ہم آئین کے ساتھ کھڑے ہیں

سارہ کائنات

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا ہے ہم آئین کے ساتھ کھڑے ہیں، اللہ کے سائے کے بعد اس کتاب کا سایہ ہمارے سر پر ہے، ہمارا اور آپ کا یعنی پارلیمان کا واحد مقصد لوگوں کی خدمت کرنا ہونا چاہےے، ہمارا کام یہ ہے کہ آئین اور قانون کے مطابق جلد فیصلے کریں، آپ کا کام ہے کہ ایسے قوانین بنائیں جو لوگوں کے لیے بہتر ہوں۔ میں اپنے ادارے کی جانب سے کہنا چاہوں گا کہ ہم بھی آئین کے محافظ ہیں، آپ سب نے اور میں نے بھی یہ حلف لیا ہے کہ ہم ہر قیمت پر آئین کا تحفظ اور دفاع کریں گے، اگر میں ایسا نہ کر سکوں تو آپ مجھ پر ہر قسم کی تنقید کر سکتے ہیں۔ہمیں آئین پاکستان کی اہمیت کو پہچاننا چاہیے اور اس پر عمل کرنا چاہیے۔ آئین پاکستان کی اہمیت کو پہچان کر اس پر عمل کرنا چاہیے ہمارا اور آپ کا یعنی پارلیمان کا واحد مقصد لوگوں کی خدمت کرنا ہونا چاہےے ‘ ہمارا کام یہ ہے کہ آئین اور قانون کے مطابق جلد فیصلے کریں، آپ کا کام ہے کہ ایسے قوانین بنائیں جو لوگوں کے لیے بہتر ہوں۔ قومی اسمبلی گولڈن جوبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ ہمیں آئین پاکستان کی اہمیت کو پہچاننا چاہیے اور اس پر عمل کرنا چاہیے، میں اپنے اور اپنے ادارے کی طرف سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہم آئین کے ساتھ کھڑے ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے ایوان کے شرکا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں یہاں کوئی سیاسی تقریر کرنے حاضر نہیں ہوا بلکہ میں اپنے اور اپنے ادارے کی طرف سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہم آئین کے ساتھ کھڑے ہیں، اللہ کے سائے کے بعد اس کتاب کا سایہ ہمارے سر پر ہے، ہمیں آئین پاکستان کی اہمیت کو پہچاننا چاہیے اور اس پر عمل کرنا چاہیے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اس آئین میں ایسی بہت سی چیزیں ہیں جو دنیا کے دیگر ممالک کے آئین میں نہیں ہیں، مثلا آرٹیکل 10 اے کے تحت رائٹ آف انفارمیشن (معلومات کا حق)، آرٹیکل 19 کے تحت فریڈم آف پریس (آزادی صحافت)بھی ہمارے آئین ہے۔ انکا کہنا تھا کہ آپ سب کا سیاسی میدان ہے لیکن میں قانونی نقطہ نظر سے چیزوں کو دیکھتا ہوں، آپ ہم پر تبصرے اور تنقید کرسکتے ہیں، ہم نے تنقید سنی بھی ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ یہاں آج بہت سی سیاسی باتیں بھی ہوگئیں جبکہ میں نے آنے سے پہلے پوچھا تھا کہ یہاں کوئی سیاسی باتیں تو نہیں ہوں گی، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں آج یہاں ہونے والی تمام باتوں سے اتفاق کرتا ہوں، آج آئین کی گولڈن جوبلی تھی، میں صرف اس کے جشن میں شرکت کے لیے آیا ہوں۔ انکا کہنا تھا کہ ایک سیاسی تحریک کے نتیجے میں پاکستان کی صورت میں مسلمانوں کا سب سے بڑا ملک وجود میں آیا لیکن بدقسمتی سے اب ہم سے یہ شرف چھن گیا اور اب یہ شرف انڈونیشیا کے پاس ہے۔ ہم غیرمسلموں کے لیے اقلیت کا لفظ استعمال کرتے ہیں، مجھے یہ پسند نہیں ہے، وہ برابر کے شہری ہیں اور ان کا بہت بڑا حصہ ہے۔بہت اچھی بات ہے کہ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے 10 اپریل کو دستور کا قومی دن قرار دے دیا، میری چچی بھی اس وقت اِس ایوان کا حصہ تھیں جب یہ آئین پیش کیا گیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ اس آئین میں لوگوں کے حقوق کا تذکرہ ہے، لوگوں کے بنیادی حقوق اس آئین کا سب سے اہم ترین حصہ ہیں، آئین کو اسکولوں میں پڑھانے کی قرارداد خوش آئند ہے، میری اہلیہ ایک امریکن اسکول میں ٹیچر تھیں جہاں چھوٹے چھوٹے بچوں کو امریکا کا آئین پڑھایا جاتا اور اس حوالے سے مشقیں کروائی جاتی تھیں۔ جب لوگ ووٹ اور آئین کا مطلب سمجھ جائیں گے تو ان کو اندازہ ہوگا کہ اس ریاست کی لگام ہمارے ہاتھ میں ہے۔انہوں نے کہا کہ میں اپنے ادارے کی جانب سے کہنا چاہوں گا کہ ہم بھی آئین کے محافظ ہیں، آپ سب نے اور میں نے بھی یہ حلف لیا ہے کہ ہم ہر قیمت پر آئین کا تحفظ اور دفاع کریں گے، اگر میں ایسا نہ کر سکوں تو آپ مجھ پر ہر قسم کی تنقید کر سکتے ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ میں دوبارہ وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ یہاں آج جو سیاسی باتیں کی گئیں ان سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے، ہوسکتا ہے کل کو آپ میں سے کوئی یہ کہے کہ ہم نے آپ کو بلایا اور آپ نے ہمارے خلاف فیصلہ دے دیا۔جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ میں آپ سب کے لیے ایک سوال چھوڑ رہا ہوں کہ اگر ہم اپنے آپ کو ماضی میں جج مولوی تمیزالدین اور ان ججز کی جگہ کھڑا کرکے سوچیں جنہوں نے اسمبلی کو بحال کیا تو پاکستان دو ٹکڑے ہوتا؟قبل ازیں وزیراعظم شہباز شریف کا آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ اپوزیشن نے ایک سال قبل آئینی شق کو استعمال کر کے پاکستان کو مشکلات سے بچانے کی کوشش کی لیکن ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ حالات اتنے مشکل ہوں گے۔ دستورِ پاکستان کے50سال مکمل ہونے پر قومی اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں منعقدہ کنونشن میں وزیراعظم شہباز شریف، وزیرخاجہ بلاول بھٹو زرداری، پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسی بھی شریک ہوئے۔وزیراعظم کاکہنا تھا کہ آج کا دن پاکستان کی تاریخ میں ایک بہت اہم دن ہے۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے معزز حاضرین اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ پچاس برس گزرنے کے باوجود اور 1973 کے آئین میں متعدد ترامیم کے باوجود یہ آئین آج بھی زندہ ہے۔ پچاس برس پہلے پاکستان کے وہ سیاسی زعما جو اپنے اختلافات اور سیاسی نظریات کی بنیاد پر شاید نہ مل بیٹھتے لیکن پاکستان میں آئین کی حکمرانی، عدل و انصاف کے بول بالا کے لیے انہوں نے اپنے اختلافات ایک جانب کردیے اور مل بیٹھے۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ انہوں نے جس اجتماعی بصیرت، خلوص اور دل کی گہرائی سے جو محنت کی اس کا ثمر آئین کی صورت میں نکلا۔ یہ ایسا تاریخی کارنامہ ہے کہ جو ہمیشہ سنہرے حرفوں میں یاد رکھا جائے گا، آج کا دن انتہائی اہم ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کس طرح 1955 میں نظریہ ضرورت کو ایجاد کیا گیا اور کس طرح ایک چیف جسٹس نے ایک ڈکٹیٹر کو بغیر پوچھے تےن سال کی رعایت دے دی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان کو ری رائٹ بھی کیا گیا۔میں یہ نہیں کہتا کہ سیاست دانوں میں خامیاں نہیں لیکن جس طرح 1973 آئین بنانے والے مل بیٹھے اور تاریخ رقم کی اس طرح پاکستان کی اپوزیشن نے ایک سال قبل آئین کی ایک شق کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو مشکلات سے بچانے کی کوشش کی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ حالات اتنے مشکل ہوں گے، کسی نے کہا اتحادی حکومت ایک مہینہ نہیں چل سکتی اور آج ایک سال ہوگیا یہ اتحادی حکومت چل رہی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ مشکلات ہیں، غلطیاں بھی ہوں گی کوتاہیاں بھی ہوں گی لیکن جب آپ ٹھان لیں کہ مل کر کام کرنا معاملات کو چلانا ہے تو بڑے بڑے چیلنجز عبور ہوجاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین بنانے والوں کو میں سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے مشاورت کا راستہ بنایا اور پاکستان کو آئین دیا۔ ان تمام ترامیم کے باوجود اور کئی مرتبہ بڑے بڑے طوفان آئے لیکن یہ وہ آئین ہے کہ جس نے چاروں اکائیوں کو ایک لڑی میں پرو کر رکھا ہے۔ وزیراعظم نے میاں رضا ربانی اور ان کی کمیٹی کو مبارکباد پیش کی۔وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے کہا کہ آج جمہوریت کے لیے انتہائی اہم دن ہے، آئین میں مختلف اوقات میں ترامیم کی گئیں، ڈکٹیٹر شپ کے زمانے میں بھی ترمیم کی گئیں لیکن آج بھی آئین زندہ ہے۔ یہ وہ آئین ہے جس کو پچاس سال پہلے بنانے کے لیے سیاسی مخالفین مل بیٹھے تھے، یہ کارنامہ تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔ ایک چیف جسٹس نے بغیر پوچھے ڈکٹیٹر کو تین سال کی رعایت دے دی، پاکستان کو بچانے کے لیے ہم سب اکٹھے ہوئے۔ان کا کہنا تھا کہ ایک سال ہوگیا اتحادی حکومت چل رہی ہے، ایک صاحب نے کہا یہ اتحادی حکومت ایک سال نہیں چلنا تھی، آپ نے کمال کر دیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آئین نے ایک لڑی میں پرو رکھا ہے، مشکلات ہوں گی مگر ہم نے مل کر لڑنا ہے۔ الیکشن میں ہر جماعت نے اپنے اپنے منشور کے ساتھ جانا ہے۔ساتھ ہی وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں منعقدہ خصوصی کنونشن میں قرار داد پیش کی:قرار داد میں کہا گیا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی گولڈن جوبلی مناتے ہوئے یہ کنونشن قرار دیتا ہے کہ پاکستان کے دستور میں درج ہے کہ حاکمیت اعلی صرف اللہ تعالی کی ہے اور اس کے دیے ہوئے اس اختیار کوپاکستان کے عوام اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے اللہ کی متعین کردہ حدود کے اندر رہ کر استعمال کریں گے۔قرار داد کے مطابق 1973 کا آئین تنوع اور پاکستان کے اتحاد کا مظہر ہے کہ یہ صوبوں کی وحدت اوروفاق کے سیاسی اتحاد کو یقینی بناتے ہوئے ان کے حقوق و خود مختاری کو تسلیم کرتا ہے۔قرار داد میں کہا گیا کہ یہ کنونشن ریاست کے اداروں پر زور دیتا ہے کہ 1973 کے آئین پر مکمل عملدرآمد کریں اور وہ تمام ضروری اقدامات کریں جن سے پاکستان کے عوام کے حقوق و مفادات کا تحفظ اور دفاع یقینی بنایا جاسکے۔قرار داد میں 10 اپریل کو قومی یومِ دستور کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا جو ہر سال 1973 کے آئین کی منظوری کی یاد میں ملک بھر میں منایا جائے گا، یہ دن پاکستان کے عوام کو آئین اور ملک کے لیے اس کی اہمیت سے آگاہ کرے گا۔قرار داد میں عہد کیا گیا کہ کنونشن پاکستان کے عوام کے روشن مستقبل کو یقینی بنانے اور اس کے اصولوں کی بالادستی کے لیے مل کر کام کرے گا۔(جاری ہے)