محمد ریاض
جمعہ 24مارچ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کے نام خط ارسال کیا ۔ خط کے مندرجات میں کئی سیاسی و آئینی پہلوﺅں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ بحرانوں پر قابو پانے کے لئے متعدد مشورے بھی دیئے گئے ۔ خط میں صدر مملکت نے وزیر اعظم کو توہین عدالت سمیت مزید پیچیدگیوں سے بچنے کیلئے وزیر اعظم کو مشورہ دیا کہ وہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے متعلقہ حکام کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں مقررہ وقت میں عام انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کی معاونت کی ہدایت کریں، صدر مملکت نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تمام متعلقہ انتظامی حکام کو انسانی حقوق کی پامالی سے باز رہنے کی ہدایت کی جائے، صدر مملکت نے وزیراعظم کو ماضی قریب میں پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پے بنیادی اور انسانی حقوق کی واضح خلاف ورزیوں کے اجاگر کئے واقعات پر نوٹس لینے کا مشورہ دیا۔صوبہ پنجاب اور کے پی کے صوبائی اسمبلیوں انتخابات میں حائل رکاوٹوں بارے وزیراعظم کو یاددہانی کروائی کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 105 یا 112 کے تحت صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل پر آرٹیکل 224 (2) کے تحت 90 دن کے اندر انتخابات کرانا ضروری ہیں ۔ آئین کے تحت وفاقی اور صوبائی ایگزیکٹو اتھارٹیز کا فرض ہے کہ وہ الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کو ان کے فرائض کی انجام دہی میں مدد کریں۔ صدر مملکت نے مزید کہا کہ میری رائے میں ایگزیکٹو اتھارٹیز اور سرکاری محکموں نے الیکشن کمیشن کے ساتھ عدم تعاون کرکے آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے۔ صدر مملکت نے تشویش کا اظہار کیا کہ وزیراعظم کی جانب سے آرٹیکل 46 اور رولز آف بزنس کے تحت صدر کے ساتھ کوئی بامعنی مشاورت نہیں کی گئی۔صدر مملکت نے خط میں وزیراعظم کی توجہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب بھی مبذول کرائی اور بنیادی حقوق سے متعلق آئین کے مختلف آرٹیکلز کا بھی حوالہ دیا۔صدر نے کہا کہ آئین کے آرٹیکلز کی واضح طور پر خلاف ورزی کی جا رہی ہے اور ایسے واقعات سے عالمی برادری میں پاکستان کا امیج خراب ہورہا ہے۔اور پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی صورتحال اور مستقبل پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ صدر مملکت نے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2021 کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان 180 ممالک میں سے 145 ویں نمبر پر تھا جبکہ2022 میں پاکستان 12 درجے نیچے 157 ویں نمبر پر آ گیا ۔پاکستان میں حالیہ مہینوں میں میڈیا کو مزید دبایا گیا ، حکومت کے خلاف اختلاف ، تنقید دبانے کیلئے صحافیوں کو بغاوت اور دہشت گردی کے الزامات کا نشانہ بنایا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ آزادانہ رائے رکھنے والے میڈیا پرسنز کے خلاف دہشت کا بازار گرم کر دیا گیا ہے ۔صدر مملکت نے خط میں اس بات کا اظہاربھی کیا کہ وزیر اعظم حکومت کے سربراہ ہونے کے ناتے آئین میں درج پاکستان کے ہر شہری کے انسانی اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں لہذا وزیر اعظم متعلقہ حکام کو حقوق کی خلاف ورزی سے باز رہنے ، الیکشن کمیشن کو معاونت فراہم کرنے کی ہدایت کریں ۔صدر عارف علوی کے وزیر اعظم کے نام محبت نامہ کے جواب میں وزیر اعظم ہاﺅس کی جانب سے ابھی تک کوئی ردعمل تو نہیں آیالیکن وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے صدرکے خط پر ردعمل دیتے ہوئے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو اوقات میں رہنے کا مشورہ دے دیا۔ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ صدر علوی اپنی اوقات اور آئینی دائرے میں رہیں، صدر مملکت عمران خان سے دہشت گردی کرنے کا جواب لیں۔رانا ثنا نے مزید کہا کہ صدر مملکت عارف علوی عمران خان کے حکم پرکٹھ پتلی نہ بنیں، آئین اور قانون شکن آئینی عہدے پر مسلط ہے، سیاسی مخالفین پر 15 کلو ہیروئن ڈال دی تھی، اس وقت انسانی حقوق کہاں تھے؟ کیا اپوزیشن لیڈر کو سزائے موت کی چکی میں انسانی حقوق کے مطابق ڈالا تھا؟وزیر داخلہ نے کہا کہ بہنوں، بیٹیوں کو سزائے موت کی چکیوں میں انسانی حقوق کے مطابق ڈالا تھا؟ صحافیوں کی ہڈیاں پسلیاں توڑیں، اس وقت انسانی حقوق کہاں تھے؟ پولیس کے سر کھولنے، پیٹرول بم، گولیاں، غلیلیں انسانی حقوق کے مطابق چلائیں؟انہوں نے کہا کہ صدر مملکت عمران خان کو خط لکھیں کہ 190 ملین پاﺅنڈ پاکستان کو واپس کرے، عمران کو خط لکھیں کہ ٹیرین خان کو قبول کریں، عمران خان کو خط لکھیں توشہ خانہ اور فارن فنڈنگ کا عدالت میں جواب دیں۔صدرمملکت کے خط پر پیپلز پارٹی کی رہنما اوروفاقی وزیرشازیہ عطا مری نے ردعمل میں کہا کہ عارف علوی نے صدر مملکت کے منصب کا کبھی لحاظ نہیں رکھا،پی ٹی آئی حکومت کی ہر زیادتی پر بطور صدر ڈاکٹر علوی خاموش رہے۔انہوں نے کہا نیب90روز تک شہریوں کو قیدی بنا کررکھتا رہا،ڈاکٹرعلوی نے جھوٹے الزامات کی بنیاد پر سیاسی مخالفین کو جیل بھیجنے کبھی نوٹس نہیں لیا تھا،نیب کی حراست میں شہریوں کی ہلاکتوں پرجناب صدرمملکت چپ رہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ بنی گالا محل ریگیولرائیز اورغریبوں کے کچے مکانات مسمار ہوتے رہے اورہزاروں سرکاری ملازمین کی برطرفی اوراسٹیل ملز کو تالا لگنے پر بھی ڈاکٹر علوی خاموش رہے،اپنے لیڈر عمران نیازی کو خوش کرنے کیلئے عارف علوی نے آئین سے انحراف کیا۔انہوں نے کہا کہ ڈاکٹرعلوی نے عدم اعتماد کی تحریک کی موجودگی کے باوجودقومی اسمبلی توڑنے کی کوشش کی، اورعمران نیازی کی خواہش پرسپریم کورٹ کے جج کےخلاف انتقامی کارروائی کی۔شازیہ مری کا کہناتھا کہ ممنوعہ فارن فنڈنگ اسکینڈل میں بھی ڈاکٹر علوی کا نام ہے، کیا عارف علوی نے آٹا،چینی، ایل این جی، اور زرعی کھاد کے مصنوعی بحران کا نوٹس لیا؟ایک طرف عمران خان چیف جسٹس کو خط لکھ رہے ہیں دوسری جانب صدر عارف علوی وزیر اعظم کو خط لکھ رہے ہیں۔ کیا ہی بہتر ہوکہ اگرریاست پاکستان میں جاری آئینی، سیاسی و معاشی بحرانوں پر قابو پانے کے لئے تمام سیاسی قیادت سر جوڑ کر بیٹھ جائے کیونکہ سیاسی مسائل کا حل صرف سیاستدان ہی نکال سکتے ہیں۔ کیونکہ 90کی دہائی میں اسی طرح کی کھینچا تانی کا فائدہ ہمیشہ تیسری غیر سیاسی قوت اٹھاتی رہی ہے۔
وزیراعظم شہبازشریف نے صدر عارف علوی کو ترکی بہ ترکی جوابی خط لکھتے ہوئے کہا کہ کہنے پر مجبور ہوں کہ آپ کا خط تحریک انصاف کی پریس ریلیز دکھائی دیتا ہے۔ خط کے جواب میں شہباز شریف نے لکھا کہ آپ کا خط یک طرفہ، حکومت مخالف خیالات کا حامل ہے جن کا آپ کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں اور یہ صدر کے آئینی منصب کا آئینہ دار نہیں، آپ مسلسل یہی کر رہے ہیں۔شہباز شریف نے عارف علوی کے خط کا شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ اپنے خط میں آپ نے جو لب ولہجہ استعمال کیا، اس سے آپ کو جواب دینے پر مجبور ہوا ہوں۔خط کے چیدہ چیدہ مندرجات کے مطابق شہباز شریف نے کہا کہ ہماری حکومت آئین کے آرٹیکل 19 کے مطابق آزادی اظہار پر مکمل یقین رکھتی ہے۔ یہ آزادی آئین اور قانون کی حدود قیود میں استعمال کرنے کی اجازت ہے۔جب پی ٹی آئی اقتدار میں تھی تو آپ نے کبھی اِس بارے میں آواز بلند نہیں کی۔ آپ کی توجہ ہیومن رائٹس واچ کی سالانہ ورلڈ رپورٹ 2022 کی طرف دلاتا ہوں، پی ٹی آئی اس وقت اقتدار میں تھی۔اس رپورٹ میں لکھا ہے کہ حکومت پاکستان میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوششیں تیز کر چکی ہے۔ رپورٹ میں لکھا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اختلاف رائے کو کچل رہی ہے۔رپورٹ میں صحافیوں، سول سوسائیٹی اور سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے، قید وبند اور نشانہ بنانے کی تمام تفصیل درج ہے۔3 اپریل 2022 کو آپ نے قومی اسمبلی کی تحلیل کرکے سابق وزیراعظم کی غیرآئینی ہدایت پر عمل کیا۔ قومی اسمبلی کی تحلیل کے آپ کے حکم کو سپریم کورٹ نے 7 اپریل کو غیرآئینی قرار دیا۔آرٹیکل 91 کلاز5کے تحت بطور وزیراعظم میرے حلف کے معاملے میں بھی آپ آئینی فرض نبھانے میں ناکام ہوئے۔ کئی مواقع پر آپ منتخب آئینی حکومت کے خلاف فعال انداز میں کام کرتے آ رہے ہیں۔میں نے آپ کے ساتھ اچھا ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کی پوری کوشش کی۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا آپ کا حوالہ ایک جماعت کے سیاستدانوں اور کارکنوں کے حوالے سے ہے۔ آئین کے آرٹیکل 10 اے اور 4 کے تحت آئین اور قانون کا مطلوبہ تحفظ ان تمام افراد کو دیا گیا ہے۔قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ریاستی عمل داری کے لئے قانون اور امن عامہ کے نفاذ کے مطلوبہ ضابطوں پر سختی سے عمل کیا ہے۔ تمام افراد نے قانون کے مطابق دادرسی کے مطلوبہ فورمز سے رجوع کیا ہے۔جماعتی وابستگی کے سبب آپ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں کو یکسر فراموش کر دیا۔ آپ نے نجی وسرکاری املاک کی توڑپھوڑ، افراتفری پیداکرنے کی کوششوں کو نظر انداز کیا۔پی ٹی آئی کی ملک کو معاشی ڈیفالٹ کے کنارے لانے کی کوششوں کو آپ نے نظرانداز کیا اور پی ٹی آئی کی وجہ سے آئین، انسانی حقوق اور جمہوریت کے مستقبل سے متعلق پاکستان کی عالمی ساکھ خراب ہوئی۔آپ نے بطور صدر ایک بار بھی عمران خان کی عدالتی حکم عدولی اور تعمیل کرانے والوں پر حملوں کی مذمت نہیں کی۔ عدالت کے حکم کے خلاف کسی سیاسی جماعت کی طرف سے ایسی عسکریت پسندی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ پی ٹی آئی حکومت کے دور میں انسانی حقوق کا قومی کمےشن معطل رہا۔قومی کمےشن برائے انسانی حقوق کی رپورٹ پی ٹی آئی حکومت پر فرد جرم ہے۔رکن قومی اسمبلی رانا ثنااللہ پر منشیات کا جھوٹا مقدمہ بنایا گیا جس کی سزا موت ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے مرد و خواتین ارکان پارلیمان کو قید وبند اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ عارف علوی اور شہباز شریف طرفین کے محبت ناموں سے قطع نظر آئین پاکستان کے آرٹیکل 90کے تحت آئین کے تابع، فیڈریشن کا انتظامی اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہوتا ہے۔ اور وفاقی حکومت وزیراعظم (جو فیڈریشن کے چیف ایگزیکٹو )اور وفاقی کابینہ کے ذریعے کام کرتی ہے۔یعنی ریاست پاکستان کے حکومتی امور چلانے کے لئے پاکستان کا آئین وزیراعظم کو مکمل خودمختاری دیتا ہے اور آئین پاکستان کے تابع صدر پاکستان حکومتی امور میں کسی صورت مداخلت نہیں کرسکتا ۔سب سے اہم نکتہ یہ ہے آئین پاکستان کے آرٹیکل 41کے تحت پاکستان کا ایک صدر ہوگا جو ریاست کا سربراہ ہوگا اور جمہوریہ/وفاق کے اتحاد کی نمائندگی کرے گا۔یعنی صدر کسی ایک سیاسی جماعت یا گروہ کا نمائندہ نہیں ہوتا بلکہ صدرپاکستانی ریاست کا سربراہ ہوتا ہے۔ کیا عارف علوی کا صدارتی کردار واقعی آرٹیکل 41کی نمائندگی کرتا دکھائی دیتا ہے؟ بادی النظر میں ایسا نہیں ہے ۔کیونکہ صدر عارف علوی کی اپنی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے دور حکومت میںبدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزریوں، میڈیا پابندیوںاور میگا کرپشن اسکینڈلز پر صدر عارف علوی نہ ہی کبھی اتنے متحرک نظر آئے اور نہ کبھی وزیراعظم عمران خان کوکبھی اس طرح کے خطوط لکھے ۔ حد تو یہ ہے عمران خان حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کے سینئر ترین معزز جج قاضی فائز عیسی کے خلاف کردار کشی پر مبنی مہم میں صدر عارف علوی نے بھی بھرپور ساتھ دیا ۔ نہ صرف جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف من گھڑت ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل بھیجا بلکہ متعدد ٹی وی چینلزانٹرویوز میںعارف علوی ریفرینس کے حق میں دلائل دیتے نظر آئے۔میری نظر میں شہباز شریف کی اس بات کہ آپ کا خط تحریک انصاف کی پریس ریلیز دکھائی دیتا ہے سے مکمل اتفاق کیا جاسکتا ہے۔ ایک طرف عمران خان تمام کشتیاں جلا کر پوائنٹ آف نو ریٹرن کی طرف گامزن ہیں اور آئے روز سیاسی بحران و تناﺅ کا باعث بن رہے ہیں دوسری جانب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ صدر علوی ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے موجودہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پائے جانے والے تناﺅ کو کم کرنے کا باعث بنتے اسکے برعکس صدر علوی بظاہر پی ٹی آئی کی نمائندگی کرتے ہوئے جلتی پر تیل ڈالنے والی مثال پر عمل پیرا دکھائی دے رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی قیادت باہمی کھینچا تانی کی بجائے مل بیٹھ کر سیاسی معاملات کو حل کرنے میں اپنی توانیاں صرف کریں۔