احسان علی دانش
سکردو شہر کے شہریوں کو سرکاری دیگر اداروں کی جانب سے سہولیات و مراعات ملے نہ ملے۔صفائی والا ادارہ ویسٹ منیجمنٹ اپنے احساس ذمہ داری کے ناتے قابل صد داد و تحسین کے لائق ہے۔ لہذا یہ چند سطور مذکورہ ادارے کے ذمہ داروں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ضبط تحریر میں لائے جا رہی ہیں۔ سکردو ایک ایسا شہر ہے جو بنا کسی منصوبہ بندی کے جنگلی کسی خود رو درخت کی طرح اپنے آپ اپنے انداز میں آزادی کے ساتھ پھلتا پھولتا جا رہا ہے۔ مستقبل میں ایک ایسا دن ضرور آئے گا کہ انسانوں کی آبادی اور گاڑیاں زیادہ ہوں گی اور سڑکیں اور گلیاں تنگ ہو جائیں گی یوں یہ شہر جام ہو جائے گا۔خدا غریق رحمت کرے ساٹھ کی دہائی میں یہاں سروس دینے والے پولیٹیکل ایجنٹ بنات گل آفریدی کو، سکردو کی وسعت اور اس کی مرکزیت دیکھ کر اندازہ لگایا تھا کہ قراقرم اور ہمالیہ کے پہاڑوں میں گھرا ہوا بلتستان کا یہ وسیع رقبہ مستقبل میں ایک بہتریں شہر کا روپ دھارے گا جہاں کاروباری مراکز قائم ہوں گے اور تمام سرکاری و غیر سرکاری اہم ادارے اپنی جڑیں یہاں مضبوط کریں گے۔ اس طرح جب یہ گنجان شہر بنے گا تو یہاں کے شہریوں کو بہت سارے مسائل پیدا ہوں گے۔ انہوں نے اپنے دور کا سب سے بڑا بازار جو موجودہ پرانا بازار ہے جس کی لائن لینتھ دیکھ کر فیصلہ کیا تھا کہ پورے بلتستان کی ضرورت کے پیش نظر ایک دوسرا وسیع و عریض بازار بنانا نا گزیر ہے جسے نیا بازار کا نام دیا گیا لہذا مشہور زمانہ گنگوپی کول سے کالج روڈ تک ایک کھلا بازار تعمیر ہوگیا۔ بنات گل آفریدی کے دیگر احسانات میں موجودہ سٹلائٹ ٹاﺅن بنانا، سکردو دیوسائی روڈ کی تعمیر اور یہاں کی تاریخ کو مربوط کرنا بھی شامل ہے۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے اس شہر کو ایک منصوبہ بندی کے تحت بنانے کے لئے کسی بڑے شہر کے بڑے انجینئر سے نقشہ بھی بنوایا تھا جس میں شاپنگ مال، پبلک پارک، سپورٹس کمپلیکس، سکول، کالج، یونیورسٹی سمیت دیگر ضروریات شامل تھیں مگر چار سال کے اندر ان کا تبادلہ ہوا بعد ازاں ہمارے اپنے چند نام نہاد سرکردگاں نے نقشے کی ایسی کی تیسی کردی اور سکردو کی زمینوں کو اپنے اور اپنے عزیزوں کے نام انتقال کرا دیا۔یہاں کی اتنی بڑی آبادی کے لئے کوئی مربوط سیوریج سسٹم اب تک نہ بن سکا۔ باقی گھر یا سرکاری دفاتر جو منظور شدہ کسی نقشے کے تحت بنانا کار دارد۔اس شہر کو ایک منظم اور ڈسپلن کا حامل شہر بنانے کے لئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے مگر ایسا کون کرے۔ کاش کچھ ایسے قومی درد رکھنے والے لوگ ایوان میں پہنچ جاتے جو اسمبلی اجلاس سے قبل اس شہر کے تھنک ٹینک کا اجلاس طلب کرتے اور ایک متفقہ ایجنڈے پر عمل درآمد کے لئے بجٹ مختص کرتے تاکہ شہریوں کے مشترکہ مفاد کے لئے کام ہو سکیں۔ سکردو میں ویسٹ منیجمنٹ کا ادارہ قائم ہونے سے قبل ہم نے ایک آدھ باہر کے ممالک دیکھے ۔ ہمارے اپنے پڑوسی اسلامی برادر ملک ایران کے سب شہر نہایت صاف ستھرے دیکھے۔ وہاں کی میونسپلٹی میں اتنے زیادہ لوگ بھی کام نہیں کرتے جتنے ہمارے شہر داری اداروں میں موجود ہوتے ہیں مگر وہاں کے شہریوں کو یہ احساس ضرور ہے کہ یہ شہر ہمارا اپنا ہے اس کے پانی کو آلودہ کریں گے تو بیمار ہم خود ہو جائیں گے۔ اس شہر کی صاف سڑکوں اور گلیوں میں گندگی پھیلائیں گے تو مریض ہم بن جائیں گے۔وہاں کے لوگ اپنے گھروں کے کچروں اور گندگی کو تھیلوں میں بند کر کے گھروں کے گیٹ کے پاس رکھ دیتے ہےں اور بلدیہ والے صبح کے پو پھٹنے سے قبل لے جا کر ٹھکانے لگاتے، یوں شہر میں گندگی پھیلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہم نے جب یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تو خیال آیا۔ کیا کبھی ہمارے شہر کی صفائی کا نظام ایسا ہو سکتا ہے؟ کاش ایسا چمتکار ہمارے ہاں بھی ہو اور ہر صبح گندگی اٹھانے والی گاڑی گھر کے گیٹ پر پہنچے اور شہر ہمیشہ صاف رہے۔ بس خدا نے ہماری سن لی اور۔۔ماضی قریب میں گلگت بلتستان میں نون لیگ کی حکومت نے دیگر کاموں کے علاہ جو بہترین کام کیا وہ ویسٹ منیجمنٹ ادارے کا قائم کرنا تھا۔ ادارے کے قیام کے وقت ہی ملازمین کے لئے شرط رکھی گئی کہ کام میں کوتاہی برتنے کی صورت میں نوکری سے باہر ہوں گے۔ اب شہر کی سڑکوں، گلیوں اور دیگر پبلک مقامات سے پلک جھپکنے میں گندگی اٹھائی جاتی ہے اور بہت دور ٹھکانے لگائی جاتی ہے ۔ یوں سکردو شہر میں کہیں بھی گندگی کا کوئی ایسا ڈھیر نظر نہیں آتا جو شہریوں کے لئے تعفن کا سبب بنے۔ ویسٹ منیجمنٹ کی گاڑیاں سائرن بجاتے پہنچ جاتی ہیں اور لمحہ بھر میں کچرا اٹھا کے لے جاتی ہیں اور سکردو شہر ایران کے کسی شہر کی طرح صاف نظر آتا ہے۔ لہذا جہاں دوسرے اداروں کی کارکردگی پر مسلسل تنقید ہو رہی ہوتی ہے وہاں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے اداروں کو شاباش، آفریں، مرحبا اور زندہ باد بھی کہنا چاہیے۔ میرا آج کا کالم ویسٹ منیجمنٹ کے تمام ملازمین کے نام ہے جنہیں دل و جاں سے خراج عقیدت پیش کرنا ہے۔۔۔ جن کی دن رات کی محنت لگن اور دیانت داری سے سکردو شہر کچرے اور گندگی سے پاک و صاف شہر دکھائی دےتا ہے۔آج وطن عزیز کے دیگر شہروں سے آنے والے سیاح برملا اعلان کرتے ہیں کہ سکردو شہر کے دیگر اداروں کی کارکردگی بہتر ہو نہ ہو صفائی کے معاملے میں کوئی انگلی اٹھا نہیں سکتا لہذا ویسٹ منیجمنٹ کا جملہ عملہ زندہ باد۔