امن ہم سب کی ضرورت


انسان ہی روز اول سے اپنے ہم نفس یعنی انسان کا دشمن رہاہے ۔ یہ کہنا بھی بیجا نہیں کہ قتل (حق وناحق)انسان کی سرشت میں شامل ہے اور یہ سلسلہ جد امجد انسانیت حضرت آدم علیہ السلام کے فرزندان ہابیل اور قابیل سے چلاآرہا ہے اور تاابد چلتارہیگا ۔ تادم تحریر کروڑوں انسان' انسان ہی کے ہاتھوں لقمہ اجل ہوئے ۔ تاریخ انسانی ایسے ہزاروں واقعات سے بھری پڑی ہے کہ کبھی حصول اقتدارکی خاطر لاکھوں انسانوں کی لاشوں کو فرش راہ بنایا گیا ۔ کہیں ہزاروں انسانوں کو سیاست کی بھینٹ چڑھا کر تہہ تیغ کیاگیا ۔ کہیں دوسرے ممالک، قبائل اور لوگوں پر اپنی دھاک بٹھانیاور قبضہ جمانے کیلئے قتل وخون کا بازار گرم کیا گیا ۔ کہیں وسائل ہتھیانے کیلئے متعدد انسانی جانوں کو حرصِ مال ومتاع کی بھٹی میں جھونک دیاگیا ۔ کہیں مذہب کے نام پہ بیگناہ انسانوں کو موت کے اندھے اور اندھیرے غاروں میں دھکیل دیاگیا ۔ کہیں کارپٹ بمباری کے ذریعے انسانوں نے ہی انسانیت کا قتل عام کیا ۔ کہیں کلاشنکوفوں' ٹینکوں' میزائلوں' راکٹ لانچروں کے ذریعے انسانی جسم کے چیتھڑوں کو ہوا میں بکھیر دئے گئے ۔ کہیں خودکش دھماکوں، بم دھماکوں اور فدائی حملوں سے بہت سے انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ رستم نامی کیاخوب کہتے ہیں 

ویسے تو ٹھیک ٹھاک ہیں حالات شہرکے 

تھوڑاسا قتل عام زیادہ کیاگیا 

غرض قتل انسانی کا یہ مکروہ اور قبیح کھیل ازل سے جاری ہے اور تاابد جاری رہیگا اور یہی مکروہ کھیل لاکھوں لوگوں کو موت کی وادی میں دھکیلتاہوا 80 کی دہائی میں گلگت بلتستان میں داخل ہوا اور تب سے اب تک ہزاروں بیگناہ لوگوں کو موت کی نیند سلاچکا ہے اور نہیں معلوم کہ دہشت وبربریت اور درندگی کایہ گھنائونا اور مکروہ کھیل کب تک کھیلاجائے گااور کتنے بیگناہ انسان اس مکروہ کھیل کے نذر ہوجائینگے ۔ نتیجتا آگ وخون خوف ودہشت اور بدامنی کے اس مکروہ کھیل نے ہمیں پستی ذلت پسماندگی غربت جہالت احتیاج ننگ بھوک اور افسوس وندامت کے سوا کچھ نہیں دیا ۔25 مارچ کی شام کو گلگت سے قریبا 15 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گلگت شہر سے ملحقہ مضافاتی گائوں نلتر بالا میں پیش آنیوالا افسوسناک اور المناک واقعہ بھی اسی منحوس کھیل کا سلسلہ ہے ۔ باخبر ذرائع کے مطابق ایک مسافر ٹویوٹا گاڑی جس میں ضعیف العمر بزرگ ، جوان،  معصوم بچے اور خواتین سوار تھے جو گلگت شہر سے نلتر اپنے گھر جارہے تھے ۔ نلتر بالا کے مقام پر نامعلوم دہشت گردوں نے گاڑی پر اندھا دھند فائر کھول دیا ۔ اطلاعات کے مطابق ایک خاتون سمیت چھ افراد موقعے پہ ہی شہید ہوگئے جبکہ 8 افراد کو شدید زخمی حالت میں سٹی ہسپتال  گلگت منتقل کیا گیاجس میں ایک معصوم بچہ بھی شامل ہے ۔ اس مذموم اور اندوہناک دہشت گردانہ واقعے پر ہر شعبہ ہائے زندگی اور مختلف مکتبہ فکر سے منسلک افراد نے شدید غم وغصے کا اظہار کیا اور  بھرپور احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے حکومت سے فی الفور دہشت گردوں کوگرفتار کرکے قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا ۔ یہاں یہ بات حوصلہ افزا ہیکہ ماضی میں ایسے دہشتگردانہ واقعات کے بعد بڑے پیمانے پر حالات انتہائی کشیدہ ہوجاتے تھے بسااوقات حالات مقامی انتظامیہ کے قابوسے باہر ہوجاتے تھے ۔ مجبورا حالات کنٹرول کرنے کیلئے فوج طلب کی جاتی تھی تو متعدد بار حالات حدسے زیادہ کشیدہ ہونے پر کرفیوز کے نفاذ کیساتھ ساتھ شیعہ سنی مساجد کو مقفل کرنے اور دونوں مسالک کے درجنوں سرکردہ شخصیات کی گرفتاری کی بھی نوبت آئی ۔ اور ہم نے وہ وقت بھی دیکھا کہ اپنے آنگن میں خونی لکیر کھینچ کر ایک دوسرے کیلئے نوگوایریاز بھی بن گئے ۔نلتر سانحے کے بعد ماضی جیسی صورتحال دیکھنے کو نہیں ملی ۔ جوکہ ایک معاملہ فہم باشعور اور مہذب قوم کا وتیرہ اور گلگت بلتستان کے عوام اور بالخصوص دوبڑے مسالک یعنی شیعہ سنی علما وعوام کی بالغ نظری اور امن پسندی کا ثبوت ہے ۔ پرامن احتجاج کا حق استعمال کرتے ہوئے نماز جمعہ کے خطبوں میں تمام مسالک کے خطبا اور عوام کابھرپور انداز میں اس واقعے کی پرزور مزمت کرنا اور دہشتگردوں کی گرفتاری اور سخت سزاوں کا مطالبہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اب گلگت بلتستان کے عوام اپنے مشترکہ دشمن کی سازشوں کو بھانپ چکے ہیں ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نلتر واقعہ ذاتی دشمنی کا شاخسانہ قطعا نہیں بلکہ یہ مذہبی دہشتگردی ہے جو ہمارا ازلی دشمن اپنے مذموم مقاصد کی حصولی کیلئے گزشتہ ایک عرصے سے وقتا فوقتا کرتا چلا آرہاہے ۔ بلوچستان سمیت پورے پاکستان اور گلگت بلتستان میں شیعہ سنی فسادات پاکستان مخالف قوتوں اور پاکستان دشمنوں کا شروع سے سب سے موثر ہتھیار رہاہے جو وہ گاہے بگاہے استعمال کرتا چلا آ رہا ہے ۔ بالعموم پاکستان کے مختلف علاقوں اور بالخصوص جی بی میں پاکستان کا ازلی دشمن بھارت کی یہ کوشش رہی ہے کہ یہاں امن ہمیشہ تہہ وبالا ہو تاکہ اس کو بہانہ بناکر دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام اور غیرمستحکم کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیاجاسکے ۔ کیونکہ  پاکستان کے بدخواہ اور دشمن بالخصوص بھارت سمجھتا ہیکہ سی پیک جیسا گیم چینجر منصوبہ اور دیامر بھاشا ڈیم جیسے عظیم منصوبوں کی تکمیل سے پاکستان ترقی خوشحالی خود کفالت اور معاشی استحکام کے نئے دور میں داخل ہوگا ۔  بھارت کبھی نہیں چاہتا ہیکہ پاکستان ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو ۔ کلبھوشن یادو نیٹ ورک پاکستان کو اندرونی طور پر ڈی سٹیبلائز کرنے کی مذموم  بھارتی منصوبے کی ناقابل تردید ثبوت ہے ۔ نلتر واقعے کواس سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر دیکھنا خارج ازامکان نہیں ہے ۔ گلگت بلتستان کے عوام نے امن کی قیام کیلئے بڑی قیمت چکائی ہے ۔ 2005  میں سنی اور شیعہ ہردو مسالک کے مابین مرتب امن معاہدہ خطے میں مستقل اورپائیدار قیام امن کیلئے ایک تاریخ ساز اور اہم ترین دستاویز ہے جس ہر اس کی روح کے عملدرآمد سے گلگت بلتستان نہ صرف امن کا گہوارا بن سکتا ہے بلکہ یہ خطہ اپنی جغرافیائی' سیاحتی' تجارتی اور دفاعی اہمیت کے پیش نظر مستقبل قریب میں پاکستان کی ترقی وخوشحالی استحکام کا سنگ میل اور ایک بڑا معاشی حب بن سکتاہے ۔ جس کیلئے خطے میں مستقل اور پائیدار قیام ناگزیر ہے ۔ وہ اس لئے بھی کہ پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کے صف میں کھڑا کرنیوالے اہم ترین بین الاقوامی اہمیت کے حامل منصوبوں کا میزبان گلگت بلتستان کی سرزمین ہے ۔نلتر سانحہ بلاشبہ ایک مذموم افسوسناک اور المناک سانحہ ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔ ریاستی ادارے اس سانحے میں ملوث دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کو جلد ازجلد گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دیں نیز اس سانحے کی اعلی عدالتی انکوائری کیلئے جوڈیشل

 کمیشن تشکیل دیکر سانحے کے اصل محرکات اور ماسٹرمائنڈز کو منظر عام پہ لانا اس لئے بھی ضروری ہیکہ امن دشمنوں کا مکروہ چہرہ دنیاکی نظروں میں بے نقاب ہو ۔ اس حقیقت سے روگردانی ممکن نہیں کہ بھارت کے علاوہ بہت سے ممالک  ہمہ وقت ہمیں سیاسی معاشی دفاعی اور سفارتی سطح پر غیر مستحکم کرنے کیلئے نت نئے منصوبوں اور سازشوں کا جال بن رہے ہیں۔ کہیں شیعہ سنی فسادات، کہیں دہشتگردانہ واقعات اور کہیں عالمی سطح پر پاکستان مخالف منفی اور بے بنیاد پروپیگنڈے پاکستان مخالف قوتوں کا وتیرہ رہاہے ۔ دشمن کے تمام چالوں سازشوں اور منصوبوں کو  ناکام اور ان کو ذلت ہزیمت اور شکست وریخت سے دوچار کرنے کیلئے ہیکہ ہم صبربرداشت تحمل اور بردباری کا عملی مظاہرہ اور مستقل وپائیدار قیام امن کیلئے اپنی ذات کو تختہ مشق بنائیں ۔  اللہ تعالی اور اس کے رسولۖ نے قرآن حدیث میں امن کی ضرورت اہمیت وافادیت پر زور دیاہے۔ قرآن پاک میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ فتنہ قتل سے زیادہ نقصان دہ ہے دوسری جگہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جس نے ایک امسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت بچائی ۔ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ امن کے بغیر ترقی خوشحالی اور استحکام کا حصول دیوانے کے خواب کے سوا کچھ نہیں ۔ ہم کسی بھی بنیاد پہ ذات مخالف کا قلع قمع کرنے کیلئے اسے گولیوں سے جب چھلنی کررہے ہوتے ہیں تو ہمیں سوچنا ہوگا ہم ایک دوسرے کو ختم تو قطعا نہیں کرسکتے ہیں البتہ اپنے اس عمل سے جہاں ایک طرف دشمن کی سازشوں منصوبوں اور ہتھکنڈوں کو تقویت دے رہے ہوتے ہیں وہاں دوسری طرف ضد بغض عناد عداوتوں نفرتوں اور دوریوں کو فروغ دیکر پاکستان مخالف لابیز کی سوچ کو خاک میں ملا کر اپنے آنیوالی نسلوں کو ایک ہرامن خوشحال خود کفیل اور مستحکم پاکستان اور گلگت بلتستان دینے کے بجائے بدامنی میں ڈوبا ایک لٹا پٹا باردود کی بدبوسے متعفن  گلگت بلتستان بطور سوغات دے سکیں گے ۔ تب نسل نو کے پاس ہمیں بددعائیں دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا ۔ اس لئے کہ نئی نسل کے معصوم ذہنوں میں  خوف ودہشت بھردینے اور کلاشنکوف کے گھن گرج سے ان کی سماعتوں کو مفلوج کرنے بجائے نونہالان قوم کے ہاتھوں میں کتاب قلم کی تھمادینے سے ترقی وخوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا ۔ امن ہم سب کی ضرورت کل بھی تھی آج بھی ہے اور آئندہ کل بھی امن ہی ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے ۔