انوار الحق شمالی
گلگت بلتستان کی تاریخ میں میں پہلی دفعہ جی ایچ کیو نے ایک نیا ادراہ
ویٹرنس فسلیٹیشن آفس (وی‘ایف‘او)کے نام سے قائم کیا گیا ہے اس ادارے کی
قیام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ پاکستان آرمی سے ریٹائرڈ ملازمین اور ان کے
بچوں کو تکنیکی تعلیم کے علاوہ پرائیویٹ اور گورنمنٹ کے مختلف اداروں میں
نوکریاں دینا۔ اس نئے قائم کردہ ادارے کا ذمہ دار ایک ایسے شخص کو بنایا
گیا ہے جس کا تذکرہ کئے بغیر مجھے اس کالم کے لکھنے کا مقصد لا حاصل لگتا
ہے اور وہ شخص ہیں جناب برےگیڈئیر ریٹائرڈ علی نقی ستار امتیاز ملٹری۔جناب
علی نقی صاحب کو اس ادارے کا ڈائریکٹر بنایا گیا ہے محترم برےگیڈئیر صاحب
وہ انسان ہیں جن کی زندگی میں عدل و انصاف اور انسانیت سے ہمدردی کے علاوہ
کچھ نظر نہیں آتا جناب کی زیر سرپرستی میں نے آرمی پبلک سکول اینڈ کالج
گلگت میں ایک مہینہ پڑھایا ہے اور جب سکول سے استعفی دے کے جا رہے تھے اور
سکول کی ایک میٹنگ میں ہم سب سے کہا کہ میں نے سکول سے استعفی دینا ہے آپ
میرے لئے کیا کمنٹ کرینگے تو میں نے کہا سر آپ مت جائیں کیونکہ اس ادارے کو
اور ہماری قوم کو آپ کی ضرورت ہے تو جناب نے ہنستے ہوئے اپنی ذاتی وجوہات
پیش کیں اور کہا اب گھر والوں کا بھی یہ مشورہ ہے کہ میں سکول چھوڑ دوں اور
ان کو وقت دوں یقینا ایک آرمی کے آفیسر کی زندگی کا زیادہ تر حصہ ملک کی
سرحدوں کی حفاظت اور قوم کی خدمت میں گزرتا ہے۔بہر حال میری شدید خواہش تھی
کہ جناب برےگیڈئیر علی نقی صاحب ہمارے ساتھ رہے اور اللہ کا کرنا یہ ہوا
کہ اللہ نے اس سے بھی بہت بڑی ذمہ داری جناب کے کاندھوں پہ ڈال دی اور ایسے
دکھی انسانوں کا وارث بنایا جن کے زخموں کا مرہم بننا صدقہ جاریہ کے سوا
کچھ بھی نہی۔مجھے جب اس بات کا پتہ چلا کہ جناب علی نقی صاحب کو ایک نئے
ادارے کا ذمہ دار بنایا گیا ہے تو ملاقات کے لئے ان کے ہاں تشریف لے گےا
اور مل کے بے حد خوشی ہوئی اور اس کے بعد جناب کو جو ذمہ داریاں جی ایچ
کیوکی طرف سے دی گئی ہیں ان پہ کافی حاصل سیر گفتگو ہوئی پھر میں نے سوچا
کہ کیوں نہ پرنٹ میڈیا کی مدد سے اس ادارے کے بارے میں گلگت بلتستان کے
ریٹائرڈ آرمی ملازمین کو آگاہی دوں یقینا ایک سپاہی کے لئے پاکستان آرمی
میں رہ کے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم
دینا انتہائی مشکل ہوتا ہے اور بعض سپاہی دوران سروس شہادت کا جام نوش کرتے
ہیں تو بعض معذور ہوکے پوری زندگی اپنے ہی گھر والوں کا محتاج بنتے
ہیںانہی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے اب جی ایچ کیو کی طرف سے ویٹرنس
فسلیٹیشن آفس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس کا بنیادی مقصد میرٹ کی بنیاد
پہ سب سے پہلے شہدا کے بچوں کو ‘دوسرے نمبر پہ جنگوں میں معذور ہونے والے
فوجی حضرات کے بچوں کو اور تیسرے نمبر پہ وہ فوجی ریٹائرڈ ملازمین جو دوران
نوکری اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دینے سے قاصر رہے ان کے بچوں کو مختلف
کورسس کروانے کے علاوہ نوکریاں بھی دینگے۔قارئین انسان اس وقت اپنی موت کی
تمنا ضرور کرتا ہے جب اس کو محتاجی کی وجہ سے کسی اور کے سامنے ہاتھ
پھیلانا پڑےں۔پاک آرمی کا شمار دنیا کی پیشہ وارانہ آرمی میں شمار ہوتا ہے
اور جی ایچ کیوکا یہ فیصلہ قابل تعریف ہے جس نے شہدا کے خاندانوں اور
ریٹائرڈ فوجی ملازمین کو لاوارث نہیں چھوڑا۔اس بات کا ہم سب کو بخوبی علم
ہے کہ جب احساس میں مخلصی کا عنصر شامل ہو جائے تو وہ عمل میں تبدیل ہوتا
ہے اور جب عمل میں مخلصی ہوتو پھر وہ عمل وراتث کی شکل اختیار کرتا ہے اور
جب عمل وراثت کی شکل اختیار کرے تو دنیا میں ہر شخص اپنے آپ کو مکمل سمجھتا
ہے اور احساس و انسانیت کی تعریف مکمل ہوتی ہے۔اسی انسانیت اور وراثت کی
زندہ مثال اس ادارے کی شکل میں ملتی ہے جو پاک آرمی نے پاک آرمی سے ریٹائرڈ
ملازمین کے لئے قائم کیا ہے اور یہ آفس گلگت جٹیال میں سرینہ چوک کے قریب
ہے اور جو بھی ضرورت مند فوجی ریٹائرڈ ملازمین ہیں ان کے لئے یہ بہت بڑی
خوشخبری ہے کہ وہ جناب برےگیڈئیر علی نقی صاحب کی منصفانہ تقرریوں سے
استفادہ کریں۔
نہ تکلف، نہ بناوٹ، نہ دکھاوا، نہ غرور
فلسفہ سب سے جدا ہے تری رعنائی کا
تیری دہلیز سے ملتا ہے جبینوں کو وقار
ہے اثر ’خاک‘میں بھی تیری مسیحائی کا