محمد قاسم نسیم
سکردو کے ڈویژنل اور ضلعی انتظامی حکام بدھ کے روزجب روندو میں وزیر اعلی گلگت بلتستان اور تحریک انصاف کے مرکزی راہنماﺅں شبلی فراز اور مراد سعید کو پروٹوکول دینے میں لگے تھے عین اُسی وقت سکردو شہر کے بیشتر علاقوں میں روزہ دار پانی کی بوند بوند کوترس رہے تھے اور اسی شام شہر کے بیشتر علاقوں میں بجلی کا بلیک آﺅٹ بھی رہا۔بظاہر پانی اور بجلی کے اس بحران کی وجہ واپڈا بجلی گھر ٹو کے ایک یونٹ کے بیرنگ میں گزشتہ چند روز سے موجود نقص کو ٹھیک کرنے کے باعث اس پاور ہاﺅس کا بندہونا تھا۔ واپڈا بجلی گھر کے ایک یونٹ میں آنے والا یہ فالٹ کوئی نئی بات نہیں یہ سلسلہ تو کئی روز سے چل رہا ہے اور بجلی ایک گھنٹہ شام اور ایک گھنٹہ سحری میں دی جارہی تھی اور پانی بھی دن میں ایک آدھ گھنٹے صارفین کو مل رہا تھا لیکن آج پانی اور بجلی دونوں کے مکمل بلےک آﺅٹ نے رمضان المبارک میں روزہ داروں کو پیش آنے والے مشکلات ناقابل بیان ہیں۔ساتھ ہی رمضان میں روزہ داروں کو پانی اور بجلی کے بحران سے بچانے کے لئے انتطامیہ اور متعلقہ اداروں کے حکام کی جانب سے کئے گئے انتظامات کے بڑے بڑے دعوں کی قلعی کھل گئی ۔رمضان میں جاری پانی و بجلی کے اس بحران نے حکومتی ان دعوﺅں کو غلط ثابت کردیا ہے کہ سد پارہ نالے میں وسط مئی میں پانی آنے تک ڈیم میں پانی کا ذخیرہ موجود ہے جو نئے سیزن کے شروع ہونے تک آبپاشی ، پینے اور بجلی کی پیداوار کے لئے کافی ہوگا لیکن حقیقت میں ایسانہیں ہے۔ ڈیم میں پانی انتہائی نچلی سطح پر پہنچ چکا ہے جسے ڈیتھ لیول کہتے ہیں تقریباً اُس سطح پرپہنچنے والا ہے ۔ اگر یہ اعلان کردیا جائے کہ ڈیم میں پانی ختم ہو چکا ہے تو اس سے ڈیم کی مکمل ناکامی واضح ہوجاتی ہے اور متعلقہ اداروں کے حکام کے ساتھ انتطامی حکام کی بھی سبکی ہوتی ہے؛ لہذا ڈیم میں موجود رہ جانے والے پانی کو پندرہ مئی تک چلانے کے لئے صارفین کوپانی اور بجلی کی بندش کو بطور ٹول استعمال کیا جارہا ہے۔رمضان کے مقدس مہنے میں روزہ داروں کو دو تین گھنٹے پانی اور بجلی بمشکل دو گھنٹے دی جارہی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ سدپارہ ڈیم پر پورے سکردو شہر اور مضافات کی آبپاشی، پینے اور بجلی کی ضروریات کا مکمل انحصار ہے ۔ سکردو کی آبادی میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے جبکہ سدپارہ ڈیم کے پانی میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا ۔ ڈیم میں پانی کے اضافے کے لئے شہ تونگ نالے کا پانی لانا ڈیم کے ابتدائی ڈےزائن میں شامل تھا لیکن اس منصوبے کو تر ک کردیا گیا جس کے بعد ڈیم جن جن مقاصد کے حصول کے لئے بنایاتھا ان کے حصول میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے ۔ ڈیم کا انحصار اب صرف اور صرف سدپارہ نالے کے پانی پر ہے جس سے یہ ڈیم تکمیل سے اب تک کسی سال میں بھی پانی سے نہیں بھر سکا ہے۔جب سے بنا ہے اس کے سپِل وے اب تک خشک پڑے ہیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی تھی کہ اس ڈیم میں جمع ہونے والے پانی کو موسم گرما کے پیک سیزن میں ذخیرہ کرنے کی حکمت عملی اختیار کی جاتی ۔بدقسمتی سے جون ،جولائی اور اگست کے مہینوں میں جب نالے میں وافر مقدار میں پانی ہوتا ہے تب پانی کا ایک حصہ ڈیم میں جمع ہوتا ہے او دو حصہ ڈیم سے گزر کر نالے میں بہہ کر ضائع ہوجاتا ہے ۔ اِن مہینوں میں پانی کے بے دریغ انداز میں ضائع ہونے کو سکردو کا ایک ایک شہری محسوس کرتا ہے اورسدپارہ ڈیم کمیٹی ارکان حتیٰ کہ ایک عام آدمی بھی نالے میں ضائع ہونے والے پانی کو روکنے کے لیئے سوشل میڈیا ،اجلاسوںاور محفلوں میںچیختے رہے لیکن متعلقہ اداروں کے ذمہ داران اور انتطامی حکام کے کانوںپر جوںتک نہیں رینگی۔روزانہ کی بنیاد پر ہرگسہ نالے میں بہہ کر ضائع ہونے والے پانی کو روکنے کے لئے کوئی قدم نہیں اُٹھایا۔جس کے باعث ڈیم میں پانی خاطر خواہ جمع نہیں ہوسکا اوپر سے پیک سیزن میں پانی نالے میں ضرورت سے زیادہ بہہ جانے کے باعث ڈیم میں پانی کی سطح تیزی سے نیچے گرنے لگی۔متعلقہ حکام کی آنکھ تب کھلی جب معاملہ ہاتھ سے نکل چکا تھا اور ڈیم میں پانی ڈیتھ لیول کے قریب پہنچ چکا تھا۔ سدپارہ ڈیم میں پانی کی راشننگ کے لئے ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں ڈیم کمیٹی کے ارکان اور واپڈا اور شعبہ برقیات کے حکام کا اجلاس جنوری کی 26 تاریخ کو ہوا۔ جس میں وپڈا نے یہ نکتہ اُٹھایا کہ ڈیم میں پانی ختم ہونے کو ہے اور رمضان میں روزہ داروںکو پینے کا پانی اور بجلی کے ساتھ آبپاشی کی ضروریات کے پانی بچا کے رکھنا پڑے گا اس مقصد کے لئے دن کے اوقات میں واپڈا کے تینوںبجلی گھر بند کرتے ہوئے آج سے پانی کاخراج مکمل روکنا ہوگا۔ اس اجلاس کے اگلے ہی روز یعنی 27 جنوری سے واپڈا کے بجلی گھر دن کے اوقات میں بند ہیں ۔ دن میں بجلی گھر بند ہونے کے باعث سب سے زیادہ کاروباری طبقہ متاثر ہورہا ہے کیونکہ اسی روز سے شہر کی مین مارکیٹ میں بجلی مکمل بند ہے کبھی کبھار لگ بھگ ایک گھنٹہ بجلی دی جاتی ہے لیکن وولٹیج کم کرکے ایک سو وولٹیج میں بجلی دیتے ہیں جو کاروباری لوگوں کے کسی کام کی نہیں۔ اگرچہ اس اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا پاورہاﺅس کے خراب یونٹ کے ٹھیک ہونے تک تین روز خصوصی طور جنریٹر چلا کر کاروباری طبقے کو بجلی دی جائے گی جبکہ تین دن میں یونٹ ٹھیک ہونے کے بعد مارکیٹ میں روزانہ ایک گھنٹہ بجلی دی جائے گی۔اس اجلاس کو دو ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا مگر افسوس کی بات ہے کہ اس فیصلے کے باوجود کارباری طبقے کو ایک گھنٹہ بجلی نہیں دی جارہی۔ اس فیصلے کے عین مطابق جب بجلی گھر بند ہوتے ہیں تو ظاہر ہے کوہل میں پانی نہیں ہوتا جو واٹر کمپلیکس میں جاناہوتا ہے جس کے باعث دن بھر شہر کے بیشتر حصوں میں پینے کے پانی کی ترسیل بھی بند رہتی ہے۔ یوں ڈیم میں موجود تھوڑے پانی کو روکتے ہوئے اورپورے شہر میں پانی اور بجلی مکمل بند کرکے یہ بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ نئے سیزن میں پانی آنے تک کے لئے پانی موجود ہے ۔رمضان المبارک میں روزہ داروں کو پینے کے پانی اور بجلی کا بحران جس حد تک سنگین اس سال ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ تو سکردو شہر میں ان دنوں جاری پانی اور بجلی کے بحران کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ سدپارہ ڈیم میں پانی موجود نہیں ہے ۔ بدقسمتی ہے کہ جن اعلیٰ مقاصد کو لے کر یہ ڈیم بنایا گیا وہ حاصل نہیں ہوسکے۔سرکاری خزانے سے چھے ارب روپے سے زائدخرچ کر کے تعمیر کئے جانے والے ڈیم سے سکردو کے مضافات میں 17 ہزار بنجر اراضی کو سیراب کر کے زیر کاشت لانے کے لئے بننے والے والے ڈیم میں اب شہر اور مضافات میں پہلے سے زیر کاشت زمینوں کے لئے پانی کا بحران ہے 19 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے دعوی کے ساتھ بنے والے ڈیم سے شہر کو اب 8 میگاواٹ بجلی دستیاب ہے ۔ سب سے بڑا المیہ یہ کہ پورے خطے کو سیراب اور خوشحال بنانے کے لئے تعمیر کردہ ڈیم کے پانی کے حقوق رکھنے والے لوگ اب پینے کے پانی کے بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔شہر میں پانی اور بجلی غیر معمولی بحران کی دوسری وجہ ادروںمیں موجود بدنظمی اور سستی و غفلت ہے۔ رمضان المبارک شروع ہونے سے پہلے ضلعی انتظامی حکام کی رمضان انتظامات کے حوالے سے میٹنگوں کا اخبارات اور سوشل میڈیا پر بہت چرچا رہا مگر جب رمضان المبارک شروع ہوا تومذکورہ اجلاسوں میں ہونے والے فیصلے نقش بر آب ثابت ہوئے۔ ان اجلاسوں میں ہونے والے کے کسی ایک فیصلے پر بھی عمل در آمد ہوتا ہوا نظر نہیں آیا۔ ان اجلاسوں میں فیصلہ کیا گیا تھا بلکہ متعلقہ اداروں کے حکام کو ٹاسک دیا گیا تھاکہ رمضان المبارک میں کم سے کم افطاری اور سحری کے موقع پر پانی اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہیںہونی چاہیے۔ لیکن جب روزے شروع ہوئے تو ان فیصلوں کے برعکس روزہ داروں کوافطاری اور سحری کے اوقات میںروزہ داروں کو بجلی میسر آئی نہ پینے کا پانی۔ رمضان سے پہلے واپڈا پاور ہاﺅس ٹو کے یونٹ میں خرابی آنے سے قبل شام کے وقت تمام علاقوں کو تین گھنٹے بجلی ملتی تھی اور جب مذکورہ بجلی گھر کے یونٹ میں خرابی آئی تو صارفین کوشام کے وقت دو گھنٹے بجلی دی جانے لگی لیکن اداروں کے خصوصی انتظامات کے بعد جب رمضان شروع ہوا تب سے صارفین کو بمشکل ایک گھنٹہ افطاری پہ اور ایک گھنٹہ سحری پہ بجلی ملنے لگی۔ رمضان کے کئی روز تو افطاری اور سحری دونوں اوقات میں بغیر بجلی اور پانی کے لوگوں کو گزارا کرنا پڑا۔یوںرمضان انتظامات کے نام پربلائے جانے والے یہ اجلاس بے سود رہے البتہ اس کے یہ نتائج تو ضرور نکلے کہ سارے محکموں کے سربراہوں یا نمائندوں کو میٹنگ میں بُلا کر مصروف رکھنے سے ان کے دفتروں کے کام بھی متاثر ہوتے رہے ساتھ ہی خود ڈپٹی کمشنر آفس میں دور دراز سے آنے والے سائلوں کو ان میٹنگز کے باعث مایوس لوٹنا پڑا۔ایک اہم سوال یہ بھی اُبھرتا ہے کہ رمضان سے قبل واپڈا پاور ہاﺅس ٹو کے یونٹ میں خرابی کے باعث اس یونٹ کو لگ بھگ 20 روز بند رکھا گیا اور اس کے پارٹس گلگت بھجوا کر مرمت کرایا گیا لیکن چند روز بعد اس پاور ہاﺅس کے بیرنگ میں پھر مسئلہ آیا اور پورے شہر کو اندھیروں کی نذرکردیا گیا۔ پچھلے ہفتے میں واپڈا پاور ہاﺅس ٹو کے ایک یونٹ کے بیرنگ میں وائبریشن آیا تو سکردونصف شہر اندھروں میں ڈوبا رہا ۔ اس یونٹ کی مرمت مکمل ہونے تک سکردو کے بیشتر علاقوں میں روزہ دار بوند بوند پانی کو ترستے رہے ایسے میں شعبہ برقیات کے ذمہ داران اورضلعی انتظامی حکام سے صارفین کا ایک اہم سوال یہ ہے کہ چلیں واپڈا بجلی گھر ٹو کا ایک یونٹ مرمت کے لئے بند ہواتو اُسی لمحے واپڈا بجلی گھرفیز ون اور تھری کے ساتھ فیز ٹوکا ایک یونٹ تو چل رہا تھا ۔ساتھ ہی شہر کے اندر شعبہ برقیات کے ایک ایک میگاواٹ کے ڈیزل تین جنریٹرز بھی چل رہے تھے نیز سیرمیک، طولتی، مہدی آباد، نراور کچورا سے بھی بجلی سکردو آرہی ہے ۔یہ ساری بجلی کہاں دی ہوئی تھی۔ وزیر اعلیٰ نے صارفین کو بجلی کے اعصاب شکن لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے نجات دلانے کے لئے دس کروڑ روپے ڈیزل کی مد فراہم کئے تھے۔ اب تک تو یہ رقم ڈیزل جنریٹروں کے نام پر خرچ بھی ہو چکی ہوگی تبھی تو وزیر اعلی نے حال ہی میں گلگت کے لئے آٹھ کروڑ اور سکردو کے لئے چھ کروڑ روپے ڈیزل جنریٹروں کی فیول کے لئے دوبارہ فراہم کرنے کی منظوری دی ہے اور محکمے نے ایک بار پھرکرائے کے ڈیزل جنریٹرز منگوائے ہیں۔دس کروڑ روپے کیسے اور کہاں خرچ ہوئے اس کا حساب کون دے گا کیونکہ روزہ دار تو صبح شام بجلی کے لئے ترس رہے ہیں۔ بجلی اور پانی کی بندش سے لوگ اس حد تک تنگ ہیں کہ روز شہر کے کسی حصے میں خواتین پانی کے برتن لئے سڑکوں پر نکل کر پانی اور بجلی کے حصول کے لئے احتجاج پر مجبور ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے یہ اقدامات قابل تحسین ہیں کہ ابھی کیونکہ ندی نالوں میں پانی کی کمی ہے توصارفین کو بجلی دینے کے لئے ڈیزل جنریٹروں کے لئے معقول رقم فراہم کی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے اس سے قبل فراہم کی گئی دس کروڑ روپے کی رقم کا حساب لیا جائے پھر بجلی تقسیم کے نظام میںبہتری لائی جائے ۔کیونکہ اس وقت شہر کے بیشتر حصوں میں بجلی بحران کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو دستاب بجلی ہے اس کی تقسیم کا کو ئی منصفانہ نظام موجود نہیں ہے ۔ شہر کے کئی علاقوں میں رات میںآٹھ دس گھنٹے بجلی دی جارہی ہے اور بعض علاقوں میں فقط ایک سے دو گھنٹے ۔اس نظام کو یکساں کرنے کی ضرورت ہے۔ کوششوں کے باوجود بیشتر سپیشل لائنیں اب بھی بدستور موجودہیں جس سے لوگوں میں موجود محرومی کے احساس میںاور زیادہ اضافہ ہوتا ہے۔ تمام سپیشل لائنوں کو ختم کرتے ہوئے بجلی لوڈ شیڈنگ نظام کو یکساں بنانے کی ضرورت ہے تاکہ جتنی بجلی ہے وہ یکساں طور پر صارفین تک پہنچے۔ ابھی پہنچنے والے ڈیزل جنریٹروں کو بھی عوامی دباﺅ اور پریشر کو خاطر میںلائے بنا بجلی کی ضرورت اور منصفانہ تقسیم کے فارمولے کومد نظر رکھتے ہوئے لوکیشنز پر نصب کیا جائے۔ بجلی کی کمی کے مستقل حل ڈیزل جنریٹروں میں نہیں یہ مسئلے کا عارضی حل تو ہوسکتا ہے مسئلے کے مستقل حل کے بلتستان کے جن جن مقامات پر بجلی گھروں کی گنجائش ہے وہاں ان بجلی گھروں کی تعمیر کے لئے فی الفور منصوبے رکھے جائیں ۔ محکمہ برقیات نے سروے کرکے جو سائٹس موزوں قرار دیے ہیں وہ سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل کرکے ان پر ہنگامہ بنیادوںپر کام کرانے کی ضرورت ہے کیونکہ سکردو جس تیزی سے پھیل رہا ہے اُس کو مد نظر رکھتے ہوئے مستقبل کی پیش بندی بہت ضروری ہے۔ بلتستان کے جن علاقوںکو بجلی گھروں کے موزوں ترین قرار دیا گیا ہے اُن میں بشو 40 میگاواٹ جیسے واپڈا نے سال 2011 ءمیں موزون اور قابل عمل قرار دیا ہے۔طورمیک میں 10 میگاواٹ جیسے سال 2010 سے قابل عمل قرار دیا ہوا ہے ۔ سدپارہ نالے میں سال 2018 ءسے 3.5 میگاواٹ بجلی گھر کو قابل عمل قرار دے کر چھوڑا ہو اہے۔ اسی طرح ستک روندو میں مئی 2015 سے 24 میگاواٹ بجلی گھر کو قابل عمل قرار دینے کے بعد اسی طرح پڑا ہوا ہے ۔ سال 2015 میں ہی چھوربٹ گانچھے میں 20 میگاواٹ بجلی گھر کی فزبیلیٹی ہوئی پڑی ہے۔ مشہ بروم گانچھے میں 10 میگاواٹ بجلی گھر کی سال 2015 میں فزیبٹی ہوئی پڑی ہے ۔ڈوغورو شگر میں10 میگاواٹ بجلی گھر بھی سال2015 سے اور برالدو شگر میں 10میگاواٹ بجلی گھر فزیبل قرار دیا ہوا ہے۔دوسری جانب تونگوس روندو میںچھوٹے ڈیم کوقابل عمل قرار دیا ہوا ہے جہاں سے 2200 میگاواٹ بجلی پیدا ہو سکتی ہے جبکہ روندو یلبو کے مقام پر ایک منی ڈیم کامنصوبہ قابل عمل ہے جہاں سے 2800 میگاواٹ بجلی پیدا ہو سکتی ہے۔اسی طرح پینے کے پانی کے لئے بھی سدپارہ ڈیم کے علاوہ بھی پانی کے ذرائع تلاش کرنے ہونگے۔ زیادہ سے زیادہ علاقوں میں زیر زمین پانی کو نکال کر استعمال کرنے کے لئے بورنگ کے عمل کو بڑھانا ہوگا نیز حسین آباد سے لیکر کچورا تک جتنے نالے ہیں اُن ٰمیں گرمیوںمیںآنے والے سیلابی پانی کو روک کر ذخیرہ کرنے کے لئے جگہ جگہ چک ڈیم بنانے ہونگے لیکن ان منصوبوں پر عمل درآمد کا مرحلہ تب آئے گا جب بلتستان بھر کے عوامی نمائندے ان مسائل کے حل کے لئے ایک پیج پر آئیں۔ ابھی تک تو صورت حال مایوس کُن ہے کیونکہ پینے کے پانی ، روٹی اور ایک گھنٹہ بجلی کے حصول کے لئے قوم کی مائیں بہنیں آئے روز سڑکوں پر ہیں لیکن منتخب عوامی نمائندے ان سارے مسائل سے گویا مکمل لاتعلق ہیں۔ لوگوں کو اشک شوئی کے لئے اور اِن کی داد رسی کے لئے موقع پر آنا تو درکنار منتخب نمائندے تو خطے سے ہیں غائب ہیں۔ جب کہ حالات کا تقاضا ہے کہ ان کوسکردو کو بلتستان کا گیٹ وے اور تمام اضلاع کے لوگوں کا دوسرا گھرتسلیم کرتے ہوئے ان بڑے منصوبوں کو ہو سکے تو گلگت بلتستان سطح پر نہیں تو کم سے کم بلتستان سطح کے منصوبے قرار دیتے ہوئے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل کرانے کی ضرورت ہے اور سب مل کر ان کی منظوری کے لئے جد و جہد کرنی ہو گی وگرنہ اِن منصوبوں کا بھی وہی حال ہو گا جو شغرتھنگ اور غواڑی کے بجلی گھروں کا بنا ہوا ہے ایک سال سالانہ ترقیاتی پروگرام میںشامل ہوتا ہے اور دوسرے سال نکال باہر کیا جاتا ہے۔ ایسا ہوا تو اندھیرے مستقل بنیادوں پر ہمارا مقدر ہوں گے اور ہم ایک گھنٹہ وہ بھی کم وولٹیج میں ملنے والی بجلی کے لئے دست و گریباں رہیں گے۔