عاشق فراز
سدپارہ مارکیٹ سکردو کی
ٹیڑھی میڑھی تنگ گلی سے گزرتے ہوئے اچانک ایک دکان کا سامنا ہوگا جس کے
کاﺅنٹر کے پیچھے دیوار میں لگی تصاویر کسی اور دنیا کی کہانیاں بیان کرتی
ہے۔ کسی تصویر میں نوکیلی چٹانوں پر برف میں دھنسا کوئی کوہ پیما اوپر
چڑھنے کی جدو جہد کرتا نظر آتا ہے تو کہیں کسی چوٹی کو فتح کرنے کے بعد
سرشاری سے لبریز کوئی آئی سیک اور پاکستانی جھنڈا بلند کرتا دکھائی دیتا
ہے۔ کسی اور تصویر میں احباب حل و عقد کے ہاتھوں تعارفی اسناد اور پھول
وصول کررہا ہے تو کسی تصویر میں مشہور کوہ پیماﺅں کے ساتھ خوش خوش کھڑا ہے۔
یہ تو صرف خلاصہ ہے اصل کہانیاں تو دل میں دبی پڑی ہیں بس کریدنے کی دیر
ہے ۔ یہ سب تصاویر حسن سدپارہ اور صادق سدپارہ کی ہیں جو اس مارکیٹ میں
دکانداری کر رہے تھے صادق سدپارہ حیات ہےں جبکہ حسن چند سال پہلے جوانی کی
عمر میں ہی راہی ملک عدم ہو گئے۔صادق کی دکان کے آس پاس کی دکانیں بھی لنڈے
کے سامان سے بھری ہوئی ہیں جہاں گرمیوں میں سیاحوں کا اور سردیوں میں گرم
کوٹ، بنیان اور جوتے خریدنے والے مقامی لوگوں کا رش رہتا ہے۔ صادق سدپارہ
بھی سیکنڈ ہینڈ سامان فروخت کرتا ہے یہاں روز آنے والے عام گاہکوں کو شاید
ہی معلوم ہو کہ صادق کون ہے، وہ کتنا بڑا مہم جو ہے اور اس نے جان پر کھیل
کر کون کون سے مشہور بلند و بالا پہاڑ سر کر رکھے ہیں۔ دکانداری اس کی
مجبوری ہے کیونکہ گھر کو بھی پالنا ہے مگر اس کی مہارت کسی اور میدان میں
ہے ، اس کا دل کہیں اور اٹکا ہے۔ سدپارہ گاﺅں کے جواں مردوں کے بغیر سلسلہ
قراقرم میں کوہ پیمائی کی کوئی بھی مہم کامیاب ہونا ممکن نہیں۔ اس گاﺅں سے
گائیڈ ، پورٹر، ٹرئیکر اور کوہ پیماﺅں کی ایک بڑی تعداد کئی دہائیوں سے بڑی
بڑی کوہ پیمائی کی مہمات کا حصہ رہی ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ 1950
سے پہلے کے دورانیہ کو چھوڑ کر آگے بڑھیں تو 1954 میں اٹلی کے کوہ پیماﺅں
کی ایک ٹیم نے پہلی بار K2 سر کرلیا۔ اس کامیابی کے بعد یقین کرلیا گیا کہ
اس پہاڑ کی چوٹی تک جایا جاسکتا ہے ورنہ اس سے پہلے کی کئی مہمات نہ صرف
بری طرح ناکام ہوگئی تھیں بلکہ کچھ میں تو کئی جانیں ضائع ہوئیں اور یہ
سمجھا گیا تھا کہ پہاڑ کی چوٹی پر دیوتاﺅں کا بسیرا ہے اور وہ اجازت نہیں
دے رہے ہیں۔اس فتح یابی کی مہم میں جہاں ہنزہ کے بے مثال پورٹر تھے وہیں پر
سدپارہ کے اسد ، تقی اور محمد علی بھی تھے اس مہم کی داستان کئی کتابوں
میں لکھی گئی ہے اور فلم بھی بنائی گئی ہے۔خاص بات اس مہم کی یہ کہ اس میں
پورٹرز کے سردار وزیر صادق تھے جو بعد ازاں اپنی لیاقت اور سیاست کی وجہ سے
گلگت بلتستان میں مقبول و معروف ہوئے۔اسد رشتے میں صادق سدپارہ کے چچا اور
تقی تایا لگتے ہیں۔ تقی بعد ازاں حاجی تقی ہوئے انہیں 1954 کی مہم میں
بہادرانہ خدمات کے عوض بلتی ٹائیگرکا میڈل دیا گیا تھا۔ یوں حسن اور صادق
کو کوہ پیمائی کا شوق گھر سے ودیعت ہوا ہے۔ ان کا شوق اس وقت فزوں تر ہوتا
جب کوہ پیمائی کا سیزن شروع ہوتے ہی ان کے گاﺅں کے جوان رنگ برنگے برنگی
جیکٹوں میں ملبوس ، کاندھے پر رک سیک چڑھائے اور لمبی تسموں والی ٹریکنگ
شوز پہن کر سکردو کا رخ کرتے اور وہاں سے ایکسپیڈیشن ٹیموں کے ساتھ اونچے
اونچے پہاڑوں کی جانب رخت سفر باندھتے ۔ واپسی پر ان کے ہاتھوں اور چہروں
کی جلد مرجھا جاتی اور ان کے جوتوں کا رنگ بھی پھیکا پڑ جاتا مگر ان کی
آنکھوں میں چمک زیادہ اور زبان میں مہم کی کئی دلچسپ کہانیاں ہوتیں جنہیں
وہ گاﺅں کے چوپال میں مزے مزے سے سنایا کرتے تھے۔ انہی سنسنی خیز کہانیوں
کو سن کر صادق بھی اپنے بھائی حسن کی طرح رشک کرتا کہ کب وہ بھی اس قابل
ہوں کہ پہاڑوں پر چلے جاسکیں اور پھر فخر سے گاﺅں میں اپنی کہانی سنا سکے
۔بالآخر وہ دن آگیا جب صادق کی دلی مراد پوری ہوئی اور 1990 میں صادق ایک
عام پورٹر بن کر K2 بیس کیمپ تک گیا اور غالبا ایکسپیڈیشن ٹیم اٹلی کی تھی۔
حسن اس سے پہلے جاچکا تھا لہذا اس نے صادق کی پیٹھ تھپتھپایا اور حوصلہ
دیا۔ صادق کو اپنی پہلی ٹریکنگ ابھی بھی یاد ہے گو کہ اس سفر میں اسے بوجھ
اٹھا کر چلنا بہت کٹھن کام لگا مگر اس کا من سرشاری سے بھر گیا تھا کیونکہ
اب گاﺅں کے چوپال میں وہ بھی فخر سے کہہ سکتا تھا کہ وہ بھی کے ٹو تک ہو کر
آیا ہے۔ صادق نے من میں کچھ اور ٹھان رکھی تھی لہذا پورٹرینگ کے کام کے
ساتھ ساتھ اس نے اپنے بڑے بھائی حسن سدپارہ سے کوہ پیمائی کے گر سیکھنا
شروع کیا۔ کوئی سکھانے کا ادارہ تو تھا نہیں بھائی نے اسے رسی کی مدد سے
سفیدے کے درخت چڑھنے کے علاہ سدپارہ گاﺅں کے قرب و جوار میں موجود پہاڑوں
میں مختلف انداز سے چڑھنے کی مشق کرائی۔ یہی اس کا مکتب تھا اور یہی اس کی
تربیت گاہ تھی۔ اس کا جنون اسے نچلا بیٹھنے نہیں دے رہا تھا اور یوں دو سال
بعد 1999 میں وہ بطور ہائی پورٹر گشہ بروم ٹو(G-1) پہاڑ سر کرنے والی اٹلی
کی ٹیم کے ساتھ مہم پر گیا اور پہاڑ سر کرلیا۔ گشہ بروم ون سر کرنے کے بعد
اس کا عزم اور بھی پختہ ہوگیا اس کے قدموں میں کبھی بھی لغزش نہیں آئی۔ وہ
ایک کے بعد دوسری پہاڑ سر کرتا گیا۔ صادق سدپارہ نے 8068 میٹر بلند گشہ
بروم ون دو دفعہ سر کیا ہے، 8035 میٹر بلند گشہ بروم ٹو کو چار سے زائد
مرتبہ سر کیا ہے ۔ انہوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اسپنٹک پیک پر
بھی اپنے قدم جمائے اور اس کے بڑھ کر قاتل پہاڑ 8125 میٹر بلند ننگا پربت
کو بھی قدموں سے شکست دی۔ صادق سدپارہ کا جنون یہی پر نہیں ٹھہرا بلکہ دو
آتشہ ہوتا گیا اس نے براڈ پیک8047 میٹر بلند پر اپنے نقش پا ثبت کئے اور
پھر آگے بڑھ کر 2014 میں 8611 میٹر بلند K2 کو نکیل ڈالی۔ یہ تو صرف مختصر
خلاصہ ہے ان متذکرہ بالا کامیابیوں کے علاوہ صادق سدپارہ نے درجنوں دیگر
مہمات میں حصہ لیا ہے جن میں اس نے دوسرے کوہ پیماﺅں کو کئی مشہور پہاڑ سر
کرنے میں تکنیکی معاونت فراہم کی ہے۔ وہ ریسکیو کے کئی مرحلوں میں شامل رہا
ہے اور اس ضمن میں پاک فوج کی بھی مدد کی ہے۔ صادق کا جنون اسے ماﺅنٹ
ایورسٹ کے بیس کیمپ تک بھی لے گیا مگر سازو سامان اور رائلٹی کی رقم نہ
ہونے کے سبب وہ اس پہاڑ کو سر کرنے کی حسرت لئے واپس لوٹ آیا۔صادق سدپارہ
کا کہنا ہے کہ بڑی بڑی ایکسپیڈیشن ٹیمیں اپنے ساتھ نیپالی شرپا ساتھ لاتی
ہیں حالانکہ سدپارہ اور ہوشے کے ہائی پورٹرز اس کام کے لئے زیادہ موزوں اور
آسانی سے دستیاب ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ نیپال نے ٹورازم
کو سنجیدگی سے لیا ہوا ہے لہذا وہاں چار سے زائد ماونٹیرنگ سکول قائم کئے
گئے ہیں جہاں نوجوانوں کو کوہ پیمائی اور ٹورازم منیجمنٹ کی تکنیکی تربیت
دی جاتی ہے اور ان کی certification کی جاتی ہے یوں دنیا بھر کے کوہ پیما
ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ اس کے برعکس صادق سدپارہ کا کہنا تھا کہ پاکستان
میں سیاحت کے فروغ کے لئے عملا کچھ کام نہیں ہوتا ہے صرف زبانی جمع خرچ کیا
جاتا ہے حتی کہ ایک ماونٹیرنگ سکول تک موجود نہیں۔گلگت بلتستان اپنے فطری
حسن اور خاص کر ایڈونچر ٹورازم کے حوالے سے ممتاز اور منفرد ہے مگر یہاں پر
بھی سیاحت کی بڑھوتری کے حوالے کچھ کام نہیں ہوا ہے۔ میرے اس سوال پر کہ
سدپارہ اور ہوشے کے ہائی پوٹر اور کوہ پیما بھی نیپالی شرپاز کی طرح دنیا
کی بلند چودہ چوٹیوں کو سر کرنے کیوں نہیں نکلتے ہیں تو صادق طنزیہ مسکرایا
اور اس کے چہرے پر دکھ کی لکیر گہری ہوگئی۔ صادق نے بتایا کہ بلتستان کے
ہائی پورٹرز کا کوئی والی وارث نہیں ہے یہ سب نہایت غریب لوگ ہیں اور گھر
کی کفالت کے لئے ہر طرح کی مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کے لئے نہ لائف
انشورنس کا انتظام ہے اور نہ ہی اپنے طور پر climbing gear خرید سکتے
ہیںاور تو اور اگر کسی وجہ سے بین الاقوامی سیاح کسی سال نہ آئےں یا کم
تعداد میں آئےں تو ہائی پورٹر اور مقامی کوہ پیماﺅں کو گھر والوں کی کفالت
کے لئے کوئی اور طرح کی مزدوری ڈھونڈنا پڑتی ہے۔ بلتستان کے جتنے بھی ہائی
پورٹر ہیں انہوں نے اپنی مدد آپ کلائمبنگ سیکھی ہے کوئی سکول تو ہے نہیں۔
مقامی کوہ پیماﺅں اور ہائی پورٹرز کی certification نہیں ہے لہذا انہیں نہ
تو سپانسر ملتا ہے اور نہ ہی بین الاقوامی سطح کے گروپ انہیں آسانی سے ہائر
کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ محکمہ سیاحت اس ضمن میں کلیدی کردار ادا
کرسکتا ہے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کچھ نہیں ہو رہا ہے۔صادق سدپارہ
لیکن پھر بھی پر عزم ہے کہ اگر حکومتی اور نجی سطح پر مدد کی جائے تو پانچ
ماہ کی قلیل مدت میں 14 بلند پہاڑ سر کرکے پاکستان کے لئے ریکارڈ قائم کر
سکتے ہیں ۔صادق سدپارہ سمیت کئی دوسرے مقامی کوہ پیما ہیں جو ہماری قومی بے
حسی کا شکار ہورہے ہیں۔ ان کی نہ تو صوبائی سطح پر پذیرائی کی جارہی ہے
اور نہ ہی ان کا حوصلہ بڑھانے کے لئے ملکی سطح کا کوئی ایوارڈ دیا گیا ہے ۔
صادق سدپارہ اور دیگر دوسرے معروف مقامی کوہ پیمائی کی صلاحیتوں سے فائدہ
اٹھا کر نئی نسل کو کلائمبنگ کی ترغیب اور تربیت دی جاسکتی ہے یوں نہ صرف
ٹوارزم کو فروغ دیا جاسکتا ہے بلکہ روزگار کے باوقار مواقع بھی پیدا کئے
جاسکتے ہیں مگر یہاں کس کو فکر ہے۔