عاشق فراز
سفید ٹوپی پر مور کے پنکھ کی کلغی ، سفیدی مائل مونچھیں جن پر کالا رنگ اور بدن پر استری شدہ سوٹ ، چاک وچوبند ، فر فر اردو میں گلگت سکاﺅٹس ، این ایل آئی ، جنگ آزادی گلگت بلتستان اور علاقے کی تاریخ سب کے سامنے ایک ہی سانس میں سنانے والا کوئی اور نہیں سکردو کا اکبر حسین ہے جو اکبر پاکستانی کے نام سے ہی مشہور ہے۔ بونجی این ایل آئی سنٹر میں اس وقت اکبر پاکستانی بطور سول ایڈمنسٹریٹر کام کررہا ہے مگر اس کی رگ رگ میں ایک فوجی کا خون دوڑ رہا ہے اور کیوں نہ ہو بطور سپاہی سے صوبیدار ریٹائرڈ ہونے تک چھبیس سال فوج میں گزار چکا ہے ۔اکبر پاکستانی بونجی سنٹر آنے والے مہمانوں کو جن میں صدر مملکت سے لیکر کئی آرمی چیف ، فور سٹار جنرل، بیوروکریسی کے اعلی عہدہ داران اور سیاسی و سماجی شخصیات شامل ہیں ان کو نہ صرف اس سنٹر کی تاریخ سے آشنا کرتا ہے وہیں پر گلگت بلتستان کی تاریخ خاص طور پر جنگ آزادی کے ہیروز کی کہانی بھی ایسے سناتا ہے جیسے کل کی بات ہو لیکن یہ سب کیسے ممکن ہے اس کی پیچھے بھی ایک کہانی ہے۔اکبر پاکستانی کا سکردو حاجی گام سے تعلق ہے اور ان کے اجداد بھی چک داسخرم استور سے سکردو منتقل ہوئے۔ ان کی زیادہ تر پرورش نانا محمد ابراہیم کے ہاں ہوئی جو سماجی حوالے سے معتبر تو تھے ہی ساتھ ساتھ کم تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود تاریخ اور عصری موضوعات پر کمال دسترس رکھتے تھے۔ ان کا ایک خاصا یہ تھا کہ وہ مجلسی آدمی تھے اور ضعیفی میں بھی گھر کے دالان میں ایک بڑے کھاٹ پر فروکش رہتے اور محلے کے چھوٹے بڑے ارد گرد آلتی پالتی مارے کہانیاں اور واقعات سنتے رہتے تھے۔ ان کی یاداشت بلا کی تھی اور معلومات کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب میں اور بشارت ساقی اسلام آباد میں پڑھتے تھے تو ایک دن کشمیر لبریشن فرنٹ کے دفتر جانے کا اتفاق ہوا وہاں ہم امان اللہ خان سے ملے جو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پوری دنیا میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔انہوں نے ہمارے تعارف کے بعد یہی پوچھا کہ محمد ابراھیم ہمارے کیا لگتے ہیں میں نے بتایا کہ وہ میرے سگے ماموں ہیں تب امان اللہ نے بتایا کہ وہ تو معلومات کا خزانہ ہیں اور ان کی وفات کا سن کر بڑے آزردہ ہوئے۔ امان اللہ جب بھی سکردو آئے وہ حاجی محمد اکبر خان کے گھر ضرور حاضری دیتے اور محمد ابراھیم سے خصوصی طور پر ملتے تھے۔ دوسری بات حاجی فدا محمد ناشاد کی ہے جو سنجیدہ سیاستدان کے علاہ شاعر و ادیب بھی ہیں اور تاریخ سے باخبر انہوں نے مجھے خود بتایا کہ انہوں نے محمد ابراھیم سے کئی فارسی اشعار کی حیران کن تشریح و توضیح سنی اور اپنی ڈائری میں نوٹ کی ۔اسی گھر میں رہ کر اکبر پاکستانی کو تاریخ سے شغف بچپن سے ہوا پھر ان کے ماموں صوبیدار محمد دلاور خان جو کہ محمد ابراھیم کے بڑے بیٹے تھے ان کے مربی و محسن رہے۔ محمد دلاور خان فوج میں بھی انتظامی عہدوں پر متمکن رہے اور بعد ازاں سماجی خدمت اور سیاسی تدبر میں بھی نام کمایا۔وہ کئی بار میونسپل کمیٹی سکردو کے ممبر رہے اور اپنے محلے میں تنظیم فلاح و بہبود حاجی گام کی داغ بیل ڈالنے میں مرکزی کردار ادا کیااور پھر تیسری پشت میں صوبیدار محمد دلاور خان کے بیٹے ڈاکٹر مظفر حسین انجم ان کے پھوپھی زاد ہیں جو مستند اور قابل طبیب ہونے کے علاہ بلند پایہ شاعر و ادیب اور قلم کار ہیں جن کی کتابیں ریفرنس بن گئی ہیں۔ اس ماحول میں اکبر پاکستانی کی تاریخ اور جغرافیہ میں دلچسپی کوئی اچھنبے کی بات نہیں اور تو اور ان کے اپنے گھر میں ان کے بڑے بھائی قاسم بٹ بے باک صحافت کے لئے گلگت بلتستان میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔سکول کے دنوں سے ہی اکبر حسین کی طبیعت دوسروں سے مختلف تھی اور جو بات اس کے مزاج کے مطابق نہ ہو تو وہ کسی بھی دوست یار کو آسانی سے معاف نہیں کرتے تھے۔ میں ، اکبر حسین، ڈاکٹر سید صادق شاہ، ڈاکٹر غلام حیدر، انجےنئر ذوالفقار علی، کاچو سجاد حیدر خان موجودہ سفیر ، میجر جنرل احسان، کرنل قاسم، برےگیڈئر محمد شریف، ڈاکٹر اسماعیل، غلام نبی ائرپورٹ منیجر، سمیت کئی دوست کلاس فیلو تھے اور ہائی سکول نمبر 1 سکردو میں خوب میلہ مستی کرتے تھے۔ کلاس میں بھی اکبر حسین سے کوئی زیادہ نہیں بڑھتا تھا ورنہ اس کی شامت آجاتی تھی۔ محلے اور رشتہ داری میں بھی اکبر حسین کے ساتھ کوئی زیادہ ہنسی مذاق کرنے کی جسارت نہیں کرسکتا تھا ، مزاج کچھ دو آتشہ مگر دل اندر سے نرم اور ملائم تھا۔ہم ساتھ کالج میں بھی تھے کہ ایک دن اکبر حسین کالج نہیں آئے پتہ چلا کہ اس نے فوج جوائن کرلی ہے۔ معلوم ہوا کہ گھر سے سیدھے بونجی ریکروٹمنٹ سنٹر کا رخ کیا ، یس سر کہہ کر رنگروٹوں کے ساتھ نئی زندگی کا آغاز کیا اور یہیں پر اکبر پاکستانی کہلائے کیونکہ دل میں وطن کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ کرکٹ کے بڑے شوقین تھے، سکول کالج میں بھی میڈیم فاسٹ بالنگ کرنے اور سنگل رنرز لینے میں بڑے ماہر تھے۔کمنٹری کا بے حد شوق تھا اور دروغ بر گردن راوی یہ قصہ مشہور ہے کہ جس دن ان کی شادی تھی اسی دن سکردو میونسپل سٹیڈیم میں کرکٹ ٹورنامنٹ چل رہا تھا وہاں اکبر حسین نے کمنٹری کرنی تھی۔ ادھر منڈپ پر بیٹھے اکبر کو قرار نہیں آرہا ہے بار بار گھڑی کی طرف دیکھ رہے تھے آخر میں کمنٹری کا جنون غالب آگیا اور وہ منڈپ سے سہرا اتار کر یہ جا وہ جا سیدھے سٹیڈیم پہنچے، اپنے حصے کی کمنٹری کر ڈالی اور پھر واپس آکر سہرا تھام لیا۔ فوج میں بھی ان سے نچلا نہیں بیٹھا گیا، ہر دم متحرک اور ہر ٹاسک کے لئے پیش پیش رہے۔ رینگروٹی سے لیکر ریٹائرمنٹ تک فوج کی ریگولر کسرت ہوں یا محکمانہ تربیتی کورسز کسی بھی مرحلے میں کمزوری نہیں دکھائی بلکہ ہر موقع پر ٹیم لیڈ کی۔گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر بہادری سے ڈیوٹی نبھائی جن میں اٹھمقام ، نوسیری ، چناری چکوٹھی، کارگل، پیون سمیت اہم سیکٹرز شامل ہیں جہاں انہوں نے دفاعی خدمات سر انجام دیں۔ ان کی پیشہ وارانہ مہارت اور صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں کارگل جنگ، آپریشن راہ راست، آپریشن راہ نجات، آپریشن ردالفساد میں شامل کیا گیا یوں کارگل، سوات، باڑہ اور خیبر ایجنسی میں اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ 2013 میں انہیں یو این مشن پر لائیبریا ویسٹ افریقہ بھیج دیا گیا یوں دیار غیر میں بھی عزت اور نام کمایا۔ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں کئی میڈل اور اعزازات سے نوازا گیا جن میں سیاچن میڈل، جمہوریت میڈل، تمغہ بقا ،تمغہ استقلال ،یو این امن مشن میڈل، گڈ سروس میڈل، آپریشن کوہ پیما میڈل، میڈل ردالفساد اور میڈل راہ راست نمایاں ہیں۔ 2015 میں ریٹائرمنٹ کے فورا بعد انہیں بونجی سنٹر میں سول ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا اور ہسٹری سیل میں نائب ناظم کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ اس سیل کے تحت ایک میوزیم کو حتمی شکل دی جارہی ہے جہاں پر این ایل آئی بٹالین کی تاریخ کو محفوظ کیا جانا مقصود ہے۔ برطانوی عہد میں بنائی گئی گلگت ایجنسی میں قائم کی گئی مقامی لیوی کا گلگت سکاﺅٹس ، قراقرم سکاﺅٹس ، ناردرن ایریاز سکاﺅٹس ،این ایل آئی اور اب این ایل آئی بٹالین بننے تک کے مختلف مراحل ، کامیابیوں اور انفرادی شخصیات کے کارناموں کو اجاگر کرنے کے علاہ انہی موضوعات سے منسلکہ مختلف arifacts بھی جمع کرکے محفوظ کئے جارہے ہیں۔ اکبر پاکستانی کا کہنا ہے کہ جو عمارت میوزیم کے لئے منتخب کی گئی ہے وہ کرنل نتھو شاہ کے دور1841 میں بنائی گئی ہے۔ یہ وہی نتھو شاہ ہے جنہوں نے سکھوں کی فوج کی کمانداری میں گلگت پر قبضہ جمالیا تھا۔ میوزیم میں میجر براﺅن جو کہ گلگت سکاﺅٹس کے کمانڈنٹ تھے ان کا پیانو، ڈوگرہ دور کے برےگیڈئر گھنسارا سنگھ کے استعمال کا سامان بھی موجود ہے ۔ اکبر پاکستانی کے مطابق اب اس میوزیم میں کرنل حسن جو کہ جنگ آزادی گلگت بلتستان کا مرکزی ہیرو ہے ان سمیت دیگر تمام کمانڈروں اور مجاہدین سے منسوب چیزیں بھی جمع کی جارہی ہیں جن کا جنگ آزادی گلگت بلتستان میں اہم کردار رہا ہے۔ اکبر پاکستانی نے بطور سول ایڈمنسٹریٹر اب تک سینکڑوں اہم حکومتی و دیگر سماجی شخصیات کو بونجی سنٹر پہنچنے پر شاندار طریقے سے بریفنگ دی ہے ان میں موجودہ صدر مملکت ، چیف آف جنرل سٹاف ، جنرل قمر جاوید باجوہ ، جنرل زبیر حیات، جنرل مشرف ، ظفر عباس نیول چیف ، سہیل امان ائر چیف شامل ہیں ۔ ان کے علاہ کور کمانڈرز ، وزرائے اعلی اور دیگر سماجی و سیاسی شخصیات کو بھی گلگت بلتستان ، این ایل آئی اور جنگ آزادی گلگت بلتستان کے حوالے سے مرصع اور جامع بریفنگ دینے کا اعزاز حاصل کیا ہے اور ہنوز یہ سفر جاری ہے۔