے مبارکباد پیش کی ہے۔یاد رہے کہ نریندر مودی کا عمران خان کو خط ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب دونوں ممالک کے درمیان لائن آف کنٹرول پر نئے سرے سے جنگ بندی ہوئی ہے۔ گذشتہ مہینے دونوں ملکوں کے ملٹری آپریشن کے ڈائریکٹرز نے اچانک کنٹرول لائن پر جنگ بندی کا اعلان کیا تھا اور اس وقت سے جنگ بندی پر مکمل طور پر عمل ہو رہا ہے۔اس کے علاوہ سندھ طاس معاہدے کی سالانہ بات چیت کے لیے پاکستان کا ایک آٹھ رکنی وفد پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر سید مہر علی شاہ کی قیادت میں نئی دلی میں اپنے انڈین ہم منصبوں سے بات چیت کر رہا ہے۔ یہ بات چیت دو سال کے بعد ہو رہی ہے۔اس کے علاوہ حال ہی میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ دونوں ممالک کو ماضی بھلا کر آگے بڑھنا چاہیے۔نریندر مودی نے لکھا ہے کہ پاکستان کے قومی دن کے موقع پر وہ پاکستانی عوام کو مبارکباد دینا چاہتے ہیں۔انھوں نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ اس مشکل وقت میں وہ انہیں اور پاکستانی عوام کے کووڈ 19 کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے نیک تمنائیں رکھتے ہیں۔ گذشتہ دنوں نریندر مودی کی جانب سے عمران خان کے کورونا وائرس میں مبتلا ہونے پر نیک تمناں کا اظہار بھی کیا گیا تھا۔پاکستان اور انڈیا کے تعلقات میں مثبت پیش قدمی کو دیکھتے ہوئے یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ اس میں تیسری طاقتیں بھی کردار ادا کر رہی ہیں۔سعودی عرب کے نائب وزیر خارجہ عادل الجبیر نے چند دن قبل اعتراف کیا تھا کہ سعودی عرب انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔عرب نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں الجبیر نے کہا تھا کہ سعودی عرب پورے خطے میں امن چاہتا ہے اور اس کے لیے متعدد سطح پر کوشش کرتا ہے۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حالیہ واقعات کسی پسِ پردہ پیش رفت کا نتیجہ ہیں۔پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باوجوہ کا کہنا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے مستحکم تعلقات وہ چابی ہے جس سے مشرقی اور مغربی ایشیا کے مابین رابطے کو یقینی بناتے ہوئے جنوبی اور وسطی ایشیا کی صلاحیتوں کو ان لاک کیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ موقع دو ایٹمی ہمسایہ ممالک کے مابین تنازعات کی وجہ سے یرغمال بنا ہوا ہے۔ تنازعہ کشمیر واضح طور پر اس مسئلے کا مرکز ہے۔ملک کے دارالحکومت اسلام آباد میں پہلے اسلام آباد سیکیورٹی مذاکرات کی تقریب کو خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ برصغیر میں امن کا خواب ادھورا ہے جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوجاتا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ماضی کو دفن کیا جائے اور آگے بڑھا جائے۔ انہوں نے واضح کیا کہ بامعنی مذاکرات سے قبل ہمارے پڑوسی ملک کو ماحول کو سازگار بنانا ہوگا خاص طور پر انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں۔پاکستان کی جانب سے حال ہی میں سرحد پر فائربندی کا معاہدہ کیا گیا جس کے بعد آرمی چیف جنرل جاوید باجوہ کی انڈیا کو مذاکرات کی یہ پیشکش سامنے آئی ہے۔ سابق وفاقی وزیر معین الدین حیدر کا کہنا ہے کہ آرمی چیف سے قبل وزیر اعظم عمران بھی کہہ چکے ہیں کہ جاری کشیدگی کو کم کیا جائے، یہ کشیدگی کم ہو تاکہ کچھ سکون کے لمحے میسر ہوں۔بھارت بڑا ملک اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس پیشکش کا مثبت جواب دے، کشمیر اہم مسئلہ ہے جس کی وجہ سے گڑ بڑ ہوتی ہے اس سے قبل بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت سے اس پر بات ہوئی، کانگریس کی من موہن سنگھ حکومت نے بھی اس سلسلے کو جاری رکھا، یہ ایک سچی پیشکش ہے کہ پاکستان جنگ کے حق میں نہیں وہ مذاکرات چاہتا ہے۔بعض سیاستدانوں کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ فوج مذاکرات کے حق میں نہیں ہے۔ فوج چاہتی ہے کہ دو طرفہ تجارت ہو، بارڈر کھلیں، لوگوں کا لوگوں سے رابطہ ہو، لیکن اصل مسئلہ کشمیر کو نہ بھولیں۔جو سمجھوتہ ایکسپریس ہے، دوستی بس سروس ہے، وہ تو بحال ہو، دوطرف تجارت شروع ہو۔ کہیں سے تو ابتدا کی جائے پھر چاہے سیکرٹری سطح پر مذاکرات ہوں، وزارتی یا سربراہی سطح پر۔آرمی چیف نے مثبت رویے کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ معاشی ترقی اہم، اس خطے میں امن ہونا چاہیے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک سمت متعین کی جارہی ہے، بجائے کشیدگی بڑھانے کہ اس کو کم کیا جائے اور خطے میں معاشی ترقی ہو یہ ایک مثبت رویہ ہے۔اس سے پہلے ہم نے دیکھا کہ فائر بندی کی گئی اس سے امید ہوئی کہ خطے میں کشیدگی کم ہو رہی ہے، اس سے قبل صورتحال مختلف تھی، سوچ میں تبدیلی آئی ہے آرمی چیف نے اس کا ہی اظہار کیا ہےآرمی چیف کی تقریر کا ٹارگٹ آڈینس انڈیا تھا، اس سے پہلے بھی وہ اس نوعیت کا بیان دے چکے ہیں کہ امن کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں جس کے بعد دونوں ممالک میں سیز فائر معاہدہ ہوئے اس میں یقینا کچھ دوست ممالک شامل ہوں گے۔یہ سیز فائر کا جو ماحول بنا ہوا وہ اس کا فائدہ لیتے ہوئے مذاکرات چاہتے ہیں، حکومت اور ملٹری چاہتی ہے جہاں سے یہ سلسلہ شروع ہوا تھا وہاں سے شروع کیا جائے، اسی لیے شاید وہ کارگل کے حوالے سے کہہ رہے ہیں کہ ہم ماضی کو بھول کر آگے بڑھیں۔آرمی چیف کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی دبائو میں امن کی بات نہیں کر رہے ہیں، دراصل پاکستان کئی سالوں سے امن کے قیام کی کوشش کر رہا ہے، لیکن مودی حکومت اس کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے، جو ایک رائیٹ ونگ مسلم مخالف حکومت ہے۔خطے کی ترقی میں جو سب سے بڑی رکاوٹ ہے وہ انڈیا اور پاکستان میں امن نہ ہونا ہے، اسی وجہ سے علاقائی ممالک کی تنظیم سارک بھی یورپین یونین کی طرح کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ گزشتہ حکومتیں بھی امن کی ہی بات کرتی رہی ہیں۔ اس کے بعد پلوامہ حملہ ہوگیا اس صورتحال میں بھی جذبہ خیر سگالی کے طور پر انڈین پائلٹ ابھی نندن کو غیر مشروط طور پر رہا کیا گیا، اس عرصے میں پاکستان کرتاپور کاریڈور کو کھولا گیا۔ پاکستان تو امن اور مذاکرات چاہتا ہے اب جب آرمی چیف اور حکومت ساتھ کھڑے ہیں دونوں ممالک کے لیے یہ ایک اچھا موقع ہے۔ آرمی چیف کی پیشکش کے پس منظر میں معاشی فیکٹر ہے، اگر امن کی بحالی کا سلسلہ شروع نہیں ہوتا استحکام نہیں آسکتا۔سعودی عرب کے نائب وزیر خارجہ عادل الجبیر نے اعتراف کیا ہے کہ سعودی عرب انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ سعودی عرب پورے خطے میں امن چاہتا ہے اور اس کے لیے متعدد سطح پر کوشش کرتا ہے۔عادل الجبیر نے کہا ہم علاقے میں امن اور استحکام کے لیے مستقل کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ چاہے وہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین امن ہو یا لبنان، شام، عراق، ایران، افغانستان کا معاملہ ہو۔یہاں تک کہ ہم انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چاہے سوڈان میں استحکام پیدا کرنا ہو یا لیبیا میں جنگ کا خاتمہ ہو، ہم نے ہر جگہ مثبت کردار ادا کیا ہے۔اس سے قبل یہ بھی کہا گیا تھا کہ ونگ کمانڈر ابھی نندن کی رہائی میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا اہم کردار تھا۔ تاہم اس بات کی تصدیق نہیں کی گئی تھی۔پلوامہ حملے کے فوری بعد سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے پہلے پاکستان اور پھر انڈیا کا دورہ کیا۔وزیر خارجہ کے مطابق سعودی عرب انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جہاں سفارتی تنی ہوئی رسی کی وجہ سے شہزادہ سلمان نے شدت پسندی کے خلاف پاکستان کی لڑائی میں ان کی قربانی کی تعریف کی، وہیں انڈیا میں وزیر اعظم مودی کی اس بات سے اتفاق کرنے میں انہیں کوئی حرج نہیں تھا کہ کسی بھی طرح سے دہشت گردی کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔صرف یہی نہیں بلکہ سعودی عرب کے نائب وزیر خارجہ عادل الجبیر نے اس وقت کی انڈیا کی وزیر خارجہ سشما سوراج سے اسلامی ممالک کی کانفرنس کے دوران گفتگو کی۔مگر اس معاملے کو حل کرنے میں سعودی عرب کیوں دلچسپی لے رہا ہے؟سعودی عرب ایران مخالف اتحاد میں پاکستان کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ انڈیا کو ایران سے دور کرنے کی حکمت عملی پر بھی کام کر رہا ہے۔الجبیر نے اپنے انٹرویو میں کہا بائیڈن انتظامیہ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ سعودی عرب کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔بیرونی خطرات پر اب بھی امریکہ ہمارے ساتھ کھڑا ہے۔ ایسی صورتحال میں میں نہیں سمجھتا کہ بائیڈن کی آمد سے ہمارے تعلقات متاثر ہوں گے۔امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات اسّی سال پرانے ہیں۔ یہ رشتہ عالمی سلامتی اور استحکام کے لیے اہم ہے۔ ہمارے معاشی مفادات باہمی ہیں۔ ہم سب مل کر دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
